جمعیت الفلاح کی تقریب پذیرائی اور مشاعرہ

22

جمعیت ہفتے جمعیت الفلاح کے زیر اہتمام رفیع الدین راز کے اعزاز میں تقریب پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کرنی تھی لیکن وہ بوجوہ تشریف نہیں لائے جس کی وجہ سے رفیع الدین راز نے صدارت کی۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر محمود غزنوی تھے جب کہ لاہور سے تشریف لائے ہوئے ادیب‘ شاعر اور صحافی عرفان احمد خان تھے۔ نظر فاطمی اور نورالدین نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اقبال یوسف نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ اکرم رازی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ قمر محمد خان نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ان کا ادارہ طویل مدت سے شعر و سخن کی آبیاری میں مصروف ہے‘ ہمارے ادارے کے ذریعے خدمت خلق کے پروگرام بھی جاری ہیں‘ ہم نے کراچی کے ادبی منظر نامے میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ ہم نے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی اور پزیرائی کی ہے۔ آج ہم نے اردو ادب کے ممتاز قلم کار رفیع الدین راز کے لیے تقریب سپاس سجائی ہے اور پھر مشاعرہ بھی ہوگا۔ رفیع الدین کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ وہ اس زمانے کے بڑے قلم کاروں کی صف میں شامل ہیں۔ وہ امریکہ جا رہے ہیں اس طرح یہ ان کی الوداعی پارٹی ہے۔ ان کے جانے سے ادبی خلاف موجود رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اس وقت بہت سے مسائل کا شکار ہے اور ہم آج بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم متحد ہو کر دہشت گردی کا حل تلاش کریں۔

جمعیت الفلاح کے صدر قیصر خاننے کہا کہ ہم خدمتِ خلق خدا کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں‘ ہمارے ادارے کے کریڈٹ پر بے شمار شان دار پروگرام موجود ہیں‘ آج کے پروگرام کے دو حصے ہیں پہلے میں رفیع الدین راز کی گفتگو ہوئی ہے جب کہ دوسرے حصے میں آپ نے شاعری سماعت کی ہے جہاں تک رفیع الدین راز کے فن و شخصیت کی بات ہے تو مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جن جن ممالک میں اردو بولی جا رہی ہے اور مشاعرے ہو رہے ہیں وہاں وہاں رفیع الدین راز اسٹیج کی زینت ہوتے ہیں۔ کراچی میںچونکہ گروہ بندیاں ہیں اس لیے ہر مشاعرے میں رفیع الدین راز نہیں ہوتے‘ ان کا جو حق ہے وہ انہیں نہیں مل سکا لیکن آنے والاوقت فیصلہ کرے گا کہ کراچی میں سب سے بڑا شاعر کون تھا‘ کس نے غزل کی آبرو بحال کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ادب کا ذکر کرتے ہوئے رفیع الدین راز کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔

سلیمان صدیقی نے کہا کہ رفیع الدین کراچی کی پہچان ہیں‘ وہ اس شہر کے صفِ اوّل کے شعرا میں شامل ہیں‘ انہوںنے ہر صنفِ سخن میں اپنے جوہر دکھائے ہیں‘ ان کی نظموں کی کتاب ہے‘ ہائیکوز کی کتاب ہے‘ نعت کی کتاب ہے‘ غزل کی کئی کتابیں ہیں۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں‘ غزل میں انہوں نے بے شمار تجربات کیے ہیں‘ ان کا ہر تجربہ کامیاب رہا ہے‘ ان کے یہاں زندگی رواں دواں ہیں‘ انہوں نے زمینی حقائق بیان کیے ہیں۔ ان کے فن اور شخصیت پر پی ایچ ڈی بھی ہو چکی ہے گویا ان کی شاعری پر تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے۔ انہوں نے غالب کی زمینوں میں غزلیں کہی ہیں‘ وہ سب کی سب قارئین ادب سے داد حاصل کر رہی ہے۔ ان کے کلام میں زندہ تجربات اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ جلوہ گرہ ہیں‘ ان کی نعتوں میں عشقِ رسولؐ موجزن ہے۔ ان کا اسلوب بیان جداگانہ ہے‘ ان کے مصرعے بہت رواں اور مضامین سے بھرپور ہوتے ہیں‘ انہوں نے اپنی شاعری میں سائنسی مضامین بھی لکھے ہیں‘ ان کا ہر شعر ہمیں ذہنی آسودگی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے گل و بلبل کے افسانے نہیں لکھے ہیں‘ بلکہ جدید لب و لہجے میں بات کی ان کے کلام میں غزل کے روایتی مضامین کے ساتھ جدید الفاظ رواں دواں ہیں۔

ڈاکٹر رانا خالد نے کہا کہ وہ رفیع الدین راز کو استاد شاعر مانتے ہیں‘ ان کی شخصیت کے کئی اہم گوشے ہیں وہ شاعر‘ ادیب اور نقادِ سخن کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے پروموٹر بھی ہیں۔ ان کی شاعری زندہ شاعری ہے‘ ان کے یہاں کوئی ابہام نہیں ہے‘ ہر مصرع غنائیت سے بھرپور ہے‘ ان کی ہر ایک غزل ذہین‘ حساس اورحوصلہ مند انسان کی آواز ہے‘ ان کے اشعار ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہیں‘ ان کی شاعری اپنے ہم عصر شعرا میں سربلند نظر آتی ہے۔ ان کے لب و لہجے میں غالب اور یگانہ چنگیزی کی جھلک نظر آتی ہے لیکن وہ میر تقی میرؔ کے پیروکار ہیں‘ ان کی لفظیات سہل ممتنع میں بھی ہیں اور مشکل مضامین سے لبریز بھی ہیں‘ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والی شاعری کے خالق ہیں۔

سعید اقبال اور نعیم الدین نعیم نے رفیع الدین راز کے بارے میں منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ صاحبِِ تقریب رفیع الدین راز نے کہا کہ وہ اپنے کام میںمگن ہیں‘ لوگ انہیں بڑا شاعر مانتے ہیں یا نہیں یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے لیکن میرا کام موجود ہے‘ صاحبان نقد و نظر یہ فیصلہ کریں کہ اس دور کا سب سے بڑا شاعر کون ہے‘ مجھے کسی بھی شاعر سے پروفیشنل عناد نہیں ہے‘ میں سب کا احترام کرتا ہوں‘ ہم سب اردو کے خدمت گزار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اختر سعیدی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے کئی محافل سجائیں۔ وہ تقدیس ادب کا شکریہ ادا کرتے ہیںکہ وہ میرے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ میں بزمِ یارانِ سخن کراچی کا بھی ممنون و شکر گزار ہوں کہ اس ادارے نے بھی میرے تقریب منعقدکی۔ اس موقع پر رفیع الدین راز کو شیلڈ عنایت کی گئی اور پھول کے تحائف پیش کیے گئے۔ اس مشاعرے میں انہوں نے دو غزلیں سنائیں اور خوب داد وصول کی ان کے بعد ڈاکٹر محمود غزنوی‘ اختر سعیدی‘ حنیف عابد‘ سحرتاب رومانی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘نسیم شیخ‘ کشور عدیل جعفری‘ نورالدین نور‘ شاہداقبال شاہد‘ مرزا عاصی اختر‘ ڈاکٹر رانا خالد محمود‘ ضیا حیدر زیدی‘ نظر فاطمی‘شجاع الزماں شاد‘ فخر اللہ شاد‘ اکرم رازی اور مظہر اظہار مہدی نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔

حصہ