تجھے ہم ولی سمجھتے

43

مرزا غالب کب، کہاں اور کیوں پیدا ہوئے؟ 27 دسمبر 1797ء کو شہر آگرہ میں سخت سردی کے موسم میں پیدا ہوئے، اور کیوں کا جواب ان کا یہ شعر بتلائے گا:

پلادے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا، نہ دے، شراب تو دے

مندرجۂ بالا شعر سے تو ایسا لگتا ہے کہ مرزا پیدا اسی مقصد کے لیے ہوئے تھے۔ ایک تُک بندی جو مجھ خاکسار سے سرزد ہوئی ہے تحریر کیے دیتا ہوں… مرزا کی روح سے معذرت کے ساتھ…

مے بھی ہو، مینا بھی ہو، ساغر بھی ہو
کھانے کو گھر میں ساقی روٹی بھلے نہ ہو

اردو شاعری میں مے کا ذکر کثرت سے آیا ہے، اکثر شعرا نے بطور استعارہ بھی استعمال کیا ہے، حالانکہ کچھ شعرا ایسے بھی ہیں جنہوں نے کبھی اس سے استفادہ نہیں کیا مگر ذکرِ مے خوب کیا ہے، جس میں ریاض خیرآبادی سرِفہرست ہیں۔ شاد عظیم آبادی کا ایک خوبصورت سا شعر ذہن میں آیا ہے۔ ذکرِ مے ہے، بات استعارے میں کہی گئی ہے، مراد دنیا ہے۔

یہ بزمِ مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

مرزا غالب مے کے رسیا تھے، اپنی شاعری میں جابجا اس کا ذکر کرتے ہیں اس اعتراف کے ساتھ کہ اگر یہ موذی مرض انہیں لاحق نہ ہوتا تو کیا ہوتا:

’’تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا‘‘

مرزا ساری زندگی ’’ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے‘‘ کی خاطر قرض کی مے پیتے رہے اور ان کی فاقہ مستی رنگ لاتی رہی۔ بعد از مرگ بھی غالب کی یہی تمنا رہی:

’’ مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک ’بار‘ ہوتا‘‘

یہ ’بار‘ انگریزی زبان کا bar بھی ہوسکتا ہے، (غالب کے دور میں انگریز آچکا تھا) غالب کا ایک شعر اس مصرعے کی تصدیق بھی کررہا ہے…

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گل فامِ مشک بو کیا ہے

مرزا اس حد تک مے کے عاشق تھے کہ ایک جگہ فرماتے ہیں:

کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے دُردِ تہِ جام بہت ہے

مرزا کا مے کشی سے عشق دُردِ تہِ جام سے بھی آگے بڑھ گیا تبھی تو ایک جگہ اس کا اظہار اس انداز سے کرتے ہیں:

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

حقیقت یہ ہے کہ غالب نے مے نوشی ضرورکی مگر یہ ان کی مجبوری بن چکی تھی، بقول ابراہیم ذوق ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ مرزا کو اس کا شدّت سے احساس تھا، وہ اپنے اس عمل کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، تبھی تو وہ کہا کرتے تھے…

کعبے کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے…

پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

اور جب پیمانۂ صہبا ان کے آگے رکھ دیا جاتا تو اپنے جامِ سفال کو ساغرِ جم سے بہتر ثابت کردیتے، دنیا کو بازیچۂ اطفال سے زیادہ اہمیت نہ دیتے۔ تختِ سلیمانی کو ایک کھیل اور اعجازِ مسیحا کو ایک معمولی سی بات کہہ دیا کرتے، بقول الطاف حسین حالی:

لاکھ مضموں اور اس کا ایک ٹھٹھول
سو تکلّف اور اس کی سیدھی بات

مرزا مے کشی کے عالم میں شعر کہا کرتے تھے، گویا مے ان کے لیے اُس انجکشن کے مانند تھی جو کسی ایسے شخص کو لگایا جائے جو نیم بے ہوشی کے عالم میں ہو اور ڈاکٹر اسے مکمل ہوش میں لانے کے لیے انجکشن استعمال کرے، بس یہی حال مرزا کا بھی تھا۔ بادۂ گلفام ان کے جسم میں حرارت پیدا کرتی تھی اور مرزا اپنی شعری دنیا میں پہنچ جایا کرتے تھے، غیب سے خیالات کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ اسی عالمِ مدہوشی میں مرزا ایسے ایسے اشعار کہہ گئے کہ اردو ادب کو فخر ہے اس شاعرِ باکمال پر جس کے اشعار کے الفاظ ’گنجینۂ معنی کا طلسم‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔

آئیے اب مرزا غالب کے ان اشعارکی طرف بھی ایک نگاہ ڈالتے ہیں، شاید مرزا کو انہی اشعار کے سبب دعویٰ ہو کہ ’’تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا‘‘

ہم مُوحِّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں، پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں!
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں

اس طرح کے متعدد اشعار مرزا کے دیوان میں ملتے ہیں۔ میں نے چند پر ہی اکتفا کیا ہے۔ ان صوفیانہ اشعار کو پڑھنے کے بعد آپ کیا فیصلہ کریں گے، غالب صوفی تھے یا ولی فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہے، لہٰذا چھوڑیے ان باتوں کو، ان جھگڑوں میں نہ آپ پڑیں نہ ہم۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی تھے اردو ادب کی جان تھے۔

تو جہاں پہنچا وہاں عظمت کا طالب ہو گیا
بزمِ فکر و فن میں تیرا نام غالب ہو گیا

اس میں کوئی شک نہیں کہ میرؔ کی شاعری ایک دلہن کی مانند تھی، اس دلہن کو زیوروں سے اگر کسی نے آراستہ کیا ہے تو وہ مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ ہیں، حالانکہ غالب نے اپنے اردو کلام کو بیرنگ کہا ہے۔ اپنے ایک فارسی شعر میں اس کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:

فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگزر از مجموعۂ اردو کہ بیرنگِ من است

یعنی اگر تمہیں شعر کی رنگینی دیکھنی ہے تو میرا فارسی کلام دیکھو، میرا اردو مجموعہ تو بے رنگ ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ شاعر اپنے جس اردو کلام کو بے رنگ کہہ رہا ہے وہ اردو ادب میں جو حیثیت اور مقام رکھتا ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

مرزا کے ساتھ ایک مشکل اور درپیش تھی کہ وہ کچھ بھی کہہ لیں لیکن جب تک بادہ و ساغر کی بات نہ کہیں ان کی بات نامکمل رہ جاتی تھی:

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

ایسی ایسی غزلیں کہہ گئے جس کی مثال نہیں ملتی۔ نثر نگار اپنی نثر کا عنوان رکھتا ہے تو غالب کے مصرعے کا سہارا لیتا ہے، حتیٰ کہ شعرا کرام اپنے شعری مجموعے کے عنوان کے لیے غالب کے مصرعے کے ایک ٹکڑے کا انتخاب کرتے ہیں۔ غرضیکہ وہ بات جسے کہنے کے لیے کئی صفحات درکار ہوتے ہیں اس کے لیے غالب کا ایک شعر اور کبھی کبھی ایک مصرع ہی کافی ہوتا ہے۔ مفسّرین ِقرآن نے اپنی بات کی وضاحت کے لیے غالب کے اشعار استعمال کیے۔ غالب کا ایک ایسا شعر جس کا اردو ادب میں ثانی نہیں، علمائے کرام نے اپنی تقاریر اور تحاریر میں زور پیدا کرنے کے لیے خوب استعمال کیا، یعنی اُس شاعر کے کہے ہوئے شعر کی عظمت کہ علماء کرام کا قلم بھی اسے لکھنے میں فخر محسوس کرتا ہے، شعر ہی ایسا ہے:

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

میں نہ تو اتنا تعلیم یافتہ ہوں اور نہ ہی میرا مطالعہ اتنا اچھا ہے، مگر جتنا بھی مختصر سا مطالعہ ہے غالب کے اس شعر کے ہم پلّہ یا اس سے کچھ کم شعر میری نظروں سے آج تک نہیں گزرا۔

’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘۔ مرزا کو نہ ستائش کی تمنا تھی اور نہ صلے کی پروا۔ بس ایک دھن تھی، ایک فکر تھی جو مرزا کو کبھی عرش سے پرے مکاں ہونے پر اکساتی اور کبھی بے درو دیوار سا اک گھر بنانے پر۔ مرزا کی فکر کی پرواز انہیں یہاں تک لے گئی کہ رب سے بھی شکایت کر بیٹھے:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

بہرحال غالبؔ جیسا شاعر اردو ادب میں ابھی تک تو پیدا ہوا نہیں، آگے کا کچھ پتا نہیں۔ اس کا انداز جداگانہ تھا۔ بقول دلاور فگار:

بس ایک لفظ کے پردے میں داستاں کہنا
یہ فکر و فن کی بلندی اسی کا حصّہ ہے

مرزا کو ولی سمجھا جائے یا واعظ یا کچھ اور، بہتر یہی ہے کہ دلاور فگار کے اس شعر پر بات ختم کی جائے:

کبھی ولی کبھی واعظ کبھی خراباتی
سمجھ سکو تو سمجھ لو وہ ایک معمّا ہے

حصہ