کینسر کے خریدار

191

کینسر جسے سرطان بھی کہتے ہیں، نہایت ہی موذی مرض ہے جو کہ زمانۂ قدیم سے لوگوں کو لاحق ہے۔ کینسر کا نام سنتے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ یہ جس کو ہوجاتا ہے وہ بس خود کو موت کے منہ میں جاتا محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ ایک طرح کا پھوڑا ہوتا ہے جو جسم کے اندرونی اور بیرونی حصوں میں ہوتا ہے۔ جسم کے اندرونی حصے کا کینسر بیرونی حصوں کے مقابلے میں زیادہ مہلک اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ مرض مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ کینسر زیادہ تر نشے کے عادی افراد کو ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ غیر متوازن غذاؤں کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ آج کل فاسٹ فوڈ اور کیمیکل زدہ پانی یعنی گٹر باغیچہ میں پیدا ہونے والی سبزیوں کے استعمال سے بھی ہوتا ہے۔ بہرحال اس کی وجوہات پر میڈیکل رپورٹ اس کالم کا مقصد نہیں ہے۔ بتانا صرف یہ ہے کہ آج کل لوگ اس مرض کے خود خریدار بنے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کون کون سی مضر صحت اشیا یا نشہ ہے جس کے خریدار متنبہ کرنے کے باوجود شوقیہ خریدار بنے ہوئے ہیں اور اس کے عادی ہوکر قابلِ رحم حالت میں اپنے انجام کو پہنچتے ہیں:

سگریٹ نوشی: یہ صرف اور صرف شخصیت کی نمائش کے لیے پی جاتی ہے۔ یورپ، امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اس کے پینے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد یکساں ہے۔ میڈیا کے ذریعے ایک طرف اس کے مضر اثرات اور پھیپھڑوں کا کینسر لگ جانے کی آگہی دی جاتی ہے، بلکہ سگریٹ کے ڈبے پر تو کینسر زدہ پھیپھڑوں کی تصویر بھی ہوتی ہے اور دوسری جانب سگریٹ بنانے والی کمپنیاں ہوسِ زر کی خاطر سگریٹ پینے والے کو بڑے بڑے کارنامے دکھانے والے شخص کے طور پر پیش کرتی اور اُس کی فلموں کی تشہیر لاکھوں روپے سے کرتی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2024ء میں سب سے زیادہ مرنے والے وہ افراد ہوں گے جو سگریٹ نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ سگریٹ نوجوان طبقہ فیشن کے طور پر پیتا ہے اور پھر اس کا عادی ہوکر مر جاتا ہے۔ اپنے گھر اور گھر سے باہر اس طرح کے مریضوں کا عبرت ناک انجام دیکھنے کے باوجود وہ یہ حرکتیں کرتے ہیں۔ ایسے انسانوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ہم نے انسان کو بڑا تھڑدلا پیدا کیا ہے، یہ جان بوجھ کر غلطی کرتا ہے۔ جب مصیبت آتی ہے تو بلبلانے لگتا ہے اور جب ٹل جاتی ہے تو اکڑنے لگتا ہے۔‘‘ (سورۃ المعارج آیت 19)

شراب: یہ تمام مذاہب میں ممنوع اور حرام ہے۔ اسلام میں شراب پینے کی سزا 80 کوڑے ہیں۔ شراب کی حرمت میں جب سورہ مائدہ نازل ہوئی تو جو صحابہ شراب پیتے تھے، انہوں شراب کے تمام برتن توڑ کر پھینک دیے اور شراب کو بہا دیا۔ گو کہ تمام دنیا میں عام طور پر شراب پی جاتی ہے مگر شراب بیچنے کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں شراب کشید کرنے والی بستی کے مکینوں کو نکال کر جلا دیا تھا۔

مسلم دنیا میں یوں تو شراب پر پابندی عائد ہے مگر عیسائیوں اور ہندوؤں کو لائسنس والی دکانوں سے شراب بیچی جاتی ہے، اور اس کی آڑ میں مسلمان بھی شراب نوشی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایک ہندو اقلیتی رکن نے غیرت دلاتے ہوئے یہ بات کہی کہ آپ ہمارے نام پر شراب نہ بیچیں، یہ ہمارے دھرم میں بھی حرام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شراب برائے سرور پیتے ہیں، مگر شرابی جب نشے میں دھت ہوتا ہے تو وہ مدہوشی کے عالم میں لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت گری پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اس پر جنسی دیوانگی طاری ہوجاتی ہے۔ شراب پینے والا اکثر جگر کے کینسر میں مبتلا ہو کر مرتا ہے۔ اس کو شدید ہارٹ اٹیک بھی ہوتا ہے۔ انگریزی اور فرانسیسی شراب تو عام آدمی کی دسترس میں نہیں ہے اس لیے غریب طبقہ اور مزدور دیسی شراب پی کر موت کو گلے لگاتے ہیں۔ اکثر اندھے ہو جاتے ہیں اور اجتماعی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

اسلام میں تو ہر طرح کی نشہ آور اشیا کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، یہ شراب، جوئے، پانسے اور آستانے سب نجس اور شیطانی اعمال ہیں، ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘(المائدہ: 90)

شراب نوشی کے نتیجے میں جگر کا کینسر لاحق ہوتا ہے تو جسم کے تمام نظام بگڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور آخر میں شرابی اپنے خریدے ہوئے کینسر کا شکار ہوکر عبرت ناک انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ حکومتیں اس عوام دشمن نشے کے مضر اثرات سے واقف ہونے کے باوجود اس لیے اس کی کشید بند نہیں کرتیں کہ یہ ایک بڑی صنعت اور زرِ مبادلہ کا ذریعہ ہے۔

یوں تو تمباکو، بھنگ اور چرس قدیم زمانے سے لوگوں کے مرغوب نشے ہے، مگر ان کے موذی اثرات کینسر کا سبب نہیں بنتے، پھر بھی یہ دیگر جسمانی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ چرس اور گانجا کے بارے میں یہ بات عیاں ہے کہ بڑے بڑے رؤسا بھی ان کو پیتے تھے اور آج بھی پیتے ہیں۔

اس کے بعد افیم سے تیار ہونے والا مہلک ترین نشہ ہیروئن ہے جس نے بیسویں صدی کے وسط سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تمام ملکوں میں ممنوع اور اس پر سخت ترین سزا ہونے کے باوجود ڈرگ مافیا کے لوگ اس کی کشید اور تجارت نہایت منظم انداز میں کرتے ہیں، کیوں کہ یہ اربوں ڈالر کا کاروبار بن چکا ہے، اس میں انسدادِ منشیات کے حکومتی اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں۔ سعودی عرب، چین اور دیگر ملکوں میں منشیات کے اسمگلروں کو موت کی سزا دی جاتی ہے، جب کہ اس کے پینے والے تو بدترین انجام کو پہنچتے ہی ہیں۔

اب ایسے نشے کا ذکر کروں گا جس کا آغاز 1990ء کی دہائی میں ہوا، اور آج عالم یہ ہے کہ پاک و ہند کے بیشتر نوجوان، حتیٰ کہ کم عمر بچے بھی اب اس کے عادی ہوچکے ہیں، وہ نشہ ہے ’’گٹکا‘‘۔ یہ ایک ایسی عادتِ بد ہے جس کے عادی افراد چند برسوں میں ہی منہ اور حلق کے کینسر میں مبتلا ہوکر موت سے دوچار ہورہے ہیں۔ اس کے استعمال کا پہلا اثر تو یہ ہوتا ہے کہ چند مہینوں میں اس کے عادی لوگوں کا منہ مشکل سے کھلتا ہے۔ منہ اتنا گندا ہوجاتا ہے کہ دیکھنے سے یوں لگتا ہے جیسے یہ ریلوے اسٹیشن کا کموڈ ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں تو اس کے عادی مریضوں کا علاج کرنے سے ڈاکٹر منع کردیتے ہیں۔ اسے استعمال کرنے والوں کے منہ کے سیل مر جاتے ہیں۔ اس میں کچی سڑی ہوئی کسیلی چھالیہ، چونا اور دیگر ایسی مضر صحت چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جو ہلاکت خیز ہیں۔ یہ کچی کسیلی اشیا اگر پیس کر کسی حاملہ عورت کو پلا دی جائیں تو اس کا حمل گر جائے۔

میں نے کئی نوجوانوں کو اس کے استعمال کے بعد منہ کے کینسر میں مبتلا ہوکر مرتے دیکھا ہے۔ اس کا استعمال عام ہوچکا ہے۔ اسے استعمال کرنے والے جہاں پیک تھوکتے ہیں وہ جگہ بھی گندی ہوجاتی ہے۔ دفاتر کی سیڑھیوں اور راستوں پر جگہ جگہ یہ گندگی نظر آتی ہے۔ اس موقع پر اپنا ایک مشاہدہ پیش کرتا چلوں، میں اپنے ایک دوست کے ساتھ اسی طرح کے ایک مریض کی عیادت کو گیا تو اُس نے روتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر کہا کہ ’’میری موت کی دعا کریں‘‘۔ میں نے کہا ’’بھائی! میں تو صحت یابی کی دعا کرنے آیا ہوں‘‘۔ اُس نے مشکل سے اپنا منہ ذرا سا کھولا اور میں یہ دیکھ کر کانپ گیا کہ اُس کے منہ میں لاتعداد کیڑے چل رہے تھے۔ وہ شخص جو علاقے میں بڑا دبدبہ رکھتا تھا، چند دنوں بعد عبرت ناک انجام کو پہنچ گیا۔

یہ تفریحی نشہ خاموش قاتل کی طرح بڑی تعداد میں نسلِ نو کی ہلاکت کا سبب بن رہا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ گٹکا بنانے اور بیچنے والوں سے بھتہ لیتی ہیں اور یہ گھناؤنا کاروبار جاری ہے۔ عوام کو آگہی دینے کی ضرورت ہے اور آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے دردِ دل رکھنے والے اس کے خلاف مہم چلائیں تاکہ ہماری نسل تباہی سے بچ جائے، اور اس کے کاروبار میں ملوث تمام عناصر کو عبرت ناک انجام سے دوچار کیا جائے۔

چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
………
کل رات اک شخص کو کچرے کے ڈھیر پر دیکھا
پتا چلا کہ غم مٹانے کے لیے یہ نشہ کرتا ہے
وہ پاگلوں کی طرح سر پٹخ رہا تھا اِدھر اُدھر
اس کو وقت پر مطلوبہ نشہ ملا ہی نہیں
………
نہ تم ہوش میں ہو نہ ہم ہوش میں ہیں
چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی
(بشیر بدر)

حصہ