سوشل میڈیا پر پیکا ایکٹ

152

پیکا ایکٹ:
آپ سوشل میڈیا پر موجود ہیں اورپاکستان کی حدود میں ہیں تو ’پیکا ایکٹ‘ جاننا نہایت ضروری ہے۔ اس وقت سب سے اہم موضوع یہ ہے۔ اس پر جتنی چاہیں بات کریں اور اس کے بعد اس کے مطابق ہی بات کریں۔ سوشل میڈیا ’’بوتل سے نکلے ایک بے قابو جن‘‘کی طرح ہوچکا ہے۔ حکومت نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو جیسے قابو کیا ویسے ہی اب وہ ’’آزادیِ اظہارِ رائے‘‘ کے بینر تلے ’’سوشل میڈیا‘‘ کو بھی قابو کرنے چلی ہے۔ ریاست کے پاس لے دے کر ’’قانون سازی‘‘ کا ہی ایک طریقہ ہوتا ہے جسے وہ استعمال کرتی آئی ہے۔ دولت وطاقت کا استعمال بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

پاکستان میں اس قانون کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ یہ قانون سب سے پہلے 2016ء میں سائبر کرائم کے عنوان سے متعارف ہوا تھا، جب دھڑادھڑ سائبر کرائم رپورٹ ہورہے تھے۔ اس کے ذیل میں بینکنگ کی غیر قانونی سرگرمیاں، کرنسی چوری، کمپیوٹر ڈیٹا چوری، اکائونٹس کی ہیکنگ، انٹرنیٹ دہشت گردی، فیس بک پر ہراساں کرنا، شہرت کو داغ دار کرنا، جعلی شناخت ظاہر کرنا، حساس معلومات تک رسائی، انتہا پسند تنظیموں کی معاونت، فرقہ پرستی، نفرت انگیز اور گستاخانہ مواد، مذہبی منافرت پھیلانا، غیر قانونی سم کارڈ کا اجراء شامل تھے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر مزید راستے کھلے تو ریاست نے مزید سخت قانون سازی کا سوچا اور فروری 2022ء میں عمران خان حکومت کی وفاقی کابینہ سے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون 2016ء میں آرڈیننس کے ذریعے ترامیم لانے کی منظوری لی گئی، جس میں فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں پر تنقید کرنے والوں کے لیے پانچ سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزت اچھالنے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد طبلِ جنگ بجا، گرفتاریاں شروع ہوئیں تو 23 فروری 2022ء کو عدالت نے حکومت کو پیکا قانون کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا۔ 8 اپریل 2022ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا آرڈیننس کی (پی ٹی آئی کی جانب سے نافذ کردہ) ترمیمی شقوں کو سخت ظالمانہ اور ڈریکونین کہتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ یوں معاملہ لٹک گیا۔ پھر عمران خان کی حکومت چلی گئی، اس کے بعد شہباز شریف حکومت کا ہی تسلسل ہے، اس میں اب دوبارہ ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے۔

پیکا ایکٹ نافذ ہونے کے بعد حکومت ’ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی‘ بنائے گی جو اسلام، اسلامی تعلیمات اور نظریۂ پاکستان کے خلاف مواد کو ہٹاسکے گی۔ جو مواد ڈرانے کے مقصد، یا قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اکسائے گا، جو مواد سرکاری عمارتوں یا تنصیبات، اسکول، اسپتال، یا کسی سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے سمیت جذبات کو بھڑکائے گا، جو مواد فرقہ واریت یا نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلائے گا، جو مواد کسی شخص کو ڈرانے، جھوٹا الزام لگانے سے متعلق ہوگا اسے ہٹایا جائے گا، ساتھ ہی پورنوگرافی سے متعلق مواد کو بھی ہٹایا جاسکے گا۔ مسودے کے مطابق ریاست یا اُس کے اداروں کے خلاف تشدد کی کسی قسم کو فروغ دینے سے متعلق مواد بھی ہٹایا جا سکے گا۔ وہ مواد جو جنس یا جسمانی معذوری کی بنیاد پر کسی فرد یا افراد کے گروہ کے خلاف نفرت اور تحقیر کو ہوا دیتا ہو، اُسے بلاک کیا، یا ہٹادیا جائے گا۔

اس سلسلے میں اِس ہفتے ایک پاکستانی اسٹیج رقاصہ شمائلہ ادریس کی درخواست پر پیکا ایکٹ کی دفعات 20،21 اور 511 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس کے مطابق رقاصہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک جانی مانی اداکارہ ہیں مگر چند افراد نے اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی، جس سے ان کی شہرت اور ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح گوجرانوالہ میں بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج پیکا ایکٹ کے تحت کیا گیا ہے۔ اب ریاست تو ایسے ہی کرتی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا اور کس کی کتنی آزادی باقی رہے گی؟

ایڈز کا عالمی دن:
پاکستان میں ایچ آئی وی یعنی ایڈز مستقل عوامی صحت کا ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے پیش کردہ ریکارڈ کے مطابق اب تک ساڑھے 4 کروڑ لوگ اس بیماری سے مر چکے ہیں اور 2023ء تک بھی تقریباً 4 کروڑ لوگ دُنیا بھر میں اس خطرناک مرض میں مبتلا تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں یہ غلیظ، خطرناک اور منتقل ہونے والی جان لیوا بیماری حکومتی پالیسیوں، حکومتی نااہلی اور حکومتی سرپرستی میں ہی پھیل رہی ہے۔ ابھی یکم دسمبر کو ہی اقوام متحدہ نے اس بیماری کا عالمی دن منایا، اس لیے سوشل میڈیا پر اس کا خوب چرچا ہوا۔ میں کئی سال سے نوٹ کررہا ہوں کہ یہ چرچا بڑھتا جارہا ہے۔ ہر سال عالمی دن کا مقصد بیماری بڑھانے جیسا ہورہا ہے۔ اس بیماری سے متعلق عالمی سطح پر تو اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل یہ بتاتا ہے کہ ہر منٹ میں دو مریض بن جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک دن میں 2 ہزار سے زائد مریض پیدا ہورہے ہیں۔ یہ سب مریض جو دنیا بھر میں پیدا ہورہے ہیں، یہ بھی اقوام متحدہ کی پالیسیوں اور بدکاری کے رواج کی وجہ سے ہی پیدا ہورہے ہیں۔

پاکستان میں ایچ آئی وی/ایڈز کے کیسز 1990ء کی دہائی میں رپورٹ ہونا شروع ہوئے۔ شروع میں ان کو بین الاقوامی مسافروں سے جوڑا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ مسافر اپنے جسم میں یہ جراثیم لائے ہوں اور اُن کی غفلت یا عدم معلومات کی وجہ سے یہ مرض اُن سے پھیلا ہو۔ مگر جو بھی ہو،2000ء کی دہائی میں پاکستان میں ایچ آئی وی کا پھیلاؤ تیز ہوگیا۔ اس کی وجہ غیر محفوظ طبی طریقے اور خون کی غیر منظم منتقلی ہی نہیں تھی بلکہ اس میں منشیات کے ساتھ جسم فروشی، زنا کاری اور ہم جنس پرستی کے غلیظ عوامل بھی شامل تھے۔ ان تمام افراد میں ہی یہ جراثیم پائے گئے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہم جنس پرست افراد ہی سب سے زیادہ اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اب مجھے یہاں ٹرانس جینڈر سے متعلق الگ سے بتانے کی ضرورت نہیں۔ سب ایک ہی ہوتے ہیں۔ یہاں سے دھندا شروع ہوا این جی اوز کا۔ وہ دنیا کو اِس مرض سے بچانے کے نام پر دکان کھول کر بیٹھ گئیں۔ این جی اوز جانتی تھیں کہ مرض جتنا بڑھے گا اُتنا ہی فنڈ بڑھے گا۔ اس لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ 2000ء کے بعد تو یہ مرض کسی طور کم نہیں ہوا۔ پاکستان کیا، دُنیا میں کم نہیں ہوا، بلکہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ جوں جوں این جی اوز بڑھیں، جوں جوں فنڈنگ بڑھی، جوں جوں احتیاط کے نام پر ادویہ بڑھیں، جتنی دوائیاں بنیں، جتنی احتیاط نام کی چیزیں بنیں، سب بے کار ثابت ہوئیں اور مریضوں کے نمبر اوپر ہی جاتے رہے۔ تو اس صورتِ حال میں کامیاب کون ہوا؟ جواب ہے: دنیا بھر کا ہیلتھ سیکٹر، ادویہ ساز کمپنیاں، ایسی تمام این جی اوز، ایڈز کنٹرول کی تمام ایجنسیوں کے عہدیداران جو کروڑ پتی ہوگئے۔ حکومتی عہدیداران بھی کروڑ پتی بن گئے۔ دنیا بھر میں مخیر افراد کو بیماری دکھا دکھا کر فنڈ لیا جاتا ہے۔ ایک دھندا شروع ہوتا ہے، لوگ مرتے رہتے ہیں، کوئی علاج، کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ بیماری مستقل پھیل رہی ہے۔

سب سے مزے کی بات سنیں، اور سمجھیں کہ یہ ساری این جی اوز کیا سکھانے اور بتانے کی پابند ہوتی ہیں:

وہ کہتی ہیں کہ ہمیں یا کسی کو بھی ہم جنس پرستی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ کرو، خوب کرو، مگر یہ گولی کھالیا کرو۔

جسم فروشی خوب کرو، یہ تمہارا بنیادی جسمانی حق ہے، مگر بس یہ یہ کام کرلیا کرو۔ یہ انجکشن لگوا لیاکرو۔اس سب کے باوجود کہیں بھی کوئی بہتری نہیں آرہی، مرض مستقل بڑھ رہا ہے، کیونکہ نہ دینے والے کی نیت ٹھیک ہے، نہ لینے والے کی، اور نہ ہی یہ حل ہے۔کمال یہ ہے کہ اِن کو جسم فروشی، ہم جنس پرستی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جو اصل وجہ ہے۔

ان سب کو مسئلہ احتیاط نہ برتنے سے ہے، جو ممکن ہی نہیں ہورہی۔ حکومتی پالیسیاں دیکھ لیں، حکومتی اقدامات دیکھ لیں، سب جانتے ہیں کہ حکومت پوری معاشرت میں یہ گندے غلیظ کام، زنا کاری جسم فروشی، ہم جنس پرستی کو عام کرنے کی پالیسیاں بناتی ہے۔ پاکستان میں صرف ٹرانس جینڈر ایکٹ ہی نہیں کئی اور مثالیں موجود ہیں۔ دیگر ممالک میں تو ہم جنس پرست افراد کی شادیوں تک کے غلیظ قوانین موجود ہیں۔

پاکستان میں تقریباً2 لاکھ افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ان میں سے 80فیصد افراد کی تشخیص نہیں ہوپاتی۔ صحت کی سہولتوں تک رسائی اور آگاہی مہمات کے باوجود بیماری کا نام بھی بدنامی کا سبب بنتا ہے، اس لیے لوگ بتاتے ہی نہیں۔ پاکستان میں پنجاب ایڈز سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ نومبر کی خبر تھی کہ ملتان میں ایک بڑے اسپتال میں ایڈز کے مریض کا ڈائیلاسز کرنے کے بعد بغیر مشین صاف کیے مزید30 افراد کے ڈائیلاسز کردیے گئے جس سے وہ بھی ایڈز کا شکار ہوگئے۔ یہ والے معاملات الگ ہیں۔ جیسا میں نے اوپر بتایا کہ احتیاط کسی بھی قسم کی نہیں ہو پارہی۔

اس کے بعد سندھ کی صورتِ حال انتہائی خراب ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں ٹیسٹ ہونے کی دیر ہے، میرا گمان ہے کہ بڑے اعداد سامنے آئیں گے۔ اکتوبر میں ڈان نے 8063 مریض رپورٹ کیے تھے، جن میں 150ٹرانس جینڈر شامل تھے، خیبر میں 13 سینٹر کام کررہے ہیں جہاں اس کے ٹیسٹ ہوتے ہیں اور بچاؤ کی دیگر چیزیں دی جاتی ہیں۔ اسی طرح اب بلوچستان میں بھی یہ زہر پھیل رہا ہے۔ کوئٹہ میں 462 نئے کیسز کے ساتھ 2823 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں، یعنی یہ وہ ہیں جو اپنے مرض کا اظہار و اعلان کرچکے ہیں۔ بلوچستان میں ایڈز کنٹرول پروگرام کے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر ذوالفقار بلوچ نے ابھی پریس کانفرنس میں بتایا کہ اُن کے اندازے کے مطابق مزید 7-8 ہزار مریض ہیں۔ یہ بلوچستان کے لحاظ سے انتہائی خوفناک تعداد ہے، کیونکہ یہ مرض مختلف عام بے احتیاطیوں سے پھیلتا ہے۔

2018ء سے 2020ء تک سندھ کے مختلف علاقوں جیسے لاجپور، تنگوانی اور گھوٹکی میں ایچ آئی وی کے کیسز میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا۔ 2019ء میں رتوڈیرو کا علاقہ دنیا بھر میں اُس وقت توجہ کا مرکز بنا جب ایک ہزار سے زائد افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی جن میں 900 بچے بھی شامل تھے۔ وائرس کے پھیلاؤ کا الزام ایک ڈاکٹر پر لگایا گیا تھا جس نے مبینہ طور پر استعمال شدہ سرنج کا استعمال کئی مریضوں پر کیا تھا۔ سندھ میں 2022ء تک تقریباً 30,000 افراد میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق کراچی، سکھر اور دیگر دیہی علاقوں سے تھا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی ابتدائی علامات بخار اور موشن ہوتے ہیں، اس لیے مریض غور نہیں کرتا اور جراثیم اتنے دنوں میں پھیلتے چلے جاتے ہیں جو انتہائی تکلیف دہ اور عبرت ناک موت کا سبب بنتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ ایسی موت ہوتی ہے کہ لاش کو قبر کے بجائے جلانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

حصہ