میر ببر علی انیس:اردو مرثیہ نگاری کا لازوال چراغ

86

میر ببر علی انیسؔ اردو ادب کے بہت زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں، جنہوں نے مرثیہ گوئی کو عروج کی بلندیوں پر پہنچایا۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے میر انیس کی شاعری کی تعریف میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا:

’’میں میر انیسؔ کو ہمیشہ چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور اس کی قدر نہیں کرپائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں، محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو، کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہوجاتا ہے، سمجھ میں آجاتا ہے۔‘‘

فاروقی صاحب کے یہ الفاظ میر انیس کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہیں، جنہوں نے اپنی مرثیہ نگاری کے ذریعے اردو شاعری کو ایک نیا آہنگ عطا کیا۔ انیس کی سب سے بڑی خوبی ان کا ’’رواں کلام‘‘ ہے، جو نہ صرف ان کے ہنر کی دلیل ہے بلکہ ان کی شاعری کے دیرپا اثر کی وجہ بھی ہے۔

1803ء میں فیض آباد کے محلہ گلاب باڑی میں پیدا ہونے والے انیسؔ کو شاعری ورثے میں ملی۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن (مصنف مثنوی سحرالبیان) اور پردادا امیر ضاحک سبھی قادر الکلام شاعر تھے۔

میر انیس نے ابتدائی تعلیم فیض آباد میں حاصل کی۔ وہ مروجہ تعلیم کے ساتھ سپہ گری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ کم عمری ہی سے شاعری میں دلچسپی تھی، اور جلد ہی انہوں نے اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ پہلے ’’حزیں‘‘ تخلص کرتے تھے، مگر استادِ سخن شیخ امام بخش ناسخؔ کے مشورے پر ’’انیس‘‘ اختیار کرلیا۔

اگرچہ ابتدا میں انیس نے غزلیں کہیں، مگر اپنے والد کے مشورے پر مرثیہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کی شاعری کا مرکز کربلا کے واقعات اور ان سے جڑے جذباتی و روحانی مناظر کی تخلیق تھی۔ انہوں نے مرثیہ میں فصاحت، بلاغت، منظرنگاری اور جذبات کی گہرائی کو نئی جہت بخشی۔ انیس کے مرثیے مخصوص واقعات کو ایک وسیع تر انسانی اور اخلاقی پس منظر میں پیش کرتے ہیں۔

انیس کے دور میں لکھنؤ میں مرثیہ گوئی کا چرچا تھا۔ ان کے اور مرزا دبیر کے درمیان ادبی مقابلہ اردو ادب کی تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے۔ انیس نے نہ صرف مرثیہ نگاری میں کمال حاصل کیا بلکہ اپنی مرثیہ خوانی سے بھی سامعین کو مسحور کیا۔

میر انیسؔ کی مرثیہ خوانی کا انداز اتنا منفرد تھا کہ سامعین پر سحر طاری ہوجاتا۔ انیس نے تقریباً 200 مرثیے، 125 سلام اور 600 سے زائد رباعیات تخلیق کیں۔ ان کی شاعری میں منظر نگاری، جذبات کی عکاسی، اور زبان کا برتاؤ مثالی ہے۔ انہوں نے اردو مرثیہ کو جو مقام عطا کیا، وہ آج بھی اردو ادب کی میراث ہے۔

انیس کی زندگی کے آخری ایام مالی مشکلات میں گزرے۔ 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔ انیس کا نام اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہے گا، اور ان کا کلام مرثیہ نگاری کی عظمت کا نشان بن کر زندہ رہے گا۔ آپ کے اہم اور مشہور اشعار:

خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
……
انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
……
تمام عمر جو کی ہم سے بے رخی سب نے
کفن میں ہم بھی عزیزوں سے منہ چھپا کے چلے
……
کریم جو تجھے دینا ہے بے طلب دے دے
فقیر ہوں پہ نہیں عادتِ سوال مجھے
……
خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیسؔ
کربلا کے واسطے مَیں، کربلا میرے لیے
……
چھائے پھولوں سے بھی صیاد تو آباد نہ ہو
وہ قفس کیا جو تہہ دامن صیاد نہ ہو
……
ان کے مرثیہ کے چند اشعار بھی پڑھ لیں:
نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
رنگ اڑتے ہیں وہ رنگیں ہے عبارت میری
شور جس کا ہے وہ دریا ہے طبیعت میری
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؔ کی مداحی میں

حصہ