(چوتھا اور آخری حصہ)
اتفاق سے انہی دنوں میرے چھوٹے بھائی کو اپنی ایک آنکھ کا پپوٹا اچانک گر جانے کی تکلیف لاحق ہوگئی تھی، نشتر اسپتال ملتان میں تین چار ہفتے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے زیرِ علاج رہنے کے باوجود جب افاقہ نہ ہوا، تو ہم انہیں مجبوراً گھر لے آئے، حکیم صاحب جب میرے احباب اور عزیزان کو طبی مشوروں سے نواز رہے تھے تو میں نے بھی موقع غنیمت جان کر اپنے بھائی کو ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ حکیم صاحب نے ایک نظر انہیں دیکھا، پھر معاً فرمایا ’’انہیں دیکھتے ہی مجھے ان کے بارے میں ایک دوا کا القاء ہوگیا ہے۔ یہ دوا میں آپ کو کراچی پہنچتے ہی بھیج دوں گا، اس کے استعمال سے ان شاء اللہ ایک دو دن میں پپوٹا اپنی جگہ واپس چلا جائے گا۔‘‘
پروگرام کے مطابق حکیم صاحب کو اسی دن، دوپہر کے وقت ملتان سے خیبر میل پر کراچی کے لیے سوار ہونا تھا۔ ان کے لیے اور رشید میاں کے لیے گاڑی کے ایئرکنڈیشنڈ ڈبے میں سیٹیں ریزرو کرا دی گئی تھیں۔ چنانچہ دوپہر کے کھانے سے ذرا جلد فارغ ہوکر میں اپنے بیٹے نویدؔ احمد کو ساتھ لے کر حکیم صاحب اور رشید میاں کو گاڑی پر سوار کرانے کے لیے ان کے ہمراہ ملتان تک گیا، ملتان کے ریلوے اسٹیشن پر ہم پہنچے تو معلوم ہوا کہ خیبر میل کچھ تاخیر سے آرہی ہے۔ چنانچہ میں اور نویدؔ، حکیم صاحب اور رشید صاحب کو ساتھ لے کر پلیٹ فارم کے ویٹنگ روم میں جابیٹھے۔ ویٹنگ روم مسافروں سے بھرا ہوا تھا، رش کی وجہ سے اس کے اندر کچھ افراتفری بھی تھی۔ بہرحال ہم چاروں کو بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔ وہاں بیٹھنے کے بعد دس پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ حکیم صاحب یکدم گھبرا کر چلاّئے ’’ارے یہ رشید کہاں گیا؟‘‘ میں نے دیکھا تو رشید میاں کی کرسی واقعی خالی تھی۔ حکیم صاحب تیزی کے ساتھ میرے بیٹے نوید کی جانب مڑے اور پھر اسی طرح گھبراہٹ کے عالم میں فرمایا ’’بیٹے! تم جھپاک سے باہر جائو اور اُسے پلیٹ فارم پر تلاش کرو‘‘۔ نوید تعمیلِ ارشاد میں فوراً ویٹنگ روم سے باہر نکل گیا۔ لیکن حکیم صاحب کو اس کے باوجود چین نہ آیا۔ کرسی پر بار بار پہلو بدلتے، ساتھ ہی ان کے چہرے کا رنگ بار بار متغیر ہوتا۔ کبھی میری طرف دیکھتے، کبھی باہر کے دروازے کی طرف… اُدھر ان کی یہ اضطرابی کیفیت دیکھ کر میں سخت حیران تھا، ’’آپ ذرا اطمینان رکھیے‘‘۔ میں نے دھیرے سے کہا، ’’رشید میاں پلیٹ فارم پر ہی ہوں گے، نوجوانوں کو نئی جگہیں دیکھنے کا شوق ہوتا ہی ہے‘‘۔ حکیم صاحب جیسے تڑپ کر بولے ’’ارے، آپ نہیں جانتے، یہ رشید تو ایک بیوقوف لڑکا ہے، ضرور کہیں ہجوم میں کھو جائے گا‘‘۔
’’کھو جائے گا؟‘‘ میں نے تعجب سے ان کی بات دہرائی۔ ’’حکیم صاحب آخر کو وہ ایک نوجوان آدمی ہے، کوئی نادان بچہ تو نہیں‘‘۔
لیکن حکیم صاحب نے میری بات پر ذرا بھی توجہ نہ دی، اضطراب کی شدت میں وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے ’’آئیے! ہم بھی اسے باہر جاکر تلاش کرتے ہیں، خدا کرے وہ جلد مل جائے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وہ میرا انتظار کیے بغیر تیزی کے ساتھ ویٹنگ روم سے باہر نکل گئے۔ میں بھی پریشان ہوکر ان کے پیچھے پلیٹ فارم پر نکل آیا۔ یکدم میری نگاہیں سامنے کی طرف اٹھیں تو دیکھا کہ رشید میاں اور نوید، دونوں ہنستے مسکراتے اور ہجوم میں سے اپنا راستہ بناتے ہماری طرف لپکے چلے آرہے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی میں نے حکیم صاحب سے چلاّ کر عرض کیا ’’لیجیے، وہ رہے رشید صاحب‘‘۔ حکیم صاحب کی نگاہیں جب رشید میاں پر پڑیں تو جیسے ان کی جان میں جان آگئی۔ پھر رشید صاحب جب ہمارے قریب پہنچے تو حکیم صاحب نے خفگی کے کیپسول میں لپٹے ہوئے انتہائی شیریں پیار کے ساتھ پوچھا ’’کہاں چلا گیا تھا تُو بندے خدا کے؟‘‘… ’’کہیں بھی نہیں‘‘۔ رشید میاں نے بھولپن سے جواب دیا ’’بس ذرا ملتان کی مصنوعات کا اسٹال دیکھ رہا تھا‘‘۔ اتنے میں گاڑی پلیٹ فارم پر آپہنچی اور ہم سب کی توجہ گاڑی کی طرف مبذول ہوگئی۔ ویٹنگ روم سے سامان اٹھاکر جب ہم حکیم صاحب کی ریزرو سیٹوں والا اے سی ڈبہ تلاش کرکے اس کے اندر پہنچے تو اسے تقریباً خالی پایا۔ ڈبے کی دو سیٹوں پر حکیم صاحب اور رشید میاں کے نام درج تھے، ان میں سے جو سیٹ زیادہ آرام دہ تھی، اتفاق سے اس پر حکیم صاحب کا نام تحریر تھا، لیکن حکیم صاحب نے اس کے باوجود یہ آرام دہ سیٹ رشید میاں کے حوالے کردی اور خود دوسری سیٹ پر تشریف فرما ہوگئے۔ رات انہوں نے میرے ہاں اپنا آرام دہ بستر جس طرح رشید میاں کے حوالے کردیا تھا، اُس کی یاد میرے ذہن میں تازہ ہوگئی اور اس طرح میں حکیم صاحب کی خدمت میں اس گزارش کے لیے زبان نہ کھول سکا کہ ’’حکیم صاحب! ملتان سے کراچی کا لمبا سفر آپ کو درپیش ہے، پھر آپ چار پانچ ہفتوں کے طویل اور مسلسل دورے سے تھکے ہوئے ہیں، عمر کے لحاظ سے بھی آپ آرام کے زیادہ مستحق ہیں، جبکہ رشید میاں ماشاء اللہ نوجوان ہیں۔ لہٰذا مناسب یہی تھا کہ آپ اپنی آرام دہ سیٹ خود استعمال کرتے‘‘۔
قارئین! اسے آپ حکیم صاحب کے عظیم کردار کا رعب کہہ لیجیے، بہرحال میں ایسی کوئی بات حکیم صاحب سے اُس وقت نہ کرسکا، بس ان کا چہرہ ٹکر ٹکر دیکھا کیا، جس میں تقدس کا نور بھی تھا، محبت کی بوقلموں تابانی بھی، اور عظمت کی جگمگاہٹ بھی۔ اس اثناء میں گاڑی نے سیٹی دی اور حکیم صاحب نیز رشید میاں سے ایک پُرجوش معانقہ کرکے میں اور نوید گاڑی سے اتر آئے۔ گاڑی چلنے کے بعد حکیم صاحب دروازے میں کھڑے ہوکر ہماری نظروں سے اوجھل ہونے تک برابر ہماری طرف دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ ہلاتے رہے۔ تب مجھے یوں محسوس ہوا جیسے حکیم صاحب ہاتھ ہلا ہلا کر مجھ سے کہہ رہے ہوں کہ ’’میاں! دیکھ لو تمہارا دل جو برسوں سے میں نے اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے، میں اسے اب بھی چھوڑنے کا نہیں ہوں۔ اس لیے کہ دلوں کو مسخر کرکے انہیں اپنے قابو میں رکھنا میرا گویا پیشہ ٹھیرا۔‘‘
کراچی واپس جانے پر حکیم صاحب نے جلد ہی میرے بھائی کے لیے وہ دوا بھجوا دی جس کا ذکر انہوں نے میرے ہاں قیام کے دوران کیا تھا۔ حکیم صاحب نے فرمایا تھا کہ اس دوا کے استعمال کے دوسرے ہی دن میرے بھائی کی آنکھ کا گرا ہوا پپوٹا اپنی جگہ واپس چلا جائے گا۔ قارئین! اس دوا کے استعمال سے واقعی ایسا ہی ہوا، اور میرا بھائی دو ہی دن میں بالکل صحت یاب ہوگیا، جس پر سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اپنی خوشی کے اس اظہار کے لیے میں نے حکیم صاحب کو کراچی فون کیا۔ جواباً وہ بولے ’’مجھے آپ کی طرف سے اس خوش خبری کی آمد کا پورا یقین تھا۔ دراصل میرا یہ برسوں کا تجربہ ہے کہ مریض کو دیکھتے ہی اس کی روداد سنتے ہی بعض اوقات کوئی دوا ذہن میں برق کی مانند لہرا جاتی ہے، ایسے موقع پر میں اسے اللہ کی طرف سے ایک القاء سمجھا کرتا ہوں اور آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ پر القاء شدہ کوئی دوا ناکام ثابت ہوئی ہو۔‘‘
یہ حکیم صاحب کے ساتھ میرے تعلقِ خاطر کے عروج کا زمانہ تھا، جب مارچ 1980ء کے آخری ہفتے میرے بچوں کی شادیوں کی تقریبات کا انعقاد طے پایا۔ چونکہ میری زندگی میں ایسی پُرمسرت تقاریب پہلی مرتبہ آرہی تھیں، لہٰذا قدرتاً میں نے یہ چاہا کہ اس موقع پر میرے زیادہ سے زیادہ احباب تشریف لائیں تاکہ میری خوشیاں دوبالا ہوجائیں۔ چنانچہ دوسرے احباب کے علاوہ میں نے کراچی میں حکیم اقبال حسین صاحب، برادرم محمد صلاح الدین صاحب اور نصیر احمد سلیمی صاحب کو بھی دعوت نامے ارسال کیے۔ پھر ان تینوں احباب کو تاکیدِ مزید کی خاطر فون کیے۔ حکیم صاحب کو میں نے الگ سے دو خطوط بھی اس موضوع پر لکھے، آخرکار جب میں نے سنا کہ کراچی سے حکیم صاحب، نصیر سلیمی صاحب اور برادرم صلاح الدین صاحب نے اپنے اہلِ خانہ سمیت میرے ہاں کی تقریبات میں شمولیت کا پروگرام بنا لیا ہے تو میرا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ کبھی کبھی مجھے یہ خیال آتا کہ کراچی سے ضلع ملتان کے ایک دور افتادہ قصبے کے سفر اور پھر تقریبات میں شمولیت کے لیے حکیم صاحب کو کم از کم پانچ دن اپنے مطب سے غیرحاضر رہ کر تقریباً ایک ہزار مریضوں کو اپنی توجہ سے محروم کرنا ہوگا۔ تب میں سوچتا کہ کیا حکیم صاحب کو اپنے ہاں بلوا کر میں کسی زیادتی کا مرتکب تو نہیں ہورہا ہوں؟ لیکن پھر جلد ہی مجھ پر خودغرضی غالب آجاتی اور میں حکیم صاحب کی آمد کا تصور کرکے باقی سب کچھ بھول بھال جاتا۔
تقریبات کے آغاز سے ایک شام پہلے جب چراغ جلے، حکیم صاحب، نصیر سلیمی صاحب، صلاح الدین صاحب اور ان کے اہلِ خانہ میرے ہاں تشریف لائے تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری تقریبات کو اکٹھے چار پانچ چاند لگ گئے ہیں۔ حیرت اور مسرت سے گنگ زبان کے ساتھ میں نے ان کا استقبال کیا۔ ہمارے ہاں مہمان اس وقت ایک یلغار کی صورت میں آرہے تھے، اس لیے میں بعد میں حکیم صاحب اور دوسرے احبابِ کراچی کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکا، لیکن میں نے جب بھی اِدھر اُدھر دوڑتے بھاگتے ان حضرات پر ایک نظر ڈالی یہی دیکھا کہ حکیم صاحب میری توجہ سے بے نیاز احبابِ کراچی اور دوسرے مہمانوں کے ساتھ مگن بیٹھے ہیں۔ ان کے چہرے پر بشاشت ہی بشاشت ہے، پیشانی دمک رہی ہے، ہونٹوں پر تبسم کھیل رہا ہے، جو گاہِ بگاہِ خوش گپیوں کے وفور سے ایک دلکش قہقہے میں ڈھل جاتا ہے۔ میں یہ سب کچھ دیکھتا اور پھر مطمئن ہوجاتا کہ میری عدم توجہ حکیم صاحب اور دوسرے احباب کو ناگوار نہیں گزر رہی ہے۔
رات گئے مجھے پتا چلا کہ حکیم صاحب میرے شادی والے بچوں کے لیے ایسے ایسے قیمتی تحفے لائے ہیں جیسے قیمتی تحفے میرا کوئی عزیز بھی نہ لاسکا۔ ان بیش قیمت تحفوں کا بار مجھے اپنی اوقات سے زیادہ ہی محسوس ہوا۔ چنانچہ میں نے حکیم صاحب کے پاس جاکر ان کے کان میں گزارش کی: ’’بچوں کے لیے آپ جو شادی کے تحفے لائے ہیں، ان کے غیرمعمولی بار سے میری کمر دوہری ہوگئی ہے۔ کیا آپ اس کا کچھ بوجھ کم کرکے میری کمر کو ٹوٹنے سے نہیں بچائیں گے؟‘‘ جواب میں حکیم صاحب نے ایک پُرزور قہقہہ لگایا اور بولے ’’جائیے صاحب، جائیے، اور اپنی کمر کو اتنا نازک نہ بنائیے کہ وہ دوچار تولے بوجھ بھی برداشت نہ کرسکے‘‘۔ میں اپنا سا منہ لے کر واپس آگیا، اور گھر والوں سے کہہ دیا کہ حکیم صاحب کے تحفوں کو حرزِ جاں بنالو۔ ایسے بابرکت تحفے خوش نصیبوں ہی کو میسر آتے ہیں۔
جیسا کہ عرض کرچکا ہوں، بچوں کی شادیوں کی یہ تقریب میرے ہاں پہلی مرتبہ ہورہی تھی۔ لہٰذا ناتجربہ کاری کے باعث انتظامات میں کئی خامیاں رہ گئیں۔ مہمانوں کی خاطر مدارات بھی صحیح طور پر نہ ہوسکی۔ اپنی کوتاہیوں پر مجھے قدرتاً سب سے زیادہ ندامت کراچی کے احباب سے محسوس ہورہی تھی جو سب سے طویل سفر کرکے میرے ہاں تشریف لائے تھے۔ پھر یہ بات بھی میرے لیے ایک گونہ قلق کا باعث تھی کہ وہ احباب جن کی قربت اور صحبت میرے لیے ہمیشہ تازگیِ روح کا سامان بنی، اور جن سے ملاقات کی آرزو ہمیشہ دل کو بے تاب رکھتی تھی، اگرچہ میرے غریب خانے میں تشریف فرما تھے، لیکن میں تقریبات کی مصروفیتوں کے باعث ان سے دور رہنے پر مجبور تھا۔ اپنی اس مجبوری پر اظہارِ ندامت کرتے ہوئے میں نے ایک مرتبہ بھاگ دوڑ کے عالم میں موقع پاکر حکیم صاحب سے سرگوشی کے انداز میں کہا ’’حکیم صاحب! کیا آپ اس گنگو تیلی کے دکھ کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جس کے گھر میں راجا بھوج قسم کی کئی ہستیاں مہمان ہوں، لیکن وہ ان کے پاس بیٹھنے سے بھی مجبور ہو‘‘۔ حکیم صاحب دادِ سخن کے انداز میں پہلے مسکرائے اور پھر پیار بھرے لہجے میں آہستہ سے فرمایا: ’’بات تو آپ نے بڑے مزے کی کہی ہے، لیکن بھائی، الحمدللہ! نہ ہم میں سے کوئی راجا بھوج ہے اور نہ آپ گنگو تیلی ہیں۔ ہم تو اپنے گھر میں بیٹھے ہیں اور بس‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس جواب نے میرا منہ جیسے سی ڈالا۔ ادھر حکیم صاحب اہلِ مجلس کے ساتھ پھر خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے اور اُن حضرات نے گویا اطمینان کا سانس لیا جو حکیم صاحب کی شگفتہ بیانی سے لطف اندوز ہورہے تھے، اور جن کی لطف اندوزی میں اپنی متذکرہ سرگوشی سے میں نے خلل ڈال دیا تھا۔
تقریبات کے ان تین یادگار دنوں میں حکیم صاحب کو میں نے جب بھی دیکھا، شادمانی و مسرت کے عروج پر پایا۔ لگتا تھا کہ شادیاں میرے بچوں کی نہیں بلکہ خود اُن کے بچوں کی ہورہی ہیں۔ بعض مجبوریوں کے باعث ہم نے تمام مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام اپنے مکان کی چھت پر شامیانے وغیرہ لگاکر کیا تھا، مجھے یہ معلوم تھا کہ حکیم صاحب کے گھٹنوں میں دیرینہ تکلیف چلی آرہی ہے، لہٰذا جب کھانے کے وقت مہمان چھت پر جانے لگے تو میں نے حکیم صاحب سے عرض کیا کہ ’’آپ تشریف رکھیں، آپ کو کھانا یہیں پیش کردیا جائے گا‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ حکیم صاحب نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
’’آپ کے گھٹنوں میں تکلیف رہتی ہے نا، اس لیے‘‘۔ میں نے وضاحت کی۔
حکیم صاحب یہ سنتے ہی تیزی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے، پھر بولے: ’’واہ صاحب واہ! آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ میں سیڑھیاں نہیں چڑھ سکوں گا! تکلیف رہتی ہے تو کیا ہوا‘‘۔ یہ کہہ کر حکیم صاحب لپک کر سیڑھیوں کی طرف بڑھے، میں نے بھی مزید اصرار کے بجائے ان کا ساتھ دیا۔ پھر پوری بائیس سیڑھیاں چڑھنے کے بعد جب ہم چھت پر پہنچے تو میرا دم پھول چکا تھا۔ لیکن حکیم صاحب کی تروتازگی بدستور قائم تھی جیسے وہ سیڑھیاں چڑھنے کی مشقت اٹھانے کے بجائے کسی شاداب پارک میں چہل قدمی کرکے آئے ہوں۔
چھت پر پہنچ کر حکیم صاحب نے مجھ پر ایک گہری نظر ڈالی، میں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ مجھے ایک معالج کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوں، پھر بولے: ’’آپ مجھ سے پندرہ برس چھوٹے ہیں، پھر آپ نے خود کو اتنا کمزور کیوں بنا رکھا ہے؟ حالات جو بھی ہوں، خوش رہا کیجیے، انسان کی طاقت اور صحت کا اصل منبع خوش باشی ہے اور بس!!‘‘
تقریبات کے ان ایام میں حکیم صاحب نے اپنی خوش باشی، خوش دلی اور خوش طبعی کے جو نقوش میرے گھر کی فضائوں، میرے مہمانوں کے دلوں اور میرے رفقاء اور احباب کے ذہنوں پر رقم کیے، اُن انمٹ نقوش نے ان ایام کو میرا سرمایۂ حیات بنادیا۔ جب میں اپنے احباب، عزیزوں اور مہمانوں کی زبان سے یہ سنتا کہ ’’حکیم صاحب بڑے مزے کے آدمی ہیں‘‘۔ ’’حکیم صاحب بہت پیاری شخصیت ہیں‘‘۔ ’’حکیم صاحب کی پُرلطف باتوں سے طبیعت شاد ہوجاتی ہے‘‘ تو قارئین! میرے لیے بھی اپنے گھر کی طویل سیڑھیاں ایک پارک ہی بن جاتیں۔
یہ پُرمسرت تقریبات تین روز کے بعد ختم ہوگئیں، لیکن ان کے خاتمے اور مہمانوں، نیز حکیم صاحب اور دوسرے احباب کے رخصت ہوجانے کے باوجود میرے دل کی دنیا پر کئی روز بعد تک بھی جشن کا سماں طاری رہا۔ ان ایام کے دوران جو سچی خوشیاں مجھے میسر آئی تھیں، اور روح کا جو حقیقی نشاط مجھے حاصل ہوا تھا، اس نے کئی روز تک مجھے سرشار رکھا، اور سرشاری کی اس کیفیت نے اُس تکان کو میرے قریب بھی پھٹکنے نہ دیا جو ایسی ہنگامہ خیز تقریبات کے بعد بالعموم گھر والوں پر نازل ہوجاتی ہے۔ تاہم مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ میری مسرتوں کا یہ عروج ایک جگر شق کردینے والے غم کی تمہید ہے اور میری روح کا غیرمعمولی نشاط دراصل ایک روح فرسا صدمے کا حرفِ آغاز ہے۔
میرے ہاں شادیوں کی تقریبات کے بعد مشکل سے آٹھ ہی دن گزرے تھے کہ روشنیوں کا پیامبر روزنامہ ’’جسارت‘‘ جب ہمارے ہاں آیا تو اسے دیکھتے ہی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا… اُس روز ’’جسارت‘‘ کے صفحۂ اوّل پر سیاہ حاشیے میں یہ خبر درج تھی کہ ’’حکیم اقبال حسین، حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال فرما گئے!‘‘ قارئین اس خبر نے بخدا ’’اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے!‘‘
یہ خبر پڑھ کر سارے گھر کی رونق ایک دم ماند پڑ گئی جیسے کسی نے عین جگمگ جگمگ کے عالم میں گھر کا مین سوئچ آف کردیا ہو۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، جیسے دوسرے سے پوچھ رہے ہوں، ’’یہ کیا ہوا، اور ایسا کیوں ہوا؟‘‘
میرا بیٹا جاویدؔ احمد اُس روز ملتان گیا ہوا تھا، یہ خبر اس نے وہیں پڑھی، اور پھر اپنے اور میرے جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس نے فوراً کراچی جانے والے پہلے جہاز پر دو سیٹیں بک کرالیں۔
اگلے روز دوپہر سے قبل میں اور جاویدؔ کراچی کے لیے روانہ ہوئے، راستے بھر میں گم صم بیٹھا رہا۔ جہاز تیزی سے محوِ پرواز تھا اور گھنٹوں کے فاصلے منٹوں میں طے کررہا تھا، لیکن میں اس کے اندر بیٹھا یہی محسوس کررہا تھا کہ گویا اپنی جگہ پچک کر رہ گیا ہوں، غم کا بھاری پتھر سر اٹھانے ہی نہ دیتا تھا، ذہن کو مختلف خیالات اتھل پتھل کررہے تھے، جیسے وہ یہاں سے دوسرا ہر نقش مٹا ڈالنا چاہتے ہوں۔ کبھی خیال آتا کہ کیا یہ ضروری تھا کہ اپنے آخرت کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اِس دنیا کا آخری سفر حکیم صاحب میرے گھر تک کریں، اور اس طرح اپنی پُرمسرت تشریف آوری کو میرے لیے دائمی غم بنا دیں! کبھی خیال آتا کہ حکیم صاحب کی آخری تشریف آوری کے موقع پر میں کیوں اُن سے دور دور رہا، کیوں اس موقع سے دل شاد نہ کیا جو اَب زندگی بھر کبھی نہ آئے گا۔ کبھی خیال آتا کہ حکیم صاحب جو ساری عمر مجھے خوشیوں سے شادکام کرتے رہے، اور میرے علاوہ سیکڑوں لوگوں میں مسرتوں کا ارمغان بانٹتے رہے، انہوں نے یہ کیونکر پسند کیا کہ خوشیوں کے بجائے وہ اب دلوں میں غم کی سوغات بانٹیں گے، اور دلوں کو مسرور کرنے کے بجائے وہ اب انہیں اپنی جدائی سے مہجور کریں گے۔ اخبار میں ان کی موت کا سبب دل کا مرض بتایا گیا تھا، اس پر جب مجھے یہ خیال آتا کہ کس طرح حکیم صاحب میرے گھر کی بائیس سیڑھیاں نہایت اطمینان کے ساتھ چڑھ گئے اور بدستور ہشاش بشاش رہے، تو اخبار کے بیان پر مجھے بہت تعجب محسوس ہوتا۔ تاہم مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ کراچی جاکر مجھے اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بلکہ دل و دماغ میں سناٹا بپا کردینے والی خبر سننے کو ملے گی۔
میں اور جاویدؔ جب کراچی پہنچے تو ایئرپورٹ پر برادرِ عزیز صلاح الدین صاحب اور نصیر احمد سلیمی صاحب ہمارے منتظر تھے۔ ’’کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ میں نے ان سے معانقہ کیا۔ اُدھر دونوں حضرات کے لُٹے لٹے اور سُتے سُتے چہرے صاف یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے دل اگرچہ اندر سے خون کے آنسو رو رہے ہیں، لیکن ہماری زبانوں پر صبر کا قفل لگا ہے، اس لیے کہ بندے کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ اپنے مولا کے ہر حکم کے آگے خاموشی سے سر جھکا دے اور اُف تک نہ کرے۔
ایئرپورٹ سے حکیم صاحب کے گھر تک کے سفر کے دوران صلاح الدین صاحب نے مجھے بتایا کہ ’’جس روز ہمیں آپ کی تقریبات میں شمولیت کے لیے کراچی سے روانہ ہونا تھا، اُس روز صبح کے وقت حکیم صاحب کے بڑے بھائی صاحب کا کراچی میں انتقال ہوگیا، جب ہم مرحوم کی تدفین سے فارغ ہوئے تو میں نے حکیم صاحب سے پوچھا کہ ’’اب تو آپ ہمارے ساتھ ملتان نہیں جاسکیں گے؟‘‘ اس پر حکیم صاحب نے فرمایا ’’جی نہیں، مجھے ملتان بہرحال جانا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ جس شخص نے وہاں مجھے اپنے بچوں کی شادیوں میں بلایا ہے، مجھے اُس کے ساتھ دلی محبت ہے، اور دوسرے اس لیے کہ اگر میں وہاں نہ گیا تو وہ لوگ آپ سے پوچھیں گے کہ حکیم صاحب کیوں نہیں آئے؟ اس کے دو ہی جواب ممکن ہیں، ایک تو یہ کہ آپ اصل وجہ کے بجائے کوئی اور وجہ بتادیں جو بہرحال جھوٹ ہوگا، جسے نہ آپ پسند کریں گے نہ میں۔ دوسری صورت یہی ہوسکتی ہے کہ آپ انہیں صاف بتادیں کہ میں اس سانحے کی وجہ سے نہیں آسکا ہوں، جس کا نتیجہ بہرحال یہی ہوگا کہ ان لوگوں کے دل ملول ہوجائیں گے۔ اب میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ایک شخص جس کے ساتھ مجھے دلی محبت ہے، اُس کی زندگی میں پہلی مرتبہ بچوں کی شادیوں کا پُرمسرت موقع آرہا ہے اور میں اس پُرمسرت موقع کو کسی بھی وجہ سے داغدار کرنے کا سبب بن جائوں۔ اس لیے میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ میں آپ لوگوں کے ساتھ ملتان ضرور جائوں گا‘‘۔
قارئین! صلاح الدین صاحب کی بیان کردہ یہ روداد سن کر کس کافر کا دل و دماغ سناٹے میں نہ آئے گا؟ چنانچہ میں نے جب یہ روداد سنی تو یوں محسوس ہوا جیسے میرے آس پاس سے سب کچھ گم ہوگیا ہے، جیسے مفاد پرستی اور اغراض پرستی میں اَٹی اور لتھڑی ہوئی یہ دنیا حرفِ غلط کی طرح نگاہوں کے سامنے سے محو ہوگئی ہے اور اس کی جگہ وہ دنیا حیاتِ تازہ پاکر وجود میں آگئی ہے، جسے ہم نے تاریخ کے صفحات میں دفن کررکھا ہے۔ سامنے گاڑی کی ونڈ اسکرین پر میرے تخیل نے حکیم صاحب کا وجیہ، پُرنور اور پُرتقدس چہرہ ابھارا، اور میری آنکھیں عقیدت کے موتیوں سے جگمگانے لگیں۔
اُدھر صلاح الدین صاحب نے فرمایا کہ ’’حکیم صاحب نے اپنا یہ فیصلہ اس انداز میں سنایا کہ ہمارے لیے کچھ قیل و قال کی گنجائش نہ رہی۔ بہرحال ادھر ہم گھر واپس آکر اسٹیشن پر پہنچے اور حکیم صاحب بھی شادیوں کے تحائف سے لدے پھندے وہاں تشریف لے آئے‘‘۔
صلاح الدین صاحب کی پُرسوز اور ملائم آواز میرے کانوں میں دور سے ابھرنے والے ایک درد بھرے نغمے کی مانند آرہی تھی، جیسے کوئی غم سے تپاں دل پر شبنم کے قطرے ٹپکا رہا ہو۔ صلاح الدین صاحب اپنے اسی شبنمی لہجے میں کہہ رہے تھے کہ ’’کراچی سے گاڑی میں سوار ہونے کے بعد سارے سفر کے دوران حکیم صاحب ہمیں بار بار یہ تلقین فرماتے رہے کہ دیکھنا! وہاں جانے پر میرے بھائی صاحب کی وفات کے سانحے کی گھر والوں کو ہوا بھی نہ لگنے دینا، ورنہ میرے وہاں جانے کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا‘‘۔ صلاح الدین صاحب کا کہنا تھا کہ ’’یہ ہدایت حکیم صاحب نے خاص طور پر خواتین کو یہ کہہ کر فرمائی کہ آپ لوگوں کے دلوں میں عموماً کوئی بات نہیں ٹھیرا کرتی، لہٰذا میں آپ سب کو خصوصی احتیاط برتنے کی تاکید کرتا ہوں‘‘۔ صلاح الدین صاحب نے فرمایا کہ ’’خدا کا شکر ہے، ہم سب نے آپ کے ہاں قیام کے دوران حکیم صاحب کی اس ہدایت کی پوری پوری تعمیل کی‘‘۔
صلاح الدین صاحب کی یہ ساری گفتگو میں مکمل خاموشی سے سنتا رہا، یہی حال میرے بیٹے جاوید کا تھا۔ قارئین! آپ ہی انصاف کیجیے کہ حکیم صاحب کی محیرالعقول عظمتِ کردار نے ہمیں بولنے کے قابل چھوڑا ہی کب تھا!
ہم حکیم صاحب کے گھر پہنچے تو اس کے در و دیوار سے اداسی کو کچھ اس طرح جھانکتے ہوئے پایا جیسے اِس گھر کی اصل مکین وہی ہو۔ حکیم صاحب کے بیٹوں منصور صاحب اور ڈاکٹر خالد صاحب سے ملاقات ہوئی تو دل کا آبلہ آنکھوں کے راستے پھوٹ بہا۔ منصور اور خالد مجھے کشاں کشاں اپنے ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ یہ وہی ڈرائنگ روم تھا جہاں میں حکیم صاحب کے ساتھ کئی مرتبہ بیٹھ چکا تھا۔ اس کی تمام اشیاء میری پرانی شناسا تھیں، لیکن اس روز ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ہر شے نے اپنا حسن کھو دیا ہے۔ کمرے کی ہر شے مجھے مُردہ مُردہ نظر آرہی تھی جیسے اس کی ممی تیار کرکے وہاں رکھ دی گئی ہو۔ حکیم صاحب کی کوئی تصویر کمرے میں موجود نہ تھی لیکن جس طرح شاہی قلعہ لاہور کے شیش محل کے اندر ایک دیا سلائی جلانے سے آسمان کے اَن گنت ستاروں کی مانند دیواروں پر چاروں طرف اس دیا سلائی کی لاتعداد تصویریں جھلملانے لگتی ہیں، اُسی طرح جب میں ذہن میں کسی پرانی یاد کی دیا سلائی جلاتا، تو حکیم صاحب کی لاتعداد تصویریں کمرے کی تمام دیواروں پر ایک دم جھلملانے لگتیں۔
تادیر میں وہاں بیٹھا منصور میاں اور خالد سے تعزیت کرنے کے بجائے خود اُن سے اپنی تعزیت کراتا رہا۔ آخرکار میں نے حکیم صاحب کی آخری آرام گاہ پر حاضری کی خواہش ظاہر کی۔
شام کے آخری اوقات میں ہم کراچی کے سخی حسن قبرستان میں پہنچے۔ یہ ایک وسیع و عریض قبرستان تھا جس میں دور دور تک اونچی نیچی قبریں خود رَو جھاڑیوں کی مانند پھیلی ہوئی تھیں۔ قبرستان میں نیچے سطح زمین پر دلدوز تنہائیوں نے ایک بھیڑ لگا رکھی تھی اور اوپر فضا میں ایک سوگوار سناٹا معلق ہوکر رہ گیا تھا۔ بوجھل قدموں کے ساتھ ہم قبرستان میں داخل ہوئے اور پھر قبروں کی کچی اور پکی ڈھیریوں کے بیچ میں سے راستہ بناتے ہوئے ہم نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ چاروں طرف عجب ہُو کا عالم طاری تھا، جسے کسی تازہ قبر کے سرہانے ایستادہ کسی خاتون یا مرد کی سسکی گاہ بگاہ چیر دیتی تھی۔ اپنے بسیرے کی تلاش میں پرندوں کی دنیا کے کسی بھٹکے ہوئے راہی کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ، ہمارے قدموں کی دھیمی چاپ اور پیاروں کی مفارقت کا زخم کھانے والوں کی سسکیاں… اُس وقت بس انہی تین ذریعوں سے اس شہرِ خموشاں میں ہمارا رشتہ زندگی کی دھڑکنوں سے قائم تھا۔ جہاں تہاں قبروں پر پھیلی ہوئی پھولوں کی تازہ اور باسی پتیاں، قبروں کی مٹی کی تہوں میں اُبھری ہوئی، اور ان کے تعویذوں میں اٹکی ہوئی روشن اور بجھی ہوئی کافوری اگربتیاں، یعنی دائمی جدائی کے لازوال غم کے شکار دلوں کے جی بہلاوے… نگاہوں میں عبرت کے رنگ بھر رہے تھے… کسی قبر کی ڈھلان سے نیچے بکھر جانے والی پھولوں کی پتیوں پر میرا قدم انجانے میں پڑ جاتا تو میں کانپ جاتا، جیسے میں نے کسی مجسم جذبۂ محبت کو روند ڈالنے کا گناہ کر ڈالا ہو۔
چلتے چلتے منصور صاحب کے قدم ایک جگہ رک گئے، ایک لمبی سی تازہ قبر ہمارے سامنے تھی، ایک دم مجھے دھچکا سا لگا اور اس کے ساتھ ہی حکیم صاحب کا قد ِ دراز یاد آگیا۔ ایک مصرع میرے ذہن میں گونجا:
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
منصور اور خالد میاں نے اپنے دعائوں کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں میں اپنے منہ چھپا لیے اور اُن کی سسکیوں کے تیر میرے دل میں پیوست ہونے لگے، شدتِ کرب سے میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
قارئین! زندگی بھر حکیم صاحب سے میری ایسی ملاقات کبھی نہ ہوئی تھی، جیسی اُس شام سخی حسن قبرستان میں ہوئی۔ یہ ایک انوکھی ملاقات تھی، جس میں میرے دہن کی زبان بند ہوگئی تھی، لیکن اس کے بجائے میرے سارے لرزیدہ بدن کو قوتِ گویائی مل گئی تھی۔ اور اپنی اس قدِ آدم زبان کے ذریعے میں حکیم صاحب سے محوِ کلام تھا لیکن معلوم نہیں، وہ اپنی نئی آرام گاہ میں بہت ہی میٹھی نیند سو رہے تھے، یا پھر شہرِ خموشاں کی ریت نبھا رہے تھے کہ انہوں نے کچھ سن کر ہی نہ دیا۔
جھٹپٹے کی فضائوں پر شام کا سرمئی اندھیرا غالب آرہا تھا۔ لیکن میرا دل تپشِ غم سے فروزاں تھا۔ اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ میں نے دعا کے لیے اٹھائے، لیکن جلد ہی ان میں اپنا منہ چھپا لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ تب قبرستان کے پُرہول سناٹے کو چیرنے کے لیے کچھ سسکیاں میں نے بھی بے اختیار نذر کردیں۔ عین اس لمحے مغرب کی اذان فضا میں گونجی، اور ہم اس عظیم و جلیل ہستی کے بلاوے پر قبرستان سے لوٹ آئے، جس کے بلاوے ہی پر ایک روز ہمیں خود اُس کے پاس لوٹ جانا ہے۔
قارئین! اِس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، حکیم اقبال حسین صاحب کے سانحۂ وفات پر تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کہتے ہیں وقت کا مرہم کئی زخموں کو بھر دیتا ہے۔ تاہم اس کا کیا کروں کہ حکیم صاحب کی وفات کے سانحے نے جو گھائو میرے دل میں ڈالا تھا، ایک طویل عرصہ بیت جانے کے بعد بھی وہ ہنوز تازہ ہے۔ جب بھی تنہا بیٹھتا ہوں، حکیم صاحب اپنے کردار کی تمام رفعتوں اور عظمتوں کے ساتھ میری یادوں کے ایوان میں آکر فروکش ہوجاتے ہیں، اور اپنے ناقابلِ فراموش احسانات کی ادائوں سے مجھے تڑپاتے ہیں۔ وہ اُن کا میری درخواست پر میرے بچوں کی شادیوں میں ایک دور دراز سفر کرکے کراچی سے آنا، اس موقع پر اپنے برادرِ بزرگ کی رحلت کے باوجود اس سفر کو منسوخ نہ کرنا، محض میری خوشیوں کو کسی داغ سے بچانے کی خاطر عزیز و اقارب کے اعتراضات کا خطرہ مول لینا، اپنے عظیم غم کو نظرانداز کرکے مجھ ناچیز کے ہاں ہونے والی تقاریبِ مسرت میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ شگفتہ و شادماں چہرے کے ساتھ شریک ہونا، اس دوران اپنے سانحۂ غم انگیز کی پرچھائیں تک سے مجھے محفوظ رکھ کر پورے تین دن میرے ہاں قیام کرکے، اور اپنی شفاف محبت، شفقت، خلوص اور بھرپور اظہارِ یگانگت کے ذریعے میرے روئیں روئیں کو شاد کرکے مجھ سے رخصت ہونا… یہ سب مجھے ذرا ذرا یاد آجاتا ہے۔
میرے بچوں کی شادیوں میں مہمان میرے ہاں تو اور بھی بہت آئے، لیکن حکیم اقبال صاحب جس عظیم الشان کردار کے ساتھ میرے مہمان ہوئے، اس کے بعد اُن کی مفارقت کا صدمہ میں بھلائوں تو کیسے…؟
حکیم صاحب کی عظمتِ کردار کا تو میں تیس سال سے معترف بھی تھا، اور اس سے متاثر بھی… لیکن وہ جن حالات میں میرے بچوں کی شادیوں میں تشریف لائے، اُس کا خیال آتا ہے تو ان کے کردار کی رفعت اور ان کی شانِ وضعداری کے کمال کو میں حدِ نظر سے ماورا پاتا ہوں۔ ایسا کردار اور ایسی وضعداری قصے کہانیوں کی کتابوں یا افسانوں اور داستانوں میں تو شاید نظر آجائے، لیکن کیا اس حقیقی دنیا میں بھی اس کی نظیر مل سکتی ہے؟ کم از کم میں اس سوال کا جواب اثبات میں دینے سے قاصر ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ حکیم صاحب نے میرے معاملے میں کمالِ محبت اور کمالِ وضعداری کا بے نظیر اظہار کرکے ایک افسانوی کردار کو حقیقت کے روپ میں ڈھال دیا۔
ایک عرصے تک میں اس گمان میں کچھ زیادہ ہی مبتلا رہا کہ حکیم صاحب شاید مجھ ہی سے خصوصی محبت فرماتے ہیں، لیکن ان کی وفات کے بعد کراچی جانے پر مجھے معلوم ہوا کہ حکیم صاحب کی انجمنِ محبت کا دائرہ بہت وسیع تھا اور ایک میرا ہی دل نہیں، بلکہ سیکڑوں دوسرے لوگوں کے دل بھی انہوں نے اپنے بے پناہ جذبۂ محبت و اخلاص سے تسخیر کرکے اپنے قابو میں کر رکھے تھے۔ ان میں حکیم صاحب کے قریبی احباب بھی شامل تھے، اور جماعتی رفقاء بھی۔ ان کے مریض بھی شامل تھے اور ان کے عام مداح بھی۔ حکیم صاحب دنیاوی لحاظ سے کوئی بڑے آدمی نہ تھے، اس کے باوجود کراچی جیسے مصروف ترین اور مشینی شہر میں ان کے جنازے کے اندر قسم ہا قسم کے لوگوں پر مشتمل سوگواروں کا جو زبردست ہجوم دیکھنے میں آیا، وہ ان کی شخصیت کی دلآویزی اور محبوبیت کا ایک واضح ثبوت تھا اور غالبؔ کے اس مصرع کی صداقت کا بھی، جسے میں اپنی اس تحریر کے آغاز میں نقل کرچکا ہوں اور جس میں اس نے اپنے محبوب کی اس شانِ محبوبی کی عکاسی کی ہے کہ وہ بیک وقت دوسروں کے سیکڑوں دل سینوں سے نکال کر اپنی ایک کفِ دست میں سجا لیا کرتا تھا!
حکیم اقبال حسین صاحب ایک باعمل مسلمان کے ساتھ ہی ایک باعمل طبیب بھی تھے، وہ دوسروں کو جن طبی اصولوں کی پیروی کی تلقین فرماتے، خود بھی ان پر عمل پیرا ہوتے۔ برقراریِ صحت کے لیے ایک طبی اصول تیز روی کا بھی ہے۔ حکیم صاحب اس اصول کے تحت تیز تیز چلنے کے بہت عادی تھے اور کئی ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ جاتے تھے۔ موت کی سرحد کو عبور کرتے وقت بھی انہوں نے اپنی تیز روی کی اس عادت کو برقرار رکھا۔ دفعتاً پلک جھپکنے کے دوران وہ کئی ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر، عالمِ آخرت کو سدھار گئے، اور داعیِ اجل کا بلاوا سنتے ہی اس پر نہایت مستعدی کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے وہ آناً فاناً اپنے خالق سے جاملے!
نہ کوئی عارضہ نہ مرض، نہ کوئی دکھ نہ تکلیف، نہ ہائے نہ وائے… عین صحت مندی کے عالم میں وہ اپنے دوستوں، عزیزوں، رفیقوں اور مداحوں کی کثیر تعداد کو ہکابکا چھوڑ کر اس دنیائے فانی سے چل دیے۔ قارئین! حکیم صاحب جس ناگہانی انداز میں بزمِ جہاں سے رخصت ہوئے، اس نے دلوں کو حیرت زدہ ہی نہیں کیا، بلکہ ایک مہیب خلاء بھی ان کے اندر پیدا کردیا۔ نفسانفسی اور اغراض پرستی کے بدبودار کیچڑ سے لت پت جدید معاشرے میں حکیم اقبال حسین ایک شگفتہ کنول کی مانند تھے۔ محبت کی مہک، خلوص کی پاکیزگی اور شریعت کی تازگی و نزہت کے ساتھ وہ مایوس و افسردہ دلوں کے لیے اُمید کی حرارت اور توانائی کا مخزن تھے… اور حسرت و یاس سے دھندلائی ہوئی آنکھوں کے لیے روشنی اور طراوت کا سامان۔
حکیم اقبال حسین درحقیقت ایک دلکش و دلآویز وجود تھے۔ ایسا فرحت بخش وجود، جس کو دیکھ کر، جس سے مل کر، جس کی محبت سے فیض یاب ہوکر، یہ دنیا… یہ متعفن دنیا… رہنے کے قابل نظر آتی تھی۔ افسوس! میں اس فرحت بخش، زندگی آموز اور زندگی افروز وجود سے تعلق کی نعمت سے محروم ہوگیا۔ برادرم صلاح الدین صاحب نے حکیم صاحب کی وفات پر جو تعزیتی مضمون لکھا تھا، اس میں انہوں نے یہ لکھ کر گویا میرے ہی دل کی ترجمانی کی تھی کہ حکیم اقبال حسین جیسے پُرشفقت، پُرمحبت اور پُرخلوص لوگ یقیناً اس دنیا میں اور بھی ہوں گے، لیکن ہمارا دکھ تو یہ ہے کہ ہم ایسا وجود دوبارہ نہیں پاسکیں گے۔ آہ!
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے!
(ختم شد!)
22 مئی 1983ءa