بسمل آرٹس کونسل کا مشاعرہ

90

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے تعاون سے بسمل آرٹس کونسل کراچی نے ڈاکٹر ذاکر حسین عادل کی صدارت میں ایک مشاعرہ ترتیب دیا جس کے مہمان خصوصی ابوظہبی سے تشریف لائے ہوئے شاعر ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی تھے، جب کہ راقم الحروف ڈاکٹر نثار مہمانِ اعزازی تھے۔ بسمل آرٹس کونسل کے کنوینر تنویر سخن نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے علاوہ خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی نے ہمارے مشاعرے کے لیے ہم سے تعاون کیا جس پر ہم اُن کے شکر گزار ہیں۔ بلاشبہ یہ ادارہ اردو، سندھی تقریبات آرگنائز کررہا ہے۔ اس وقت معاشرے میں جو ناانصافیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کے خلاف آواز بلند کرنی ہے۔ شاعری میں سچائیاں لکھنا اس وقت کی ضرورت ہے۔ اب شاعری میں جھوٹ و غلو نہیں چلتا۔ شاعری میں موجودہ زمانہ موجود ہونا چاہیے۔ شاعر اپنے حالات اور تجربات لکھتا ہے۔

محمد ابراہیم بسمل نے کہا کہ ہماری تنظیم ایک غیر سیاسی ادارہ ہے، ہم اپنی مدد آپ کے تحت یہ ادارہ چلا رہے ہیں اور طویل عرصے سے ادب کی خدمت کررہے ہیں، ہمارا مقصد بھی اردو کی ترقی ہے لیکن ہم سندھی زبان کے مخالف نہیں ہیں، ہم اردو سندھی مشاعرے بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم آج کے سامعین اور شعرائے کرام کے ممنون و مشکور ہیں جنہوں نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ ڈاکٹر فاروق العرشی نے کہا کہ میں بنیادی طور پر عرب ہوں لیکن مجھے اردو سے محبت ہے۔ میں نے اردو کی ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل سے مجھے بہت پیار ہے، یہ وہ صنفِ سخن ہے جس کے دو مصرعوں میں ہم بڑے سے بڑا مسئلہ بیان کردیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں طنز و مزاح بہت توجہ سے سنا جاتا ہے، اس میدان میں بہت کم شعرا ہوتے ہیں، یہ ایک مشکل صنفِ سخن ہے۔ دبستانِ کراچی تو تمام شہروں سے بڑا ہے، یہاں ہر نسل اور زبان کا شاعر موجود ہے، یہ شہر زندہ دلوں کا شہر ہے، یہاں نوجوان نسل بھی بہت عمدہ اشعار کہہ رہی ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین عادل نے کہا کہ آج پاکستان بہت سے مسائل کا شکار ہے، ہمارے دشمن ہمیں نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں، ہر اچھا پاکستانی چاہتا ہے کہ ہمارا ملک ترقی کرے۔ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے ہمارے حالاتِ زندگی بہتر نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، ہم اس ملک میں آزاد ہیں۔ آیئے آج عہد کریں کہ ہم پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ شامل کرتے رہیں گے۔

اقبال ڈھیراج نے کہا کہ جب سے اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا چارج سنبھالا ہے‘ میں اردو، سندھی ادب کی پروموشن کررہا ہوں‘ ہمارا ادارہ کراچی کے ہر ادبی ادارے کے لیے حاضر ہے، وہ ہمارے تعاون سے اپنا پروگرام مرتب کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھی ہماری صوبائی زبان ہے، اس کی ترقی لازمی ہے، لیکن اردو ہماری قومی زبان ہے، ہم اس زبان کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کے علاوہ ہر ملک میں بولی جارہی ہے۔
مشاعرے میں ڈاکٹر ذاکر حسین عادل، ڈاکٹر فاروق العرشی، راقم الحروف ڈاکٹر نثار، اختر ہاشمی، ظفر بلوچ، آسی سلطان، سرور چوہان، الحاج نجمی، حامد علی سید، افضل ہزاروی، شجاع الزماں شاد، ذوالفقار حیدر پرواز، عروج واسطی، افسر علی افسر، تنویرسخن، تاج علی رانا اور طلحہ خان نے کلام پیش کیے۔

حصہ