ہوشیار

15

فون کی گھنٹی بہت دیر سے بج رہی تھی۔ عموماً احمد صاحب آفس میں غیر متعلقہ نمبر سے آنے والی کال ریسیو نہیں کرتے تھے لیکن مسلسل بجتی گھنٹی نے انہیں فون اٹھانے پر مجبور کردیا۔ فون سنتے ہی ان کی حالت غیر ہونے لگی۔

پاس بیٹھے ماجد صاحب نے انہیں سہارا دے کر کرسی پر بٹھایا تو انہوں نے لڑکھڑاتی آواز میں پانی مانگا۔ جب اوسان بحال ہوئے تو انہوں نے بتایا:

’’تھانے سے ایس ایچ او کی کال تھی، کہہ رہا تھا ہم نے آپ کے بیٹے کو چار لڑکوں کے ہمراہ ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کیا ہے لیکن آپ کا بیٹا تو بڑا ہی معصوم لگ رہا ہے لیجیے اس سے بات کیجیے… پھر اس نے فون میرے بیٹے کو تھما دیا، وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا: پاپا! پلیز مجھے یہاں سے لے جائیں، یہ لوگ مجھے بہت مار رہے ہیں… پاپا! میں بے گناہ ہوں، میں نے کچھ نہیں کیا… وہ مسلسل رو رہا تھا پھر اس نے کال ختم کردی۔‘‘

فون پر بیٹے کی آواز سنتے ہی احمد صاحب کے ہوش اُڑ گئے، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں! اس سے پہلے کہ ان کی طبیعت مزید خراب ہوتی، ان کے دوست نے کہا ’’ارے پریشان مت ہوں، آج کل بہت فراڈ ہورہے ہیں۔ آپ فوراً اپنے بیٹے سے رابطہ کریں۔‘‘

احمد صاحب نے جب کال کی تو ان کے بیٹے نے فون اٹھایا۔ انہوں نے بے قرار ہوکر پوچھا ’’اسد بیٹا! تم کہاں ہو…؟ خیریت سے تو ہو نا؟‘‘

’’جی پاپا! میں ٹھیک ہوں۔ آج گھر پر ہی ہوں، طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو یونیورسٹی سے چھٹی کرلی تھی، لیکن آپ پریشان کیوں لگ رہے ہیں؟‘‘ اس نے فکرمندی سے پوچھا۔

’’نہیں کوئی خاص بات نہیں…‘‘ احمد صاحب نے مطمئن ہوتے ہوئے جواب دیا۔

’’پاپا کچھ دیر پہلے میرے موبائل پر آپ کے کسی دوست کی کال آئی تھی تو میں نے ان کو آپ کا نمبر دے دیا ہے۔‘‘

اسد نے جب انہیں یہ بتایا تو ساری کہانی ان کی سمجھ میں آگئی کہ کس طرح پہلے ان کے بیٹے کو کال کرکے اس کی آواز اور ان کا نمبر حاصل کیا گیا، پھر اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے کسی اور کی آواز کو وائس چینجر کے ذریعے ان کے بیٹے کی آواز میں تبدیل کرکے انہیں سنایا گیا تاکہ وہ بھاگتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے مطلوبہ مقام پر پہنچیں تو انہیں اغوا کرلیا جائے اور پھر گھر والوں سے تاوان وصول کیا جائے۔ وہ تو بھلا ہو احمد صاحب کے دوست کا، جنہوں نے گھر فون کرنے کا مشورہ دیا اور وہ کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے سے بچ گئے۔

گھر پہنچ کر جب انہوں نے سارا ماجرا سنایا تو ان کی بیگم بھی پریشان ہوگئیں۔ بیٹا جو کہ انجینئرنگ کا طالب علم تھا، کہنے لگا ’’ارے پاپا یہ اکیسویں صدی ہے، ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں جہاں اب ہر طرف آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا راج ہوگا۔ بیسویں صدی کی ایجادات اب پرانی اور متروک ہوتی جارہی ہیں، ان کی جگہ جدید اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز لے رہی ہیں۔ آج سے 50 سال پہلے جو چیزیں ناممکن تھیں وہ سب اب ایک کلک پر ممکن ہیں۔ ایسی ایسی مشینیں ایجاد ہوچکی ہیں جو انسان کے سچ اور جھوٹ کو جانچ لیتی ہیں۔ اب کسی کی بھی آواز کو کسی دوسرے شخص کی آواز میں تبدیل کرنا، فیک وڈیو بنانا کچھ بھی مشکل نہیں۔‘‘

احمد صاحب اور ان کی بیگم حیرت سے منہ کھولے بیٹے کی باتیں سنتے رہے۔ ’’ہمارے باپ دادا نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ چار مختلف ممالک کے رہنے والے افراد ایک ہی وقت میں وڈیو لنک کے ذریعے آپس میں بات کرسکتے ہیں یا آن لائن کلاس لے سکتے ہیں۔‘‘

اسد کی امی کہنے لگیں ’’ہاں بیٹا! ترقی کا سفر تو ہر لمحے جاری ہے۔ اب وہ دور گیا جب لمبی لمبی لائنیں لگا کر ہم بل جمع کروایا کرتے تھے، اب تو بس ایک کلک پہ آن لائن بینکنگ کے ذریعے سارے بل جمع ہوجاتے ہیں، گھر بیٹھے خریداری ہوجاتی ہے۔‘‘
’’جی ہاں امی جان! اس کے علاوہ ایسی ایسی پروگرامنگ متعارف کروا دی گئی ہیں کہ ہم کہیں بھی ہوں وہاں سے اپنے گھر کا دروازہ، فریج ،ٹی وی سب آپریٹ کرسکتے ہیں۔ ہر روز ایک نئی ایجاد پچھلی ایجاد کو پیچھے چھوڑ رہی ہے۔‘‘
احمد صاحب کے ذہن سے اب تک صبح کا واقعہ محو نہیں ہوا تھا، بیٹے کی زبانی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب کی باتیں سن کر کہنے لگے ’’بیٹا! لگتا ہے وہ دور آہی گیا ہے جس کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

حصہ