برکت

16

’’ایک منٹ، ایک منٹ… ہاں بھائی یہاں سائیڈ پرموٹر سائیکل روک ذرا، چل کاغذات چیک کرا، جلدی۔‘‘

سفید اجلی وردی میں ملبوس ٹریفک اہلکار نے نوعمر لڑکے کو روکا تو وہ گھبرا کر رہ گیا۔

’’سر! میں جلدی میں کاغذات تو لانا بھول گیا، مجھے جانے دیں، میری کلاس شروع ہونے والی ہے۔‘‘

نو عمر لڑکے کی التجا پر اس کے ماتھے کے بل میں اضافہ ہوا۔

’’اچھا، پھر کاٹتا ہوں تیرا چالان… نکال اپنا شناختی کارڈ۔‘‘ وہ غصے سے چلّایا۔

نوعمر لڑکے نے سیکنڈ سے بھی پہلے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک مڑا تڑا پچاس کا نوٹ نکال کر اس کی مٹھی میں دبا دیا۔

’’نا… نا، اس سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ اس نے گردن دائیں بائیں ہلادی۔

’’دیکھیں سر! مجھے پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے، یہ لے لیں، مجھے جانے دیں۔‘‘ اس نے دبا دبا احتجاج کیا، مگر وہاں تو شدید بے حسی طاری تھی۔ چارو ناچار اس نے مزید ایک سو کا میلا سا نوٹ اسے پکڑایا جسے اس ٹریفک اہلکار نے اُس پر احسان کرتے ہوئے پکڑ لیا اور بولا ’’آئندہ خیال رکھنا۔‘‘ اسے آگے کی جانب راستہ دیا اور اگلا شکار ڈھونڈنے لگا۔

اب اس کی نظر ایک کار پر تھی۔ ’’اِدھر سائیڈ پر لگا۔‘‘

’’سر جی! اس وقت جلدی میں ہوں، والدہ اسپتال میں ہیں، پریشان ہوں جانے دیں۔‘‘ کار والا منمنایا۔

’’چلے جانا بھائی! پہلے کاغذات دکھائو۔‘‘

’’یہ لیں، کاغذات تو پورے ہیں۔‘‘ کار والے نے جلدی جلدی کاغذات دکھائے۔

’’اچھا… اچھا ٹھیک ہے، چالان تو پھر بھی بھرنا پڑے گا، سیٹ بیلٹ کیوں نہیں لگائی ہے؟‘‘ ٹریفک اہلکار نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ گڑبڑا گیا اور فوراً بیلٹ لگاتے ہوئے اسے کچھ پیسے پکڑائے اور جلدی سے نکل جانے میں عافیت جانی۔

پورے پانچ سو روپے دیکھ اس کی آنکھوں میں چمک دوڑ گئی۔ اب پھر سے اس کی نظریں سڑک پر دوڑ رہی تھیں۔

’’ابو! یونیورسٹی کی فیس بھرنی ہے اور مجھے کچھ کتابیں اور اضافی خرچے کے لیے پیسے بھی چاہئیں۔‘‘ اس کے گھر آتے ہی جیسے صائم اسی کا منتظر تھا۔ وہ چھوٹا سا صائم جس کا قد اب اس سے بھی زیادہ لمبا ہورہا تھا، اس کی ہر خواہش پوری کرنا ہی تو اس کی اوّلین ترجیح تھی۔ اس نے سر ہلایا ’’اب کل سے اور زیادہ محنت‘‘۔ اس نے دل میں سوچا۔

’’پتا نہیں میری کمائی میں برکت کیوں نہیں!‘‘ وہ بڑبڑایا۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی دماغ مسلسل جوڑ توڑ میں مصروف تھا۔

’’ارے میں تو بتانا ہی بھول گئی، فرزانہ کو کھانا کھاتے میں یاد آیا ’’اس اتوار زیبی کو دیکھنے آرہے ہیں کچھ لوگ، اب اس اتوار تو اوورٹائم رہنے ہی دینا۔‘‘

’’تجھے نا سب آسان لگتا ہے، میں جس طرح پائی پائی جوڑتا ہوں تجھے اس کی بالکل فکر نہیں، خالی تنخواہ سے گزارا نہیں ہوتا، اوور ٹائم ضروری ہے اور اتوار کو اچھا کام ہوجاتا ہے، ابھی گھر کا کرایہ ہے، صائم کی پڑھائی کے اخراجات ہیں، پھر زیبی کے لیے جہیز جمع کرنا ہے… تجھے لگتا ہے گھر بیٹھ کر یہ سب ہوجائے گا!‘‘

اس نے کھانے سے ہاتھ روک کر کہا تو فرزانہ افسردہ ہوگئی۔

’’مگر میں کیسے لوگوں سے اکیلے مل لوں؟ پرکھے گا کون؟‘‘

’’اچھا… اچھا زیادہ اداس نہ ہو، شام تک آجائوں گا، اپنی جگہ کسی اور کو کھڑا کردوں گا۔‘‘

’’اچھا کچھ پیسے دو، زیبی کو مارکیٹ جانا ہے صائم کے ساتھ، اس کو اپنے لیے نیا سوٹ خریدنا ہے، ایک چادر کا کپڑا بھی منگوا لوں گی، مہمانوں کے سامنے عزت رہ جائے گی۔‘‘

’’یہ لے پکڑ پیسے، ایک تو گھر میں گھسو نہیں اور پیسے پیسے کا شور پہلے ہوجاتا ہے۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھا۔

’’اور ایک بات اور کان کھول کر سن۔‘‘ وہ کچھ یاد آنے پر پلٹا۔ ’’صائم الٹی سیدھی بائیک چلاتا ہے، اس کو زیادہ دور دور نہ بھیجا کر۔‘‘

’’ارے اپنے آگے کسی کی نہیں سنتا یہ۔‘‘ فرزانہ برتن سمیٹتے ہوئے بولی۔ ’’ابھی تو خیر مارکیٹ تک ہی جائے گا۔‘‘

’’ہاں جیسے مجھے پتا ہی نہ ہو۔ یہ قریب کی مارکیٹ سے تمہاری لاڈو کو کچھ پسند ہی کہاں آتا ہے!‘‘ وہ چڑ کر بولا۔

آج ٹریفک معمول سے زیادہ جام تھا، پھنسے ہوئے ٹریفک کو بحال کرنا جان جوکھوں کا کام تھا اور پھر مسلسل بجتے ہارن اور گاڑیوں کی آوازوں نے اس کے سر میں درد کرکے رکھ دیا تھا۔ خیر یہ درد تو اب اس کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ اس نے ہاتھ سے آنکھوں پر چھجا بناتے ہوئے سامنے سے آتی ایک ہائی روف روکی۔

’’ہاں بھئی کاغذات چیک کرائیے۔‘‘ ساتھ بیٹھے باریش شخص کو دیکھ کر وہ مؤدب ہوا تھا جو احرام باندھے ہوئے تھے، شاید عمرہ کرکے آرہے تھے۔

’’یہ لیجیے کاغذات۔‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان لڑکے نے کاغذات دکھائے تو اس نے کاغذات کھول کر دیکھتے ہوئے کہا ’’گاڑی آپ کی ہے؟‘‘

’’نہیں جناب! میرے دوست کی ہے، میں تو والد صاحب کو ائرپورٹ سے لینے آیا ہوں، ہمیں دیر ہورہی ہے جانے دیں، گھر میں مہمان بھی ہیں۔‘‘

’’دیکھیں یہ کاغذات پورے نہیں ہیں، آپ اپنا شناختی کارڈ دکھائیں۔‘‘

’’شناختی کارڈ کیوں جناب؟ میں نے آپ کو بتایا تو ہے۔‘‘

’’ارے بھئی دکھا دو شناختی کارڈ بھی۔‘‘ ساتھ بیٹھے بزرگ نے بیٹے سے کہا تو اس نے بٹوے میں سے کارڈ نکال کر اس کو تھمایا۔

’’ابا ان لوگوں کو دوسروں کی جیبیں خالی کرانے کا چسکا لگ چکا ہے، یہ فالتو کا چالان کاٹے گا ورنہ پھر کچھ دینا دلانا پڑے گا۔‘‘

لڑکے نے ہلکی آواز میں والد صاحب سے کہا تو والد صاحب تیز آواز میں اپنے بیٹے سے بولے ’’کاٹنے دو چالان، مگر اوپر سے ایک روپیہ نہیں دو گے تم، رشوت لینا بھی حرام اور دینا بھی حرام… اور پھر حرام کمائی میں برکت بھی نہیں رہتی، جتنی تیزی سے آتی ہے اتنی ہی تیزی سے چلی بھی جاتی ہے، اولاد بھی فرماں بردار نہیں ہوتی۔‘‘

بڑے میاں کے الفاظ اس کے کانوں میں پڑے تھے اور میکانیکی انداز میں اس نے گاڑی کو راستہ دیا تھا۔ ’’ہمارا بھی گھر بار ہے، بچے ہیں، سو ضروریات ہیں ہماری بھی۔‘‘ وہ بدمزا ہوکر بڑبڑا رہا تھا۔ اور نظر اگلی گاڑی پر تھی کہ فون کی بجتی گھنٹی پر اس نے فون کان سے لگایا ’’صائم کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔‘‘ فرزانہ کی روتی آواز نے بری طرح جھنجھوڑ دیا تھا۔ فرزانہ اس کو اب اسپتال کا نام بتا رہی تھی۔

وہ بوکھلاتا ہوا بھاگا تھا… اسپتال زیادہ دور نہ تھا مگر میلوں کا فاصلہ معلوم ہوتا تھا۔ اپنے بیٹے کے بہتے خون کو دیکھنے کی ہمت نہیں تھی، وہی خون جس میں حرام کمائی کی آمیزش تھی۔

’’رزق کا وعدہ تو اللہ نے کیا ہے، پھر اس نے کیوں اپنی اولاد کو حلال نہ کھلایا؟ عزت سے دیے جانے والے چار لقمے بھی پیٹ بھر دیتے مگر خواہشات کا گلا کیسے گھونٹتے؟‘‘ کچھ سوال تھے جو اس کے ذہن میں آج سے پہلے کبھی نہ آئے تھے۔ اسپتال کے بیڈ پر لیٹے نیم بے ہوش صائم کو دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔

اسپتال کا لمبا چوڑا بل اس کے سامنے تھا اور اس کے کانوں میں بڑے صاحب کی آواز گونج رہی تھی ’’حرام کی کمائی جتنی تیزی سے آتی ہے اتنی تیزی سے چلی بھی جاتی ہے‘‘۔

وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر زار و قطار رو رہا تھا۔

حصہ