شناخت

13

دانش ایک ہونہار طالب علم تھا۔ اس کا تعلق ایک معزز خاندان سے تھا۔ یونیورسٹی کے آزاد ماحول نے مغربی ثقافت کی طرف اس کی ایک خاص رغبت پیدا کردی تھی۔ وہ اپنی قوم کی روایات، تہذیب اور تاریخ کو بھولتا جارہا تھا۔ وہ روز بہ روز مغربی طرزِ زندگی کی طرف مائل ہورہا تھا… مغربی طور طریقوں کو وہ ترقی سمجھتا تھا۔ اس کی زبان پر یہ الفاظ رہتے تھے ’’کیوں نا ہم بھی ترقی کی راہ پر چلیں۔‘‘

دانش کے بدلتے خیالات اور طور طریقوں سے اس کے دادا جان بڑے متفکر تھے۔ انہوں نے ایک دن اسے شام میں اپنے کمرے میں بلایا اور مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ پھر وہ اسے اصل موضوع تک لائے اور پوچھا ’’اس وقت مغرب میں جو ترقی ہورہی ہے اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

دانش نے زور وشور سے اس کی حمایت کی۔ دادا جان تھوڑا سا مسکرائے، پھر یہ شعر سنایا:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمیؐ

یہ شعر دانش کو بہت بھایا، اس نے دادا جان سے اس کا مطلب پوچھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’’مسلمانوں کا تاریخ میں ایک منفرد مقام ہے۔ انہوں نے علم، فن اور ثقافت کے میدان میں بہت عروج حاصل کیا۔ اسلامی تہذیب کی عظمت اور اس کی روح کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مغرب کی کامیابیاں اچھی ہیں، مگر ہمیں اپنی جڑوں کی بھی شناخت کرنی چاہیے۔‘‘

دانش نے دادا جان کی باتوں کو غور سے سنا اور سوچا کہ واقعی مغرب کی تقلید کرنے کے بجائے ہمیں اپنی شناخت کو مضبوط کرنا چاہیے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی قوم کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا، اپنی زبان اور ثقافت کی قدر کرے گا اور دوسروں کو بھی اس بات کا شعور دلائے گا۔

وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے اسلامی تاریخ، فلسفہ اور ثقافت کے بارے میں گہرائی سے پڑھنے لگا۔ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک گروپ قائم کیا، جہاں وہ اسلامی تہذیب اور اس کی روایات پر گفتگو کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ دانش نے اپنے اردگرد کے لوگوں میں اپنی ملت کی عظمت کا شعور پیدا کرنا شروع کیا۔

گزرنے والے وقت کے ساتھ دانش نے دیکھا کہ جب اس نے اپنی شناخت کو اپنایا، تو اس کا اعتماد بڑھ گیا۔ اس نے مغربی ثقافت کو سمجھنے کی کوشش کی، مگر اپنے اصولوں اور روایات کو نہیں بھولا۔ اس کا پیغام واضح تھا: ہمیں اپنی قوم کی تاریخ اور ثقافت کی قدر کرنی چاہیے، کیوں کہ یہی ہماری اصل طاقت ہے۔

دانش نے لوگوں کو یہ سکھایا کہ ’’اپنی جڑوں کو بھولنا نہیں چاہیے، چاہے دنیا کتنی ہی ترقی کرلے۔‘‘
’’اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر‘‘ کے پیغام نے ہر دل میں ایک نئی روشنی بھر دی کہ اپنے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ہی ہم ایک مضبوط قوم بن سکتے ہیں، ہمیں اپنی تاریخ اور روایات کی قدر کرنی چاہیے اور مغرب کی چکا چوند سے متاثر ہوکر ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔

حصہ