رکنا نہیں ہے

19

ایک سالہ ماہ نور ہاتھ بڑھائے میرے پاس آنے کو ہمک رہی تھی۔ دادی کی جان میری گڑیا! محبت کی تمام تر شدتوں سے میں نے اسے دیکھا اور گود میں لینے کے لیے لپکی۔ اُس نے بھی میرے پاس آنے کے لیے فوراً اپنے ننھے ہاتھ وا کردیے۔ اسی لمحے ذہن میں جھماکا سا ہوا، یہ ہاتھ اور یہ انداز… لمحہ بھر میں ہزاروں میل کی دوری پر منظر بدل کر گڈمڈ سا ہوگیا۔

مشکل سے سال بھر کی ہوگی وہ، اس حالت میں بھی نہایت خاموش اور پُرسکون۔ شاید اللہ کی سکینت اسی کو کہتے ہیں، جس پر نازل ہوتی ہے تو نہ عمر دیکھتی ہے نہ موقع۔ ٹنوں ملبے تلے اس کا معصوم سا چہرہ ایک چھوٹے سے سوراخ سے جھانک رہا تھا۔ اس بچی نے باہر آنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا…اور میں ’’وہن‘‘ میں مبتلا مصلحتوں کی ماری اس کا ننھا ہاتھ کیسے تھام سکتی تھی!

میں نے زبردستی اسکرین پر دیکھے منظر کو ذہن سے پرے دھکیلا اور خیال کی دنیا سے باہر آکر سامنے بیٹھی اپنی پوتی کو بانہوں میں بھرکر فوراً سینے سے بھینچ لیا، جیسے میں نے اگر دیر کی تو کہیں وہ بھی… اس سے آگے سوچنے کی تاب مجھ میں نہ تھی۔

’’یہ کیا تم نے… پھر کھانا آرڈر کردیا… اور وہ جو رات کو پیزا منگوایا تھا وہ کون کھائے گا؟‘‘

’’ارے امی! ماسی کو دے دیں گے نا، آپ کو پتا تو ہے باسی کھانا آپ کی اولاد نہیں کھاتی ہے۔‘‘

چھوٹی بیٹی حورین کے فخریہ انداز پر میں لرز سی گئی۔ میں نے ایک نظر بھرے ہوئے فریج پر ڈالی اور حورین کو تکنے لگی۔

’’کیا ہوا امی! ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں؟‘‘

’’بیٹا! میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ میں نعمتوں پر اللہ کا شکر کروں یا ناقدری پر افسوس؟‘‘

’’افسوس کی کیا بات ہے امی! اللہ ہم سے خوش ہے تب ہی تو نواز رہا ہے۔‘‘

’’نعمتوں کی نوازش کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہم سے خوش ہے؟ نہیں… نہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ 72 گھنٹوں سے بھوکے نہ ہوتے، ان سے زیادہ اس وقت روئے زمین پر اور کون اللہ کو محبوب ہوگا…!‘‘

’’امی… کون؟‘‘ حورین تجسس میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔

’’بیٹا! شہید سنوار۔ اُن کی شہادت کا منظر اور کئی دن کا فاقہ ہمیں سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ اللہ کی نوازشیں اور اس کی عنایتیں ہم پر اس لیے نہیں ہیں کہ وہ ہم سے خوش ہے… اللہ لے کر آزماتا ہے تو دے کر بھی آزماتا ہے۔‘‘

’’پَر ہم کربھی کیا سکتے ہیں… اتنی دور سے؟‘‘حورین واقعی فکرمند ہوئی۔

’’اسے چھوڑ دو نا۔‘‘ میں نے برگر کا پیکٹ اٹھاکر اس کے سامنے لہرایا۔

’’اگر کچھ کر نہیں سکتے تو اپنے دشمن کو تقویت بھی نہ پہنچائیں… بائیکاٹ کریں، تباہ کردیں اس کی معیشت کو…‘‘

’’ایک ہمارے رکنے سے کیا ہوگا امی؟‘‘

’’رکنا ہی تو نہیں ہے میری بچی! تمہارے بائیکاٹ کا یہ ایک پتھر ٹھیرے ہوئے پانی میں ارتعاش پیدا کرے گا، پھر بہت سارے پتھر مل کر طوفان کھڑا کردیں گے۔‘‘

اس نے چند لمحے میری آنکھوں میں دیکھا… برگر کا پیکٹ اٹھایا، پھر جھٹکے سے اٹھی اورجانے لگی۔ سوراخ سے نکلے دو ننھے ہاتھ اور ایسے ہزاروں مناظر میری نگاہوں میں گھوم گئے…

ڈوبتے ابھرتے دل سے میں نے اس سے پوچھا ’’کہاں چل دیں…؟‘‘

وہ میری طرف گھومی اور عزم سے بولی ’’پتھر پھینکنے امی… آخران ظالموں کی تباہی میں اپنا حصہ بھی تو ڈالنا ہے۔‘‘

حصہ