(تیسرا حصہ)
ایک روز میں حکیم صاحب کے ہمراہ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا کہ ادھیڑ عمر کے ایک صاحب تشریف لائے۔ معلوم ہوا کہ وہ ان دنوں بیمار رہتے ہیں اور حکیم صاحب سے طبی مشورہ مطلوب ہے۔ اثنائے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہ نوجوانی ہی سے بنوٹ کے کھلاڑی ہیں لیکن اب چند سال سے انہوں نے یہ کھیل ترک کردیا ہے۔ حکیم صاحب نے اُن کی صحت سے متعلقہ شکایات توجہ سے سنیں۔ آخر میں فرمایا کہ ’’میاں! آپ کا علاج دوائوں میں نہیں ہے۔ بنوٹ میں ہے۔ اسے آپ پھر سے شروع کردیں، ٹھیک ہوجائیں گے‘‘۔
’’اس عمر میں بنوٹ کیسے دوبارہ شروع کرسکتا ہوں جناب؟‘‘ وہ صاحب تعجب سے بولے۔
’’بالکل شروع کرسکتے ہیں حضرت!‘‘ حکیم صاحب نے وثوق سے فرمایا، پھر بولے ’’جوانی میں مَیں بھی آپ کی مانند بنوٹ کا کھلاڑی رہ چکا ہوں، اسے میں نے بھی سالوں پیشتر ترک کردیا تھا۔ میری عمر اس وقت آپ سے کوئی دس بارہ برس زیادہ ہے لیکن اگر چاہوں تو میں آج بھی بنوٹ کو پھر سے شروع کرسکتا ہوں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے گا‘‘، یہ کہہ کر حکیم صاحب اپنی نشست سے اٹھے، اور پھر انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اس تیزی اور مستعدی کے ساتھ فرش پر چند پینترے لیے اور طرارے بھرے کہ میں بھی ہکا بکا رہ گیا اور وہ بنوٹی مریض بھی۔ اس کے بعد وہ مریض صاحب تو جیسے قائل ہوکر رخصت ہوگئے۔ تب میں نے حکیم صاحب سے عرض کیا ’’حکیم صاحب! آپ کی پھرتی کے انداز دیکھ کر ہی میں حیران رہ گیا تھا لیکن اب یہ دیکھ کر میری حیرانی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے کہ ایسی سخت ورزش کے بعد بھی نہ آپ کا دم پھولا ہے اور نہ سانس اکھڑا ہے۔آپ تو چھپے رستم ہیں۔ آج میں بہت ہی حیران ہوا ہوں۔‘‘
حکیم صاحب نے جواباً اپنا مخصوص قہقہہ لگایا اور پھر فرمایا ’’اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے، بھئی انسانی جسم کے اندر خدا نے بہت سی مخفی قوتیں رکھ دی ہیں، ضرورت صرف ان قوتوں سے کام لینے کا ڈھنگ سیکھنے کی ہے‘‘۔
اپنے بدن کی ان مخفی قوتوں سے کام لینے کا جو ڈھنگ حکیم صاحب کو آتا تھا، یہ بھی اس کا ایک اور مظہر تھا کہ حکیم صاحب ان دنوں بے پناہ کام کرتے تھے۔ ناشتے کے فوراً بعد وہ اپنے مطب تشریف لے جاتے، جہاں روزانہ ڈیڑھ دو سو مریضوں سے سر کھپانے کے بعد وہ ظہر کے قریب گھر لوٹتے، کھانا کھاتے اور اس کے بعد فوراً ہی وہ اسلامک اکادمی کے دفتر کی راہ لیتے۔ وہاں چار بجے تک تصنیف و تالیف کی مشقت اٹھاتے، اور پھر وہاں سے لوٹتے ہی مطب پہنچ جاتے، جہاں رات کے نو دس بجے تک وہ پھر سو سوا سو مریض نمٹاتے۔ اس طرح دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں لگ بھگ تیرہ چودہ گھنٹے وہ تھکا دینے والی ذہنی مشقت میں مصروف رہتے۔ اس کے باوجود میں نے ان کی پیشانی پر کبھی تکان کی شکن نہ دیکھی، نہ ان کے متبسم لبوں کو میں نے کبھی پژمردہ پایا۔ یقیناً حکیم صاحب نے اپنے جسم کی مخفی قوتوں کی اس طرح نشوونما کرلی تھی اور انہیں کچھ اس طرح رام کرلیا تھا کہ حکیم صاحب جیسے چاہتے اور جتنا چاہتے، ان سے کام لیتے، یہ ان کے سامنے چوں تک نہ کرتیں۔
ایک روز میں نے ذرا ان کی شگفتگیِ طبع سے لطف اٹھانے کی خاطر پوچھا: ’’حکیم صاحب! ایک زمانے میں آپ کے اسمِ گرامی کے ساتھ موسیو کا لفظ لکھا جاتا تھا، اس کی آخر کیا وجہ تھی؟‘‘
حکیم صاحب فی الفور ہنس پڑے اور بولے ’’یہ ایک دلچسپ قصہ ہے‘‘۔ پھر فرمایا: ’’قیامِ پاکستان سے کئی سال پہلے کی بات ہے، میں دہلی میں ہمدرد دواخانہ سے منسلک تھا اور دواخانہ کے ماہنامہ ’’ہمدرد صحت‘‘ کے لیے مضامین لکھا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ادارے نے مجھ سے چند فرانسیسی افسانوں کے اردو تراجم کی فرمائش کی۔ میرے یہ تراجم جب ’’ہمدرد صحت‘‘ میں شائع ہونے شروع ہوئے تو یار لوگوں نے مجھے موسیوؔ کہنا اور لکھنا شروع کردیا۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ فرانسیسی کا یہ لفظ موسیوؔ انگریزی کے لفظ مسٹرؔ کا ہم معنی ہے۔ لہٰذا یہ اپنے معنی کے لحاظ سے تو برا نہ تھا، تاہم اس طرح مذاق کا نشانہ بننے پر پہلے تو میں کچھ گھبرایا، لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں نے اس بھونڈے خطاب پر ناگواری کا اظہار کیا تو یہ میری چڑ بن جائے گا، اور بالآخر ہمیشہ کے لیے میرے نام سے چپک جائے گا۔ چنانچہ جب کوئی صاحب مجھے موسیوؔ کہہ کر خطاب کرتے تو میں ہنس کر ٹال دیتا۔ پھر ایسا ہوا کہ دو تین مرتبہ خود میں نے اپنے نام کے ساتھ موسیوؔ لکھ ڈالا۔ بس جناب میرے اس خلافِ توقع طرزِعمل سے یاروں پر گویا اوس پڑ گئی اور حضرتِ موسیوؔ، ہمیشہ کے لیے ففّرو ہوگئے!‘‘
غالباً کم ہی لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ جماعت اسلامی نے سالہا سال خالصتاً رفاہِ عامہ کے مقاصد کے ساتھ ’’شعبۂ خدمتِ خلق‘‘ کے نام سے اپنا جو ذیلی شعبہ ملکی سطح پر قائم کیا، اُس کا ابتدائی تصور حکیم اقبال حسین صاحب ہی کی ذہنی کاوش کا نتیجہ تھا۔ چنانچہ اس شعبے کے تنظیمی سربراہ بھی وہی قرار پائے۔ اس شعبے کے تحت ملک کے دیگر مقامات کے علاوہ کراچی شہر میں بھی جابجا متعدد شفاخانے کام کررہے تھے۔ مجھے جس روز کراچی سے واپس آنا تھا، اس سے ایک روز پہلے ناشتے پر حکیم صاحب نے فرمایا ’’آج میرے کراچی کے جماعتی شفاخانوں کے ہفتہ واری معائنے کا دن ہے اور اس معائنے میں بطور آئوٹنگ آپ بھی میرے ساتھ چلیں گے‘‘۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد شعبۂ خدمت ِ خلق کی گاڑی حکیم صاحب کے ہاں آگئی۔ حکیم صاحب نے مجھے گاڑی میں اپنے ساتھ بٹھایا اور ہم روانہ ہوگئے۔
شعبے کے شفاخانے کراچی کے دور دراز مضافاتی علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہر شفاخانے کے معائنے کے موقع پر حکیم صاحب محض ایک رسمی کارروائی پر اکتفا نہ کرتے، بلکہ شفاخانے کے جملہ احوال کا بغور جائزہ لیتے۔ شفاخانے میں موجود مریضوں کے رجسٹر، ادویہ کے اسٹاک، کارکنوں کی مشکلات اور ضروریات، غرضیکہ ہر مسئلے پر وہ پوری توجہ دیتے، اور پھر ان کے بارے میں اپنی رائے ساتھ ساتھ نوٹ کرتے جاتے۔ اس دوران وہ کارکنان کو مریضوں سے شفقت و محبت کا تعلق قائم کرنے کے علاوہ ادویہ کے معیار اور شفا خانے میں صفائی کے اہتمام کی خاص تلقین فرماتے، اور اس غرض کے لیے نہایت ہی مفید اور قابلِ عمل مشورے دیتے۔ شعبے کے شفاخانوں کے معائنے کے بعد جب میں حکیم صاحب کی معیت میں دوپہر ڈھلے ان کے دولت کدے پر واپس آیا تو میں نے سوچا کہ واقعی کسی ادارے کا بانی ہی اس کا بہتر پاسبان ہوسکتا ہے۔ اور جس مالی نے کوئی پودا لگایا ہو، وہی اس کی بہتر رکھوالی کرسکتا ہے۔
کراچی سے اِس مرتبہ بھی حکیم صاحب کے تحائف اور ان کی معیت میں گزرے ہوئے دنوں کی حسین و دلکش یادوں سے لدا پھندا گھر لوٹا… میرے لیے ان یادوں کا سب سے مسرت انگیز پہلو یہ تھا کہ میں نے حکیم صاحب کو اِس مرتبہ دولتِ دین اور دولتِ دنیا، دونوں ہی سے مالامال پایا، اور قارئین کرام! یہ وہ قران السعدین ہے جس کی آرزو میں لاکھوں کروڑوں بندگانِ خدا اپنی عمریں بے صرفہ گزار گئے!
………٭٭٭………
میں لاہور گیا تو وہاں منصورہ میں محبِ گرامی چودھری محمد اسلم سلیمی صاحب نے مجھے بتایا کہ ’’حکیم اقبال حسین صاحب آج کل ملک بھر میں پھیلے ہوئے جماعتی شعبہ ہائے خدمتِ خلق کی جانچ پڑتال کے لیے سارے پاکستان کا دورہ کررہے ہیں اور اس دورے کے اختتام پر وہ ملتان کے شعبے کے معائنے کے بعد ایک دن کے لیے آپ کے پاس جہانیاں آئیں گے‘‘۔ سلیمی صاحب کی زبانی یہ اطلاع سن کر جیسے میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے۔ بڑے چائو کے ساتھ گھر واپس آیا اور حکیم صاحب کی آمد کے دن کا انتظار کرنے لگا۔ آخرکار وہ دن آپہنچا۔ شام کا وقت تھا جب حکیم صاحب ملتان کے مولانا خان محمد ربانی اور ایک اجنبی نوجوان کے ساتھ میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔
کار سے اتر کر میری بیٹھک میں داخل ہونے سے پہلے حکیم صاحب مجھے برآمدے میں ایک طرف لے گئے اور پھر رازداری کے لہجے میں بولے: ’’یہ لڑکا جو آپ میرے ساتھ دیکھ رہے ہیں، اس کا نام رشیدؔ ہے، احتیاطاً آپ کو بتارہا ہوں کہ ربانی صاحب اور دوسرے رفقاء سے میں نے اس لڑکے کا تعارف اپنے بیٹے کے طور پر کرایا ہے حالانکہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے بیٹے دو ہی ہیں، منصورؔ اور خالدؔ۔ بہرحال! اس لڑکے رشید کو بھی آپ میرا بیٹا ہی سمجھیے‘‘۔ حکیم اقبال حسین صاحب کے اس ارشاد سے میں نے یہی سمجھا کہ رشید میاں حکیم صاحب کے کوئی عزیز ہیں، تاہم جب میں نے بعد میں یہ دیکھا کہ حکیم صاحب میری تمام خاطر تواضع کا رخ رشید میاں کی طرف پھیر رہے ہیں تو میرے ذہن میں تعجب نے سر اٹھایا۔ مثلاً غسل کا موقع آیا ہے تو پہلا نمبر رشید میاں کا۔ کوئی مشروب پیش کیا گیا ہے تو پہلا گلاس رشید میاں کا۔ چائے آئی ہے تو ماکولات سے پہلے رشید صاحب کی پلیٹ کو بھرا جارہا ہے۔ پھر پہلی پیالی بھی تیار ہونے پر انہی کو پیش کی جارہی ہے۔ کھانے کے وقت بھی حکیم صاحب نے یہی روش قائم رکھی۔ کسی ڈش میں جو اچھی چیز نظر آئی، میں نے محسوس کیا کہ اگر رشید میاں، کہیں حکیم صاحب کی گود میں سماسکتے تو حکیم صاحب یقیناً انہیں اپنی گود میں بٹھا کر کھلاتے پلاتے۔ میری بیٹھک میں جگہ کی تنگی کے باعث ایک ہی پلنگ کی گنجائش تھی۔ سونے کا وقت آیا تو ہم نے پلنگ کے پہلو میں کچھ جگہ نکال کر وہاں بان کی ایک چارپائی بچھا دی۔ حکیم صاحب کی عمر اور ان کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ان کے لیے میں نے پلنگ پر قدرے آرام دہ بستر لگا دیا اور رشید صاحب کے لیے پہلو کی چارپائی پر۔ بستر لگانے کے بعد، جب میں نے حکیم صاحب سے سونے کی درخواست کی تو وہ اٹھ کر خود تو بان کی چارپائی پر لیٹ گئے، اور رشید صاحب کو پلنگ پر سو جانے کی ہدایت کی… اور ہدایت کیا کی، ایک طرح سے حکماً سلا دیا۔ اِدھر میں پاس کھڑا بحرِ حیرت میں غوطے پر غوطہ کھاتا رہا اور سوچتا رہا کہ یاللعجب! یہ رشید میاں آخر ہیں کون؟ جن کے لیے حکیم صاحب اس طرح غیرمعمولی خاطرداری بلکہ ناز برداری سے کام لے رہے ہیں اور اس قدر وی آئی پی ٹریٹمنٹ دے رہے ہیں؟
صبح ہوئی اور ناشتے سے پہلے جب رشید میاں غسل کے لیے اٹھ گئے تو حکیم صاحب نے جیسے میرے مسلسل تجسس کو بھانپ کر خود ہی فرمایا ’’رشید میرے ایک مرحوم میمن دوست کا بیٹا ہے اور آج کل میرے ہی مطب میں کام کرتا ہے۔ میں نے اسے امراضِ دندان کا شعبہ سونپ رکھا ہے۔ خاصا محنتی لڑکا ہے۔ میں اسے اپنی سہولت کی خاطر اس دورے میں کراچی سے ہمراہ لے آیا ہوں، اور ہر جگہ میں نے اس کا تعارف اپنے بیٹے کے طور پر کرایا ہے۔ البتہ آپ چونکہ میرے دونوں بیٹوں سے واقف ہیں، لہٰذا یہاں آکر مجھے اصل حقیقت بتانا پڑی‘‘۔ حکیم صاحب اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے، اِدھر میں رشید صاحب کے ساتھ ان کی بے پناہ شفقت سے جیسے مرعوب ہوکر یہ دریافت نہ کرسکا کہ ’’حکیم صاحب! رشید میاں کو آپ اپنی سہولت کے لیے ہمراہ لائے ہیں یا خود اِن میاں کی سہولت کے لیے…؟‘‘
حکیم صاحب کی میرے ہاں تشریف آوری کی خبر رات ہی کو آس پاس پھیل گئی تھی۔ چنانچہ صبح ناشتے کے بعد ان سے ملاقات کے لیے میرے احباب، تحریکی رفقاء اور میرے عزیز و اقارب کا ایک تانتا بندھ گیا، کسی نامور معالج سے خواہ کوئی سوشل ملاقات ہی ہو، ایسے موقع پر ملاقاتی کی تمام خفیہ بیماریاں انگڑائی لے کر بیدار ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔ رسمی علیک سلیک اور حکیم صاحب کی آمد پر مسرت کا اظہار کرنے کے بعد، تقریباً ہر ملاقاتی یکدم مریض کی صورت میں ڈھل جاتا، حکیم صاحب اس قلبِ ماہیت پر ذرا بھی ناگواری محسوس نہ کرتے، بلکہ وہ اور زیادہ انہماک کے ساتھ ملاقاتی کی طرف متوجہ ہوجاتے، اس کی شکایات غور سے سنتے، اس کے لیے بازار سے عام مل جانے والی دوائوں پر مشتمل کوئی نسخہ تجویز فرماتے، اور ساتھ ہی غذا وغیرہ کے سلسلے میں کئی صحت افزاء تدابیر پر مشتمل تفصیلی ہدایات دیتے۔ ملک کے ایک چوٹی کے معالج کی طرف سے مفتا مفتی طویل طبی مشوروں کا یہ انوکھا تجربہ میرے احباب و اعزا کے لیے خاصی حیرت کا موجب ہوا۔ (جاری ہے)
اتفاق سے انہی دنوں میرے چھوٹے بھائی کو اپنی ایک آنکھ کا پپوٹا اچانک گر جانے کی تکلیف لاحق ہوگئی تھی، نشتر اسپتال ملتان میں تین چار ہفتے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے زیرِ علاج رہنے کے باوجود جب افاقہ نہ ہوا، تو ہم انہیں مجبوراً گھر لے آئے، حکیم صاحب جب میرے احباب اور عزیزان کو طبی مشوروں سے نواز رہے تھے تو میں نے بھی موقع غنیمت جان کر اپنے بھائی کو ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ حکیم صاحب نے ایک نظر انہیں دیکھا، پھر معاً فرمایا ’’انہیں دیکھتے ہی مجھے ان کے بارے میں ایک دوا کا القاء ہوگیا ہے۔ یہ دوا میں آپ کو کراچی پہنچتے ہی بھیج دوں گا، اس کے استعمال سے ان شاء اللہ ایک دو دن میں پپوٹا اپنی جگہ واپس چلا جائے گا۔‘‘
پروگرام کے مطابق حکیم صاحب کو اسی دن، دوپہر کے وقت ملتان سے خیبر میل پر کراچی کے لیے سوار ہونا تھا۔ ان کے لیے اور رشید میاں کے لیے گاڑی کے ایئرکنڈیشنڈ ڈبے میں سیٹیں ریزرو کرا دی گئی تھیں۔ چنانچہ دوپہر کے کھانے سے ذرا جلد فارغ ہوکر میں اپنے بیٹے نویدؔ احمد کو ساتھ لے کر حکیم صاحب اور رشید میاں کو گاڑی پر سوار کرانے کے لیے ان کے ہمراہ ملتان تک گیا، ملتان کے ریلوے اسٹیشن پر ہم پہنچے تو معلوم ہوا کہ خیبر میل کچھ تاخیر سے آرہی ہے۔ چنانچہ میں اور نویدؔ، حکیم صاحب اور رشید صاحب کو ساتھ لے کر پلیٹ فارم کے ویٹنگ روم میں جابیٹھے۔ ویٹنگ روم مسافروں سے بھرا ہوا تھا، رش کی وجہ سے اس کے اندر کچھ افراتفری بھی تھی۔ بہرحال ہم چاروں کو بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔ وہاں بیٹھنے کے بعد دس پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ حکیم صاحب یکدم گھبرا کر چلاّئے ’’ارے یہ رشید کہاں گیا؟‘‘ میں نے دیکھا تو رشید میاں کی کرسی واقعی خالی تھی۔ حکیم صاحب تیزی کے ساتھ میرے بیٹے نوید کی جانب مڑے اور پھر اسی طرح گھبراہٹ کے عالم میں فرمایا ’’بیٹے! تم جھپاک سے باہر جائو اور اُسے پلیٹ فارم پر تلاش کرو‘‘۔ نوید تعمیلِ ارشاد میں فوراً ویٹنگ روم سے باہر نکل گیا۔ لیکن حکیم صاحب کو اس کے باوجود چین نہ آیا۔ کرسی پر بار بار پہلو بدلتے، ساتھ ہی ان کے چہرے کا رنگ بار بار متغیر ہوتا۔ کبھی میری طرف دیکھتے، کبھی باہر کے دروازے کی طرف… اُدھر ان کی یہ اضطرابی کیفیت دیکھ کر میں سخت حیران تھا، ’’آپ ذرا اطمینان رکھیے‘‘۔ میں نے دھیرے سے کہا، ’’رشید میاں پلیٹ فارم پر ہی ہوں گے، نوجوانوں کو نئی جگہیں دیکھنے کا شوق ہوتا ہی ہے‘‘۔ حکیم صاحب جیسے تڑپ کر بولے ’’ارے، آپ نہیں جانتے، یہ رشید تو ایک بیوقوف لڑکا ہے، ضرور کہیں ہجوم میں کھو جائے گا‘‘۔
’’کھو جائے گا؟‘‘ میں نے تعجب سے ان کی بات دہرائی۔ ’’حکیم صاحب آخر کو وہ ایک نوجوان آدمی ہے، کوئی نادان بچہ تو نہیں‘‘۔
لیکن حکیم صاحب نے میری بات پر ذرا بھی توجہ نہ دی، اضطراب کی شدت میں وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے ’’آئیے! ہم بھی اسے باہر جاکر تلاش کرتے ہیں، خدا کرے وہ جلد مل جائے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وہ میرا انتظار کیے بغیر تیزی کے ساتھ ویٹنگ روم سے باہر نکل گئے۔ میں بھی پریشان ہوکر ان کے پیچھے پلیٹ فارم پر نکل آیا۔ یکدم میری نگاہیں سامنے کی طرف اٹھیں تو دیکھا کہ رشید میاں اور نوید، دونوں ہنستے مسکراتے اور ہجوم میں سے اپنا راستہ بناتے ہماری طرف لپکے چلے آرہے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی میں نے حکیم صاحب سے چلاّ کر عرض کیا ’’لیجیے، وہ رہے رشید صاحب‘‘۔ حکیم صاحب کی نگاہیں جب رشید میاں پر پڑیں تو جیسے ان کی جان میں جان آگئی۔ پھر رشید صاحب جب ہمارے قریب پہنچے تو حکیم صاحب نے خفگی کے کیپسول میں لپٹے ہوئے انتہائی شیریں پیار کے ساتھ پوچھا ’’کہاں چلا گیا تھا تُو بندے خدا کے؟‘‘… ’’کہیں بھی نہیں‘‘۔ رشید میاں نے بھولپن سے جواب دیا ’’بس ذرا ملتان کی مصنوعات کا اسٹال دیکھ رہا تھا‘‘۔ اتنے میں گاڑی پلیٹ فارم پر آپہنچی اور ہم سب کی توجہ گاڑی کی طرف مبذول ہوگئی۔ ویٹنگ روم سے سامان اٹھاکر جب ہم حکیم صاحب کی ریزرو سیٹوں والا اے سی ڈبہ تلاش کرکے اس کے اندر پہنچے تو اسے تقریباً خالی پایا۔ ڈبے کی دو سیٹوں پر حکیم صاحب اور رشید میاں کے نام درج تھے، ان میں سے جو سیٹ زیادہ آرام دہ تھی، اتفاق سے اس پر حکیم صاحب کا نام تحریر تھا، لیکن حکیم صاحب نے اس کے باوجود یہ آرام دہ سیٹ رشید میاں کے حوالے کردی اور خود دوسری سیٹ پر تشریف فرما ہوگئے۔ رات انہوں نے میرے ہاں اپنا آرام دہ بستر جس طرح رشید میاں کے حوالے کردیا تھا، اُس کی یاد میرے ذہن میں تازہ ہوگئی اور اس طرح میں حکیم صاحب کی خدمت میں اس گزارش کے لیے زبان نہ کھول سکا کہ ’’حکیم صاحب! ملتان سے کراچی کا لمبا سفر آپ کو درپیش ہے، پھر آپ چار پانچ ہفتوں کے طویل اور مسلسل دورے سے تھکے ہوئے ہیں، عمر کے لحاظ سے بھی آپ آرام کے زیادہ مستحق ہیں، جبکہ رشید میاں ماشاء اللہ نوجوان ہیں۔ لہٰذا مناسب یہی تھا کہ آپ اپنی آرام دہ سیٹ خود استعمال کرتے‘‘۔
قارئین! اسے آپ حکیم صاحب کے عظیم کردار کا رعب کہہ لیجیے، بہرحال میں ایسی کوئی بات حکیم صاحب سے اُس وقت نہ کرسکا، بس ان کا چہرہ ٹکر ٹکر دیکھا کیا، جس میں تقدس کا نور بھی تھا، محبت کی بوقلموں تابانی بھی، اور عظمت کی جگمگاہٹ بھی۔ اس اثناء میں گاڑی نے سیٹی دی اور حکیم صاحب نیز رشید میاں سے ایک پُرجوش معانقہ کرکے میں اور نوید گاڑی سے اتر آئے۔ گاڑی چلنے کے بعد حکیم صاحب دروازے میں کھڑے ہوکر ہماری نظروں سے اوجھل ہونے تک برابر ہماری طرف دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ ہلاتے رہے۔ تب مجھے یوں محسوس ہوا جیسے حکیم صاحب ہاتھ ہلا ہلا کر مجھ سے کہہ رہے ہوں کہ ’’میاں! دیکھ لو تمہارا دل جو برسوں سے میں نے اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے، میں اسے اب بھی چھوڑنے کا نہیں ہوں۔ اس لیے کہ دلوں کو مسخر کرکے انہیں اپنے قابو میں رکھنا میرا گویا پیشہ ٹھیرا۔‘‘
کراچی واپس جانے پر حکیم صاحب نے جلد ہی میرے بھائی کے لیے وہ دوا بھجوا دی جس کا ذکر انہوں نے میرے ہاں قیام کے دوران کیا تھا۔ حکیم صاحب نے فرمایا تھا کہ اس دوا کے استعمال کے دوسرے ہی دن میرے بھائی کی آنکھ کا گرا ہوا پپوٹا اپنی جگہ واپس چلا جائے گا۔ قارئین! اس دوا کے استعمال سے واقعی ایسا ہی ہوا، اور میرا بھائی دو ہی دن میں بالکل صحت یاب ہوگیا، جس پر سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اپنی خوشی کے اس اظہار کے لیے میں نے حکیم صاحب کو کراچی فون کیا۔ جواباً وہ بولے ’’مجھے آپ کی طرف سے اس خوش خبری کی آمد کا پورا یقین تھا۔ دراصل میرا یہ برسوں کا تجربہ ہے کہ مریض کو دیکھتے ہی اس کی روداد سنتے ہی بعض اوقات کوئی دوا ذہن میں برق کی مانند لہرا جاتی ہے، ایسے موقع پر میں اسے اللہ کی طرف سے ایک القاء سمجھا کرتا ہوں اور آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ پر القاء شدہ کوئی دوا ناکام ثابت ہوئی ہو۔‘‘
………٭٭٭………
یہ حکیم صاحب کے ساتھ میرے تعلقِ خاطر کے عروج کا زمانہ تھا، جب مارچ 1980ء کے آخری ہفتے میرے بچوں کی شادیوں کی تقریبات کا انعقاد طے پایا۔ چونکہ میری زندگی میں ایسی پُرمسرت تقاریب پہلی مرتبہ آرہی تھیں، لہٰذا قدرتاً میں نے یہ چاہا کہ اس موقع پر میرے زیادہ سے زیادہ احباب تشریف لائیں تاکہ میری خوشیاں دوبالا ہوجائیں۔ چنانچہ دوسرے احباب کے علاوہ میں نے کراچی میں حکیم اقبال حسین صاحب، برادرم محمد صلاح الدین صاحب اور نصیر احمد سلیمی صاحب کو بھی دعوت نامے ارسال کیے۔ پھر ان تینوں احباب کو تاکیدِ مزید کی خاطر فون کیے۔ حکیم صاحب کو میں نے الگ سے دو خطوط بھی اس موضوع پر لکھے، آخرکار جب میں نے سنا کہ کراچی سے حکیم صاحب، نصیر سلیمی صاحب اور برادرم صلاح الدین صاحب نے اپنے اہلِ خانہ سمیت میرے ہاں کی تقریبات میں شمولیت کا پروگرام بنا لیا ہے تو میرا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ کبھی کبھی مجھے یہ خیال آتا کہ کراچی سے ضلع ملتان کے ایک دور افتادہ قصبے کے سفر اور پھر تقریبات میں شمولیت کے لیے حکیم صاحب کو کم از کم پانچ دن اپنے مطب سے غیرحاضر رہ کر تقریباً ایک ہزار مریضوں کو اپنی توجہ سے محروم کرنا ہوگا۔ تب میں سوچتا کہ کیا حکیم صاحب کو اپنے ہاں بلوا کر میں کسی زیادتی کا مرتکب تو نہیں ہورہا ہوں؟ لیکن پھر جلد ہی مجھ پر خودغرضی غالب آجاتی اور میں حکیم صاحب کی آمد کا تصور کرکے باقی سب کچھ بھول بھال جاتا۔
تقریبات کے آغاز سے ایک شام پہلے جب چراغ جلے، حکیم صاحب، نصیر سلیمی صاحب، صلاح الدین صاحب اور ان کے اہلِ خانہ میرے ہاں تشریف لائے تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری تقریبات کو اکٹھے چار پانچ چاند لگ گئے ہیں۔ حیرت اور مسرت سے گنگ زبان کے ساتھ میں نے ان کا استقبال کیا۔ ہمارے ہاں مہمان اس وقت ایک یلغار کی صورت میں آرہے تھے، اس لیے میں بعد میں حکیم صاحب اور دوسرے احبابِ کراچی کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکا، لیکن میں نے جب بھی اِدھر اُدھر دوڑتے بھاگتے ان حضرات پر ایک نظر ڈالی یہی دیکھا کہ حکیم صاحب میری توجہ سے بے نیاز احبابِ کراچی اور دوسرے مہمانوں کے ساتھ مگن بیٹھے ہیں۔ ان کے چہرے پر بشاشت ہی بشاشت ہے، پیشانی دمک رہی ہے، ہونٹوں پر تبسم کھیل رہا ہے، جو گاہِ بگاہِ خوش گپیوں کے وفور سے ایک دلکش قہقہے میں ڈھل جاتا ہے۔ میں یہ سب کچھ دیکھتا اور پھر مطمئن ہوجاتا کہ میری عدم توجہ حکیم صاحب اور دوسرے احباب کو ناگوار نہیں گزر رہی ہے۔
رات گئے مجھے پتا چلا کہ حکیم صاحب میرے شادی والے بچوں کے لیے ایسے ایسے قیمتی تحفے لائے ہیں جیسے قیمتی تحفے میرا کوئی عزیز بھی نہ لاسکا۔ ان بیش قیمت تحفوں کا بار مجھے اپنی اوقات سے زیادہ ہی محسوس ہوا۔ چنانچہ میں نے حکیم صاحب کے پاس جاکر ان کے کان میں گزارش کی: ’’بچوں کے لیے آپ جو شادی کے تحفے لائے ہیں، ان کے غیرمعمولی بار سے میری کمر دوہری ہوگئی ہے۔ کیا آپ اس کا کچھ بوجھ کم کرکے میری کمر کو ٹوٹنے سے نہیں بچائیں گے؟‘‘ جواب میں حکیم صاحب نے ایک پُرزور قہقہہ لگایا اور بولے ’’جائیے صاحب، جائیے، اور اپنی کمر کو اتنا نازک نہ بنائیے کہ وہ دوچار تولے بوجھ بھی برداشت نہ کرسکے‘‘۔ میں اپنا سا منہ لے کر واپس آگیا، اور گھر والوں سے کہہ دیا کہ حکیم صاحب کے تحفوں کو حرزِ جاں بنالو۔ ایسے بابرکت تحفے خوش نصیبوں ہی کو میسر آتے ہیں۔
جیسا کہ عرض کرچکا ہوں، بچوں کی شادیوں کی یہ تقریب میرے ہاں پہلی مرتبہ ہورہی تھی۔ لہٰذا ناتجربہ کاری کے باعث انتظامات میں کئی خامیاں رہ گئیں۔ مہمانوں کی خاطر مدارات بھی صحیح طور پر نہ ہوسکی۔ اپنی کوتاہیوں پر مجھے قدرتاً سب سے زیادہ ندامت کراچی کے احباب سے محسوس ہورہی تھی جو سب سے طویل سفر کرکے میرے ہاں تشریف لائے تھے۔ پھر یہ بات بھی میرے لیے ایک گونہ قلق کا باعث تھی کہ وہ احباب جن کی قربت اور صحبت میرے لیے ہمیشہ تازگیِ روح کا سامان بنی، اور جن سے ملاقات کی آرزو ہمیشہ دل کو بے تاب رکھتی تھی، اگرچہ میرے غریب خانے میں تشریف فرما تھے، لیکن میں تقریبات کی مصروفیتوں کے باعث ان سے دور رہنے پر مجبور تھا۔ اپنی اس مجبوری پر اظہارِ ندامت کرتے ہوئے میں نے ایک مرتبہ بھاگ دوڑ کے عالم میں موقع پاکر حکیم صاحب سے سرگوشی کے انداز میں کہا ’’حکیم صاحب! کیا آپ اس گنگو تیلی کے دکھ کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جس کے گھر میں راجا بھوج قسم کی کئی ہستیاں مہمان ہوں، لیکن وہ ان کے پاس بیٹھنے سے بھی مجبور ہو‘‘۔ حکیم صاحب دادِ سخن کے انداز میں پہلے مسکرائے اور پھر پیار بھرے لہجے میں آہستہ سے فرمایا: ’’بات تو آپ نے بڑے مزے کی کہی ہے، لیکن بھائی، الحمدللہ! نہ ہم میں سے کوئی راجا بھوج ہے اور نہ آپ گنگو تیلی ہیں۔ ہم تو اپنے گھر میں بیٹھے ہیں اور بس‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس جواب نے میرا منہ جیسے سی ڈالا۔ ادھر حکیم صاحب اہلِ مجلس کے ساتھ پھر خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے اور اُن حضرات نے گویا اطمینان کا سانس لیا جو حکیم صاحب کی شگفتہ بیانی سے لطف اندوز ہورہے تھے، اور جن کی لطف اندوزی میں اپنی متذکرہ سرگوشی سے میں نے خلل ڈال دیا تھا۔
تقریبات کے ان تین یادگار دنوں میں حکیم صاحب کو میں نے جب بھی دیکھا، شادمانی و مسرت کے عروج پر پایا۔ لگتا تھا کہ شادیاں میرے بچوں کی نہیں بلکہ خود اُن کے بچوں کی ہورہی ہیں۔ بعض مجبوریوں کے باعث ہم نے تمام مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام اپنے مکان کی چھت پر شامیانے وغیرہ لگاکر کیا تھا، مجھے یہ معلوم تھا کہ حکیم صاحب کے گھٹنوں میں دیرینہ تکلیف چلی آرہی ہے، لہٰذا جب کھانے کے وقت مہمان چھت پر جانے لگے تو میں نے حکیم صاحب سے عرض کیا کہ ’’آپ تشریف رکھیں، آپ کو کھانا یہیں پیش کردیا جائے گا‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ حکیم صاحب نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
’’آپ کے گھٹنوں میں تکلیف رہتی ہے نا، اس لیے‘‘۔ میں نے وضاحت کی۔
حکیم صاحب یہ سنتے ہی تیزی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے، پھر بولے: ’’واہ صاحب واہ! آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ میں سیڑھیاں نہیں چڑھ سکوں گا! تکلیف رہتی ہے تو کیا ہوا‘‘۔ یہ کہہ کر حکیم صاحب لپک کر سیڑھیوں کی طرف بڑھے، میں نے بھی مزید اصرار کے بجائے ان کا ساتھ دیا۔ پھر پوری بائیس سیڑھیاں چڑھنے کے بعد جب ہم چھت پر پہنچے تو میرا دم پھول چکا تھا۔ لیکن حکیم صاحب کی تروتازگی بدستور قائم تھی جیسے وہ سیڑھیاں چڑھنے کی مشقت اٹھانے کے بجائے کسی شاداب پارک میں چہل قدمی کرکے آئے ہوں۔
چھت پر پہنچ کر حکیم صاحب نے مجھ پر ایک گہری نظر ڈالی، میں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ مجھے ایک معالج کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوں، پھر بولے: ’’آپ مجھ سے پندرہ برس چھوٹے ہیں، پھر آپ نے خود کو اتنا کمزور کیوں بنا رکھا ہے؟ حالات جو بھی ہوں، خوش رہا کیجیے، انسان کی طاقت اور صحت کا اصل منبع خوش باشی ہے اور بس!!‘‘
تقریبات کے ان ایام میں حکیم صاحب نے اپنی خوش باشی، خوش دلی اور خوش طبعی کے جو نقوش میرے گھر کی فضائوں، میرے مہمانوں کے دلوں اور میرے رفقاء اور احباب کے ذہنوں پر رقم کیے، اُن انمٹ نقوش نے ان ایام کو میرا سرمایۂ حیات بنادیا۔ جب میں اپنے احباب، عزیزوں اور مہمانوں کی زبان سے یہ سنتا کہ ’’حکیم صاحب بڑے مزے کے آدمی ہیں‘‘۔ ’’حکیم صاحب بہت پیاری شخصیت ہیں‘‘۔ ’’حکیم صاحب کی پُرلطف باتوں سے طبیعت شاد ہوجاتی ہے‘‘ تو قارئین! میرے لیے بھی اپنے گھر کی طویل سیڑھیاں ایک پارک ہی بن جاتیں۔(جاری ہے)