پھر عورت ،تشدد اور سوشل میڈیا

12

حقوق کی حقیقت :
اِس ہفتہ سارا سوشل میڈیا حقوق ۔ حقوق اور حقوق سے بھرا نظر آیا۔ کیا ہیں یہ حقوق ؟جو ہر وقت مانگے جاتے رہتے ہیں۔ یہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتے۔سوشل میڈیا بھی اب حقوق مانگنے کی دکان بنانظر آرہا ہے ۔یہ ’’انسانی حقوق ‘‘سے چلے پھر تقسیم ہوتے چلے گئے ۔جیسے بچوں کے حقوق، مردوں کے ، عورتوں کے حقوق سے چلتے چلتے ہم جنس پرستوں ، ٹرانس جینڈروں کے حقوق تک چلے گئے، یہی نہیں پھر مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی آئی تو روبوٹ کے ڈجیٹل حقوق آگئے۔ یوں جیسے تیسے انسان نمٹے تو مزدوروں کے حقوق، معذوروں کے حقو ق آگئے۔ پھر جانوروں کے حقوق آگئے، ماحولیاتی حقوق آگئے۔بات ختم نہیں ہوئی ، پانی کے حقوق، کھانے کے حقوق، خریدار کے حقوق، جمہوری حقوق، تعلیمی حقوق،جاننے کے حقوق Right to informationیقین مانیں میں بتاتا جاؤں گا اور آپ مزید پریشان ہوتے جائیں گے۔

یہ انسان سے شروع ہوئے ہیں اور مستقل تقسیم درتقسیم ہوتے جا رہے ہیں ۔ پھیلتے جا رہے ہیں۔اور سب سے اہم ۔جی سب سے اہم بات یہ ہے کہ حقوق پر حقوق بنے جا رہے ہیں مگر یہ کسی کو آج تک مل ہی نہیں رہے۔حقوق کے نام پر جو گندا کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ کتنا بھیانک ہے کیا کبھی آپ نے دو منٹ نکال کر یہ سمجھنے ، یہ جاننے کی کوشش بھی کی؟یہ ہیں کیا ؟ کس سے مانگے جاتے ہیں؟اور جس سے مانگے جاتے ہیں اُس کے پاس ایسا کیا ہے جو وہ آپ کو دیتا رہتا ہے؟کچھ نہیں ملے گا۔ سر میں درد ہو جائے گا اس لیےکہ یہ اپنی نہاد میں ’مغرب ‘ کا پیدا کردہ ایک دھوکہ ہے، دجل ہے۔مغرب کے نظریاتی تضادات سے مستقل پیدا ہو رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ سید مودودی نے اسکو ’جاہلیت خالصہ‘ قرار دیا۔

خواتین حقوق کی مثال:
چلیں اس کو پہلے صرف ایک خواتین ہی کے معاملے میں مثال سے سمجھیں ۔سب سے پہلے 1893 میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حقوق سامنے آئے جس کوSuffrageکہتے ہیں، اس کے بعد 1963 میں پھر Equal payRightsآگئے، خواتین نے کارخانوں میں مزدروی جو شروع کردی تھی اس لیے برابر کی تنخواہ کا مطالبہ آگیا، پھر جب خواتین نے تنخواہیں لیں، مزید ’ایمپاور ‘ہوئیں تو 1965میں اُنہوں نے Reproductive Rightsمانگ لیے ، مطلب (مرضی سے حمل ختم کرنا )،کیونکہ نوکری کرتے ہوئے وہ اتنی چھٹیا ں کرتیں، تو کیرئیر ڈسٹرب ہونے لگا تو انہوں نے کہا ہمیں یہ والاحق دیاجائے۔ایک طرف اسقاط حمل مانگا گیا تو جن خواتین نے بچے پیدا کرنے تھے انہوں نے مقابلے میں Maternal Healthcare Rights مانگ لیے۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔آگے پڑھیں ، Women Marriage Rights آگئے، اس میں کم عمری کی شادی کا موضوع اٹھایاگیا، پھر کانسینٹ یعنی لڑکی کی مرضی کو بطورحق ڈال دیا گیا آگے چل کر ’بغیر شادی رہنے کے حقوق‘ بھی آگئے۔پھر خواتین نے مزدوری سے آگے نوکری کرنے کا سوچا تو Right to Education آگئے کیونکہ دفتری نوکری کے لیے تعلیم کی ضرورت پڑی تو وہ مانگے گئے ، جب تعلیم ملی تو Right to Work آگئے۔جب دفاتر،کارخانے بھرے تو وہاں تشدد ،جنسی مسائل شروع ہوئے تو پہلے Right to Domestic Violence آیا کیونکہ پہلے تو گھر متاثر ہوا تھا ، وہاں گھریلو تشدد ختم کرنے کا حق مانگا گیا۔پھر اسکے ساتھ ہی دفتر میں مسائل شروع ہوئے تو وہاں بچنے کے لیے Right to Protection from Sexual Harassment آگئے۔ا چھا اس کے بیچ میں 1948 میں عظیم تاریخی دستاویز ’’ہیومن رائٹس ‘‘آئے تو اس کے ذیل میں ’’خواتین ‘‘ جیسے کوئی الگ مخلوق ہیں وہ اوپر آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا اُنہوں نے Right to Live Free of Discriminationیعنی کسی امتیازی سلوک کے بغیر جینے کا حق مانگا۔یوں 1970 میں Property and Inheritance Rights: بھی مانگ لیے گئے، یعنی جائداد اور وراثت کا حق۔یہ جو آج اسکینڈینیوین ممالک کہلاتے ہیں ناں یہاں یہ حقوق سب سے پہلے انیسویں صدی میں دیے گئے۔

اب کیا تھا ، دیکھیں گاڑی مزید تیزی سے کھائی میں جا رہی ہے ۔ 1893 میں ووٹ ڈالنے کا حق مانگا تو1990 میں Right to Political Participation بھی آگئے ، ویسے 1907 میں فن لینڈ میں پہلی بار Women Rights to hold Office آئے۔ یہ شروع میں آفس یعنی دفتر کا ہولڈ تھا اس کے بعدسیاسی دفتر مطلب سیاسی عہدہ کے حقوق سامنے آئے ۔ اس کے بعد پھر دیکھیں کیا ہوا۔ Right to Equal Treatment in Family Law یعنی خاندان میں برابری کی سطح پر ڈیل کرنے کا حق آگیا۔

میں نے آپ کو صرف خواتین سے متعلق ہی 15 مزید حقوق بتا دیے ہیں، یہ سب واقعاتی حقیقت کے طور پر آپ نے ضرور سُنے ،پڑھے، دیکھے ہونگے۔ اچھا اِن سب کے ایک نئے مجموعے کا نام ’’فیمن ازم‘‘ تو لازمی سُنا ہوگا۔ یہ ہے وہ زہر ہے جو مغرب کی معاشرت کی پیداوار تھا ،وہاں کے مسائل تھے ، وہاں کے لبر ل ،ملحدانہ نظریات سے بننے والی معاشرت سے پیداہوئے تھے ۔ اِن کی وجہ سے آج پورا مغرب جس معاشرتی تباہی سے دوچار ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ مغرب اس تباہی سے کسی طور نہیں نکل پا رہا ،مستقل دلدل میں دھنستے دھنستے اب ڈوب ہی چکا ہے۔ مگر باری ہے اب دیگر ممالک کی،کیونکہ دلدل گہری تو ہے ہی مگر تیزی سے پھیل بھی رہی ہے۔پاکستان اس کا ایک اہم شکار ہے ۔

25 نومبرکے ڈرامے:
ایسے میں 25 نومبر کو International Day for the Elimination of Violence against Women آگیا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’عالمی دن برائے انسداد تشدد نسواں‘‘۔ اِن سارے دنوں کے پیچھے سیدھی صاف ستھری عالمی فنڈنگ ہوتی ہے ، جو سب کو ان کے لوگو سے نظر بھی آتی ہے ۔اب جب یہ مسئلہ زبردستی پیدا کر کے ہمارے ملک میں بھی ٹھونسا جاتا ہے تو امسال اس کا پہلا جھٹکا کراچی یونیورسٹی میں اس سے متعلق ایک ایونٹ کی خبر سے آیا جس کا عنوان یہی تھا جو آگے بیان ہو رہا ہے۔

’’16 دن کے صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف سرگرمیاں‘‘ ایک بین الاقوامی مہم ہے جو ہر سال 25 نومبر (خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن) سے 10 دسمبر (انسانی حقوق کا عالمی دن) تک منعقد کی جاتی ہے۔یہ مہم 1991 میںWomen’s Global Leadership Institute کے تحت شروع ہوئی اور اب دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے تعاون سے منائی جاتی ہے۔ اس کا مقصد صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے لیے آگاہی پیدا کرنا اور عملی اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

اس میں مختلف تھیٹر ڈراموں سے خواتین و مرد حضرات کے ذہن میں یہ زہر انڈیلا جائے گا کہ ’عورت‘ جو کرنا چاہے کرے‘ آپ اُس کو کسی طور نہیں روک سکتے۔ ایسا کرنا ظلم ہوگا، عورت کے حق پر ڈاکہ ہوگا۔ اقوام متحدہ خواتین ونگ کی ترجمان نے اس تقریب میں کہا کہ’’صدیوں سے عورت کو ظلم سہنے کی ایسی عادت ہوگئی ہے کہ وہ غلط ہی نہیں لگتا۔ یہ ہم نے ٹرک بنایا ہے کہ جس کے چاروں طرف ہمارا پیغام لکھا ہے، ہم 16 دن تک تھیٹر اسٹیج ڈراموں سے جہاں جہاں جائے گا لوگوں کو پیغام دے گا کہ عورت پر تشدد کا کوئی جواز نہیں۔‘‘

اب یہ ٹرک کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم لڑکیوں کے اندر یہ زہر گھولے گا۔ وہاں ایک خاتون کی تقریر کا یہ جملہ بار بار دہرایا گیا۔ ’’خدارا! اپنے حق کے لیے نکلو۔‘‘ آگہی، اویرنیس کے نام پر جو غلیظ دھندہ پھیلایا جا رہا ہے اُس کو روکنے، بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اس پروگرام میں اقوام متحدہ کی گوری رکن لوئس نائلین نے انتہائی سفاکی سے جامعہ کراچی میں کھڑے ہو کر کہا کہ یہ عالمی مسئلہ ہے، اُس کو لگتا ہے کہ دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی تشدد کا شکار ہے۔ اس نے صاف جھوٹ بولا کہ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے اعداد و شمار دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ہمارا سادہ لوح مرد رپورٹر یہ سب جھوٹ سُن کربعینہ رپورٹ کرتا رہا۔

آئیے ذرا پہلے اس جھوٹ کا پول کھول دیں۔یہ خاتون لوئس اُس ملک کے جھنڈے اور اُس ملک کے ادارے کے تعاون سے پاکستان میں یہ بکواس کر رہی تھی ، جس کے ملک میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر وہ مظالم توڑے جا رہےہیں جو ناقابل بیان ہیں۔مطلب 86 سال کی ایسی قید کی سزا جو جرم ثابت ہی نہیں ہورہا۔ اس قید کے اندر کوئی امریکی جیل کے 13 سرکاری ملازمین ڈاکٹر عافیہ سے زیادتی کے مرتکب پائے گئے۔یہ ایک کیس نہیں پورا مغرب ، امریکہ، یورپ سب اِن سے بھی ہولناک کیسز سے بھرا پڑا ہے، کیونکہ ڈاکٹر عافیہ تو اُن کے لیے مجرم ہی تھی ۔

یہی نہیں امریکہ میں اس وقت خود اُن کی رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں ایک خاتون کسی نہ کسی وجہ سے جنسی، جسمانی یا دیگر تشدد کا شکار ہے۔یہ سارے اعداد و شمار میں آپ کو امریکہ خود اقوام متحدہ خواتین اور امریکہ ہی کی نیشنل فاؤنڈیشن فار ویمن سے نکال کر دے رہا ہوں۔ یہ سب ان کی ویب سائٹ پر نمایاں درج ہے ورنہ آپ کے پاس اب تو جدید گوگل اور چیٹ جی پی ٹی کی سہولت بھی دستیاب ہے ۔اب یقین کریںکہ وہ خود لکھتے ، کہتے ہیں ، مانتے ہیں کہ پاکستان میں چونکہ اس طرح کے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے اس لیے ہم ایک اور جھوٹ مان لیتے ہیں کہ یہاں بھی خواتین پر بہت ’مظالم ‘ ہوتےہیں۔اب آپ تصور کرلیں کہ یہ سارا زور یہاں کیوں ہے؟

ایسی تصویر بنا کر پیش کرتے ہیں کہ آپ کو لگنے لگے کہ یہاں بھی یہ مسئلہ پیدا ہو چکاہے ۔ وہ اس لیے ایسا سوچتے ہیںکہ جب وہ ساری لبرل اقدار پاکستان میں منتقل کر رہے ہیں، تو یہاں دنیا سے الگ نتیجہ کیوں اور کیسے ہو سکتا ہے؟ جی ، جیسا مغربی ممالک میں خواتین کو حقوق کے نام پر ’گھر‘ سے آزاد کیا گیا ویسے ہی، اُن ہی اصولوں پر جب بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش کے ریجن میں کیا جا رہا ہے تو یہاں ابھی ویسے نتائج کیوں نہیں مل رہے؟ صرف گذشتہ 5 سال کا ڈیٹا ہم نے نکال کر موازنہ کیا تو یہ صورتحال ہے کہ امریکہ میں سوا چھ لاکھ کیسز درج ہوئے، بھارت میں 1لاکھ 52 ہزار 2سو، بنگلہ دیش میں 52050، جبکہ پاکستان میں 15000صرف 15 ہزار ہی رپورٹ ہوئے۔تو آپ اندازہ کرلیں کہ یہ زبردستی ہم پر کیا مسلط کیا جا رہا ہے۔

مزان کیس:
اس وقت فرانس جو کہ امریکہ ہی کی طرح ایک ایڈوانس لبرل معاشرہ ہے۔دنیا کے باطل، گندے،غلیظ فلسفیوں کا یہ مرکزرہاہے۔خواتین پر عدم تشدد کے عالمی دن پرفرانسیسی اخبار ڈی مونٹ کے مطابق 80 ہزار خواتین پیرس میں نکل آئیں۔یہ لبرل خواتین ایک زیادتی کے کیس کو اور اسقاط حمل کے حق کو لے کر احتجاج کررہی ہیںجبکہ یہ اسقاط حمل وہاں 1975 سے قانونی ہے۔ یہ سارا جسمانی، جنسی و دیگر تشدد ان کی لبرل اقدار کا لازمی تقاضا ہوتا ہے۔ یہ خواتین جنسی تشدد سے بچنے کا جو حق مانگ رہی ہیں اُس میں اُن کے قریبی رشتہ داروں سےتحفظ شامل ہے۔ جی ہاں، ڈاکٹر عافیہ تو غیروں کی جیل میں قید ہے ، یہاں تو خواتین اپنوں سے تحفظ مانگ رہی ہیں۔

فکر اہل پاکستان کے سنجیدہ، علمی، دینی ، طبقے کو کرنے کی ضرورت ہےوہ اس لبرل طبقے کے نشانے پر ہیں۔اس معاملے پر دفاعی پوزیشن لینا دین، ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہوگا۔یہ غلیظ ایجنڈا پاکستان میں ان کے لوکل ایجنٹ NGOs،اور حکمرانوں کی صورت چلا رہےہیں۔ہمارے پاس ہمارادین ہے جو مکمل نظام حیات ہے، اس میں سب تعلیمات موجود ہیں کہ عورت کیا ہے، اس کے ساتھ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا، کیسے کرنا ہے، کب کرنا ہے، کتنا کرنا ہے۔اس لیے پہلے تو مغربی جاہلیت کے نظریات کو رد کرنا ہے اور اس کو اپنانے سے بچنا ہے ، پھر ضرورت ہے اپنے دین پر راسخ عمل کرنے کی۔ جیسے ہم لوگ بچوں کو پورے شعور سے اپنے بچوں کو یہ بتاتے ہیںکہ ’’بیٹا!بازار کی چیز نہیںکھانا ، اس پر گندگی ہوتی ہے، مکھی بیٹھتی ہے، گندا دھواں لگتا ہے ، اس کو کھانے سے بیمار ہوجاتے ہیں۔‘‘ بعینہ اسی طرح ہمیں اپنی نسلوں کو ’باہرکے نظریات‘ سے بچانا ہوگا ، کیونکہ اس سے جو بیماری لگے گی اس کا علاج اُن کے پاس بھی آج تک نہیں ہے ۔

حصہ