1999ء سے عالمی سطح پر مردوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ خواتین، بچوں، والدین، معذوروں، مزدوروں کے دن، انسانی حقوق کا دن، مختلف بیماریوں سے آگاہی کے دن بڑے شدومد سے منائے جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں بڑے بڑے سیمینار ہوتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے بھی اہتمام ہوتا ہے۔ مزدوروں کے عالمی دن پر تو پوری دنیا میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ بڑے بڑے جلوس نکلتے اور جلسے ہوتے ہیں اور حکومتوں کے سامنے مزدوروں کے حقوق کے مطالبات پیش کیے جاتے ہیں اور اسمبلیوں میں قراردادیں پاس کی جاتی ہیں۔ مگر آج تک یہ طبقہ استحصال کا شکار ہے۔ حقوقِ نسواں کے لیے بیجنگ پلس کی قراردادوں کی روشنی میں عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کا اقوام متحدہ، ممبر ممالک کو پابند کرتا ہے۔ چائلڈ لیبرقوانین کے تحت بچوں سے بیگار کرانا ہر ملک میں جرم قرار دیا گیا ہے۔ عورتوں نے تو عالمی ریاستی سرپرستی میں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے عنوان سے نسوانی قدروں کو بھی پامال کردیا ہے۔ محبت کے نام پر فحاشی وعریانی کو فروغ دینے کے لیے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منانا شروع کردیا گیا ہے جسے تمام الہامی مذاہب میں ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اب تو بھارت میں ہندوتوا کے عَلم بردار ایسے نوجوان جوڑوں کو سر عام تشدد کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ ان کی شادیاں کروا دیتے ہیں۔ مدر ڈے اور فادر ڈے پر اولڈ ایج ہوم میں اولادیں تحائف لے کر اپنے ضعیف والدین سے ملاقات کرتی ہیں۔ یہ ہے مصنوعی محبت۔ اللہ ہر والدین کو ایسی اولادوں کے شر سے محفوظ رکھے۔
اب آتے ہیں مردوں کے عالمی دن پر، جو 1999ء سے ہر سال آتا ہے اور خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا کی آدھی آبادی اس دن کو نہیں مناتی؟ مردوں کا عالمی دن دراصل شوہروں کے عالمی دن سے منسوب ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک مرد جب بیٹا ہوتا ہے تو اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے اور اپنی ماں کی تمام تر محبتوں اور آرزوؤں کا مرکز ہوتا ہے۔ جب وہ کسی بہن کا بھائی ہوتا ہے تو اس کا محافظ ہوتا ہے اور اس کی عفت و پاک دامنی کے لیے جان قربان کردیتا ہے۔
شوہر بیوی کے تمام تر نان و نفقہ اور اس کی آسائش اور ضروریات کو پورا کرنے کا پابند ہوتا ہے، اس کا محافظ ہوتا ہے۔ جب وہ باپ بنتا ہے تو اولاد کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھانے اور بہتر سے بہتر تعلیم دینے کے لیے انتھک محنت کرتا ہے تاکہ اس کی اولاد کا مستقبل تابناک ہوجائے۔ دنیا میں دو آدمی ہی ایسے ہیں جو کسی کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں، ایک اس کے والدین، دوسرا اس کا استاد۔
اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر قوام بنایا ہے۔ مرد کو عورت پر ہر اعتبار سے برتری عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی عورت کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا۔
آج کے جدید دور میں ہر کوئی اپنے حقوق کی جدوجہد کررہا ہے۔ مگر مرد جو کردار کے حوالے سے بیٹا، بھائی، شوہر اور باپ ہے اور اس پر شرعی حوالے سے ان تمام کرداروں کا فریضہ ادا کرنا لازم ہے، وہ کس سے فریاد کرے اور کس سے اپنا حق مانگے؟ صبح گھر سے نکلنا اور حصولِ معاش سے فارغ ہوکر شام ڈھلے تھکا ماندا گھر آنا، پھر گھر آتے ہی سودا سلف لانا… کیا بولے، کیا مانگے اور کس سے مانگے!
آج سے چند دہائیاں قبل باپ، شوہر، بھائی اور بیٹا گھروں میں تمام تر ذمہ داریاں نبھایا کرتے تھے۔ بیٹی، بہن، بیوی گھر کی اندرونی ذمہ داریوں کو پورا کرتی تھیں، اور ماں کی حیثیت تو قابلِ صد احترام تھی، مگر کیا کہیے کہ یورپ کی جدیدیت اور مرد و زن کی مساوی حیثیت کے نعروں نے عورت کو گھر سے نکال کر مل، فیکٹریوں، دفاتر اور بازاروں میں لا بٹھایا تو مرد کا کردار نہ صرف محدود ہوگیا بلکہ عورت اور مرد کا مقدس رشتہ ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کا رشتہ بن کر رہ گیا۔ اب تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ان رشتوں کو بھی رشتہ نہیں رہنے دیا۔ لازمی طور پر جب دنیا سمٹ کر موبائل کی اسکرین پر آگئی ہے تو مشرقی ملکوں کا معاشرہ بھی تیزی سے متاثر ہوا ہے۔ چند برسوں میں قبائلی علاقوں کو چھوڑ کر شہروں میں آکر رہنے والے خاندان مکمل طور پر تبدیل ہوچکے ہیں۔ مردوں کا نوجوان طبقہ بے راہ روی اور نشے میں مبتلا ہوکر دیوالیہ ہوا جارہا ہے، اور اس دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ ناقابلِ بیان وہ ڈرامے، فلمیں اور اخلاق باختہ وڈیوز ہیں جو نوجوانوں کو دنیا و مافیہا سے بے گانہ کررہی ہیں۔ مردوں کا وہ طبقہ جو بوڑھے باپ کی صورت زندہ ہے اولاد کے لیے ناکارہ وجود کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں اولڈ ایج ہوم کا باضابطہ نظام قائم کردیا گیا ہے۔ اب یہ وبا مشرقی ممالک میں بھی پھیل رہی ہے اور مسلم معاشرہ بھی اس سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ جبکہ اسلام کی رو سے والدین کے حقوق ادا نہ کرنے والی اولادیں دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر سزا کی مستحق ہیں۔
جب مرد شادی کے بعد شوہر بنتا ہے تو زندگی کا بھاری بوجھ اس کے کاندھوں پر آن پڑتا ہے۔ جدید دور کی بیویاں پہلے جیسی نہیں رہیں کہ شوہروں کی تابع داری اور خدمت کو اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ اور نہ حقوقِ زوجین کا علم ہے کہ کس کے کیا فرائض اور حقوق ہیں۔ بس وہ اتنا جانتی ہیں کہ وہ مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں۔ یورپ، امریکا اور تمام تر نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں میاں بیوی کا رشتہ نظریۂ ضرورت بن کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ دو تین سال کا ہوتا ہے، اس کے بعد طلاق۔ شادی شدہ جوڑے بھی آزادانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ مشرقی ملکوں اور مسلم دنیا میں آج بھی خاندانی نظام قائم ہے مگر جدید دور نے اس میں شگاف ڈالنا شروع کردیا ہے۔ عرب دنیا میں دولت کی فراوانی نے طلاق اور خلع کی شرح میں اضافہ کردیا ہے۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش میں حقوقِ نسواں کے قوانین نے عورتوں کو عملاً آزاد کردیا ہے۔
میاں بیوی کے تنازعات بڑھتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے طلاق و خلع کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ آج عورتوں کی اکثریت فیشن زدہ ہوگئی ہے جس نے شوہروں کو کمر توڑ محنت کرکے بیویوں کے مطالبات پورے کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ دوسری طرف ورکنگ ویمن کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے بیویاں شوہروں کے تابع رہنا پسند نہیں کرتیں، کیوں کہ وہ نوکری کرکے ان پر فوقیت حاصل کرچکی ہیں۔ آج کل کی بیویاں تمام گھریلو خرید وفروخت خود کرتی ہیں۔ بازاروں میں یہ منظر عام ہے کہ بیوی سودا سلف کی خریداری کرتی ہے اور شوہر اس کے پیچھے پیچھے گود میں بچہ پکڑے چلتا ہے۔ بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر گھر کے کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں ہے۔ میرے مشاہدے میں ایسے بہت سے شوہر ہیں جن کی بنیان تک اُن کی بیویاں خریدتی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ عورت سب سے اچھی ہے جس کو دیکھ کر اس کا شوہر خوش ہوجائے۔‘‘ مگر آج تو گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ جب شوہر شام کو تھکا ماندا گھر آتا ہے تو اس کو چیخ و پکار کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بیوی مسکراتے ہوئے شوہر کا استقبال کرے۔
گزشتہ دنوں بھارت میں بیک وقت تین طلاق دینے پر پابندی کا قانون پاس کیا گیا جو مودی سرکار کے یکساں سول کوڈ کا قانون بنانے کی جانب پیش قدمی ہے جس سے مسلم پرسنل لا ختم ہوجائے گا اور مسلمانوں کا خاندانی نظام، قانونِ وراثت ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی یا لادین سب کے لیے برابر ہوجائے گا۔ ویسے بھی ہندوؤں میں ایک سے زائد شادیوں پر قانونی رکاوٹ ہے حالانکہ ساؤتھ انڈیا اور آدی باسیوں میں بیوی کی جگہ درجنوں داسیاں رکھنا عام ہے۔
آج ہندوستان میں بیویاں بلا تفریق ہندو مسلم، خود کو شوہر پرستی سے آزاد کرچکی ہیں، مگر آج بھی مسلمان اس کی مزاحمت کررہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں کثرتِ ازواج کا چلن عام ہے اور وہاں اس طرح کے گھریلو تنازعے کم ہیں جو کثرتِ ازواج کی وجہ سے پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر کہ مرد ’’عالمی یومِ مرد‘‘ پر اپنی مظلومیت کا رونا کس کے سامنے روئے؟ باپ کس سے اپنا حق مانگے؟ جب کہparents protections law موجود ہے۔ مگرباپ اولاد کی محبت میں تمام تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے، بھائی تو بہن سے ہر طرح سے محبت کرنے والا مہربان ہوتا ہے۔ بیٹا اگر صالح اور نیک ہو تو وہ دنیا اور آخرت میں اللہ سے ڈر کر حق پدری ادا کرتا ہے۔
شوہر گھر کی عزت کی پامالی کے ڈر سے واویلا نہیں کرتا اور ذہنی دباؤ میں آکر نشہ کرنے لگتا ہے یا تنگ آکر خودکشی کرلیتا ہے۔ یہ مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر دل کے امراض میں مرد ہی مبتلا ہوتے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے جس کی حکمرانی عورت کرنے لگے۔‘‘ مسلمانوں کے ہزار سالہ دورِ حکمرانی میں کبھی عورت کو جج یا قاضی نہیں بنایا گیا۔ امریکا سب سے زیادہ حقوقِ نسواں کا چیمپئن بنتا ہے مگر آج تک عورت امریکا کی صدر نہیں بن سکی۔ فی الحال امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں کملا ہیرس زیادہ مقبول تھی مگر صدارتی دوڑ میں ہار گئی۔
شوہر فریاد کرتے ہوئے: ’’سارا دن تم موبائل میں لگی رہتی ہو…نہ جانے ہانڈی میں کیا ڈالتی ہو؟‘‘
بیوی بیلن دکھاتے ہوئے:’’تم موبائل کو الگ رکھ کر کھانا کھاؤ…کب سے دیکھ رہی ہوں پانی میں ڈبو کر روٹی کھا رہے ہو۔‘‘
آج کا شوہر قوام نہیں قیمہ بن چکا ہے۔ اسی لیے زن مریدوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔
ہے بجا حلقۂ ازواج میں مشہور ہوں میں
تیرا بیرا، تیرا دھوبی، تیرا مزدور ہوں میں
زن مریدی کا شرف پا کر بھی رنجور ہوں میں
قصۂ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں
( مجید فضا)