آخرشب کے ہم سفر

13

ادھر دیناج پور سے عقد کی تاریخ جلد طے کرنے کے تقاضے آرہے تھے۔ اور بیگم قمرالزماں کے اختلاج قلب میں زیادتی ہوتی جارہی تھی۔ جس روز نواب صاحب نے ان سے کہا کہ وہ جب تک رونو میاں سے بات نہ کرلیں نکاح کی تاریخ طے نہ کریں گے۔ تو اُن کی بیگم نے قیامت برپا کردی۔ نواب صاحب نے دلّی، بمبئی، کلکتہ جانے کہاں کہاں ہر ممکن پتے پر رونو میاں کو تار دیئے ٹرنک کال کئے۔ مگر وہ حضرت جانے کہاں غائب ہوچکے تھے۔ کوئی جواب نہ آیا۔ ادھر انوری بیگم پر اتنا زبردست دورہ پڑا کہ لینے کے دینے پڑ گئے۔ نواب قمر الزماں نے ہار مان لی۔ نواب اجمل حسین سے شادی کی تاریخ طے کر دی گئی۔

مجھے اس زمانہ میں دیدی نواب صاحب پر اتنا ترس آیا کہ کیا بتائوں۔ ایسے ٹوٹے ہوئے اور دکھی اور غمزہ لگتے تھے کہ دیکھا نہ جاتا تھا۔ آپا کو مایوں بٹھایا گیا۔ ان کو بس چپ سی لگ گئی تھی۔ بڑی دھوم دھام کی شادی ہوئی۔ روزی آپا کی اور آپ کی اور آپ کی عدم موجودگی کا ہم سب کو افسوس تھا۔ (روزی آپا کا اب تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ ایک خبر ہے کہ معافی مانگ کر جیل سے نکل آئیں۔ دوسری خبر ہے کہ کالے پانی بھیج دیا گیا۔ اور ایک خبر ہے کہ کسی انگریز سے بیاہ کرلیا۔ اور ایک خبر ہے کہ ہتھکڑیوں سمیت جیل سے فرار ہوگئیں۔ افواہوں کی کوئی حد نہیں!) اس بدامنی کے زمانے میں بھی بڑی شان و شوکت کی تقریب رہی۔ نواب قمر الزماں چودھری کی بیٹی کی شادی کوئی مذاق تھوڑی ہی تھا دیدی۔ دیناج پور سے برات آئی، جو دراصل سب نیئر بھائی کے سسرال والے ہی تھے۔ ایک سے ایک دقیانوسی زمیندار نرائن گنج میں اسٹیمر سے اُترا۔ (پچھلے سال ہم لوگ اسی برسات کے زمانے میں نیئر بھائی کی بارات لے کر دیناج پور گئے تھے۔) خیر صاحب تو جب بارات ارجمند منزل کے دروازے پر آئی اور دولہا ہاتھی سے اُترا تو ہم س دھک سے رہ گئے۔ کالا بھجنگ۔ تمباکو کا پنڈا۔ منہ پان سے رچا ہوا۔ بس ٹپکل قصباتی زمیندار۔ نواب اجمل حسین نواب قمر الزماں کے ہم عمر ہیں بلکہ ایک آدھ برس نواب صاحب سے بڑے ہی لگتے ہیں۔ اور ان کے گھر کی عورتیں ٹیٹھ قصباتی ان پڑھ بنگالنیں۔ جن کے نزدیک ڈھاکہ بھی لندن سے زیادہ آزاد ہے۔ یا اللہ۔ یہ آپا کی سسرال ہے۔ اور یہ آپا کے شوہر ہیں۔ اللہ کی شان ہے۔

اب اللہ کی ایک اور شان کا قصہ بھی سنئے اور غور کیجئے کہ بڑی بوڑھیاں جو ’’قسمت کا کھیل‘‘۔ ’’قسمت کا کھیل‘‘ رٹتی ہیں تو کچھ غلط نہیں کہتیں۔

رخصتی کے وقت رونو میاں بحیثیت مہمان آن موجود ہوئے! نکاح ہوچکا تھا۔ نیچے چھواروں کی لٹس مچی تھی۔ قہقہے لگ رہے تھے۔ میں نے فرید پور سے آئے ہوئے کسی نوجوان رشتے دار کی آواز سنی۔ ’’رونو بھائی۔ آپ بھی کھالیجئے۔ جلدی سے دوکیلے ہوجائیں گے‘‘۔ میں نے پلٹ کر دیکھا مگر ہال میں اتنی بھیڑ تھی کہ کچھ پتہ نہ چلا۔ اتنے میں انجم میرے پاس بھاگی بھاگی آئی۔ اور کہنے لگی۔ ’’غضب ہوگیا یاسمین۔ رونو بھائی آپہنچے۔ ان کو اب آنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا اُن کو ابا کے تار نہیں ملے؟ اور اگر مل گئے تو ان کا جواب کیوں نہ دیا۔ پہلے کیوں نہ آئے؟ اب کیوں آئے ہیں۔ زخموں پر نمک چھڑکنے؟‘‘ اتنے میں شور مچا۔ دولہا آرہا ہے۔ دولہا آرہا ہے۔

آپا جو بالکل بے جان سی ہوگئی تھیں۔ ان کو زینے سے اُتار کر زنانہ دیوان خانے میں لایا گیا۔ اور مسند پر بٹھال دیا گیا۔ دولہا میاں مسکراتے ہوئے آئے۔ آر سی مصحف ہوا۔ ساری رسمیں ادا کی گئیں۔ ہم لوگوں کا (انجم، اختر آراء اور میرا) جی جوتا چُرانے کو بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔ مگر مجبوراً چرایا۔

اس وقت مجھے پہلی بار رونو میاں نظر آئے جو دیوان خانے کے دروازے میں کھڑے اطمینان سے نیئر بھائی سے باتیں کررہے تھے۔

اب دیدی اللہ کی تیسری شان سنیئے… یہ رونوں میاں آپ کے مشہور و معروف ریحان الدین احمد ہیں۔ جن کو آپ بھی شاید جانتی ہوں۔ کمال ہوگیا۔ یہ آپا کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ ان کی منگنی آپا سے کیسے ٹوٹی ایک اور لمبا قصہ ہے جو مجھے انجم آراء نے بعد میں بتایا۔ اور اگر میں اس خط میں لکھوں تو خط بہت ہی طویل ہوجائے گا۔ زبانی بتائوں گی۔ بہرحال تو دیوان خانے میں عورتوں کی وہ بھیڑ جمع تھی کہ دم گھٹا جارہا تھا۔ اسی وقت میں نے آپا کے خاندان کی چند بڑھیوں کی کھسر پسر سنی۔ فریدپور سے آئی ہوئی ایک بڑی بی بولیں۔ ’’اے ہے یہ تو اللہ بخشے فخرول بھائی کا نواسہ ہے‘‘۔ دوسری نے کہا۔ ’’وہ تو روپوش تھا میں نے سنا ہے۔‘‘۔ تیسری بولیں ’’نکل آیا جیل سے نگوڑا۔ یونہی خدائی خوار پھرتا ہے‘‘۔ چوتھی نے فرمایا۔ ’’اے جنت مکانی ملیحہ کا پوت‘‘۔ ’’ہاں۔ ہاں وہی۔ اچھا ہوا جہاں آراء سے بیاہ نہ ہوا۔ بے چاری کی قسمت پھوٹ جاتی، کیا خود کھاتا، کیا نواب کی بیٹی کو کھلاتا نگوڑا دہریہ کمیونشٹ‘‘۔

اب رُخصتی کا وقت آیا۔ نیئر بھائی نے پکارا۔ ’’کمرہ خالی کرو۔ بھیڑ کم کرو۔ دلہن کے بزرگ آرہے ہیں۔ بزرگ آرہے ہیں‘‘۔ خیر بہت سارے بزرگ آئے۔ آپا کو دعائیں دینے (ہاں دیدی آپ کے بابا، پشی ماں اور تینوں بھائی بھی آئے تھے شادی میں) آپ کے بابا کے لیے ایک بنارسی ساری لائے تھے۔ دوسرے بزرگوں کے ساتھ جب وہ آئے سر پر ہاتھ رکھنے تو وہ آپا کے سر پر ہاتھ رکھ کر ایک منٹ کے لیے چپ سے کھڑے رہے۔ نواب صاحب نے کہا۔ ’’بیٹی تمہارے ڈاکٹر چچا آئے ہیں۔ نواب صاحب دراصل رخصتی کے وقت دیوان خانے کے ایک گوشے میں گم سم کھڑے تھے۔ (میں نے کسی مرد کو روتے زندگی میں پہلی بار جبھی دیکھا۔ مگر سنا ہے کہ بیٹیوں کی شادی پر باپ لوگ روتے ہیں) جب دیدی آپ کے بابا آپ کے قریب آئے تو نواب صاحب ان سے کہنے لگے۔ ’’بنوئے! ایک دن دیپالی بھی اسی طرح رخصت ہوجائے گی۔ تم بہت سمجھ بوجھ کر اسے وداع کرنا۔ میںمسند کے پیچھے والے دریچے میں چڑھ کر بیٹھ گئی تھی۔ اور یہ سارا نظارہ دیکھ رہی تھی۔ پھر پادری بنرجی روزی کے پاپا آگے بڑھے۔ انہوں نے بھی آپا کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔ اور ’’آئیڈیل وائف‘‘ قسم کے عنوان کی ایک مذہبی و اخلاقی پندونصائح کی مجلد کتاب ربن سے بندھی ان کے پاس رکھ دی۔ پھر نواب صاحب سے کہا خدا باپ کا شکر ہے۔ آپ نے اپنی لڑکی اپنے ہاتھوں سے، عزت کے ساتھ اپنے گھر سے رخصت کی۔ خدا کا شکر ہے۔ اور سر جھکائے کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے باہر چلے گئے۔

وہ کوّا گوہار مچی تھی کہ کیا بتائوں۔ اور انجم بار بار جب موقع ملتا مجھ سے آکر کان میں کہہ جاتی۔ رونو بھائی کو نہ آنا چاہئے تھا۔ ایسی بے رحمی کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کہاں کی جدلیاتی مارکسیت ہے۔ کیا آدمی مارکسٹ بن کر جذبات سے عاری ہوجاتا ہے؟

رونو میاں اُدما دیبی کے ساتھ آئے تھے۔ مہمانوں میں سرپری توش اور لیڈی رائے بھی شامل تھیں۔ مگر رونو میاں اُدما دیبی کے ساتھ بعد میں پہنچے۔ رخصتی کے وقت وہ دروازے میں کھڑے نیئر بھائی سے باتیں کررہے تھے۔ نیئر بھائی نے کہا اخّاہ۔ رونو بھائی یہ عید کا چاند کہاں سے نکلا۔ آپ سے تو آج چار ساڑھے چار برس بعد ملاقات ہوئی ہے۔ کہنے لگے۔ ہاں بھئی۔ ذرا ادھر خاصا مصروف رہا (یہ بھی کس قدر زبردست انڈراسٹیٹمنٹ تھا!) میں ابھی پچھلے مہینے ڈھاکہ آیا تھا۔ تب تم لوگوں سے ملاقات نہ ہوسکی۔

انجم تو اس موقعے کی تاک میں تھی کہ ان سے مچیٹا کرسکے۔ وہ بچپن سے ان کی کافی منہ چڑھی کزن ہے لپک کر آگے بڑھی اور بولی۔ ’’رونو بھائی آپ ڈھاکے سے کہاں گئے تھے۔ دلّی؟‘‘۔ کہنے لگے۔ ’’نہیں بی بی میں دلی کے بجائے پارٹی کے ایک ضروری کام سے سیدھا لاہور چلا گیا تھا اور وہاں سے پشاور یہ پچھلا مہینہ پنجاب اور سرحد کے دورے میں گزرا پشاور میں مجھے پارٹی ہیڈ کوارٹرز کی طرف سے حکم پہنچا کہ فلاں کام کے لیے پھر فوراً ڈھاکے واپس جائو۔ تو دوبارہ سیدھا یہاں آرہا ہوں۔ آج صبح ہی پہنچا تو اُدما نے بتلایا کہ شام کو جہاں آراء کی شادی ہے… کیوں بھئی۔ اب تم کب شادی کررہی ہو۔ کم از کم تم تو آگے پڑھ ڈالو۔ بے چاری جہاں آراء کو ماموں نے کالج سے نہ جانے کیوں اُٹھالیا تھا‘‘۔

انجم مجھے بتا رہی تھی کہ جب وہ اس قدر سادگی سے یہ سب کہہ رہے تھے تو میرا جی چاہا کہ دھاڑیں مار مار کر روئوں اور پھر ان کو قتل کر ڈالوں۔ آپا ان کے دُکھ میں رو رو کر زندہ درگور ہوگئیں۔ اور یہ ان کی شادی میں کس قدر مطمئن اور بے نیاز نظر آرہے تھے۔

ساتھ ہی اُدما کھڑی تھیں۔ دیوار سے لگی۔ اور عینک کے پیچھے سے آنکھیں چمکا چمکا کر رخصتی کا نظارہ ملاحظہ کررہی تھیں۔

اب وداع کا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ آپا کو گود میں اُٹھا کر صدر دروازے تک لایا گیا۔ پھر رونا پیٹنا مچا۔ نیئر بھائی آپا کو پالکی میں بٹھانے لگے۔ اس وقت رونو میاں بھی قریب کھڑے تھے۔ شمسہ خالہ بھی ایک ہی خرانٹ ہیں۔ چمک کر بولیں۔ ’’اے ہے رونو میاں۔ تم بھی تو بہن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے رخصت کرو‘‘۔

اس وقت دیدی مجھے ایسا لگا جیسے سُرخ گٹھری بنی آپا سر سے پیر تک لرز کر رہ گئیں۔ چنانچہ رونو میاں نے آگے بڑھ کر ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور آہستہ سے کہا ALL THE BEST بی بی۔ اور جلدی سے پیچھے ہٹ گئے۔ نواب صاحب قریب کھڑے تھے۔ وہ چہرہ پھیر کر دوسری طرف دیکھنے لگے۔ دراصل اس وقت وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ اور اسی بھیڑ بھڑکے میں ایک بڑی بی دوسری بڑی بی سے بولیں۔ ’’اے ہے۔ اسی طرح دکھیا ملیحہ کو بھائی کی حیثیت سے قمر میاں نے رخصت کیا تھا‘‘۔

باہر بینڈ بج رہا تھا۔ ہاں ایک بات بتانا تو بھول ہی گئی۔ میں انجم اور اختر اس کی شادی سے اس قدر ڈیپریسڈ تھے جن دنوں شادی کی تیاریاں کی جارہی تھیں میں نے سوچا کہ دل خوش کرنے کے لئے کچھ تو کیا جائے۔ چنانچہ سروجنی دیبی کی وہ نظم ’’پالکی بردار‘ ہے نا۔ کالج کی چند لڑکیوں کے ساتھ مل کر میں نے اس کا بیلے بنایا اور اسے رخصتی سے کچھ دیر پہلے ارجمند منزل کے جلسہ گھر میں پیش کیا۔ آپا کی پالکی سامنے ہی رکھی تھی اور دیناج پور پہنچ کر بھی آپا اسٹیمر گھاٹ سے بیس میل دور اپنی سسرال پالکی میں جائیں گی۔

ہمارا بیلے دیکھنے کے لئے سارے مہمان مرد عورتیں جلسہ گھر پر ٹوٹ پڑے۔ بہت سے اوپر جا کر روشن دانوں میں سے جھانکنے لگے۔ بے حد پسند کیا گیا۔ دیدی یہ گویا میری پہلی پبلک پیش کش تھی۔ ابا بہت خفا ہوتے مگر وہ خوش قسمتی سے جل پائے گوری گئے ہوئے تھے۔ آپ کو معلوم ہے نا ابا بڑے قدامت پسند پکے مولوی ہیں۔

بھیڑ بھڑکے میں رونو میاں بھی جلسہ گھر کی ایک دیوار سے لگے ’’پالکی بردار‘‘ دیکھ رہے تھے۔ اُدما رائے ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ وہ بڑے سوچ میں ڈوبے ہمارا رقص دیکھا کئے۔ جب بیلے ختم ہوا تو وہ بھیڑ چیرتے میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ بھئی تم تو کریوگرافی کی خوب صلاحیت رکھتی ہو۔ شاباش۔ کہاں سیکھ رہی ہو۔ میں نے جواب دیا۔ کہیں بھی نہیں۔ کہنے لگے مگر یہ تو بڑی زیادتی ہے۔ تم کو باقاعدہ یہ فن سیکھنا چاہئے۔ میں نے کہا ابا کی اجازت نہیں۔ حالانکہ میں شانتی نکیتن جانا چاہتی تھی وہاں ہماری دیپالی دیدی بھی ہیں۔

’’دیپالی‘‘ کے نام پر دیدی وہ مسکرانے لگے۔ بولے۔ اچھا۔ تمہاری دیپالی دیدی وہاں ہیں۔ بہت خوب۔ کوشش کرکے تم وہاں ضرور جائو۔ اور ان کے چہرے پر ایک دم آپ کا نام سنتے ہی روشنی سی آگئی۔ کیوں دیدی؟ کیا قصہ ہے؟ چھپی رستم؟

جس وقت رونو بھائی مجھ سے باتیں کررہے تھے اُدما رائے عینک کے گول گول شیشوں کے پیچھے سے کھڑی مجھے گھورے جارہی تھیں۔ میں تو بھیا فوراً وہاں سے کھسک گئی۔ ارے بھئی آپ ہی سوچئے رونو میاں سے مجھے مطلب؟

دیدی سروجنی دیبی کے ’’پالکی والوں کا گیت‘‘ کتنا دل دوز ہے۔ پالکی چلے ہوہو… پالکی چلے ہوہو… گیتوں کی تھاپ پر پھولوں سی جھومتی۔ ندیا کے جھاگ پر چڑیا سی ڈولتی… پالکی چلے ہو ہو… ہنس ہنس ہم گاتے چلیں، تیز تیز، جلدی جلدی، گیتوں کی شبنم میں تارا سی پالکی، بھاٹا کی موجوں پر کرنوں کی لہریں… یا دلہن کے آنسو… سہج سہج پالکی چلے… پالکی چلے‘‘۔ سچ دیدی اس گیت پر بہت ہی موثر بیلے بنا۔ خوب تالیں بجیں۔ اس کے بعد آپا کو پالکی میں بٹھالاگیا۔ وہ بے چاری روتی بلکتی سسرال سدھاریں۔ جب ان کی پالکی ارجمند منزل کے پھاٹک سے باہر نکلی رونو میاں اس وقت لان پر ایک طرف کھڑے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایسوں کو تو بس پیسے پہ رکھ کے مارے۔

اچھا دیدی بائی بائی فقط
یاسمین مجید
سگن بگیجہ۔ ڈھاکہ
۲۱ اکتوبر ۱۹۴۲ء
(جاری ہے)

حصہ