حضور اکرمؐ کا حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو دعوت اسلام دینا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت ابو بکر ؓ حضور اکرم ؐ کے بچپن کے دوست تھے۔ ایک دن حضور اکرمؐ کی ملاقات کے ارادے سے گھر سے نکلے۔ آپؐ سے ملاقات ہوئی تو عرض کیا اے ابو القاسم (یہ حضورت اکرمؐ کی کنیت تھی( کیا بات ہے۔ آپ اپنی قوم کی مجلسوں میں نظر نہیں آتے ہیں اور لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کے آبائو اجداد وغیرہ کے عیب بیان کرتے ہیں حضور اکرمؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور تم کو اللہ کی دعوت دیتا ہوں۔ جونہی حضورت اکرمؐ نے اپنی بات پوری کی حضرت ابو بکرؓ فوراً مسلمان ہو گئے۔ حضورؐ حضرت ابوبکرؓ کے اسلام لانے سے اس قدر خو شی کے ساتھ واپس ہوئے کہ کوئی بھی مکہ کی جانب دونوں پہاڑوں کے درمیان جون کو ’’آخشبین‘‘ کہتے ہیں آپؐ سے زیادہ خوش نہ تھا۔ اور حضرت ابوبکرؓ وہاں سے حضرت عثمانؓ بن عفان اور حضرت طلحہ بن عبداللہؓ ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ یہ حضرات بھی مسلمان ہو گئے۔ دوسرے روز حضرت ابو بکرؓ حضورؐ کے پاس حضرت عثمان بن مظعون، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرت ابو سلم بن عبدالاسد اور حضرت ارقم بن ابوالارقم کو لے کر حاضر ہوئے اور یہ سب حضرات بھی مشرف با اسلام ہوئے۔
ایک روایت میں یوں ہے حضرت ابو بکرؓ کی حضورت اکرمؐ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے عرض کیا اے محمد ؐ! قریش جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا وہ صحیح ہے۔ آپؐ نے ہمارے معبودوں کو چھوڑ دیا ہے اور آپؐ نے ہمیں بے وقوف بنایا ہے۔ اور ہمارے آبائو اجداد پر کفر کا الزام لگایا ہے؟آپ ؐ نے فرمایا: ہاں یہ سب صحیح ہے۔ بے شک میں اللہ کا رسول اور نبی ہوں۔ اللہ نے مجھے اس لیے مبعونہ فرمایا ہے تاکہ میں اس کا پیغام پہنچائوں۔ میں تمہیں یقین کے ساتھ اللہ کی دعوت دیتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ہمیشہ اس کی اطاعت کرتےرہو۔ اس کے بعد آپؐ نے قران پڑھ کر سنایا۔ حضرت ابو بکرؓ نے نہ اقرار کیا اور نہ انکار۔ اور اسلام لے آئے اور بت پرستی چھوڑ دی اور اس کے شریکوں کو بھی چھوڑ دیا اور اسلام کی حقانیت کا اقرار کر لیا اور ایمان و تصدیق کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ واپس ہوئے۔
دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضورت اکرمؐ نے فرمایا کہ میں نے جس کو اسلام کی دعوت دی وہ ضرور ہچکچایا۔ اور تردد میں پڑا۔ کچھ دیر سوچ کر اسلام کو قبول کیا لیکن جب میں نے ابوبکر کو دعوت دی وہ نہ ہچکچایا اور نہ تردد میں پڑے بلکہ فوراً اسلام لے آئے۔ پہلی روایت میں جو یہ الفاظ گزرے ہیں کہ ابو بکرؓ نے نہ اقرار کیا اور نہ انکار کیا یہ صحیح نہیں ہیں۔ کیونکہ ابن اسحاق وغیرہ بہت سے زاویوں سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ بعثت سے پہلے ہی حضور اکرمؐ کے ہر وقت ساتھ رہنے والے تھے اور اچھی طرح سے جانتے تھے کہ حضور اکرمؐ سچے اور امانتدار ہیں اور عمدہ طبیعت اور بہترین اخلاق کے مالک ہیں کبھی مخلوق کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے ہیں۔ تو اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں۔ لہٰذا جونہی حضور ؐ نے ان سے یہ بات ذکر کی کہ اللہ نے ان کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ انہوں نے فوراً اس کی تصدیق کی اور ذرہ برابر بھی نہ ہچکچائے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو دردہؓ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ میں کچھ جھگڑا ہو گیا۔ تو حضور اکرمؐ نے فرمایا۔ اللہ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا تھا اس وقت تم سب نے کہا تھا کہ میں غلط کہتا ہوں لیکن ابو بکرؓ نے کہا تھا کہ یہ صحیح کہتے ہیں اور جان و مال سے انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا لوگ میری وجہ سے میرے اس ساتھی کو چھوڑ دو گے؟ یہ جملہ حضور اکرمؐ نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو کسی نے کبھی کچھ تکلیف نہیں دی۔ حضورؐ کا یہ ارشاد اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ حضرت ابو بکرؓ سب سے پہلے اسلام لائے۔