جب چوہدی ایاز علی نے نہایت دکھ اور کرب کے ساتھ یہ بات کہی کہ بچو مجھے معاف کر دینا کہ میں تم تینوں کی حفاظت نہ کر سکاتو یہ جملہ جیسے ان تینوں کے سینوں پر بجلی کی مانند کوند گیا۔ ایک ایسا شخص جس کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات ہوں اور اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہوں، اس کے باوجود وہ اپنی تکلیف کو بھول کر اس غم میں مبتلا ہو کہ وہ اپنے مہمان طالبعلموں کی حفاظت نہ کرنے پر غم زدہ ہو، بڑے اخلاص اور اعلیٰ ظرفی کی مثال تھا۔
چوہدری صاحب آپ ہماری فکر نہ کریں۔ ہم تینوں کا پکا ایمان ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی کسی کے زندگی کے دن کم نہیں کر سکتا اور نہ ہی بڑھا سکتا ہے۔ پھر یہ کہ مرنا تو سب کو ہی ہے بس کوئی پہلے جائے گا اور کوئی بہت بڑی عمر پاکر دنیا سے رخصت ہوگا۔ یہ بتائیں کہ آپ کا یہ حال کس نے اور کیوں بنایا۔
بچو بات یہ ہے کہ جو ٹیم مجھ سے ڈیل کرنے آئی تھی وہ ڈیل کرنے والی ٹیم نہیں ڈاکوؤں کا گروہ تھا۔ وہ ڈیل کے بہانے میری پوری زمین ہی ہتھیانے کا پروگرام رکھتے تھے۔ بے شک وہ میری اس زمین کے عوض مجھے اتنی رقم دینے کے لیے تیار تھے جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں اپنی ساری آباد اور غیر آباد زمینوں کو اگر فروخت کرنا چاہوں تو پیشکش کی گئی رقم کا عشرہ عشیر بھی شاید کوئی دے لیکن میری یہ زمین زمین نہیں میری دھرتی ماں ہے۔ جب یہ ماں جیسی ہے تو میں اس کو فروخت کیسے کر سکتا ہوں۔ پھر یہ کہ کھربوں ڈالر لیکر میں کرونگا بھی تو کیا کرونگا۔ میرا ایک ہی بیٹا تھا جس کو 6 برس کی عمر میں اغوا کر لیا گیا تھا۔ کیا معلوم وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ میں نہیں بھی ہونگا تو زمین کا یہ حصہ تو ہمیشہ میرے ملک کو ہی رہے گی لیکن اگر میں نے اتنی قیمتی اور زرعی زمین کو کسی غیر ملک کے سفارت خانے کی تعمیر کے لیے فروخت کر دیا تو یہ بین الاقوامی قانون کے تحت بھی ہمارے ملک کی زمین تو نہیں رہے گی اور جن تجربات کے بعد میں اس بات کے قابل ہو سکا ہوں کہ چند حیرت انگیز پیداوار حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں پیدا کر سکوں، وہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ کیا میں اپنے ذاتی فائدے کے لیے وطن فروش بن جاؤں؟، بس اسی حمیت نے مجھے یہ کام کرنے سے روک دیا۔
چوہدری صاحب اپنے اوپر بیتنے والے پر تشدد واقعے کی تفصیل بتاتے جا رہے تھے اور فاطمہ، جمال اور کمال کسی بت کی طرح ان کی کہانی سن رہے تھے۔
ابھی ان تینوں میں سے کوئی کچھ کہنے والا ہی تھا کہ چوہدری صاحب نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے بیٹھنا چاہا کیونکہ اسی بات چیت کے دوران تینوں نے ان کے ہاتھ پاؤں پر بندھی رسیاں کھول دی تھیں۔ تینوں نے سہارا دینا چاہا تو انھوں نے گوارہ نہ کیا اور انتہائی تکلیف کے باوجود بھی وہ بیٹھ گئے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چوہدری صاحب نے کہا کہ رہی تم تینوں کی بات تو وفد کا وہی ممبر جو دورانِ مذاکرات واش روم کی اجازت لے کر اٹھ گیا تھا، اس نے تم تینوں اور خاص کر جمال و کمال، یعنی تم دونوں کے متعلق مجھے بہت کچھ بتا دیا ہے۔ اس کے بتانے پر مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ یقیناً ان ہی میں سے کسی کی تیز نظروں نے اس کو واش روم کی بہانے کہیں اور جاتے ضرور دیکھ لیا ہوگا۔ پھر ان سیلڈ پانی اور کولڈ ڈرنگ کی بوتلوں کے ملنے پر تم تینوں کسی خاص نتیجے پر پہنچے ہو گے جس پر اس کو اس بات کا شک نہیں بلکہ یقین ہو گیا ہوگا کہ وہ پہچان لیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں اس شخص کا پکڑا جانا کوئی مشکل کام نہیں اس لیے اب مجھے یہ یقین بھی ہے کہ مجھ سمیت ہم میں سے کوئی بھی شاید ہی زندہ چھوڑا جائے۔ اب ان باتوں کو راز میں رکھنے کا ان کے پاس شاید یہی حل رہ گیا ہے۔
ہمارا خیال آپ کے خیال سے تھوڑا سا مختلف ہے۔
پہلا خیال نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ آپ کو ابھی فوری طور پر نہیں ماریں گے۔ ان کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ کسی نہ کسی طرح آپ کی زمینوں پر قانونی قبضہ کر سکیں جس کے لیے نہ صرف متعدد کاغذات پر آپ کے دستخط اور انگلیوں کے نشانات درکار ہونگے بلکہ آپ کو بنفسِ نفیس کئی دفاتر بھی جانا ہوگا۔ اگر مارنا ہی ہوتا تو وہ اب تک آپ کو مار چکے ہوتے۔
دوسرا خیال اپنے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر بقول آپ کے، وہ ہمارے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں تو پھر ہمیں راستے سے ہٹانے کے لیے ان کو بہت کچھ کرنا ہوگا جس کے لیے انھیں وقت چاہیے ہوگا جس کی وجہ سے نہ صرف آپ ابھی تک زندہ رکھے گئے ہیں اور ہم تینوں بھی سانسیں لے رہے ہیں۔ گویا ہمارے اور آپ کے پاس بھی کچھ کر گزرنے کا موقع ہے۔
ان کی باتیں سن کر چوہدری ایاز علی کی آنکھیں جیسے حیرت سے باہر نکل آئیں۔ ان کے جسم کو جیسے نئی توانائی سی ملنے لگی۔
تم تینوں عمر میںبے شک چھوٹے ہو لیکن تمہارے تجزیے، بہادری اور اعتماد کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کے خلاف کوئی نہ کوئی مؤثر کارروائی کر سکتے ہیں۔
لگ رہا تھا کہ چوہدری صاحب کی ہمت اور غیرت جاگ گئی ہو۔ ان کی آواز میں مخصوص چوہدریانہ پن عود کر آنے لگا تھا۔ وہ مضطربانہ انداز میں کمرے میں ٹہلنے لگے۔
ارے مرنا تو ایک بار ہی ہوتا ہے تو پھر ڈر کس بات کا ہے۔ چوہدری صاحب جیسے خود سے مخاطب ہوئے۔
یہ اچھا تھا کہ چوہدری صاحب اپنی تمام اذیتیں بھول چکے تھے۔
جمال، کمال اور فاطمہ کو یقین تھا کہ چوہدری صاحب کی زمینوں پر کوئی بہت بڑی کارروائی عنقریب ہونے والی ہے۔ وہ تینوں ہاتھ پر بندھی رسٹ واچز کی ہنگامی صورتِ حال والے تینوں بٹن پہلے ہی دبا چکے تھے۔
ویسے انہیں یہ یقین بھی تھا جب سے وہ یہاں آئے ہیں اس وقت سے مسلسل ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا رہی ہوگی اس لیے کہ کلائیوں پر بندھی رسٹ واچز ٹریکر کا کام ضرور کر رہی ہونگی اور اداروں کے علم میں یہ بات یقیناً ہوگی کہ وہ ٹھیک اس وقت کہاں ہیں۔
چوہدری صاحب سمیت وہ تینوں ملک دشمن عناصر کے لیے سانپ کے منہ میں چھچھوندر کا کردار بن کر رہ گئے تھے جن کو زندہ رکھنے کی صورت میں انہیں اندھا ہوجانے کا ڈر اور کھا جانے کی صورت ان کو اپنے کوڑھی ہوجانے کا خوف ستائے ہوئے تھا اور یہی شش و پنج کی کیفیت، چوہدری صاحب سمیت ان تینوں کے لیے زندگی کی مہلت بنی ہوئی تھی۔
جمال چوہدری ایاز علی سے کہنے لگا کہ اگر آپ کے علم میں ہماری حیثیت آہی گئی ہے تو ایک گزارش تو یہ ہے کہ آپ اس راز کو اپنے سینے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیجئے گا۔ ہمارے متعلق ہر ایک کو معلوم ہوجانا ہمارے لیے مناسب نہیں اور اگر آپ برا نہ مانیں تو اب جس قسم کے بھی حالات ہوں، وہ ہم پر چھوڑ دیں اور کسی قسم کے بھی حالات ہوں، ہمارے اشاروں کے بغیر کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کریں۔
چوہدری صاحب نے کہا مجھے تم لوگوں پر فخر ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ میں وہی کرونگا جس کی اجازت آپ میں سے کسی کی جانب سے ملے گی۔(جاری ہے)