ایک یاددہانی:
17 مارچ 2024ء کی اشاعت میں ہم نے یاد دلایا تھا کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے 15 مارچ کو ملک گیر سطح پر ’یوم تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کو آگہی پھیلانے کے دن کے طور پر وقف کرنے کا جامع حکم دیا تھا۔ وہ دن آیا اور چلاگیا۔ اس کا تعلق خالص انٹرنیٹ، وی پی این، سوشل میڈیا کے استعمال سے بھی جڑتا تھا۔ حکومت نے جیسے تیسے ایک بوجھ سمجھ کر اِس حکم پر عمل کیا۔ اِس دن موبائل فون میں یہی ہدایت سنائی دیتی رہی کہ احتیاط کریں۔ معاملہ یہ تھاکہ یہ کوشش چند لوگوں کا ایک ادارہ کررہا تھا، اس لیے اس کا اثر بھی ویسا ہی ’بدنیت‘ ریاست کو ایک موقع مل گیا کہ اُس نے مقدس ہستیوں کی اہانت کے الگ موضوع کے ایجنڈے میں ’اپنے خلاف‘ سیاسی تنقید کو بھی شامل کرلیا۔ یوں اصل بات، اصل معاملہ دَب گیا۔ اس میں بھی کیا شک ہے کہ ریاست انہی سارے پروپیگنڈہ ٹولز کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں ناکام ہی نہیں نااہل بھی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ محض ایک سیاسی جماعت کے پروپیگنڈے سے خوف زدہ ہے اور آج 24 نومبر کو دوسرا دن ہے جب ملک کے بڑے حصے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند ہے۔ تو یہ جان لیں کہ میں ایک ’سیاسی حریف کے بیانیے کو دَبانے‘ سے انکار نہیں کر رہا، بس یہ ضرور ہے کہ ریاست نے اپنی کمزور ی کو چھپانے کے لیے جو غلط آڑ لی ہے اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
فحش مواد:
انٹرنیٹ پر فحش مواد کی جو بھرمار ہے وہ کون نہیں جانتا۔ ہر ہفتے جو لیک وڈیوز کا چرچا ہوتا ہے وہ آپ نے نہیں دیکھا؟ اس ایک مہینے میں پاکستان کی 5 ٹک ٹاکرز کی شرم ناک ’لیک وڈیوز‘ کا معاملہ سرخیوں میں رہا۔ یہ معمولی بات ہے؟آپ اس کو کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں؟ انٹرنیٹ استعمال کنندگان کا 85 فیصد سے زائد حصہ انٹرٹینمنٹ سے جڑے فحش مواد کا شکار ہے۔ یہ جو کاروبار وغیرہ کی باتیں ہیں یہ محض 15 فیصد بھی نہ ہوں گے۔ آپ جاکر پاکستانی عدالتوں میں مقدمات کی تفصیل دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ فحش مواد کیسے گستاخانہ مواد کی طرف جاتا ہے۔ ابھی 12 اکتوبر کو قیصر سجاد نام کے گستاخ کو اسلام آباد کی سائبر کورٹ سے توہینِ رسالت پر سزائے موت اور توہینِ قرآن پر عمر قید ہوئی ہے۔ یہ اکیلا نہیں ہے، یہ سوشل میڈیا کے 138 گروپ چلا رہا تھا۔ جب اس کے موبائل کی فارنزیک رپورٹ کورٹ میں پیش ہوتی ہے، جب فون کی رجسٹرڈ سم کی تفصیلات کورٹ میں جاتی ہیں، تو کوئی ضمانت نہیں ہوتی بلکہ سزائے موت ہوجاتی ہے۔ اس کو سزا سے قبل کورٹ نے 82 موقع دیے اور ساڑھے تین سال بعد اس کو یہ سزا ہوئی، کیوں کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت ہی نہ کرسکا۔ پھر اس کے والدین روتے پیٹتے ہیں کہ ’’ہم تو نمازی ہیں، ہم تو پکے دین دار ہیں، ہمارا بیٹا تو دین سے محبت کرتا ہے، وہ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ واقعی وہ ایسا سوچتا نہیں، مستقل کرتا رہتا ہے، گروپ بناکر ہزاروں کو اس کام پر اکساتا بھی ہے۔ ان سب کاموں میں وی پی این بہ خوبی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے کورٹ نے یہ صورتِ حال دیکھ کر حکومت کو کہا کہ اقدامات کرو وگرنہ صورتِ حال مزید تباہی کی طرف جائے گی۔
چین میں اجتماعی قتل عام:
سوشل میڈیا پر گزشتہ دنوں جدید ترقی یافتہ چین سے آبادی میں کمی دور کرنے کے لیے سرکاری اقدامات کی بہت دھوم مچی ہوئی تھی۔حکومت پریشان تھی کہ ہمارے ملک کی آبادی کیسے بڑھے گی، نسلیں ہی ختم ہو رہی ہیں ان کی۔چین سے آنے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شرح پیدائش میں کمی سے کنڈرگارٹن کی تعداد اور اندراج دونوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔2023 میں ، 11 فیصد یا .5ملین بچوں کی کمی واقع ہوئی،جو تعداد میں کمی کا مسلسل تیسرا سال ہے۔چین بھر کے پرائمری اسکولوں میں بھی 3فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔2023 میں صرف نو ملین پیدائش ریکارڈ کی گئیںجو 1949 کے بعد سب سے کم ہے۔شرح پیدائش ، 2023 میں 1 سے کم ہو چکی ہے۔اس صورتحال میں چین نے عوام کے لیے مالی انعام، ٹیکس رعایت، میڈیکل سہولت، رہائش سہولت، تعلیم کی سہولت، نوکری سمیت کئی سرکاری مراعات کا اعلان کیا ہے مگر اس کے باوجود بھی چینی عوام اولاد پیدا کرنا نہیں چاہتی۔
ایک طرف تو یہ مسئلہ ہے دوسری طرف اب وہاں اجتماعی قتل سے بھی مزیدآبادی کم ہونا شروع ہوگئی۔50 دن میں صرف5 واقعات میں 158 لوگ قتل اور زخمی ہوگئے۔کسی کو طلاق پر،کسی کو تنخواہ پر،کسی کو ایسے ہی مسئلہ تھا۔اچھا یہ امریکہ میں بھی ایسے اجتماعی قتل کی وارداتیں بہت عام ہیں،ہم اس پر لکھتے رہے ہیں کہ وہاں اچانک ایک بندہ نکلتا ہے بندوق لے کر اور بہت سے لوگوں کو قتل کردیتا ہے۔
سخت سنسر کے باوجود اب چین سے بھی خبریںآنا شروع ہوگئی ہیں۔سوشل میڈیا پر اس حوالے سے خاصا چرچا رہا۔مزے کی با ت ان 5 واقعات کے قاتلوں کی عمریں دیکھیں۔ 21سال‘ 37 سال‘ 39سال‘ 50 سال‘ 62 سال تھیں۔یہ وہ ہیں جو زندگی بھر ’’ ترقی‘‘کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ مشین بن کر کام،کام اور کام کرتے رہتے ہیں۔نتیجے میں گھر، خاندان، مذہب ، معاشرت ، تربیت سب ختم ہوجاتا ہے توپھر کچھ سمجھ نہیںآتا کہ کیا کریں۔ پھر وہ سب کو دشمن سمجھ کر قتل کرنا شروع کردیتا ہے۔یہ سب لوگ آپ کو ایسے ہر جدید ترقی یافتہ ملک میں لازمی ملیں گے اور اْن ملک کی نقل کرنے والوں میں بھی۔
روبوٹک دنیا:
ٹرمپ کے دوست ایلون مسک نے اس مہم میں خوب پیسہ لگایا بھی اور کمایا بھی ہے۔ ایلون مسک کی جانب سے جو روبوٹک دنیا کا نقشہ کھینچا گیا وہ بھی خاصا زیر بحث موضوع ہے۔ ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا نے ’’آپٹیمس‘‘ نامی انسان نما روبوٹ کا خاکہ پیش کیا ہے، جسے عام طور پر ’’ٹیسلا بوٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
روبوٹک ٹیکنالوجی اب ایک دو دھاری تلوار سے بھی زیادہ آگے کی چیز لگ رہی ہے، جو دنیا کو عجیب قسم کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سخت اورنئے چیلنجز بھی پیش کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان مباحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موضوع مستقبل میں مزید تحقیق اور مباحث کا متقاضی ہے۔ روبوٹک ٹیکنالوجی میں حالیہ ترقی نے نہ صرف صنعتی دنیا کو تبدیل کیا ہے بلکہ عوام کی زندگیوں پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے فیس بک، ٹویٹر اور لنکڈ اِن پر اس موضوع پر مباحث مستقل عروج پر ہیں۔
روبوٹکس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی انسانی زندگی کوآسان بنانے میں مددگار ہے۔ خودکار روبوٹز صنعتوں میں پروڈکشن بڑھانے، صحت کے شعبے میں سرجری کے دوران انسانی غلطیوں کو کم کرنے اور روزمرہ کے کاموں کو انجام دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، بوسٹن ڈائنامکس کے تیار کردہ جدید روبوٹز صنعتی ماحول میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔
روبوٹک اے آئی (مصنوعی ذہانت) ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلاب برپا کیا ہے، وہیں اس کے ساتھ سائبر کرائم کے نئے خطرات بھی جنم دیے ہیں۔ جدید روبوٹک سسٹمز جو مصنوعی ذہانت پر مبنی ہیں، نہ صرف انسانوں کے لیے سہولت فراہم کرتے ہیں بلکہ ہیکرز اور سائبر مجرموں کے لیے بھی نئے راستے کھولتے ہیں۔
تنقید کرنے والے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روبوٹکس انسانی روزگار کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، کیوں کہ خودکار مشینیں کم وقت اور کم لاگت میں وہی کام انجام دے سکتی ہیں جو پہلے انسان کرتے تھے۔ مزید برآں، مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی روبوٹک سسٹمز کے غلط استعمال کا خطرہ بھی موجود ہے، جو سماجی اور اخلاقی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ( ورلڈ اکنامک فورم2024) یعنی انسانی عمل مستقل محدود ہوتے ہوتے انسان کو ہی ختم اور بے کار کردے گا۔
کرکٹ کا شور:
یہ وہ شو ر ہے جو سوشل میڈیا پر مستقل چھایا رہتا ہے۔ سابق پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی بدترین کار کردگی نے پاکستان بھر میں شائقین کو دکھ دیے جس کا اظہار انہوں نے آزادانہ طریقے سے کیا۔ تاہم اس کے بعد پاکستان اورآسٹریلیا کے درمیان حالیہ کرکٹ سیریز سوشل میڈیا پر شائقین کے درمیان گرم جوشی اور بحث کا موضوع بنی رہی۔ ون ڈے سیریز میں پاکستان کی شان دار کارکردگی، خاص طور پرآسٹریلیا کے خلاف متاثر کن فتح نے مداحوں کو خوشی سے سرشار کیا۔ تاہم T-20 سیریز میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی توقعات پر پوری نہ اتری اور بدترین شکست کھائی جس پر سوشل میڈیا پر جلے کٹے ردعمل دیکھنے کو ملے۔ یہاں بھی بابر اعظم کو بائونڈری پر فیلڈنگ کے دوران تماشائیوں کی جانب سے سخت جملوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ آئی سی سی ورلڈ کپ 2023ء میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد بابر اعظم نے کپتانی سے استعفیٰ دیا، جس کے بعد شان مسعود کو ٹیسٹ اور شاہین شاہ آفریدی کو T-20 فارمیٹ کا کپتان مقرر کیا گیا۔ دوسری جانب کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے ایک فیورٹ فخر زمان کو نہ سینٹرل کنٹریکٹ ملا اور نہ ہی وائٹ بال ٹیم میں جگہ مل سکی جب کہ سوشل میڈیا پوسٹ سے قبل فخر کا نام کپتان کی دوڑ میں بھی لیا جا رہا تھا۔
یہی نہیں اکتوبر 2024 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے وائٹ بال فارمیٹ کے ہیڈ کوچ گیری کرسٹن نے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد پی سی بی نے غیر ملکی کوچز کی بجائے مقامی کوچز کی تقرری پر غور شروع کیا اور فی الحال عاقب جاوید کو عبوری ہیڈ لگایا۔ رپورٹس کے مطابق، پی سی بی نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ کوچنگ اسٹاف میں پاکستانی کوچز کو ترجیح دی جائے گی جب کہ بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کوچز کے لیے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ اندر تک دیمک لگ چکی ہے اور ہم ظاہری میک اَپ پر توجہ دے رہے ہیں۔
آئی سی سی:
پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025ء کا بھی شور سوشل میڈیا پر بڑھا ہے کیوں کہ بھارت نے پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کر دیا۔
بھارتی کرکٹ بورڈ نے ’’سیکیورٹی خدشات‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں میچز کھیلنے سے انکار کیا ہے اور اپنے میچز دبئی میں منعقد کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس پیش رفت نے ٹورنامنٹ کے شیڈول اور انعقاد پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو جیف ایلارڈائس نے واضح کیا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی 2025ء کی پاکستان سے منتقلی کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے اور تمام ٹیمیں پاکستان میں کھیلنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ ظاہر ہے جہاںآئیڈیاز ہو رہی ہے وہاں میچ کیسے نہیں ہو سکتا؟
غزہ:
ہماری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ’کوڑوں‘ کی آزمائش کے بعد ’توڑوں‘ کی آزمائش ہوتی رہی ہے۔ اس ہفتے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جو کوئی بھی غزہ سے مغویوں کو لائے گا اسے ایک مغوی کے بدلے 50 لاکھ ڈالر دیے جائیں گے اور اسے خاندان سمیت غزہ سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ بھی دیا جائے گا۔ ایک سال کی بمباری، تباہی مچانے، نسل کشی کے بعد یہ درحقیقت انعامی اعلان نہیں بلکہ اسرائیل کی طاقت کا ذلت آمیز شکست کا اعلان ہے۔ یہ اعلان بھی ان شاء اللہ ناکام ہی ہوگا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مادّی طاقت، ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ سب ناکام ہوچکے۔ دوسری جانب انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بالآخر نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ یہ خبر بھی اُس دن آئی جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ نے جنگ بندی کی قرارداد چوتھی مرتبہ اس لیے ویٹو کردی کہ اس میں اسرائیلی مغویوں کا ذکر نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی سینیٹ میں اسرائیل کو اسلحہ سپلائی روکنے کی قرارداد بھی مسترد کردی گئی۔ یہ ساری صورتِ حال صاف بتا رہی ہے کہ کوئی عالمی انصاف، کوئی عالمی ادارہ ، کوئی انسانی حقوق ٹائپ کی چیز نہیں ہوتی‘ جو ہوتا ہے وہ طاقت ور ہوتا ہے یا وہ ہوتا ہے جو ظالم کے سامنے ہر حال میں مزاحمت کی شکل میںکھڑا رہتا ہے۔