چین نے فضائی آلودگی کو مات دے دی
بھارت اور چین دونوں کو فضائی آلودگی کا سامنا رہا ہے۔ چین نے فضائی آلودگی کے خلاف جنگ جیت لی ہے۔ بھارت اب تک ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اِس سال بھی تین بھارتی ریاستوں میں اسموگ نے انتہائی خطرناک صورتِ حال اختیار کرلی ہے مگر مرکزی یا ریاستی حکومتیں ٹس سے مس نہیں ہورہیں۔
فضائی آلودگی ختم کرنے کے لیے چین نے 2013ء میں 100 ارب ڈالر کے فنڈز مختص کرکے مشن شروع کیا تھا۔ بیجنگ کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا تھا مگر اب وہ دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل نہیں۔
چین نے اپنے شہریوں کو معقول انداز سے جینے کا حق دینے کا سوچا اور اُس پر عمل کیا۔ بھارتی قیادت نے اپنے لوگوں کو اسموگ کے ہاتھوں مرتے اور پریشان ہوتے دیکھنے کا آپشن چُنا۔ برطانوی جریدے دی لانسیٹ پلینیٹری ہیلتھ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہر سال صرف دہلی میں کم از کم 12 ہزار افراد فضائی آلودگی سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
فضائی آلودگی سے عمر گھٹ سکتی ہے
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ فضائی آلودگی آپ کی صحت پر کس طور اثرانداز ہوتی ہے؟ ہم عمومی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ فضا میں پایا جانے والا دھواں اور دیگر خطرناک اجزا ہمارے نظامِ تنفس پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمیں نزلہ، سر درد یا بخار ہوسکتا ہے` یا آنکھیں متاثر ہوسکتی ہیں۔
معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ کسی جگہ اگر فضائی آلودگی بہت زیادہ ہو اور تواتر سے برقرار رہے تو انسان کی صحت اِس حد تک گرسکتی ہے کہ اُس کی عمر بھی گھٹ سکتی ہے۔
ماہرین نے بھارت کے دارالحکومت کے بارے میں بتایا ہے کہ وہاں فضائی آلودگی اِتنی زیادہ ہے کہ اگر لوگ احتیاط نہ برتیں اور تدارک کے اقدامات نہ کریں تو اُن کی عمر میں بارہ سال کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق دہلی کی فضا انتہائی آلودہ ہے اور اس سے شہر کے مکینوں میں طرح طرح کے عوارض پیدا ہورہے ہیں۔ دہلی کے (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) ایک کروڑ 80 لاکھ باشندے ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جو عالمی ادارۂ صحت کے طے کردہ معیارات کی روشنی میں اُن کی زندگی کے ساڑھے گیارہ سے بارہ سال گھٹا سکتا ہے۔ شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ای پی آئی سی) کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاہور، شیخوپورہ، قصور اور پشاور میں فضائی آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح سے پاکستانیوں کی عمر میں کم از کم سات سال تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔
ہر سال کی طرح اِس سال بھی پاکستانی پنجاب، بھارتی پنجاب، ہریانہ، راجستھان، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش کے علاوہ بھارتی دارالحکومت اور اُس سے جُڑے ہوئے علاقوں میں اسموگ کی صورتِ حال انتہائی پریشان کن ہے۔ مجموعی طور پر کم و بیش 5 کروڑ افراد براہِ راست اسموگ کے نشانے پر ہیں۔ مزید 5 کروڑ وہ ہیں جو براہِ راست زد میں نہیں آئے ہیں مگر پھر بھی اسموگ کے ہاتھوں اُن کے لیے الجھنیں ضرور پیدا ہوئی ہیں۔
اسموگ کا معاملہ اِس لیے پیچیدہ ہے کہ کل تک تو بات صرف موسمِ سرما کے پیدا کردہ کہرے یعنی دُھند کی تھی۔ اب معاملہ زندگی اور موت کا ہے۔ پاکستانی پنجاب میں بھی نئی فصل کی تیاری کے لیے پچھلی فصل کا کچرا جلانے کا رواج عام ہے اور بھارتی پنجاب، ہریانہ وغیرہ میں تو یہ معاملہ بہت زیادہ الجھا ہوا ہے۔ ہر سال ستمبر اور اکتوبر میں بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں فصلوں کا کچرا جلایا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دُھویں سے کروڑوں افراد کے لیے شدید نوعیت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی فصلوں کا کچرا جلانے کا چلن ہے مگر بہت زیادہ نہیں۔ بھارتی پنجاب میں پیدا ہونے والا دُھواں پاکستانی علاقوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور صحتِ عامہ کے حوالے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ہونے دیا جائے گا؟ دونوں ملکوں کی حکومتیں اس حوالے سے کچھ کرتی کیوں نہیں ہیں؟ بھارت میں یہ معاملہ بہت زیادہ سنگین ہے کیونکہ صحتِ عامہ کے لیے انتہائی نوعیت کی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں۔
ہم دو ماہ سے پڑھ رہے ہیں کہ دہلی میں کروڑوں افراد اسموگ کے ہاتھوں انتہائی نوعیت کی اذیت برداشت کررہے ہیں۔ ریاستی حکومت اسکول بند کرکے، سرکاری دفاتر میں ورک فرام ہوم کا اصول نافذ کرکے یہ سمجھتی ہے کہ اُس نے حق ادا کردیا، کوئی توپ چلادی۔ اسموگ کا معاملہ ایسا آسان نہیں کہ زبانی کلامی ختم کردیا جائے۔ اِس کے لیے ایسے ٹھوس اقدامات لازم ہیں جن کے نتائج دکھائی بھی دینے چاہئیں۔
اسموگ کو سمجھنے کے لیے معاشروں کی ساخت اور چلن کو بھی سمجھنا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت میں اسموگ کا معاملہ بہت زیادہ الجھا ہوا ہے۔ بہت سے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں موسمِ سرما کے دوران گہری دُھند پڑتی ہے، کئی ہفتوں تک سُورج دکھائی نہیں دیتا مگر پھر بھی مسائل زیادہ نہیں ہوتے کیونکہ یہ سب کچھ فطری ہوتا ہے۔ دُھند اللہ کی طرف سے بعض فصلوں کے لیے تحفہ بھی ہے۔ گہری دُھند پڑنے سے کئی اجناس پروان چڑھتی ہیں، اُن کا ذائقہ بہتر ہوتا ہے، غذائیت بڑھتی ہے۔ سوال دُھند کا نہیں، اسموگ کا ہے۔
افریقا کے پس ماندہ ترین ممالک میں بھی اسموگ کا معاملہ خطرناک حدوں کو نہیں چھوتا۔ لوگ بعض معاملات کو سمجھتے ہوئے اُن سے مجتنب رہتے ہیں۔ کھیتوں میں کچرا جلانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ فلپائن، ویت نام اور جنوب مشرقی ایشیا کے دوسرے بہت سے ممالک ترقی یافتہ بھی نہیں اور جدید ترین آلات کے بغیر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ وہاں کے باشندوں میں اس بات کا شعور پیدا کیا گیا ہے کہ ماحول کو گندا ہونے سے بچائیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں اسموگ اور دیگر قدرتی آفات کی خبریں اِن ملکوں سے کم سننے کو ملتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت میں اسموگ کا معاملہ اِس لیے زیادہ پیچیدہ ہے کہ ماحول کو نقصان سے بچانے کے حوالے سے عوام کی تربیت نہیں کی گئی۔ اس بات کو سمجھنے سے عام آدمی قاصر ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے وہ ماحول کی گراوٹ کا سبب بنتا ہے اور معاملات گھوم پھر کر اُس تک آتے ہیں، یعنی اُس کے ہاتھوں دوسروں کو پہنچنے والا نقصان خود اُسے بھی نہیں چھوڑتا۔
اب فصلوں کا کچرا جلانے ہی کی بات لیجیے۔ فصلوں کا کچرا دفنایا بھی جاسکتا ہے۔ اس کے لیے تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے رسمی نوعیت کی میڈیا مہم تو چلا دی جاتی ہے مگر واضح احکام پر عمل کرانے کے لیے حکومتی مشینری یا تو ہوتی نہیں، یا پھر اِتنی کرپٹ ہوتی ہے کہ بات بات پر لُڑھک جاتی ہے، راستے سے ہٹ جاتی ہے۔
اسموگ کا معاملہ پاکستان میں بھی ہے مگر بھارت میں بہت زیادہ ہے۔ لاہور کا شمار آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے مگر دہلی کی صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ شہر کے بیشتر حصوں میں فضا اِس قدر آلودہ ہے کہ لوگوں کو سانس لینے میں واضح دشواری محسوس ہوتی ہے اور معمر و بیمار افراد کے لیے الجھنیں بڑھ گئی ہیں۔ لاہور اور اُس کے مضافات کی فضا میں اسموگ تو ہے مگر اُس میں دُھند زیادہ ہے جو موسم کی پیدا کردہ ہے۔ دہلی کا معاملہ واضح طور پر دُھویں کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لاہور کے لوگ سکون سے جی رہے ہیں، مگر پھر بھی معاملہ زیادہ اور نمایاں حد تک کُہرے کا ہے، جبکہ دہلی میں لاکھوں گاڑیوں اور کارخانوں کا دُھواں قیامت ڈھا رہا ہے۔ دہلی کے بیشتر علاقوں میں کھانا پکانے کے لیے لکڑی جلائی جاتی ہے یا پھر کوئلہ۔ مٹی کے تیل کے چولھے بھی عام ہیں اور بُرادے کے چولھے بھی۔
اسموگ سے نپٹنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جانا چاہیے وہ نہ تو پاکستان میں کیا جارہا ہے اور نہ بھارت میں۔ ہزاروں کسان جب اپنی فصلوں کا کچرا جلائیں گے تو کیا ہوگا؟ فضا مزید آلودہ ہی ہوگی۔ فصلوں کا کچرا جلانے سے پہلے بھی فضا اچھی خاصی آلودہ ہوچکی ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں میں صنعتی ادارے اپنا فضلہ معیاری طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے ندی نالوں میں بہاتے ہیں۔ کارخانوں اور پلانٹس کا دُھواں بھی فضا کو آلودہ تر کرتا رہتا ہے۔ ندی نالوں میں صنعتی کارخانوں کا فضلہ شامل ہونے سے پانی ہی آلودہ نہیں ہوتا بلکہ فضا بھی گندی ہوتی جاتی ہے۔ کیمیاوی عمل یا ردِعمل فضا کو بھی آلودہ تر کرتا جاتا ہے۔
محض نمائشی اقدامات اور چند ہدایات جاری کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ صورتِ حال کا بھرپور جائزہ لے کر جامع حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی اور اس معاملے میں دونوں ملکوں کو اشتراکِ عمل کی منزل سے گزرنا ہوگا۔ سرحدی علاقوں میں اسموگ کی ہلاکت خیزی روکنے کے لیے دونوں ملکوں کو مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ کسی ایک ملک کی محنت پر دوسرے کی لاپروائی سے پانی نہ پھر جائے۔
اسموگ کو روکنے کا عمل سال بھر جاری رہنا چاہیے۔ صنعتی اداروں کو پابند کیا جائے کہ اپنا فضلہ ندی نالوں میں غیر معیاری طریقے سے نہ بہائیں بلکہ پیشہ ورانہ بنیاد پر طے کردہ رہنما اصولوں کے مطابق ایسا کریں۔ گھروں میں کھانا پکانے کے لیے لکڑی اور کوئلہ جلانے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماحول کو مزید گندا کرنے والی ہر مشق سے گریز کریں۔
گاڑیوں کے دُھویں پر قابو پانے کی ایک معقول شکل یہ ہے کہ دُھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو سڑکوں پر برداشت نہ کیا جائے۔ ہزاروں گاڑیاں جب پیٹ بھر دُھواں اُگلیں گی تو فضا کا بیڑا غرق ہوکر ہی رہے گا۔
اور سب سے بڑھ کر، کسانوں کی ذہنی تربیت کی جائے کہ وہ ماحول کو مشترکہ اثاثہ سمجھیں اور ایسا کچھ نہ کریں جس سے آلودگی کی سطح بلند ہوتی ہو۔ لازم ہے کہ فصلوں کا کچرا جلانے سے گریز کیا جائے اور ایسے طریقے اپنائے جائیں جن کی مدد سے کچرا ٹھکانے بھی لگے اور ماحول خراب بھی نہ ہو۔