’’رات بھر مجھے فکر کے مارے نیند نہیں آئی۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کو یہ صدمہ پہنچایا‘‘۔
’’میں زندگی میں بڑے سے بڑے دھچکے کو سہار لینے کا عادی ہوچکا ہوں۔ مگر میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اصل صورت حال سے آگاہ کردیا‘‘۔ وہ باہر بیٹھک خانے میں آنے لگے مگر اُدما ان کے کمرے میں داخل ہوچکی تھیں۔ انہوں نے چاروں طرف نظر ڈالی۔
’’آپ تو واقعی بالکل سادھو بن چکے ہیں‘‘۔
بنوئے بابو نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ادما نے عینک اُتار کر آنکھیں ہتھیلیوں سے ملتے رہنے کے بعد کہا۔ ’’بنوئے بابو آپ سے اب صرف ایک درخواست ہے‘‘۔
’’کہیے…‘‘
’’آپ دیپالی پر ہرگز ہرگز یہ نہ ظاہر کیجئے کہ میں نے آپ کو اس کے سُندر بن جانے کا واقعہ بتایا ہے‘‘۔
’’آپ کو یہ درخواست کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں اس سے اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کہوں گا‘‘۔
’’کچھ بھی نہیں کہیں گے؟‘‘ اُدما نے حیرت سے دہرایا۔
’’نہیں…‘‘ بنوئے بابو آہستہ آہستہ دروازے کی سمت بڑھے۔ ’’آئیے باہر چل کر بیٹھیں۔ دیپالی سمجھ دار اور بالغ لڑکی ہے۔ آپ کا خیال ہے میں اس طرح کی کوئی بات کہہ کر اسے شرمندہ کروں گا‘‘۔
اُدما ان کے پیچھے پیچھے بیٹھک خانے میں آکر ایک کرسی پر ٹِک گئیں۔
بنوئے بابو آہستہ آہستہ کہتے رہے۔ ’’اُدما دیبی۔ شاید۔ شاید ایک غیرت مند باپ کی حیثیت سے مجھے دیپالی کو کال کوٹھری میں بند کردینا چاہئے۔ اور شاید فوراً کوئی ہندو لڑکا تلاش کرکے اس کی شادی کردینی چاہئے۔ لیکن اُدما دیبی…‘‘انہوں نے ایک لمبا سانس لیا۔ ’’میں یہ سب کچھ نہیں کروں گا‘‘۔ اس اثناء میں وہ تھکے تھکے سے، کمرے کا ایک چکر لگا کر شکستہ صوفے پر بیٹھ چکے۔ ’’میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اپنی نوعمری کی رومانیت، آئیڈیلزم، اس مسلمان لڑکے سے محبت، جو کچھ بھی ہو، اس کی وجہ سے مجھ سے بہانہ بنا کر ریحان سے ملنے اکیلی وہاں چلی گئی اور غالباً اس کے ساتھ ایک ہی جگہ رہی۔ مگر اس نے کوئی بھی ایسی حرکت نہ کی ہوگی جو اسے نہ کرنا چاہیے۔ مجھے اس کا یقین ہے‘‘۔
’’کس طرح…؟‘‘
’’آپ اُدما دیبی… آپ ولایت میں تین چار سال اکیلی رہیں۔ آپ کے والد کو کس طرح یقین ہے کہ آپ نے وہاں کوئی ایسی حرکت نہ کی ہوگی جو آپ کو نہ کرنا چاہئے‘‘۔
اُدما پھر لاجواب ہوگئیں۔ انہوں نے دھیمی آواز میں سوال کیا۔ ’’اب آپ کیا کریں گے؟ دیپالی اور… اور ریحان کو بیاہ کی اجازت دے دیں گے؟ میں ریحان کو عرصے سے جانتی ہوں۔ وہ کافی لا اُبالی اور غیر ذمہ دار لڑکا ہے۔ ایک مرتبہ وہ اپنی کزن کو LET DOWN کرچکا ہے۔ اور یوں بھی، وہ بالکل HAND TO MOUTH زندگی گزارتا ہے۔ دیپالی ایک ہول ٹائمر کے الائونس پر کس طرح گزر کرے گی؟۔ علاوہ ازیں وہ مسلم سماج میں کس طرح ایڈجسٹ کرے گی؟ خود اس شادی سے آپ کی اپنی پریکٹس پر بُرا اثر نہیں پڑے گا؟ آپ کے زیادہ تر مریض کٹر ہندو بھدرا لوگ ہیں۔ معاف کیجئے گا بنوئے بابو آپ تو ایک لامذہب رشی ثابت ہوئے مگر میں آپ کی ایک پُرخلوص دوست کی حیثیت سے دیپالی کی بھلائی کے خیال سے یہ سب کہہ رہی ہوں۔ حالانکہ ’’IT IS NONE OF MY BUSINESS‘‘
بنوئے بابو سر پیچھے ڈالے چھت کو تک رہے تھے۔ وہ ذرا سا مسکرائے۔ ’’اُدما دیبی۔ آپ یقیناً میری اور دیپالی کی بھلائی کے لئے یہ سب کہہ رہی ہیں۔ اور میں آپ کا ممنون ہوں۔ مگر بات یہ ہے‘‘۔ انہوں نے پھر ایک لمبا سانس لیا۔ ’’میرے نزدیک انسانی زندگی ایک انتہائی انمول شے ہے۔ اپنی نوجوان بیوی، اور اپنے نوجوان بھائی کو کھو دینے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ زندگی کتنی انمول شے ہے۔ اور انسان کا دل… انسان کا دل…‘‘ ایک دم ان کی آواز میں جوش سا آگیا۔ ’’اُدما دیبی آپ کو کیا اتنا بھی علم نہیں… آپ اتنا پڑھ لکھ گئیں۔ دُنیا گھوم آئیں۔ اتنا نہیں جانتیں کہ انسان کا دل کتنی قیمتی چیز ہے؟ جوان دل اور جوان زندگی بے حد… بے حد بیش قیمت چیزیں ہیں۔ اُدما۔ اور اس ایک مختصر سی انسانی زندگی کو دُکھی بنانا دنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے، کیونکہ زندگی بار بار نہیں ملتی۔ انسان صرف ایک بار جنم لیتا ہے میں پُنر جنم میں یقین نہیں رکھتا۔ وہ ایک لغو تصور ہے۔ انسان کا دنیا سے، دوسرے انسانوں سے صرف ایک بار رشتہ بندھتا ہے اور موت آتی ہے تو یہ رشتہ بھی ہمیشہ کے لئے منقطع ہوجاتا ہے… اگر… اگر مجھے یقین ہوجائے کہ دیپالی اس لڑکے کو اتنا چاہتی ہے۔ وہ لڑکا دیپالی کو اتنا چاہتا ہے، کہ ان کے راستے میں حائل ہونے کی وجہ سے ان کی زندگیاں ہمیشہ کے لئے خزاں آلود ہوجائیں گی۔ تو میں یقیناً اسے شادی کی اجازت دے دوں گا… ہندو سماج اور مسلم سماج اور میری پریکٹس، میری بچی کی مسرت سے زیادہ اہم نہیں‘‘۔
’’شادی کی اجازت دے دیں گے…؟‘‘ اُدما نے بھونچکی ہو کر دہرایا۔
’’یقیناً…!‘‘ وہ بہت محظوظ ہو کر اُدما کو دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے کہا… ’’تعجب ہے! کٹر پروگریسو تو آپ تھیں۔ آپ کو میرے ان پروگریسو خیالات پر بہت خوش ہونا چاہئے‘‘۔
اُدما کرسی سے اُٹھیں۔
’’جارہی ہیں۔؟ بیٹھئے چائے پی کر جائیے گا۔ دیدی ابھی بازار سے آتی ہوں گی‘‘۔
’’نہیں اب میں چلوں‘‘۔ اُدما نے جواب دیا۔
بنوئے بابو صوفے پر سے اُٹھے اور انہیں کار میں سوار کرانے کے لئے باہر آگئے۔ جب اُدما کار میں بیٹھ گئیں تو انہوں نے ہاتھ اُونچا کرکے مسکراتے ہوئے نمسکار کیا۔ اور فوراً دو مریضوں سے بات چیت میں منہمک ہو گئے جو اسی وقت پھاٹک پر پہنچے تھے۔
ووڈ لینڈز واپس پہنچ کر ادما رائے نے سرپری توش کے سیکریٹری کو حکم دیا کہ جلد از جلد بولپور جانے کے لئے اسٹیمر اور ٹرین میں ان کا ریزرویشن کروا دے۔ وہ دیپالی سے ملنے شانتی نکیتن جارہی تھیں۔
(31)
دلہن کی پالکی
دیپالی دیدی آداب
پرسوں یعنی جمعے کے روز جہاں آراء آپا کی شادی ہوگئی۔ آپ کو معلوم کرکے ضرور تعجب ہوگا مگر چپکے چپکے بات چیت چلائی جارہی تھی تا کہ بقول شمسہ خالہ کوئی باہر والا اڑنگا نہ لگادے۔ خود جہاں آرا آپ کو تاریخ طے کرنے سے چند روز قبل ہی اطلاع دی گئی۔ یہ شادی بھی شمسہ خالہ ہی نے کروائی ہے۔ نواب اجمل حسین مرشد زادہ نیئر بھائی کی دلہن کے سگے خالو ہیں۔ دلہن بھابھی کی خالہ کا عرصہ ہوا انتقال ہوگیا۔ اولاد کوئی نہیں ہے۔ بقول شمسہ خالہ جہاں آرا آپا کی عمر بڑھ رہی تھی اور کنوارا کم عمر لڑکا مل نہیں رہا تھا۔ خصوصاً جبکہ جہاں آرا آپا کی صورت شکل بھی معمولی ہے۔ نواب اجمل حسین مرشد زادہ آپا سے عمر میں دوگنے بڑے ہیں۔ وہ بھی دیناج پور کے بہت بڑے زمیندار ہیں۔ میٹرک پاس ہیں۔ مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ بقول شمسہ خالہ وہ اپنے سسر نواب قمر الزماں چودھری کے توڑ کے رئیس ہیں۔ تین موٹریں اور تین چار ہاتھی رکھتے ہیں۔ آپا کے لئے سیروں زیور چڑھاوے میں آیا۔ شمسہ خالہ امی سے کہہ رہی تھیں لڑکا میٹرک پاس ہے تو کیا ہوا کون سا جہاں آراء کو اس کے ساتھ بیٹھ کر شیکسپیئر ڈسکس کرنا ہے۔ لیکن امی نے مجھ سے کہا کہ بے چاری جہاں آرا کی قسمت پھوٹ گئی۔ سنا ہے اجمل حسین صاحب کافی عیاش ہیں۔ شراب بھی پیتے ہیں۔ امی نے شمسہ خالہ سے ان کی عیاشی کی خبر پر پوچھ گچھ کی تو وہ بولیں۔ لو بہن بس اب چپکی رہو۔ جب لڑکی والوں نے سب طرح سے اطمینان کروالیا ہے تو ہم غیر لوگ کیوں فکر میں گھُلیں۔ دوسرے یہ کہ لڑکا ایک زمانہ میں ذرا رنگین مزاج ضرور تھا۔ کلکتہ جا کر ریس کھیلتا تھا۔ اور ذرا پینے پلانے اور گانا وانا سننے کا شوقین تھا۔ مگر غریب کیا کرتا۔ بیوی مرچکی تھی۔ اکیلا دم۔ اللہ کا دیا پیسہ بہت۔ مزے اُڑاتا تھا، مگر اب پھر سے گھر گرہست میں لگ کر ٹھیک ہوجائے گا۔ جہاں آراء بڑی نیک بخت ہے۔ اس کی اصلاح کرلے گی۔
سچ کہتی ہوں دیدی۔ مجھے شمسہ خالہ اور نیئر بھائی کی دلہن دونوں پر بڑا غصہ آیا کہ انہوں نے مل کر آپا کو کہاں جھونک دیا۔ نواب صاحب اس رشتے سے قطعی خوش نہیں ہیں مگر سب گھر والوں نے مل کر ان کا پیچھا لے لیا۔ اُوئی کیا لڑکی کا کوار کوٹ چُننا ہے۔ جب تک وہ بیٹھی رہے گی انجم آراء اختر آراء کے لئے بھی پیغام نہیں آسکتے۔ نواب صاحب نے پھر بھی حامی نہ بھری تو جہاں آراء کی امی پر فوراً اختلاجِ قلب کا دورہ پڑ گیا۔ (اختلاجِ قلب نہیں دیدی۔ اب میں بڑی ہوتی جارہی ہوں تو دُنیا کی بہت سی باتیں سمجھ میں آتی جارہی ہیں۔ بیگم قمرالزماں کو دراصل ہسٹریا کا مرض ہے اور نواب صاحب بے چارے امن پسند آدمی ہیں۔ بیوی کے ان دوروں سے ان کی روح فنا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے بیچارے نے ساری عمر اپنے اس ڈیپریسنگ کتب خانے میں بیٹھے بیٹھے گزار دی)۔ بہرحال تو بیگم قمرالزماں نے الٹی میٹم دے دیا کہ لڑکی کا رشتہ اس جگہ نہ ہوا تو وہ زمین آسمان ایک کردے گی۔ نواب صاحب تب بھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔
اور تب ان کی بیوی نے ایک تُرپ چال چلی۔ یہ مجھے بالکل اتفاقیہ معلوم ہوا ور بڑی سخت حیرت ہوئی۔ ایک روز میں ارجمند منزل گئی ہوئی تھی۔ جہاں آراء آپا باورچی خانے کی طرف جاچکی تھیں۔ میں نیئر بھائی کے بچے منور کو گود میں لے کر پیچھے والے برآمدے میں ٹہلنے لگی کہ اندر بیگم قمر الزماں کے کمرے سے آواز آئی۔ نواب صاحب بے چارے اپنی بیوی سے آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے… ’’میں جہاں آراء کو جان بوجھ کر کنویں میں نہیں ڈھکیلوں گا‘‘۔ تو وہ چمک کر بولیں۔ ’’اور کیا کرو گے؟ چاہتے ہو کہ وہ تمہاری چہیتی ملیحہ کے لفنگے بیٹے کے ساتھ بھاگ جائے؟‘‘ نواب صاحب نے متانت سے کہا۔ ’’انوری بیگم۔ خاموش رہو۔ خاموش رہو‘‘۔ وہ بھلا کہاں خاموش رہتیں۔ بولیں ’’معلوم بھی ہے وہ لفنگا جیل سے چھوٹ گیا۔ پھر ڈھاکے کے چکر لگا رہا ہے، ابھی پرلے روز یہاں آیا تھا۔ میں سو رہی تھی۔ وہ میرے کمرے سے باہر نکلا تو آہٹ سے میری آنکھ کھلی۔ جاتے ہوئے اس کی جھلک دیکھی تو گھبرا کر کھڑکی میں گئی۔ باہر جھانکا تو کیا دیکھتی ہوں۔ باہر تالاب کے کنارے دونوں کُھسَر پُسَر کررہے ہیں۔ تمہیں کچھ بسنت کی خبر بھی ہے نواب صاحب۔ تم اپنی اسٹڈی میں بیٹھے پاکستان زندہ باد کرتے رہو۔ تمہیں یہ ہوش کہاں کہ گھر میں کیا ہورہا ہے۔ اب تم یہی چاہتے ہو کہ صاحبزادی تمہارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا کر اس منحوس اُٹھائی گیرے کے ساتھ گھر سے نکل جائیں؟ اور فرض کرو وہ بھاگ نہ بھی سکے تو یہ خبر کہ رونو میاں واپس آگئے ہیں کم بدنامی کی بات ہے؟ بے چاری شمسہ بہن اور اللہ رکھے نیئر کی دلہن نے جوڑ توڑ کرکے ایک رشتہ لگایا ہے وہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ رونو میاں کا قصہ اب تک چھپا ہوا تھا۔ مگر اب بات پھیل گئی تو جہاں آراء تو خیر ہیں ہی بدنصیب۔ چھوٹی دونوں کے بھی رشتے نہیں آئیں گے‘‘۔
نواب صاحب چپ چاپ بیگم کی یہ تقریر سنتے رہے۔ پھر آہستہ سے بولے۔ ’’انوری بیگم۔ رونو اگر شادی کے لئے اب کہے تو میں اسے اجازت دے دوں گا۔ چار برس قبل میں نے حماقت کی تھی۔ اب اجازت دے دوں گا‘‘۔ یہ سننا تھا کہ انوری بیگم پر دورہ سا پڑ گیا۔ کہنے لگیں۔ ’’میں مرتی مرجائوں گی یہ شادی نہ ہونے دوں گی۔ اور یاد رکھو وہ اب تمہاری لڑکی سے بیاہ کرے گا بھی نہیں۔ میں اس روز کے بعد شمسہ بہن کے ذریعے اس کی رتّی رتّی حالات معلوم کروا چکی ہوں۔ وہ اس ہندو بیرسٹر کی لڑکی کے چکر میں مبتلا ہے۔ سرپری توش کی لڑکی۔ یوں کہو کہ بیرسٹر کی لڑکی نے اسے رکھا ہوا ہے۔ توبہ توبہ توبہ۔ اس خاندان میں ایسا بے غیرت آدمی پیدا ہوا۔ مگر کیا کرے۔ ہے بھی تو پاٹ کوٹنے والے دو ٹکے کے کسان کی اولاد۔ اجی وہ تو اب سونے کا بن کر بھی آئے تو میں اس دہلیز کو نہ پھلانگنے دوں۔ آوارہ، دو کوڑی کی اوقات۔ میری شہزادی کو لے جائے گا؟ اور اجی تم بھی سٹھیا گئے ہو کیا۔ یا مرحومہ ملیحہ بیگم کی محبت نے جوش مارا ہے؟ بلوائو تو اس کو۔ ذرا دیکھوں کیسے شادی کرتے ہو جہاں آراء سے اس کی‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ تو ٹسوے بہانے لگیں اور نواب صاحب کمرے سے باہر چلے گئے۔
جب اندر یہ باتیں ہو رہی تھیں تو انجم آراء بھی برآمدے میں آگئی تھی اور کان لگا کر والدین کا یہ مکالمہ سن رہی تھی۔ جب باپ باہر چلے گئے تو وہ لمبا سانس بھر کے مجھ سے بولی۔ ’’اب دیکھو کیا ہوتا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہوجائے۔ اللہ کرے ایسا ہوجائے‘‘۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ قصہ کیا ہے۔ انجم کہنے لگی ابھی آپا سے کچھ ذکر نہ کرنا۔ ممکن ہے کچھ بھی نہ ہو اور آپا پھر غلط آس لگا کر بیٹھ جائیں۔
مگر دیدی بے چاری انجم کو ٹوہ لگ گئی کہ اب ابا کیا کرتے ہیں۔ اور وہ اور مالاؔ دونوں جاسوسی پر مستعد ہوگئیں۔ انہوں نے اپنی جاسوسی کے ذریعے معلوم کیا کہ نواب صاحب نے شمسہ خالہ کو بلا کر اُن سے پوچھا۔ ’’رونو میاں اور اُدما رائے کا قصہ کیا ہے؟‘‘ شمسہ خالہ ہاتھ کانوں پر رکھ کر بولیں۔ ’’بھیا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ میں نے تو ایسے ہی اُڑتی اُڑتی سنی تھی، وہی میں نے انوری بہن کو بتلا دیا‘‘۔ اب نواب صاحب نے جلد از جلد اپنے رونو میاں کو کونٹیکٹ کرنے کی کوشش کی۔ ان کو دہلی خط لکھا کہ فوراً آکر ملیں۔ اُدما رائے کو فون کرکے پوچھا کہ رونو اس وقت کہاں ہیں۔ انہوں نے کچھ گول سا جواب دے دیا۔
(جاری ہے)