ہنگ لگے نہ پھٹکری

68

بازار سے واپسی پر گھر کی دہلیز پر جنت بی کو بل پڑا نظر آیا۔ لپک کر اٹھایا اور اندر آگئیں۔ سامنے ہی ریحانہ سبزی کاٹ رہی تھی۔ جنت بی نے بل ریحانہ کے سامنے رکھ دیا اور پوچھا ’’کتنا ہے بل؟‘‘

ریحانہ جو بل کی رقم دیکھ کر غصے میں آگئی تھی، تڑخ کر بولی ’’بارہ ہزار ہیں آپ کے پاس؟‘‘

جنت بی نے ریحانہ کو دیکھا اور اس کی بد لحاظی پر ایک لفظ نہ کہا، خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

ریحانہ جنت بی کی بہو اور اُن کے اکلوتے بیٹے کی بیوی تھی۔ ریحانہ اور نوید کی پسند کی شادی تھی۔ زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ شادی کو پانچ سال ہوچکے تھے مگر نوید اور ریحانہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔

ڈاکٹر، حکیم ہر جگہ دکھایا مگر ابھی تک کوئی افاقہ نہ تھا۔ اشاروں کنایوں میں اکثر خواتین ٹوک دیتیں۔ لگے ہاتھوں کسی گھڑیال والے بابا، تو کبھی پھولوں والے بابا کی کرامات کا تذکرہ کردیتیں۔

اور ریحانہ کبھی اِس مزار تو کبھی اُس مزار۔ کبھی دھاگا باندھتی، کہیں تالا لٹکاتی تو کہیں دیگ چڑھاتی نظرآتی۔ ریحانہ ہر آستانے پر امید بھرا دل لے کر جاتی مگر امید بر نہ آتی۔ جب کہ پیسہ پانی کی طرح بہتا چلا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی تو ریحانہ تنگ آجاتی اور اسے یہ آستانے اور بابا ڈھونگی لگنے لگتے جو مختلف حیلوں بہانوں سے اس کے شوہر کی حلال کمائی بٹور رہے تھے۔ مگر پھر خواہش کے آگے مجبور ہوکر کسی اور آستانے پر گھٹنے ٹیکنے پہنچ جاتی۔ مہنگائی نے بھی گزارا مشکل کردیا تھا۔ بجلی، گیس کے بلوں کو تو پر ہی لگ گئے تھے۔ ہر ماہ ہی اضافی ہوکر آتے۔ ان حالات نے نہ صرف ریحانہ بلکہ نوید کے مزاج پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ اکثر و بیشتر دونوں میں تُو تُو میں میں ہوجاتی۔

آج بھی ریحانہ بل دیکھ کر پریشان ہوگئی تھی، اسی لیے جنت بی کو تڑاخ تڑاخ جواب دے بیٹھی۔

شام کو نوید کے گھر آنے پر ریحانہ نے بل نوید کے ہاتھ میں تھما دیا۔

’’بارہ ہزار… کیسے جمع کرواؤں گا؟ اب تو ایڈوانس کا بھی آسرا نہیں۔ مالک نے کہہ دیا ہے کہ جسے کام کرنا ہے خاموشی سے کرے ورنہ اپنے آپ کو فارغ سمجھے۔‘‘

نوید نے ریحانہ کی جانب مدد طلب نگاہوں سے دیکھا۔

’’نوید تم جانتے ہو میرے پاس اب سونے کی کوئی چیز نہیں، بالیاں میں تمہیں تین ماہ پہلے دے چکی ہوں… یہ انگوٹھی میں تمہیں قطعی نہیں دوں گی۔ یہ تم نے مجھے منہ دکھائی میں دی تھی… تم اندازہ کرسکتے ہو یہ میرے لیے کتنی اہم ہے۔ تم اماں سے ان کی انگوٹھی لے لو۔‘‘

نوید فوراً ماں کے کمرے میں پہنچا اور بولا ’’اماں تمہیں تو معلوم ہے نا، بجلی کا بل بارہ ہزار کا آیا ہے۔ میرے پاس کچھ ہے ہی نہیں، اور نہ ہی کہیں سے آسرا ہے۔ اماں! تم مجھے اپنی انگوٹھی دے دو، میرے پاس پیسے آئیں گے تو تمہیں ایسی ہی بنوادوں گا۔‘‘

اماں نے ایک نظر نوید کو دیکھا اور انگوٹھی انگلی سے اتارکر نوید کے ہاتھ پر رکھ دی۔ بل تو جمع ہوگیا مگر شاید اللہ کو ماں کی انگوٹھی فروخت کرنا اچھا نہیں لگا۔ نوید کی جاب چھوٹ گئی۔

مسلسل تگ و دو کے باوجود نوید کو جاب نہیں مل رہی تھی۔ تنگ آکر اس نے گھر فروخت کرکے کسی نچلے طبقے کے علاقے میں گھر لینے کا فیصلہ کیا تاکہ قرض بھی اتارا جا سکے اور کوئی چھوٹا موٹا کاروبار بھی کیا جا سکے۔ گھر فروخت کرنے اور خریدنے میں چند ماہ کا عرصہ لگا۔

تبدیلی کے مراحل بھی پایہ تکمیل کو پہنچے۔ اب صرف کاروبار کا مسئلہ تھا۔ نوید جلد از جلد کاروبار سیٹ کرنا چاہ رہا تھا، اسی سلسلے میں سارا دن مختلف لوگوں سے رابطے میں رہتا اور معلومات حاصل کرتا رہتا۔
ریحانہ گھر داری میں مصروف… اور رہ گئیں جنت بی، تو دو کمروں کے گھر میں گھبرا سی جاتیں اور باہر آبیٹھتیں۔ محلے کی خواتین بھی علیک سلیک کے لیے آجاتیں۔ جنت بی کم گو، ان کے سوالوں پر بھی خاموش ہی رہتیں۔ آہستہ آہستہ خواتین کا آ نا جانا گھر میں بھی شروع ہوگیا۔ گھنٹوں ریحانہ سے باتیں ہوتیں۔ خواتین جنت بی کے حوالے سے بھی بات کرتی تو ریحانہ ’’اللہ والی‘‘ کہہ دیا کرتی۔
دھیرے دھیرے محلے کی خواتین نے اپنے مسائل جنت بی کے سامنے دہرانے شروع کردیے اور دُعا تعویذ کا کہتیں۔ ریحانہ یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی، اس کا دماغ دور کی کوڑی لایا۔ اب وقت آگیا تھا کہ حساب برابر کیا جائے۔ ایک ہفتے بعد ہی جنت بی گھر کے ایک کونے میں سفید چاندنی پر سبز رنگ کا گاؤ تکیہ لگائے براجمان تھیں۔ اگربتی کی خوشبو اور دھواں ہرجانب پھیلا ہوا تھا۔ قریب ہی نذرانے کا ڈبہ دھرا تھا۔ علاقے کی چند کمزور ایمان خواتین جنت بی کے سامنے انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ تشریف فرما تھیں۔
اور رہ گئی ریحانہ، تو وہ بے انتہا خوش تھی کیوں کہ کاروبار چل پڑا تھا۔

حصہ