آخری دم تک

85

زندگی کو بامقصد بہت کم ہی لوگ بنا پاتے ہیں… ایسے لوگ جو اپنی زندگی کا ایک مقصد بنائیں اور پوری زندگی اس کے حصول کی جدوجہد میں لگا دیں اور اپنا نام رہتی دنیا کے لیے امر کرجائیں۔ پھر اگر یہ مقصد اللہ کے نزدیک پسندیدہ و مقبول ہے تو بے شک ان کی زندگی کامیاب ترین ہے، چاہے ان کی زندگی میں لاکھ مصائب و مشکلات آئیں، وہ مال و اسباب اور گھر بار سے محروم ہوں، ان سے دنیا کی ہر نعمت چھین لی جائے، یہاں تک کہ انہیں اپنے پیاروں کی قربانی تک دینی پڑے اور آخر میں تمام نذرانے پیش کرنے کے بعد اپنی جان بھی اس مقصد میں قربان کرنی پڑے۔ لیکن وہ کامیاب ہیں، کیوں کہ دنیا کی نظر میں تو کامیابی کے پیمانے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن قرآن کے مطابق کامیابی اُس وقت ملے گی جب کہا جائے گا کہ ’’اے نفسِ مطمئنہ! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تُو اپنے انجام سے خوش اور راضی ہے، داخل ہو جا میری جنت میں، شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں۔‘‘ یہ ہے کامیابی کی معراج اور ہر مومن کی منزلِ مقصود۔

یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایسی زندگی گزارنے والوں پر آنے والی آزمائشیں مختلف ہوسکتی ہیں، ان کی نوعیت الگ ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ہے کہ کسی پر کم آتی ہیں کسی پر زیادہ… لیکن اصل کمال ان آزمائشوں کے باوجود ڈٹے رہنا ہے، جمے رہنا ہے اور استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ فی زمانہ ہمارے سامنے یہ مثالیں موجود ہیں۔ استقامت کے کوہِ گراں جا بجا عزیمت کی داستانیں رقم کررہے ہیں۔ بے پناہ مصائب و آلام، بھوک و پیاس کی تکالیف، مال و اسباب اور گھر بار لٹانے اور اپنے پیاروں کو قربان کرنے کے باوجود اپنے راستے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ اگر ایسا پُرعزم قافلہ کسی تحریک میں ہو تو کسی اثاثے سے کم نہیں، کیوں کہ یہی تو تحریک کی مضبوطی اور پائیداری کا ضامن ہے۔ ہمارے سامنے بڑی مثال موجود ہے کہ اہلِِ غزہ کی اسی استقامت، مضبوطی اور ثابت قدمی نے ان کے دشمن کو بھی بوکھلا دیا ہے۔ تین سو ساٹھ دنوں کی ہلاکت خیزیوں کے باوجود جب کوئی ایک فرد بھی اپنے مقدس مقصد اور تحریک کی حمایت سے پیچھے ہٹنے، اس کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کو تیار نہیں تو وہ چیخ اٹھا ہے کہ ’’حماس تو ایک نظریہ ہے اور اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ ان ہی حالات میں اسماعیل ہنیہ کے بعد یحییٰ سنوار کی شہادت نے اس عزم وہمت کو توڑا نہیں بلکہ اور مہمیز دی ہے، خصوصاً یحییٰ سنوار کی آخری دم تک مزاحمت اور آخری وار نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے جو انہیں امر کر گئی۔

خبر ہے کہ یحییٰ سنوار کو عرب ڈکشنری نے بھی ضم کردیا ہے۔ صحافی و اینکر خدیجہ بن قنہ کے مطابق عربی زبان کی ضرب الامثال کی ڈکشنری میں نئی مثل کا اضافہ ہوگیا کہ ’’رمیۃ بعصی السنوار‘‘ یعنی ’’میں نے اس پر السنوار کی چھڑی پھینک دی‘‘، جس کا مطلب ہے کسی ہدف کو سر کرنے کے لیے اپنی تمام تر جدوجہد کو صرف کرنا۔

دوسری جانب غیر ملکی میڈیا کا ردعمل بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’’یحییٰ السنوار کی آخری تصاویر نے انہیں فلسطینیوں اور عربوں کے لیے ایک لیجنڈ اور ہیرو میں تبدیل کردیا ہے۔ ان کی شخصیت اور موت نے انہیں ایک علامتی حیثیت دے دی ہے اور ان کی شہادت نے فلسطینی مزاحمت کی طاقت اور عزت کو مزید بڑھا دیا ہے۔‘‘

بی بی سی کہتا ہے کہ ’’یحییٰ السنوار فلسطینی عوام کے لیے ایک شہید بن چکے ہیں۔ اُن کی شہادت اس بات کی گواہی ہے کہ انہوں نے کبھی پیچھے ہٹنے یا دشمن سے چھپنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی پناہ گزینوں کے درمیان چھپے، نہ سرنگوں میں گئے، بلکہ وہ آخر تک لڑتے رہے۔‘‘

قریب قریب یہی ’’خراجِ تحسین‘‘ وال اسٹریٹ جرنل، دی گارڈین اور عبرانی اخبار ہارتیز بھی پیش کرنے سے نہ رہ سکے۔ سب سے اہم تجزیہ امریکی اخبار ’’فارن افیئرز‘‘ کا ہے کہ ’’اگرچہ یحییٰ السنوار کی موت ہوگئی، لیکن حماس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ حماس ایک انتہائی منظم اور مربوط تنظیم ہے، جو ’’سر کاٹنے‘‘ کی حکمت عملی سے کمزور نہیں ہوگی۔ حماس کے پاس ایک مضبوط ڈھانچہ اور قیادت کا نظام ہے جو السنوار کی شہادت کے بعد بھی مزاحمت جاری رکھے گا۔‘‘

اس تناظر میں دیکھا جائے تو کارکنان کی تحریک کے مقاصد اور نصب العین سے لگن، عزم و استقلال اور ثابت قدمی تحریک کو جِلا بخشتی ہے اور سربراہِ تحریک کو ہمت، حوصلہ، طاقت اور مضبوطی عطا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک اور کارکنان کا آپس میں مضبوط رابطہ، محبت اور خیر خواہی اور فکری وابستگی بہت ضروری ہے، جب ہی وہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح ایک دوسرے کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔

حصہ