(دوسرا حصہ)
چند سال بعد میں نے سنا کہ حکیم صاحب نے ’’آئی ساکو‘‘ سے بھی علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ انہی ایام میں میرا کراچی جانا ہوگیا۔ وہاں جب میں حکیم صاحب کی خدمت میں پہنچا تو پتا چلا کہ حکیم صاحب نے اپنے مکان ہی میں مطب شروع کردیا ہے۔ یہ مکان پیرکالونی کا ایک چھوٹا سا کوارٹر تھا اور وہ بھی ان کا اپنا نہ تھا، دوسرے وسائل بھی ان کے پاس نہ تھے، لہٰذا مکان کی بیٹھک ہی کو حکیم صاحب نے اپنا مطلب بنالیا۔ لیکن صاحب! اس چند مربع فٹ کی بیٹھک میں جس ہنرمندی سے حکیم صاحب نے ایک مطب کی تمام بنیادی ضروریات کی گنجائش نکال لی، اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔
’’حکیم صاحب! اس چھوٹی سی جگہ میں آپ نے تو ایک دنیا آباد دی ہے‘‘۔ میں نے عالمِ حیرت سے کہا ’’آخر اینٹوں اور پتھروں کو ربڑ کی طرح پھیلا دینے کا ہنر آپ نے کہاں سے سیکھا ہے؟‘‘
’’بھئی، ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘۔ حکیم صاحب نے مسکرا کر جواب دیا، ’’جب کوئی ذمہ داری سر پر آن پڑے تو اسے پورا کرنے کے لیے سب ہنر ونر اور فن وَن آجاتے ہیں‘‘۔
صاف ظاہر تھا کہ حکیم صاحب ان دنوں نیا روزگار پیدا کرنے کی مشکل میں گرفتار ہیں اور ان کا ہاتھ تنگ ہے، تاہم مجھے ان کے صاف و فراخ ماتھے، ان کے مسکراتے ہوئے لبوں، اور ان کی چمکتی ہوئی آنکھوں کو دیکھنے کے بعد لحظہ بھر کے لیے بھی یہ خیال نہ آیا کہ ہاتھ کے ساتھ خدانخواستہ ان کا دل بھی تنگ ہوچکا ہے، یا وہ کسی پریشانی کا شکار ہیں۔ وہی بشاشت، وہی طمانیت مجھے ان کے چہرے پر جھلکتی نظر آئی جسے میں اُن کے اچھے دنوں میں ہمیشہ اُن کے چہرے پر رقصاں دیکھا کرتا تھا۔
’’حکیم صاحب! آپ کو ان دنوں اپنے لیے نیا روزگار پیدا کرنے کی جو آزمائش پیش آگئی ہے، یہ میرے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے‘‘۔ میں نے ذرا دھیمے لہجے میں بات شروع کی۔ ’’تاہم امید ہے کہ آپ اِن شاء اللہ آزمائش کا یہ مرحلہ جلد بخیر و خوبی طے کرلیں گے اور یہی میری دعا بھی ہے‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرمائے‘‘۔ حکیم صاحب نے اپنے پختہ لہجے میں جواب دیا، پھر مسکرا کر بولے ’’ویسے بھئی میں تو الحمدللہ اس موقع پر ذرہ برابر پریشان نہیں ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جب سب دروازے بند ہوجاتے ہیں تو حقیقت میں یہی وقت بندے پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کھلنے کا ہوتا ہے۔ ایسا ان شاء اللہ میرے حق میں بھی ہوکر رہے گا، فکر تو روزی رساں کو ہونی چاہیے، روزی پانے والا آخر کیوں فکرمند ہو؟‘‘
شدید معاشی مشکلات میں گرفتار ہونے کے باوجود حکیم صاحب کی دلجمعی کا یہ مومنانہ انداز دیکھ کر میرا اضطراب کچھ رفع ہوگیا، تاہم اس میں شک نہیں کہ اِس مرتبہ جب میں کراچی سے واپس لوٹا تو حکیم صاحب کی مشکلات کے احساس سے میرا دل بہت بوجھل تھا۔
گھر واپس آکر میں گاہ بگاہ خیریت طلبی کا خط حکیم صاحب کی خدمت میں لکھ دیتا تھا۔ کئی ماہ کے بعد انہوں نے میرے ایک خط کے جواب میں اطلاع دی کہ ان کا مطب ماشاء اللہ چل نکلا ہے۔ چنانچہ انہوں نے پیرکالونی کی مین روڈ پر صرف مطب کے لیے ایک خاصا کشادہ مکان کرائے پر حاصل کرلیا ہے۔ اور اس طرح مطب نے بیٹھک کی تنگنائے سے نکل کر ایک باقاعدہ کلینک کی شکل اختیار کرلی ہے۔ قدرتاً میرے لیے یہ اطلاع بے حد مسرت کا باعث ہوئی۔
اس کے نو، دس ماہ بعد میں پھر بیمار پڑ گیا۔ اپنے مسیحا کا گھر تو میں نے دیکھ ہی لیا تھا، لہٰذا ایک روز میں نے حکیم صاحب کو کراچی فون کیا اور ان سے کراچی حاضر ہونے کی اجازت طلب کی۔
’’واہ بھئی واہ!‘‘ حکیم صاحب نے بے ساختہ فرمایا ’’نیکی اور پوچھ پوچھ! ارے! فوراً چلے آئیے! اور بتا سکتے ہوں تو اپنی آمد کا پروگرام بھی بتا دیجیے‘‘۔
’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘ کے مصداق میں نے اسی وقت اپنا پروگرام مرتب کرکے حکیم صاحب کے گوش گزار کردیا اور ساتھ ہی گزارش کی کہ آپ براہِ کرم اسٹیشن پر تشریف نہ لائیے گا، میں خود ہی آپ کے دولت کدے پر پہنچ جائوں گا‘‘۔
’’اب آپ مجھے ہدایات تو نہ دیں‘‘۔ حکیم صاحب نے مسکت جواب دیا۔
میں جب کراچی پہنچا تو پلیٹ فارم پر قدم رکھتے ہی حکیم صاحب کے معانقے کا شرف پایا جو حسبِ معمول پُرمحبت بھی تھا اور جانفزاء بھی… اسٹیشن سے ٹیکسی پر مجھے حکیم صاحب اپنے دولت کدے پر لے آئے۔ اِس مرتبہ بھی حکیم صاحب نے میری آمد کے پہلے دن مجھے بس اپنی خاطر تواضع میں مصروف رکھا۔ اگلے روز ناشتے کے بعد میری کتھا سنی اور پھر فرمایا ’’نسخہ میں نے تجویز کرلیا ہے۔ آئیے پہلے مطب چلتے ہیں۔ آپ ذرا مطب بھی دیکھ لیجیے گا اور وہیں آپ کے نسخے کی دوائیں ہم پیش کریں گے‘‘۔
حکیم صاحب کے دولت کدے سے نکل کر ہم مین روڈ پر تھوڑی ہی دور چلے ہوں گے کہ دائیں ہاتھ ایک صاف ستھری عمارت پر ’’حکیم محمد اقبال حسین ایم اے‘‘ کا بورڈ آویزاں نظر آیا۔ حکیم صاحب کے ہمراہ جب میں اس عمارت میں داخل ہوا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ داخلے کا دروازہ ایک وسیع انتظار گاہ میں کھلتا تھا، جس میں دو رویہ خوبصورت اور آرام دہ کرسیاں لگی ہوئی تھیں، بیچ میں پست میزوں پر تازہ اخبارات و رسائل سجے تھے۔ انتظار گاہ سے نکل کر جب ہم عمارت کے دوسرے حصے میں آئے تو اس میں ایک طرف دوائوں کا اسٹال تھا اور دوسری جانب حکیم صاحب کے معائنے کا کمرہ۔ مطب کے کھلنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا، لہٰذا حکیم صاحب معائنے کے کمرے سے گزار کر مجھے باہر صحن میں لے آئے، اور پھر صحن کے پرلی طرف انہوں نے مجھے مطب کا وہ حصہ دکھایا جہاں دوائیں تیار کی جاتی تھیں۔ مطب کے تمام شعبوں میں صفائی اور سلیقہ نیز نظم و ضبط کا جو اعلیٰ انتظام میں نے دیکھا، وہ اچھے اچھے ڈاکٹروں کے کلینک میں بھی مجھے کبھی نظر نہ آیا تھا۔ چنانچہ حکیم صاحب کے مطب کا عمدہ اور صاف و شستہ ماحول دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی۔ لیکن جب وہ مجھے اپنے دوا سازی کے شعبے میں لے گئے تو میری حیرت میں دوچند اضافہ ہوگیا۔ جس طرح ہوٹلوں، بیکریوں اور حلوائیوں کی خوش منظر دکانوں کے عقب میں وہ جگہیں جہاں وہ خریداروں کی نظروں سے پوشیدہ اپنی اشیائے خور و نوش تیار کرتے ہیں، عموماً ناصاف اور کریہہ المنظر ہوتی ہیں۔ اسی طرح حکیم حضرات بھی اپنے دوا سازی کے شعبوں میں دوائیں تیار کرنے کے دوران شاذ ہی صفائی کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن میں نے دیکھا کہ حکیم صاحب نے اپنے شعبۂ دوا سازی میں بھی صفائی، شستگی اور حسنِ ترتیب کا بہترین انتظام کررکھا تھا۔ دوا سازی کے ظروف اور آلات کے علاوہ شعبے کا فرش اور چولھے وغیرہ ہر چیز میل کچیل سے پاک بلکہ ایک گونہ آب و تاب سے معمور نظر آتی تھی۔ ’’حکیم صاحب! آپ کے مطب کے ظاہر کی مانند اس کا باطن بھی خاصا اجلا ہے‘‘۔ میں نے عالمِ حیرت سے کہا۔ ’’اور یہ میرے لیے ایک نئی بات ہے‘‘۔ حکیم صاحب نے قدرے توقف کے بعد فرمایا ’’بھئی دوائوں کی تیاری کے دوران اگر ان کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو ان کی تاثیر بھی گھٹ جاتی ہے، اور یہ کہ ایک طرح سے گناہ بھی ہے کہ لوگوں کو ان کی بے خبری میں ناصاف اجزاء کی دوائیں کھلا دی جائیں‘‘۔
اس دوران مطب اپنے وقت پر کھل گیا تھا اور انتظار گاہ میں مریضوں کی آمد شروع ہوگئی تھی۔ لہٰذا حکیم صاحب مجھے ہمراہ لے کر اپنے معائنے کے کمرے میں آبیٹھے اور مریض حضرات ایک ایک کرکے نمبروار اُن کی خدمت میں پیش ہونا شروع ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ حکیم صاحب ہر آنے والے مریض کی پوری بات اس توجہ سے سنتے ہیں جیسے انہیں دنیا میں اِس وقت اور کوئی کام ہی نہیں رہا۔ اس کے بعد وہ مریض سے خود کئی سوال پوچھتے، آخر میں اسے معائنے کے بستر پر لٹاکر اس کا تفصیلی ملاحظہ کرتے۔ اس کے بعد کہیں جاکر مریض کے لیے نسخہ تجویز فرماتے۔ اس سارے عمل کے دوران مریض کے ساتھ حکیم صاحب کا رویہ اس قدر ہمدردانہ اور بے تکلفانہ ہوتا کہ معلوم ہوتا، مریض حکیم صاحب کا کوئی پرانا دوست ہے۔ ایسا بھی ہوتا کہ حکیم صاحب مریض کو کوئی دوا دینے کے بجائے محض غذائی پرہیز کا علاج بتلا دیتے یا کسی ورزش کی ہدایت فرما دیتے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ حکیم صاحب مریض سے کچھ بھی وصول نہ کرتے اور مریض حکیم صاحب کا آدھ پون گھنٹہ صرف کرنے کے بعد محض شکریہ ادا کرکے رخصت ہوجاتا۔
حکیم صاحب کے معائنے کے کمرے میں اُن کے ساتھ بیٹھا میں یہ سارے مناظر تادیر دیکھتا رہا جو کئی لحاظ سے میرے لیے بالکل انوکھے تھے، آخرکار میری دوائیں تیار ہوکر وہاں آگئیں۔ ان کی پہلی خوراک حکیم صاحب نے مجھے خود کھلائی۔ پھر ہاتھ اٹھاکر منہ ہی منہ میں کوئی دعا کی، پھر فرمایا ’’یاد رکھیے اصل معالج آدمی کی اپنی قوتِ ارادی ہوتی ہے۔ حکیم کا کام صرف اس قوتِ ارادی کو تقویت پہنچانا ہے۔ یہی کام اگر مریض خود بھی کرلے یعنی اپنی قوتِ ارادی کو ذرا مضبوط کرلے تو اس کی شفا یابی آسان ہوجاتی ہے‘‘۔
حکیم صاحب کی اس انمول نصیحت، ان کی قیمتی و لذیذ دوائوں اور ان کی جانفزاء محبت و شفقت کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے پانچویں ہی دن صحت یاب ہوکر کراچی سے گھر لوٹنے کا پروگرام بنالیا۔ اِس مرتبہ بھی حکیم صاحب مجھے گاڑی میں سوار کرانے کے لیے خود اسٹیشن پر تشریف لائے اور اس موقع پر پھر حسبِ سابق مجھے کھانوں اور تحفوں سے لاد دیا۔ گھر آنے کے بعد بحمدللہ ایک مدت تک میری صحت ہر قسم کے خلل سے محفوظ رہی۔
سال سوا سال بعد جب میں ایک کام سے پھر ایک مرتبہ کراچی گیا تو حکیم صاحب ایک نئے گھر میں منتقل ہوچکے تھے جو پیرکالونی ہی میں واقع تھا۔ لیکن پہلے گھر کی نسبت دوگنا فراخ اور کشادہ تھا۔ ادھر جب میں حکیم صاحب کے ہمراہ ان کے مطب پہنچا تو مجھے اس کا سارا نقشہ ہی بدلا ہوا نظر آیا۔ مطب کے اندر نہ صرف کئی تعمیری اضافے ہوچکے تھے بلکہ دانتوں کے علاج کا ایک نیا شعبہ بھی جدید آلات کے ساتھ قائم ہوچکا تھا۔ میرے لیے یہ سب کچھ ایک پُرمسرت حیرت کا باعث تھا۔ تاہم میری اس حیرت اور مسرت میں اُس وقت بے پناہ اضافہ ہوگیا جب حکیم صاحب نے مجھے یہ بتایا کہ مطب کی عمارت جو پہلے کرائے پر تھی، اسے اب انہوں نے باقاعدہ خرید لیا ہے۔ اور مزید ہزاروں روپے کے صرفے سے اس عمارت کو انہوں نے اپنی ضروریات کے مطابق بنا سنوار لیا ہے۔
رات کے کھانے پر میں نے حکیم صاحب سے عرض کیا ’’حکیم صاحب! آپ کو تو شاید یاد نہ ہو، جب آپ ’’آئی ساکو‘‘ سے تازہ تازہ علیحدہ ہوئے تھے اور اپنی بیٹھک میں ذاتی مطب کا آغاز کیا تھا تو میں نے انہی دنوں کراچی آنے پر اس صورتِ حال پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ جب سارے دروازے بند ہوجائیں تو اللہ کی رحمت کا دروازہ کھل جایا کرتا ہے‘‘۔ پھر میں نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا ’’الحمدللہ! کہ آج میں رحمتِ خداوندی کے دروازے کو آپ پر چوپٹ کھلا دیکھ رہا ہوں اور اس میں سے اُمڈتی ہوئی نعمتوں کا نزول بھی…‘‘
’’آپ نے سچ کہا‘‘۔ حکیم صاحب نے تشکر بھرے لہجے میں فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ کی بے پایاں عنایات پر میری زبان شکر سے عاجز ہے۔ واقعی رحمت ِ خداوندی نے مجھے ہر طرح سے غنی کردیا ہے۔ آج سے چند سال پہلے کی حالت کے ساتھ اپنے موجودہ حالات کا مقابلہ کرتا ہوں تو دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق دیکھ کر میری زبان گنگ ہوجاتی ہے اور زندگی کا موجودہ دور ایک سہانے خواب کی مانند نظر آتا ہے‘‘۔ حکیم صاحب نے ازراہِ محبت میری پلیٹ میں زردے کی ایک اور قسط انڈیلتے ہوئے فرمایا ’’آپ میرے بھائی ہیں، آپ سے کیا پردہ، یہ ایک واقعہ ہے کہ میں نے جب اپنے پرانے روزگار کو چھوڑا تو بالکل تہی دست تھا۔ مجبوراً میں نے اللہ کا نام لے کر اپنی مختصر بیٹھک ہی میں مطب کا آغاز کردیا جسے آپ بھی ایک مرتبہ دیکھ گئے تھے۔ بہرحال جلبِ منفعت کے بجائے مریضوں کی خدمت میری گویا سرشت میں داخل ہے۔ شاید اسی سبب سے رحمت ِ خداوندی نے میری دستگیری فرمائی اور میری بیٹھک والے مطب میں اتنی سرعت کے ساتھ اپنی برکت شامل کردی کہ جلد ہی میں مطب کے لیے ایک پورا مکان کرائے پر لینے کے قابل ہوگیا۔ خداوند کریم کی رحمت و برکت کا یہ سلسلہ پوری شد و مد کے ساتھ جاری رہا، حتیٰ کہ میں نے مطب والا مکان یک مشت نقد ادائیگی کرکے خرید لیا۔ پھر اس پر تیس چالیس ہزار روپیہ صرف کرکے اس میں کئی اضافے کیے اور اس کی زیبائش و آسائش کا سامان کیا۔ اس کے علاوہ یہ مکان جس میں اس وقت میرا گھر ہے، اگرچہ کرائے کا ہے، تاہم میں نے اس کی مرمت وغیرہ پر بھی محض بچوں کے آرام و آسائش کی خاطر کوئی چالیس ہزار روپیہ اپنی گرہ سے خرچ کرڈالا ہے۔‘‘
’’واقعی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کے کرشمے ہیں‘‘۔ میں نے تاثر کے عالم میں کہا، ’’آپ بہت خوش نصیب ہیں حکیم صاحب! اللہ تعالیٰ نے اِسی دنیا میں آپ کو اپنی نیت کا پھل دے دیا ہے‘‘۔
’’ہاں یہ سب کچھ رحمت ِ خداوندی کا نتیجہ ہے‘‘۔ حکیم صاحب نے میرے دوسرے جملے کو سنی ان سنی کر تے ہوئے فرمایا ’’وہ جو کہا کرتے ہیں کہ رحمت ِ حق بہانہ می جوید… سو رحمت ِ حق نے مجھ پر اپنے نزول کے لیے جو بہانہ ڈھونڈا، اس کا قصہ بھی سن لیجیے، جو خاص آپ ہی کو سنا رہا ہوں‘‘۔
’’یہ تو آپ کی ذرّہ نوازی ہے‘‘۔ میں نے شکریے کے بوجھ تلے دبتے ہوئے کہا۔
’’ہوا یوں…‘‘ حکیم صاحب نے کمر سیدھی کرتے ہوئے فرمایا ’’بہت عرصہ پہلے ایک غریب سی معمر خاتون میرے مطب میں بطور مریضہ آئی، معلوم ہوا کہ وہ ایک بیوہ عورت ہے اور چھ سات ماہ سے بیمار رہتی ہے۔ میں نے اس کا معائنہ کیا تو پتا چلا کہ اسے ٹی بی ہوگئی ہے۔ بہرحال اللہ کا نام لے کر میں نے اس خاتون کا علاج شروع کیا اور اوّل روز ہی میں نے اسے بتلا دیا کہ جب تک وہ میرے زیرِ علاج رہے گی، میں اُس سے اپنی دوائوں کے کوئی پیسے نہیں لوں گا۔ اس نے پہلے تو میری اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا، لیکن بالآخر میرے اصرار میں خلوص کا رنگ جھلکتا دیکھ کر اس نے سپر ڈال دی۔ مَیں اس خاتون کا علاج مسلسل چھ ماہ تک کرتا رہا، اس دوران میری ہدایت کے مطابق وہ ہر ہفتے میرے مطب میں آجاتی تھی۔ کبھی کبھار مطب کی دوائوں کے علاوہ میں اُس خاتون کو کچھ رقم بھی اس ہدایت کے ساتھ دے دیتا تھا کہ وہ اس کے ذریعے اپنے لیے اچھی غذا کا انتظام کرلے، کیونکہ ٹی بی میں اچھی غذا کا استعمال بھی علاج کا ایک جز ہی ہوتا ہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کرم فرمایا اور چھ ماہ کے مسلسل علاج کے بعد وہ خاتون بالکل صحت یاب ہوگئی‘‘۔ حکیم صاحب کچھ دیر کے لیے رکے اور پھر بولے ’’اپنی صحت یابی کے بعد جب وہ خاتون میرے مطب میں آئی اور میں نے اس کے تفصیلی ملاحظہ کے بعد اسے یہ بتایا کہ اب اسے کسی دوا کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے اور ٹی بی سے وہ مکمل طور پر شفا پاچکی ہے، تو وہ بے حد خوش ہوئی اور پھر سلام کرکے مجھ سے رخصت ہوگئی۔ تاہم میرے مطب سے باہر جاکر اور پھر وہاں ایک جگہ کھڑے ہوکر اس خاتون نے میرے حق میں نہایت سوز و گداز کے ساتھ طویل دعائیں کرنا شروع کردیں۔ اس وقت اس خاتون کو قطعاً یہ معلوم نہ تھا کہ میں اندر بیٹھا اس کی دعائوں کا ایک ایک لفظ سن رہا ہوں‘‘۔ یہاں پہنچ کر حکیم صاحب پھر رک گئے۔ اِدھر مَیں بھی سانس روکے حکیم صاحب کی روداد سن رہا تھا۔ کمرے میں کچھ دیر خاموشی طاری رہی، جسے بالآخر حکیم صاحب ہی نے دھیمی آواز سے توڑا۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’اس خاتون کی شفا یابی کے بعد میرے مطب کی ترقی کو جیسے پَر لگ گئے۔ روپیہ مجھ پر بارش کی طرح برسنے لگا۔ جو نیا چاند چڑھتا، میرے لیے نئی دولت ہمراہ لاتا۔ میں سمجھتا ہوں، بھائی صاحب! بلکہ مجھے پختہ یقین ہے کہ جو کچھ بعد میں مجھے عطا ہوا ہے، وہ اسی خاتون کی دعائوں کی برکت سے عطا ہوا ہے۔ خدا کرے وہ خاتون ہمیشہ صحت مند اور خوش و خرم رہے۔ وہ میری عظیم محسنہ ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے حکیم صاحب کی آواز بھرّا گئی اور اُن کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اِدھر میں بھی ایک عجیب تاثر کے عالم میں ڈوب کر رہ گیا۔ میں نے سوچا کہ جب بندہ اپنی تمام تر حیرت انگیز کامیابیوں کو اپنی قابلیت اور تگ و تاز سے منسوب کرنے کے بجائے اسے خالصتاً اہلِ اخلاص کی دعائوں کی برکت اور اپنے مولا کی بے پایاں رحمت کا پرتو قرار دے دے تو اس کی شانِ بندگی پر کیوں نہ ملائک کو بھی رشک آئے۔ اور قارئین! مجھے اس وقت حکیم صاحب کا وجودِ گرامی رشکِ ملائک ہی نظر آیا!
اس مرتبہ اپنے قیامِ کراچی کے دوران مجھ پر حکیم صاحب کی شخصیت کا یہ پہلو بھی آشکار ہوا کہ ان میں پیشہ ورانہ تعصب یا پیشہ ورانہ رقابت کا جذبہ نام کو بھی نہ تھا۔ طبِ یونانی کے علاوہ ہومیو پیتھی، الیکٹرو ہومیو پیتھی، نیچرو پیتھی، ہائیڈرو پیتھی، غرضیکہ تقریباً ہر جدید و قدیم طریقِ علاج سے انہیں شغف تھا، اور ان کے بارے میں ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا جسے ان طریقہ ہائے علاج کے موضوع پر شائع ہونے والی مطبوعات کے ذریعے وہ ہمیشہ تازہ رکھتے، مختلف معالجاتی فنون پر وہ براہِ راست غیرممالک سے کئی مستند فنی رسائل و جرائد باقاعدگی سے منگواتے اور پھر انہیں مسلسل زیرِ مطالعہ رکھتے۔ مطالعے کی اس وسعت نے ان کے اندر زبردست وسیع النظری پیدا کردی تھی۔ ایک روز کہنے لگے ’’ایک حکیم کی فنی تعلیم میں بمقابلہ ڈاکٹر، یہ کمی رہ جاتی ہے کہ حکیم کو انسانی بدن کے اندرونی مشاہدے کا بہت کم موقع ملتا ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’اس کمی کو میں اس طرح پورا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں کہ ٹیلی ویژن پر ماہر سرجنوں کے ہاتھوں ہونے والے جو اہم اور پیچیدہ آپریشن گاہ بگاہ ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں، میں انہیں باقاعدگی سے دیکھتا ہوں اور اس طرح انسانی بدن کے اندرونی مشاہدے سے بہت کچھ سیکھتا ہوں‘‘۔ ایک اور مرتبہ حکیم صاحب نے فرمایا ’’جس طریقِ علاج کو بھی دنیا میں آج بقاء کا درجہ حاصل ہے، خواہ اس کا رواج کم ہے یا زیادہ… وہ بہرحال اپنے اندر افادیت اور شفاء کا جوہر رکھتا ہے، جس سے ایک زیرک معالج کو فائدہ اٹھانا چاہیے‘‘۔ اپنے اس نظریے کو حکیم صاحب نے ایک دلنشیں مثال سے اس طرح واضح فرمایا کہ ’’دنیا میں موجود مختلف طریقہ ہائے علاج گویا وہ مختلف جھولیاں ہیں، جو بنی نوع انسان نے اپنے دکھوں سے شفاء کے لیے اصل شافیِ مطلق یعنی خدا کے حضور پھیلا رکھی ہیں۔ اس اعتبار سے ان جھولیوں کے مختلف سائز، رنگ یا ان کے کپڑے کی کوالٹی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اصل اہمیت داتا کے اس جذبۂ جود و سخا کو حاصل ہے جس سے کام لیتے ہوئے وہ موقع بموقع ہر جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتا ہے‘‘۔
قارئین! بذاتِ خود ملک کے ایک چوٹی کے طبیب ہونے کے باوجود، حکیم اقبال صاحب کا یہ احساس جو بیک وقت گدایانہ بھی تھا، اور طالب علمانہ بھی… کیا نوادر میں شامل نہیں ہے؟
(جاری ہے)