مہک کا راز

52

تینوں نے اس سچویشن پر ایک دوسرے کی جانب حیرانی اور پریشانی والے انداز میں دیکھا۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ یکا یکی یہ کیا ہو گیا۔ اپنے متعلق تو انہیں کچھ کچھ اندازہ ہو ہی چکا تھا کہ کہانی کا رخ ان کے حق میں کافی خوفناک شکل اختیا کر سکتا ہے کیونکہ وہ جس شخص کو اعلیٰ ترین میک اپ کے باوجود پہچان چکے تھے اور یہ بھی جان چکے تھے وہ فرد خود ان کو یہاں موجود دیکھ کر سخت ہیجان میں ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ان تینوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوگی لیکن ان تینوں کو بہر کیف یہ اندازہ نہیں تھا کہ کارروائی اتنی جلدی میں کر لی جائے گی لیکن چوہدری ایاز علی کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک کیوں کیا گیا۔ وہ تو آج کی متوقع ڈیل پر بہت ہی خوش اور مطمئن نظر آ رہے تھے اور ان تینوں کے سامنے ہی وہ مذاکراتی ٹیم کے ساتھ کانفرنس روم میں جا چکے تھے۔

چوہدری ایاز علی بیہوش نہیں تھے البتہ چندھیائی ہوئی آنکھوں سے انھیں دیکھے جا رہے تھے۔ ان تینوں کا پکڑا جانا شاید ان کی توقع کے بہت ہی خلاف تھا۔ ان کو پہچان لینے کے بعد بس انہوں نے اتنا کہا کہ میرے بچو مجھے معاف کر دینا کہ میں تم تینوں کی حفاظت نہ کر سکا۔

ڈرائیور نے جب کمرے کا دروازہ کھولا تھا تو تالا کھلتے ہی وہاں پہلے سے موجود ایک اور آدمی اسے گریبان سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ یہ بات کم تشویشناک نہیں تھی لیکن وہ تینوں فی الحال از خود کچھ بھی کر گزرنے کی حالت میں نہیں تھے۔

دشمن کتنا بھی چالاک کیوں نہ ہو۔ وہ اپنی جانب سے یہی خیال کرتا ہے کہ اس نے میدان مار لیا لیکن دشمن کو شاید ابھی تک یہ خبر نہیں ہو سکی تھی کہ وہ جن بچوں کو پکڑ کر لے جا رہا ہے انھوں نے اپنے ملک کے لیے کتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دے رکھے ہیں۔

اپنی ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے وہ جن اداروں کی نظروں میں آ چکے تھے وہ کسی صورت ان کی جانب سے غافل نہیں رہ سکتے تھے۔

جمال، کمال اور فاطمہ شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ اصل میں جس کیس کے لیے وہ یہاں آئے ہیں اس کی کوئی بہت بڑی اہمیت ہوگی لیکن اداروں کو اس کی اہمیت کا خوب اچھی طرح احساس تھا۔ کیس کی اہمیت کے متعلق بے شک جمال اور کمال کو حقائق کا علم نہیں تھا لیکن جس کام کو کرنے کی اجازت سرکاری اداروں کی جانب سے دی جائے وہ غیر اہم ہو ہی نہیں سکتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ کیس کسی عام دہقان کے قتل کا نہیں، اس کے پیچھے کوئی اہم کہانی ضرور ہے۔ ویسے بھی ان کو کسی کہانی ہونے یا نہ ہونے سے فی الحال کوئی ضرورت بھی نہیں تھی، وہ تو صرف ایسے شواہد اور ثبوتوں کی تلاش میں تھے جو کسی قاتل کو بے گناہ ثابت قرار دینے میں ممد و مدد گار بن سکیں۔

جمال اور کمال کے علم میں تا حال یہ بات نہیں تھی کہ چوہدری ایاز علی کی زمین پر جس غریب کسان کا قتل ہوا ہے وہ در اصل خفیہ کے محکمے کا ہی ایک ذمہ دار اہل کار تھا۔ بے شک وہ کافی عرصے سے چوہدری ایاز علی کی زمینوں پر کام کیا کرتا تھا اور چوہدری صاحب کی گڈ بک میں شمار ہوتا تھا لیکن اصل میں وہ کسی اعلیٰ پولیس عہدیدار کی سفارش پر ان کے پاس ملازم رکھا گیا تھا تاکہ چوہدری صاحب اس کی اصل حقیت سے آگاہ نہ ہو سکیں۔ کئی برس پہلے چوہدری ایاز علی کا بیٹا اغوا کر لیا گیا تھا یا کہیں لا پتا ہو گیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 6 سال تھی۔ خفیہ کے ادارے کے مطابق وہ تا حال ملک ہی میں تھا لیکن کہاں تھا، اس کا علم ان کو آج تک نہیں ہو سکا تھا۔ یہ بات 18 سال پہلے کی تھی۔ اب اگر وہ چوہدری صاحب کو کہیں مل بھی جاتا تو یہ بات تقریباً ناممکن تھی کہ وہ اس کو پہچان بھی لیتے۔

ایک جانب تو چوہدری صاحب کے بچے کی تلاش کا معاملہ تھا تو دوسری جانب چوہدری صاحب کے پاس جب سے چین سے کچھ زرعی ماہرین آنا شروع ہوئے تھے تو محض حفظ ما تقدم کے تحت ادارے نے اپنے اس اہلکار کو، جس کو قتل کر دیا گیا تھا، یہاں ملازم رکھوایا۔ جہاں غیر ملکیوں کا آنا جانا عام ہونے لگے وہاں سرگرمیوں پر نظر رکھنا بہت ہی ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی دوران مقتول نے غیر واضح انداز میں کسی کا چہرہ بدل کر آنے جانے کی اطلاع دی تھی۔ یہ اطلاع اس نے عام ٹکسٹ میسج کے ذریعے مگر چند افراد کے ایجاد کردہ کوڈ میں دی تھی۔ ادارے کا خیال تھا کہ یہ میسج کسی انسٹرومنٹ کی مدد سے نہ صرف ہیک کر لیا گیا تھا بلکہ اسے ڈی کوڈ کرنے کی بھی ناکام کوشش کی گئی ہوگی۔ مقتول اہلکار نے عقل مندی یہ کی تھی کہ اسے اپنے ہی ایجاد کئے ہوئے کوڈ میں ہمیں اطلاع دی تھی جس کو صرف ادارے میں چند ہی لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ میسج کیونکہ نا سمجھ میں آنے والی زبان میں تھا اس لیے جس نے بھی اسے ہیک کیا اس نے بہتر یہی سمجھا کہ اسے ختم ہی کر دینا بہتر ہے۔ مقتول نے یہ بھی کہا تھا کہ میں بہت جلد میک اپ کے پیچھے چھپے چہرے کو جان جاؤں گا اور فوراً ہی آگاہ کر دونگا۔

بظاہر یہ ایک عام سے قتل کا کیس تھا لیکن میسج کے فوراً بعد ہی یہ حادثہ ہو جانا اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ بس یہی وجہ تھی ادارہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ ادارے نے چوہدری صاحب کی بھی بہت چھان بین کی تھی لیکن اسی نتیجے پر پہنچا کہ چوہدری صاحب اپنے مشن اور ملک کے لیے نہایت مخلص ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ زراعت میں کوئی ایسا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں کہ ملک کا نام پوری دنیا میں مشہور ہو جائے۔ اس سلسلے میں وہ کسی بھی حد سے گزرجانے کے لیے تیار تھے۔ گاہ بہ گاہ ادارہ بھی آنے بہانے ان کی زمینوں کا وزٹ اپنے اداروں کے لیے کام کرنے والے زرعی ماہرین سے کر واتا رہتا تھا۔ ان سب کی رپورٹوں کے مطابق بھی چوہدری صاحب کامیابی کے نہایت نزدیک پہنچ چکے تھے اور کسی بھی وقت وہ ایک اہم انٹرویو میں ایک بہت بڑی خبر بریک کرنے والے تھے۔

جس شخص کے ہاتھوں اہلکار کا قتل ہوا تھا یا جو اپنی زبان سے ہر اہم عہدیدار کے سامنے اقرار کرتا رہا تھا کہ قتل اسی نے کیا ہے، اس کا ریکارڈ بھی پولیس اور خفیہ ادارے کا پاس موجود تھا۔ وہ ایک نہایت ٹھنڈے دماغ کا مالک اور شریف انسان تھا۔ گوکہ کون شریف کب کمینگی پر اتر آئے اور کب ایک شیطان صفت انسان فرشتہ بن جائے، اس کے مطلق کوئی بھی ضمانت نہیں دے سکتا لیکن ایک شریف آدمی قاتل میسیج کے بعد ہی کیوں بنا؟، یہ بات بہر حال غور طلب تھی جس کی وجہ سے ادارہ چاہتا تھا کہ اس کی بے گناہی ٹھوس ثبوت و شواہد کے ذریعے ثابت ہو جائے تو اچھا ہے ورنہ تو وہ اپنے اختیارات کا استعمال بھی کر سکتے تھے۔(جاری ہے)

حصہ