ابتدائیہ:
یہ پہلی بار الگ سے لکھنا پڑ رہا ہے، میرا موضوع سوشل میڈیا ہوتا ہے۔ مگریہ بھی سماج کی تصویر ہی ہوتی ہے جو سماج کی بدلتی سوچ، الفاظ، دل چسپی اور ٹرینڈ کی روشنی میں بتائی جاتی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جیسے حالات ہیں لگتا ہے ہر بار یہ اپیل، یہ درخواست لکھنا پڑے گی کہ خدا کے واسطے سمجھ جائیں، یہ خالص شیطانی طوفان ہے۔ یہ بدی کا، فحاشی کا، اخلاقیات کا، دین کا، بے حیا ئی کا طوفان ہے۔ یہ آپ کا عقیدہ، ایمان، دین، غیرت سب کچھ بہا لے جائے گا۔ اب چاہے بجلی سستی ہو یا مہنگی، روٹی مفت ملے یا 100روپے کی، چاہے نوکری ہو یا بے روزگاری، گیس آئے یا نہ آئے، یہ طوفان کسی حال میں نہیں رُکے گا۔ یہ صرف اُس صورت میں رُکے گا جب اسے اجتماعی طور پر روکا جائے گا۔
ہیجڑا فیسٹیول سے ٹرانس جینڈر ایجوکیشن تک:
اس ہفتے دو خطرناک کام ہوئے، 9 نومبر کو کراچی میں ایک ’’ہیجڑا فیسٹیول‘‘ ہوا، پھر 14 نومبر کو خبر آئی کہ سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں پاکستان کی پہلی ’’ٹرانس جینڈر ایجوکیشن پالیسی‘‘ کا ڈرافٹ منظور ہوگیا۔ حیرت انگیز، ناقابل یقین پالیسی کے طور پر سندھ کے اسکولوں اور کالجوں کے داخلہ فارم میں مرد اور خواتین کے خانے کے ساتھ ٹرانس جینڈر بچوں کے لیے بھی خانہ شامل کرنے اور اساتذہ کی بھرتی کے دوران نوکریوں میں کوٹہ مختص کرنے کو بھی پالیسی کا حصہ بنانے پر اتفاق کیا گیا۔
2023ء کی مردم شماری کے مطابق سندھ میںصرف 4 ہزار 2 سو 22 ٹرانس جینڈر ہیں۔ یہ سارے جو رجسٹرڈ ٹرانس جینڈر ہیں وہ سب شناختی کارڈ کی وجہ سے رجسٹرڈ ہیں، مطلب یہ کہ سب کی عمریں 18 سال سے زائد ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ اِن کو اب کون سے اسکول میں داخلہ دیا جائے گا؟ یہ کسی کو سمجھ نہیں آرہا، نہ کبھی آئے گا۔ پھر جنہوں نے اگر اسکول میں نہیں پڑھا تو اُن کو کون سے کالج میں داخلہ ملے گا؟
امریکی فنڈ سے چلنے والی پشاور کی ایک مشکوک NGO جس کا نام CharityTransActionہے، اُس نے سندھ کے اس اجلاس میں بتایا کہ غیر رجسٹرڈ ٹرانس جینڈروں کی پاکستان میں تعداد ڈھائی لاکھ ہے۔ ایک اور امریکی ادارے یو ایس ایڈ کی تحقیق کے مطابق 42 فیصد افراد معمولی پڑھے لکھے ہیں اور 40 فیصد افراد کو تعلیم تک رسائی نہیں۔ (یہ ساری تعداد ان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔)
صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے بغیر کسی معلومات اور فہم کے اجلاس میں یہ بات کہی کہ ’’پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعلیم کے حوالے سے کئی چیلنج درپیش ہیں، اِن افراد کو اکثر معاشرتی سطح پر تعصب، بدسلوکی اور دھتکار کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کی تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ تعلیم کے اخراجات پورے کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے کیوں کہ ٹرانس جینڈر افراد کو عام طور پر روزگار کے بہتر مواقع نہیں ملتے، اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے ڈر کی وجہ سے بھی ایسے لوگ تعلیم کی طرف آنے میں ہچکچاتے ہیں۔‘‘ وزیر صاحب کی زبان سے نکلنے والے یہ سارے الفاظ سو فیصد امریکی و لبرل این جی اوز کی فیڈنگ کی مرہونِ منت تھے جو اُنہوں نے اجلاس میں دہرائے۔
کوئی یہ پوچھنے اور بتانے والا کیوں نہیں کہ اِن سارے مردوں کو عورت کیوں بننا ہے؟ جب خالق نے ان کو مرد پیدا کیا ہے تو کیوں وہ محض ایک جعلی احساس کے نام پر عورت بن جاتے ہیں؟ کئی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ان افراد کو چاہے جتنی تعلیم دے دی جائے یہ ناچنا، گانا اور پیسوں کی خاطر سب کچھ کرنا نہیں چھوڑتے۔ یہ سارے ’ٹرانس‘ یعنی ’’اصلی مرد‘‘ جو عورتوں کے روپ میں نکلتے ہیں، کبھی ’’ہیجڑوں‘‘ کا نام استعمال کرتے ہیں اور عوام کو ’’بے وقوف‘‘ بناتے ہیں کہ یہ مظلوم ہیں، بے چارے ہیں، غریب ہیں، مرد و عورت کے بیچ میں لٹکے ہوئے اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے ہیں۔ اسی طبقے کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ان میں سے اکثر کے بیوی، بچے موجود ہوتے ہیں۔ کوئی تو لڑکیوں سے ’زیادتی‘ کے کیس میں ملوث ہے، یہ کسی طور ’جسم فروشی‘ سے نکلنے کو تیار نہیں کیوں کہ اس کام میں پیسہ بہت ہے۔
افسوس کہ حقیقت فراموش کرنے والے سردار شاہ نے کہا کہ پاکستان میں ایسا کوئی مخصوص نصاب بھی موجود نہیں جو ٹرانس جینڈرز کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ سید سردار علی شاہ نے بالکل بھی واضح نہیں کیا کہ مرد کے عورت بننے کی ضرورت کو پورا کرنے کا نصاب کوئی بنائے گا ہی کیوں؟ وہ ایک ایسی لغو بات کو بطور پالیسی بنانا چاہ رہے ہیں جس کی حقیقت شاید وہ خود بھی نہیں جانتے۔
وزیر تعلیم سندھ نے پالیسی بتاتے ہوئے مزید کہا کہ ’’پالیسی کو ٹرانس جینڈرز کی حفاظت، شناخت اور تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے، ٹرانس جینڈر افراد کو ہنر سکھانے والے پروگراموں میں شامل کرنا زیادہ مؤثر نتائج دے گا۔‘‘
وزیر صاحب! یہ ساری توقعات آپ نے صوبے کے محض 4 ہزار جسم فروشوں کے لیے لگا ئی ہیں جب کہ آپ کے صوبے میں 70 لاکھ معصوم بچے اور بچیاںاسکول کی بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔
وزیر صاحب! یہ ساری پالیسی اُن کے نام پر بنائی گئی ہے جن کا وجود ہی وفاقی شرعی عدالت رد کر چکی ہے، یعنی جنس بدلنے والے کی کوئی الگ جنس نہیں ہوسکتی۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ ’’تعلیمی اداروں میں ٹرانس جینڈر طلبہ کے لیے اینٹی ہراسمنٹ ماحول کو فروغ دینے اور ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق اور مساوی مواقع کی آگاہی مہم چلائی جائے گی۔‘‘
وزیر صاحب! کون سا مساوی موقع؟ جب آپ الگ پالیسی بنا رہے ہیں تو برابری کیسی؟ جب ایک مرد عورت کا روپ دھارے گا تو لوگ کیوں اور کیسے اُس کی ’عزت افزائی‘ کریں گے؟ کون سے والدین اپنے بچوں کو ان کی صحبت میں بٹھائیں گے؟
میں نے سندھ کی نان فارمل ایجوکیشن پالیسی 2017 کی دستاویز دیکھی تو اس کے مقاصد میں صاف لکھا تھا کہ ’’بالغ خواندگی سمیت تمام سطحوں پر تعلیم میں صنفی فرق کو ختم کرنا۔‘‘ آپ یہی شیطانی کام کرنے میں لگے ہوئے ہیں، لیکن مزاحمت آئے گی۔
صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے کہا کہ کابینہ سے پالیسی کو قانونی شکل ملنے کے بعد ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیا اور اخبارات میں ٹرانس جینڈر بچوں کی تعلیم کی اہمیت پر مہمات بھی چلائی جائیں گی۔وزیر صاحب! صوبے میں محض 4200 لوگوں کے لیے یہ کام آپ کو زیب دیتا ہے؟ ایسی مہم چلا کر آپ کیا یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ جو بچے اپنی جنس خود سے تبدیل کرالیں ریاست اُن کی مکمل سرپرستی کرے گی؟
شرعی عدالت:
میں امید کرتا ہوں کہ این جی اوز اور عالمی لبرل ایجنڈے کے نفوذکے لیے اس قسم کی شیطانی پالیسی کو عوامی رد عمل سے روکا جائے گا۔ 2018ء میںٹرانس جینڈر ایکٹ کی اس اصطلاح کو وفاقی شرعی عدالت کالعدم اور غیر شرعی قرار دے چکی ہے۔ اس نے 20 مئی 2023ء کو ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے ایکٹ کے سیکشن دو ایف، سیکشن تین اور سات کو خلاف ِشریعت قرار دے دیا تھا۔ فیصلے میںکہا گیا کہ جنس کا تعین انسان کے محسوسات کی وجہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرانس جینڈر کی جنس کا تعین غالب جسمانی اثرات کی بنیاد پر کیا جائے گا، جس پر مرد کے اثرات غالب ہوئے وہ مرد خواجہ سرا، اور جس پر زنانہ اثرات غالب ہوں اسے عورت خواجہ سرا تصور کیا جائے گا۔ مرد یا عورت خود کو اپنی بایو لوجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہیں تو یہ غیر شرعی ہوگا۔ ایسی صورتِ حال میںٹرانس جینڈرکی اصطلاح ختم ہوچکی ہے۔
جعلی مطالبوں کا پوسٹ مارٹم:
ان لوگوں کا پہلا مطالبہ شناخت کو قبول کرنے کا ہے یعنی ان کو تیسری جنس مانا جائے، اور اس ’’من گھڑت جنس‘‘ کے حقوق بھی بنا کر دیے جائیں۔ دوسرا مطالبہ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع کا ہے۔ تیسرا مطالبہ ملازمت کا ہے۔ تینوں مطالبات جھوٹے ہیں۔ فرض کریں ان کو تعلیم اور باعزت روزگار مل جائے تو کیا یہ واقعی عزت دار زندگی گزارنا چاہیں گے؟
یہ ہے وہ دھوکہ، دجل اور جھوٹ۔ اِن کے درمیان کئی لوگ موجود ہیں، ڈاکٹر معیز اعوان سے لے کر کامی سڈ، نایاب، سارہ گل، شہزادی رائے سمیت طویل فہرست ہے۔ یہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن ان کی حرکتیں دیکھیں، آپ کو یقین آجائے گا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ اسلام آباد پولیس کی طرف سے ایک کو ملازمت ملی تھی لیکن اس کے باوجود وہ جنس بدلوانے والوں، ناچ کر، جسم فروش ٹولے کے ساتھ آج تک کھڑے نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کو فحاشی اور جنسی آزادی کے پروگراموں میں بلایا جاتا ہے۔ میں کوئی اپنا تجزیہ نہیں بتا رہا، یہ سب وڈیوز آپ یوٹیوب پر بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔
گویا بات صرف یہ ہے کہ ہمیں ناچنے پر ’’مجبور‘‘ نہ کیا جائے، ہم اپنی مرضی سے ناچیں گے۔ ہمیں تعلیم دو، ہم پڑھ لکھ کر اسی ملک سے کمائیں گے اور پھر ناچیں گے۔ ہمیں شناخت دو، ہم اپنی مرضی سے مرد سے عورت بنیں گے اور پھر ناچیں گے۔ ہمارے جسم کو جس چیز کی، جیسی ضرورت ہے ہمیں خالصتاً ہماری مرضی پر وہ پوری کرنے دی جائے۔ یہ اس لیے کہ ’’حقوق کا سارا ڈسکورس‘‘ کھڑا ہی مرضی پر ہوتا ہے۔ میں، میری شناخت، میری مرضی… ان سب میں کہیں خدا نہیں ہوتا۔
صحت ٹیسٹ:
ہاں ایک بات اور، یہ جو صحت کی سہولیات مانگتے ہیں اس کی حقیقت نزلہ، کھانسی، بخار نہیں ہے۔ یہ تو خود اپنی جنسی شناخت کے ٹیسٹ کے انکاری ہوتے ہیں تو اصل میں صحت کے نام پر یہ کون سی بیماری کا علاج مانگتے ہیں؟ جی۔ وہ خرابی ان کی غلیظ حرکتوں سے پیدا ہونے والی خاص بیماری ہے جو ان لوگوں میں عام ہے۔ یہ اس کا علاج مانگتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اس گندی بیماری کا علاج حکومت کرے مگر بیماری پھیلانے والی گندی حرکتوں سے انہیں نہ روکا جائے کیوں کہ یہ تو ’’ٹرانس جینڈر حقوق ‘‘ہیں۔
والدین سے مؤدبانہ درخواست:
قارئین سے درخواست ہے کہ خدارا! اِن الفاظ کا مطلب پہلے سمجھ لیں تاکہ اپنی اولاد کو سمجھا سکیں اور اُن پر نظر بھی رکھ سکیں۔
جو انسان پیدائشی طور پر مردانہ و جنسی اعضا کے نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اُن کو عربی اور اردو میں ’’ خُنثیٰ‘‘ اور انگریزی میں ’’انٹرسیکس‘‘ کہتے ہیں۔ ان کے میڈیکل ٹیسٹ پاکستان میں موجود ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ زیادہ مرد ہے یا عورت۔ وہی اسلامی احکام اُن پر لگتے ہیں۔ اس لیے کوئی تیسری جنس ہوتی ہی نہیں ہے۔ بوقتِ پیدائش اعضا کے مسائل والوں کو انٹرسیکس یا خنثیٰ کہتے ہیں ،’’ٹرانس جینڈر ‘‘نہیں۔
خواجہ سرا وہ مرد ہوتا ہے جس کا آپریشن کر کے مردانہ عضو نکال دیا جائے۔ یہ شخص آپریشن کے بعد عورت نہیں بن جائے گا۔ اتنی سمجھ تو سب میں ہے۔ یہ مرد ہی رہے گا چاہے اپنے عضو کو ختم کراچکا ہو۔
ٹرانس جینڈروہ مرد ہوتا ہے جس کو خود سے یہ لگتا ہے یا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اندر سے عورت ہے حالانکہ وہ جسمانی طور پر مرد ہوتا ہے۔ یوں وہ اپنے اندرونی احساسات کی وجہ سے، مخصوص ماحول پا کر عورت بن جاتا ہے۔ ابتدا میں حلیہ اور چال ڈھال بدلتا ہے، آگے چل کر آپریشن بھی کرواتا ہے۔ وہ ہوتا ہے ٹرانس جینڈر، جنس بدلوانے والا، جو مکمل حرام کام ہے۔ اس لیے ٹرانس جینڈر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی عورت جس کو لگے کہ وہ مرد ہے، حالانکہ وہ بایولوجیکلی عورت ہے لیکن وہ مرد بن جائے، چاہے صرف حلیہ یا آپریشن کروا کر… وہ بھی ٹرانس جینڈر ہی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ میری تحقیق کے مطابق کراچی کے صرف ایک ’پارلر‘ میںروزانہ 10-12 نوجوان لڑکے آرہے ہیں جو اپنے آپ کو ’’لڑکی‘‘ کا روپ دینے کے لیے خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں۔ اِن کی عمریں 15سے19 سال کے درمیان ہیں، یہ تمام مالی طور پر اچھے گھرانوں کے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے والدین بھی آپ کی طرح اپنے موبائل، اسکرین اور کاروبارِ زندگی میںکھوئے ہوئے ہیں۔ یہ آگ کب آپ کے گھر پہنچے گی آپ کو معلوم ہی نہ ہوگا۔