نظام عدل و انصاف اور بے بس عوام

167

عدالتِ عظمیٰ کے دروازے پر آویزاں میزان عدل و انصاف کی علامت ہے۔ یہ میزان اس بات کا پیغام دیتا ہے کہ یہ وہ گھر ہے جہاں تمام تر تعصبات، اقربا پروری اور رشتوں سے بے نیاز ہوکر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس گھر کے اندر کرسیوں پر ایسی شخصیات بیٹھتی ہیں جو نہ ڈرتی ہیں اور نہ بکتی ہیں، اور نہ فیصلہ کرتے ہوئے مجرم پر رحم کرتی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں جو قلم ہے وہ مجرموں کے گلے پر چلنے والا نشتر اور مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے والا آلہ ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو میزان پر قائم کررکھا ہے، یہ گردشِ لیل ونہار میزان سے مشروط ہے، جس دن اس میں خلل واقع ہوا وہ قیامت کی گھڑی ہوگی۔ آسمان پھٹ جائے گا، ستارے بے نور ہوجائیں گے اور سمندر جل اُٹھے گا۔ ایک خوف ناک زلزلہ ہوگا اور مہیب کھڑکھڑانے والی آواز آئے گی جس کا ادراک بھی ممکن نہیں۔ پہاڑ روئی کے گالے بن کر اُڑ جائیں گے اور انسان پتنگوں کی طرح فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ اس دنیا کی بقا میزان سے ہے اور فنا میزان میں خلل سے منسوب ہے۔

انسانی جسم کا نظام مثلاً نظامِ انہضام، نظامِ دوران خون، نظامِ تنفس، نظامِ اخراج یہ سب ایک میزان کے ساتھ حرکت پذیر ہیں اور انسانی صحت کی علامت ہیں، اس میں خلل بیماریوں کے اسباب پیدا کردیتا ہے۔

کسی بھی ملک اور قوم کی بقا کا دارومدار عدل پر ہے۔ آج کی مہذب دنیا ہو یا دورِ قدیم کی دنیا، عدل و انصاف سے چلتی رہی ہے۔ اور جب بھی بادشاہوں یا منصفین عدل و انصاف نے اس سے روگردانی کی، نہ قوم کو امن وامان ملا اور نہ حکومتیں قائم رہیں۔

میرا موضوعِ تحریر برصغیر ہند و پاک اور بنگلادیش کا نظامِ انصاف اور منصفوں کا کردار ہے، جو پوری دنیا میں بدنام زمانہ ہے۔ سب سے پہلے ہم کلمے کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک پاکستان کے نظام عدل و انصاف اور ججوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستانی عدلیہ دنیا بھر کے نظام انصاف میں ریٹنگ کے اعتبار سے 160 ویں نمبر پر ہے۔ بلامبالغہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہاں طبقاتی فیصلے ہوتے ہیں۔ برسوں تک سائلین عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے برباد ہوجاتے ہیں اور انہیں انصاف نہیں ملتا۔ پاکستانی عدلیہ اور اعلیٰ ترین عدالتوں کے جج اس بات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے کہ جب بھی کسی طالع آزما جرنیل نے اقتدار پر قبضہ کیا اور آئین کو معطل کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو ان ججوں نے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت اس کو ’’جائز‘‘ قرار دیا، حالانکہ یہ آئین شکنی ملک سے غداری ہے جس کی سزا موت ہے۔

غریبوں کے گھر جو تمام تر قانونی تقاضے پورے کرکے بنائے جاتے ہیں ان کو تجاوزات کے نام پر مسمار کرنے کا حکم صادر کیا جاتا ہے اور امیروں کی غیر قانونی عمارتوں کو لیگلائز کردیا جاتا ہے۔ مثلاً کراچی میں واقع نسلہ ٹاور کو مسمار کردیا گیا اور عمران خان کے بنی گالا میں واقع گھر کو قانونی جواز فراہم کرکے چھوڑ دیا گیا۔

پاکستانی عدلیہ شروع دن سے ہی اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کے ساتھ مل کر ملک میں عدل و انصاف کا گلا گھونٹتی رہی ہے۔ نتیجتاً پورے ملک میں لاکھوں مقدمات سماعت سے محروم ہیں اور زیر التوا ہیں۔ 2014ء سے اعلیٰ عدلیہ میں سوائے سیاسی اور آئینی مقدمات کے دوسرے مقدمات کی شنوائی نہیں ہوئی اور 65 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔ عدلیہ کے جج حضرات سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی وجہ سے اپنا احترام اور ساکھ کھو چکے ہیں اور واضح طور پر ججوں کے متعلق میڈیا اور سوشل میڈیا پر لوگ رائے زنی کرتے نظر آتے ہیں۔ اور اکثر لوگ مقدمے بازی میں یہ کہتے ہیں کہ وکیل کے بجائے جج کر لو۔

کراچی کے لسانی اور سیاسی فسادات، چیف جسٹس افتخار چودھری کے استقبال کے وقت 50 سے زائد افراد کا قتل، بلدیہ میںبھتہ نہ دیے جانے پر فیکٹری کو جلادیا گیا جس میں 360 مزدور زندہ جل گئے، اور کراچی میں درجن بھر وکیل اپنے دفاتر میں جلا دیے گئے۔ دہشت گردی کے ان تمام واقعات کے مجرموں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ ججوں کے ذاتی مفادات اور ملاکھڑے نے عوام کو مایوس کردیا ہے۔

اسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جسم بکتا ہے ادب بکتا ہے فن بکتا ہے

اب آتے ہیں بھارتی عدلیہ کی جانب، جس نے گزشتہ 76 سال سے ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں مارے جانے والے ہزاروں لوگوں کے قاتلوں میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی، بلکہ بے گناہ مسلمانوں کو ہی برسوں تک جیلوں میں قید رکھا۔ آج تک کسی بھی فساد میں مسلمانوں کے جان و مال کے نقصانات کے سوا کسی دوسری کمیونٹی کو نقصان نہیں پہنچا، کیوں کہ بلوائیوں کو پولیس کی کھلم کھلا حمایت حاصل ہوتی ہے۔ گجرات کے فسادات میں، جن میں ہزاروں لوگ مودی سرکار کی سرپرستی میں مارے گئے‘ عدالتی کمیشن اور سی بی آئی کی تحقیقاتی رپورٹ کے باوجود کسی قاتل کو سزا دینا تو دور کی بات، ان کو بے گناہ قرار دے کر باعزت بری کردیا گیا اور ان کا عوامی سطح پر استقبال ہوا۔ شہریت کے قانون کے خلاف خواتین کے طویل دھرنے کو ختم کرنے کے لیے دہلی میں خونیں فسادات کرائے گئے اور عدالتی انکوائری میں پولیس کو کوتاہی کا ذمہ دار قرار دیا گیا مگر کسی کو سزا نہیں دی گئی۔

1947ء سے اب تک کشمیر خون میں ڈوبا ہوا ہے اور لاکھوں کشمیری ماورائے قانون بھارتی فورسز کے آپریشن میں قتل کیے جا چکے ہیں، جہاں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود ان کو حقِ رائے دہی سے محروم رکھا گیا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام میں شامل بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ قیادت جو عدالتوں کے ذریعے ذمہ دار قرار دی گئی آج تک آزاد ہے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے بھارت میں ہونے والے مسلم کُش فسادات کے مجرموں کو کسی قانون کے تحت پکڑا نہیں گیا۔ سپریم کورٹ نے طویل سنوائی اور تاریخی حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا حکم صادر کیا جو عدالتی تاریخ میں ایک بد نما داغ ہے۔

9/11 کے بعد انسدادِ دہشت گردی کے نام پر سیکڑوں پڑھے لکھے نوجوانوں کو بدترین تشدد کے بعد ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن بھارت نے یہ واضح اعلان کیا کہ ملک کی پارلیمنٹ میں سیکڑوں کی تعداد میں ہسٹری شیٹر ممبرز موجود ہیں، مگر ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کے مصداق وہ آج بھی باہو بلی بن کر دندناتے پھر رہے ہیں۔ مورا سیاں بھئے کوتوال ڈر کاہے کا!

ظلم پروردہ قوانین کے ایوانوں سے
بیڑیاں تکتی ہیں زنجیر صدا دیتی ہے
طاقِ تعدیب سے انصاف کے بت گھورتے ہیں
مسندِ عدل سے شمشیر صدا دیتی ہے

ہندوستان کی ہندوتوا کی علَم بردار حکومت نے اُس جج کو صوبے کا گورنر بنادیا جس نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا فیصلہ دیا تھا۔ آئے دن گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بناکر نہ صرف قتل کیا جاتا ہے بلکہ اس کی وڈیو بناکر سوشل میڈیا پر بھی ڈالی جاتی ہے، پھر بھی پولیس کوئی کارروائی نہیں کرتی اور نہ کوئی عدالت سوموٹو لیتی ہے۔ بھارت آئینی اعتبار سے سیکولر ریاست ہے مگر مساجد میں لائوڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یو پی میں سیکڑوں سال سے آباد مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کیا جارہا ہے۔

بابری مسجد پر قبضے کے بعد اب بنارس اور متھرا کی مساجد کو بھی شہید کرکے مندر بنانے کے لیے عدالتی کارروائیاں کی جارہی ہیں، اور سابقہ عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیصلہ مندر کے حق میں ہی دیا جائے گا۔

1971ء میں ملکی اور بین الاقوامی سازشوں اور بھارت کی دخل اندازی کے بعد بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ یہاں نہ صرف آمریت اور ماورائے قانون قتل و غارت گری کا بازار گرم اور مخالفین کو بزور قوت پابندِ سلاسل کیا جاتا رہا ہے بلکہ عدالتی جارحیت کے تحت ان کو پھانسیاں بھی دی گئی ہیں۔

16 دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پورے ملک میں غیر بنگالیوں اور جماعت اسلامی کے البدر اور الشمس کے رضاکاروں اور پاک فوج کے ساتھ لڑنے والے بہاری رضاکاروں کو چن چن کر قتل کیا گیا، مجیب الرحمن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک مکمل طور پر طوائف الملوکی کا شکار رہا، یہی وجہ ہے کہ 15 اگست 1975ء کی صبح فوجی افسران کے ایک گروپ نے شیخ مجیب الرحمن اور اس کے خاندان کے تمام افراد کو قتل کردیا۔ چوں کہ شیخ حسینہ ملک سے باہر تھیں اس لیے وہ اس حملے میں بچ گئیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ جو شخص ’’بابائے قوم‘‘ تھا اُس کے بہیمانہ قتل پر بنگلہ دیش کے کسی کونے میں ایک فرد بھی احتجاج کے لیے نہیں نکلا۔ یہی حال شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دورِ حکومت میں ہوا، وہ آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر اپنے تمام مخالفین کو ماورائے عدالت قتل کراتی رہی اور بدنام زمانہ شیشہ گھر جیسے عقوبت خانوں میں مخالفین کو اذیتیں دے کر ہلاک کرتی رہی، جب اِس سال جولائی میں طلبہ نے کوٹا سسٹم کے خلاف آواز بلند کی تو ہزاروں طلبہ کو پولیس اور مکتی باہنی کے رضاکاروں کے ذریعے قتل کروایا، نتیجتاً یہ تحریک عوامی بغاوت کی شکل اختیار کر گئی اور آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے والی شیخ حسینہ واجد نے ملک سے فرار ہوکر بھارت میں پناہ لی۔ اب پورے بنگلہ دیش سے مجیب الرحمن کی تمام باقیات کو مٹادیا گیا ہے۔ مخالفین کو رضاکار کہہ کر غدار کہا جاتا تھا آج ہر ایک کی زبان پر یہی نعرہ ہے ’’تومی کے، آمی کے… رضاکار رضاکار۔‘‘

قصہ مختصر کہ جب جب عدالتیں حکمرانوں کی رکھیل بن کر ان کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں، بغاوت اور انارکی پھیل جاتی ہے۔

ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
( پروین شاکر)
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجازؔ سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
( اعجاز رحمانی)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ظالم کی مدد کرو‘‘۔ تو اصحابِ رسول نے پوچھا ’’مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے، ظالم کی مدد کیسے کریں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ظالم کو ظلم کرنے سے روک دو۔‘‘

ان تینوں ممالک میں ججوں کا کردار طبقاتی فیصلوں پر مبنی ہے، اور یہ حکمرانوں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی کی طرح ہے۔ ان ملکوں میں تو ایسے قوانین بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے ملک کا صدر دوران صدارت کسی عدالت میں جواب دینے کا پابند نہیں۔

حصہ