نشانے پر انسانی سوچ،عادم آدمی کی سوچ کیسے قابو میں ہے؟

84

معاشرہ تفاعل کا نام ہے۔ ہر انسان کچھ نہ کچھ کر رہا ہے۔ وہ کسی سے کوئی اثر لے رہا ہے اور کسی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ معاشرے اِسی طور زندہ اور فعال رہتے ہیں۔ جب انسان مل کر رہتے ہیں تو ایک دوسرے کی سوچ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور اعمال پر بھی۔ کوئی کسی بھی معاملے کو کس طور دیکھتا ہے اِس کا مدار بہت حد تک اس بات پر بھی ہے کہ اُس نے دوسروں کا اثر کس حد تک قبول کیا ہے اور اپنی رائے قائم کرنے کی صلاحیت اُس میں کس حد تک ہے۔

ہر دور میں معاشرہ فرد پر حاوی رہا ہے۔ یہ فطری بات ہے کیونکہ فردِ واحد معاشرے پر اثر انداز ہونے میں انتہائی دشواری محسوس کرتا ہے۔ ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ سوچ پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے ماحول سے ہٹ کر اور کٹ کر جینا ممکن نہیں۔ لازم ہے کہ زندگی کو اُس کی تمام سچائیوں اور حقیقتوں کے ساتھ قبول کیا جائے۔ جب ہم کسی حقیقت کو قبول کرتے ہیں تب ہم کچھ سوچ پاتے ہیں، کچھ کر پاتے ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ماحول بہت کچھ سِکھاتا بھی ہے اور بہت کچھ اَن سیکھا بھی کردیتا ہے۔ یہ کچھ ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے۔

ہر زمانے کی طرح اس وقت بھی کسی بھی معاشرے میں فردِ واحد کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کا ہے۔ مجموعی ماحول ایسا ہوگیا ہے کہ فرد تو کہیں گم ہی ہوکر رہ گیا ہے۔ کم ہی لوگ ہیں جو اپنی بھرپور شناخت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور ایسا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ کروڑوں کے ماحول میں ایسے لوگ ہزاروں میں بھی نہیں ہوتے۔ زندگی کا مجموعی ڈھانچا اور سانچا عجیب شکل اختیار کرچکا ہے۔ فکر و نظر کی دولت دھری کی دھری رہ گئی ہے اور شدید نوعیت کی بے ذہنی نے تمام معاملات کو حصار میں لے رکھا ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو غیر معمولی حد تک عام ہونا چاہیے مگر ایسا ہے نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے ذہنی بڑھتی جارہی ہے۔ لایعنی معاملات زندگی سے چمٹ کر رہ گئے ہیں۔

آج کے انسان کو اپنی فکری صلاحیت پروان چڑھانے اور لایعنی باتوں سے محفوظ رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ یہ چیلنج دن بہ دن شدید سے شدیدتر ہوتا جارہا ہے۔ چار پانچ عشروں کے دوران فطری علوم و فنون میں بے مثال اور حیرت انگیز پیش رفت نے معاملات کو اُس مقام تک پہنچادیا ہے جہاں بہت کم معاملات انسان کے ہاتھ میں رہ گئے ہیں۔ اب تمام ہی معاملات کسی نہ کسی حد تک اجتماعیت کی دسترس میں ہیں۔

بہت کچھ ہے جو سوہانِ روح ہے مگر برداشت کرنا پڑتا ہے، اُس کے ساتھ ساتھ یا اُسے ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی انسان اپنے آپ کو مجبورِ محض پاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بھی معاملہ ہاتھ میں نہیں رہا۔

کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا اب ہم میں سے ہر ایک کا مقدر صرف یہ رہ گیا ہے کہ اجتماعیت کے دریا میں ہاتھ پیر مارتے رہیں؟ کیا اب کسی بھی انسان کے لیے اپنی انفرادیت کے برقرار رکھنے کی کوئی خاص گنجائش نہیں رہی؟ دکھائی تو کچھ ایسا ہی دیتا ہے مگر یہ پوری حقیقت نہیں۔ یہ بھی اِس دور کی ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ بہت کچھ دکھائی تو دیتا ہے مگر ہے نہیں اور جو ہے وہ آنکھوں سے اوجھل ہے۔

دنیا بھر میں ریاستی و کاروباری ادارے صرف ایک کام میں لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ سوچ پر اثر انداز ہونا۔ عام آدمی کے ذہن کو کنٹرول کرنے کے سو حربے ہوسکتے ہیں اور وہ آزمائے بھی جارہے ہیں۔ سب سے زیادہ کام میڈیا سے لیا جارہا ہے۔ دوسرے نمبر پر سوشل میڈیا ہیں جو دن رات عام آدمی کی سوچ پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔

دنیا بھر میں حکومتیں انفرادی حیثیت میں بھی اور مل کر بھی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کرتی رہتی ہیں۔ لوگوں کی سوچ کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کا عمل کبھی دم نہیں توڑتا۔ یہ عمل اس طور جاری رہتا ہے کہ بس دیکھتے ہی بنتی ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا اور نفسیات کے ماہرین طرح طرح کی تگڑم لڑاکر رائے عامہ کو ایک خاص سانچے میں ڈالنے کی راہ پر گامزن رہتے ہیں اور اس معاملے میں اُن کا جوش و خروش کبھی ماند نہیں پڑتا۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، اُسے میڈیا اور ریاستی مشینری کے ذریعے پھیلائے ہوئے دام میں پھنسنا ہی پڑتا ہے۔ بعض معاملات میں وہ واقعی معذور ہوتا ہے۔ اجتماعیت کی مختلف پرتیں فرد کو یوں ڈھانپ لیتی ہیں کہ اُس کے لیے اپنے وجود کا اظہار انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔

نظریاتی بنیادوں پر قائم ہونے والی حکومتیں اپنے اپنے طور پر ایسا بہت کچھ کرتی ہیں جن کا مقصد لوگوں کے ذہنوں کو جکڑنا ہوتا ہے۔ ذہنوں پر متصرف ہوکر وہ سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے جو متعلقہ فرد کے لیے متعلق ہوتی ہے نہ اہم۔ جب بھی کاروباری دنیا یا ریاستی مشینری سوچنے کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہے تب زندگی کا ڈھانچا تبدیل ہوکر ہی رہتا ہے۔ کم و بیش پانچ صدیوں کے دوران انسان نے ترقی کے اُس دور کو پروان چڑھایا ہے جو اب انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ فطری علوم و فنون میں پیش رفت کا جو سلسلہ پندرہویں صدی میں شروع ہوا تھا وہ اب تک جاری ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اب یہ سب کچھ اتنا آگے جاچکا ہے کہ آنکھوں دیکھے معاملات پر بھی یقین نہیں آتا۔

آج کا انسان یہ سمجھ کر خوش ہوتا رہتا ہے کہ وہ بہت کچھ صرف سمجھتا ہی نہیں ہے بلکہ سوچنا بھی جانتا ہے۔ کسی بھی معاملے کی تفہیم کے نتیجے میں جو ردِعمل پیدا ہوتا ہے اُسی کو سوچ سمجھ کر خوش ہو رہنا آج کے انسان کا مقدر ہے۔ سوچنا ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ یہ ہنر خود بخود نہیں آجاتا بلکہ سیکھنا پڑتا ہے۔ فی زمانہ یہ ہنر سیکھنے والے خال خال ہیں۔ کسی میں اگر سوچنے کی فطری صلاحیت یا رجحان موجود ہو تب بھی وہ اِس معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہوتا اور معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کے بجائے اُتھلے پانیوں ہی میں جھپاکے کرتا رہتا ہے۔

مین اسٹریم میڈیا خاصے منظم طریقے سے اور سوشل میڈیا تھوڑے ڈھیلے ڈھالے طریقے سے رائے عامہ کو ایک خاص سمت موڑنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ شعوری سطح پر ہوتا ہے۔ ریاستی مشینری چاہتی ہے کہ معاشرہ ایک خاص سانچے میں ڈھلے تاکہ اُس کے لیے کوئی بڑی الجھن پیدا نہ ہو۔ کاروباری اداروں کی خواہش ہوتی ہے کہ رائے عامہ ایسی ہو کہ کاروباری مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت ملتی رہے۔ سرمایہ دار چاہتا ہے کہ لوگ صرف ایک رجحان کے حامل ہوں اور وہ ہے صَرف کا رجحان یعنی اُن کے نزدیک زندگی اِس بات کا نام ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ کمائے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرے۔ یہ لوگ گردشِ زر کی غیر معمولی رفتار چاہتے ہیں تاکہ معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہے۔ اِن کے نزدیک بچت کی عادت زہرِ قاتل ہے کیونکہ جب لوگ سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں تب معیشت کا پہیہ کم تیزی سے گھومتا ہے۔

سوچ پر اثر انداز ہونے والے معاملات اور عوامل ہماری زندگی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ایسا بہت کچھ ہے جو سوچے جانے کے قابل ہے ہی نہیں مگر سوچا جارہا ہے۔ عام آدمی اس معاملے میں خود کو بہت حد تک بے بس پاتا ہے۔ وہ تحت الشعور یا پھر لاشعور کی سطح پر اپنی ذہنی ساخت میں ایسا بہت کچھ قبول کرتا رہتا ہے جس کے باعث اُس کی زندگی میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو اُس کی خواہشات کی عکاس نہیں ہوتیں۔

کسی بھی انسان کے لیے سوچ مجرد معاملہ نہیں ہوتا۔ یہ ہر دور میں اضافت کا معاملہ رہا ہے یعنی سوچ کا انحصار ماحول میں پائی جانے والی تبدیلیوں اور متعلقہ فرد کے مزاج پر ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مفکرین کے نزدیک سوچنے کا عمل خود بخود واقع ہو جانے والا معاملہ نہیں۔ سوچنا ایک ایسا ہنر ہے جو زندگی کے ہر معاملے پر محیط ہے۔ جو بات زندگی کے تمام معاملات پر محیط ہو اُس کے حوالے سے ہوش مندی کا حامل ہونا بنیادی شرط ہے۔

آج ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں ہر طرف سوچ پر اثر انداز ہونے والے معاملات ہیں۔ بہت سے ادارے، حکومتیں اور گروہ ہیں جو اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق ہماری سوچ پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور ہم اُن کی کاوشوں کی ’’قدر‘‘ بھی کر رہے ہیں یعنی سوچے سمجھے بغیر اچھی خاصی حد تک تبدیل بھی ہو رہے ہیں۔

ہماری پسند اور ناپسند کیا ہونی چاہیے یا کیا ہوسکتی ہے اس کا مدار ہماری سوچ پر ہو تو اچھا۔ یہ شعوری عمل ہے یعنی ہمیں دوسروں کی آرا کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کرنا ہے۔ ہمیں سوچنا ہے، سمجھنا ہے اور طے کرنا ہے کہ کسی بھی معاملے میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے۔

ہماری سوچ پر کوئی کس قدر اثر انداز ہوسکتا ہے اِس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے جاری کیے جانے والے اشتہارات کے زیرِاثر ہم ایسی بہت سی چیزوں کو اپناتے رہتے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے نہ کوئی تعلق ہی بنتا ہے۔ ہم اشتہارات کے زیرِاثر ایسی بہت سی چیزیں خریدتے ہیں جو ہماری استطاعت کے دائرے سے باہر ہوتی ہیں۔ اپنے گھر کا اور اپنے قریب ترین ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُس میں ایسا بہت کچھ ہے جو آپ نے شعوری طور پر نہیں اپنایا۔ آپ کو پتا بھی نہیں چلا کہ کب کوئی چیز آپ کی ذہنی ساخت کا حصہ بن گئی، آپ کی پسند و ناپسند پر اثر انداز ہوگئی۔ سوال صرف اشیا و خدمات کا نہیں، فکر و نظر اور اقدار کا بھی ہے۔ عام آدمی ایسی بہت سی اقدار کو کسی جواز کے بغیر اپنالیتا ہے جو اُس کے مزاج اور سوچ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ سب کچھ تحت الشعور کی سطح پر ہو رہا ہے یعنی ذہن کو ڈھیلا چھوڑ دیجیے، سوچنے کی عادت ترک کیجیے، تجزیہ کرنے کے عمل سے دوری اختیار کیجیے تو آپ کی ذہنی یا فکری ساخت میں ایسا بہت کچھ داخل اور شامل ہوتا جائے گا جس کی عدمِ مطابقت خود آپ کو بھی حیران کردے گی۔ جس طور آپ بہت سی چیزیں کسی جواز کے بغیر خرید بیٹھتے ہیں بالکل اُسی طور بہت سی اقدار اور نظریات کو بھی آپ خواہ مخواہ اپنالیتے ہیں۔ اگر کوئی جواز طلب کرے تو آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔

ماحول آپ کو اپنے حصار میں لینے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور کوشاں بھی۔ آپ کے لیے لازم ہے کہ اپنے ذہن کو بچائیں۔ ذہن کو لایعنی اور غیر متعلق معاملات سے محفوظ رکھنے کی معقول ترین صورت یہ ہے کہ اپنے معاملات کی درستی پر متوجہ رہے، بے خیالی کی زندگی ترک کیجیے، پوری ہوش مندی کے ساتھ جینا سیکھیے۔

آپ کی سوچ کو بدلنے کے لیے ہر وقت بہت کچھ کیا جارہا ہے۔ آپ کو بچنا ہے، اپنی سوچ کو مطابقت آمیز رکھنا ہے۔ غیر متعلق باتوں سے بچنا ہے، غیر متعلق معاملات میں الجھنے سے محفوظ رہنا ہے۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ آپ کا دل چاہے یا نہ چاہے، یہ سب کچھ تو آپ کو کرنا ہی ہے۔

حصہ