عشق و عبودیت کا سفر

99

تین پاکیزہ روحیں!

لق و دق صحرا کے سینے پر عشق و عبودیت کا سفر کر رہی تھیں۔
ان میں ایک مرد تھا۔ ایک عورت تھی اور… ایک معصوم بچہ !

ابو سلمہؓ ، ام سلمہؓ اور سلمہؓ…

وہ مکہ چھوڑ رہے تھے مدینہ کی طرف کوچ ہو رہا تھا۔ حالانکہ مکہ ان کا آبائی وطن تھا اور مدینہ یک سر پر دیس۔ گھر کے درو دیوار تک سے انسان کو گہری محبت ہوتی ہے۔ وطن کی گلیاں بھی آدمی کو دل و جان سے زیادہ عزیز ہوا کرتی ہیں۔ کاروبار اور معاشی وسائل میں بھی جی اٹکا رہتا ہے۔ دنیا اور اس کے علائق اور اس کے ظاہری سہاروں کو آدمی کیا کچھ سپردگی ،التفات عطا نہیں کرتا۔

مگر یہ تینوں ان تمام چیزوں کو اپنے پیچھے چھوڑے چلے جا رہے تھے! اور سامنے اب جو کچھ تھا وہ ویران صحرا تھا اور صحرا کے اس پار مدینہ کی نئی بستی جہاں پہنچ کر انہیں از سرنو اپنی دنیا بسانی تھی۔ نئے سرے سے زندگی شروع کرنی تھی،ورنہ پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جانا تھا۔

کوئی انہیں اس سفر پر مجبور نہیں کر رہا تھا۔ کوئی لالچ بھی نہیں تھا اور… اور وہ دیوانے بھی نہیں تھے تو پھر… آخر یہ کیا ہو رہا تھا اور کیوں ؟…

’’آخر یہ کون تھے ؟‘‘
تاریخ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ اللہ کے وفادار بندے تھے اور ان کا یہ سفر عشق و عبودیت کا جاں نثارا نہ سفر تھا۔ وہ ہجرت کر رہے تھے۔ ہجرت جو ایک بہت بڑا جہاد ہے۔ انسان کا خود اپنے عزیز ترین جذبات کے خلاف جہاد !! خود اپنے ہاتھ سے اپنی شہ رگ پر تیشہ چلانا ، خدا کو اپنانے کی آرزو میں ان عزیز و لذیذ چیزوں سے خود کو کاٹنا جو خدا اور بندے کے درمیان حائل ہو رہی ہیں۔ یہی وہ سفر تھا جس کے پہلے ہی قدم پر انسان کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ دنیائے رنگ و بو ایک ’’سرائے فانی‘‘ ہے نہ کچھ کم ہے اور نہ زیادہ؟، جہاں انسان ہے یہ دھوکا کھا رہا ہے کہ وہ مقیم و مکین ہے حالانکہ وہ محض ایک مسافر ہے، ایک راہی ہے۔ بلکہ محض ایک راہ گیر ہے جو خدا کے پاس سے آیا ہے اور خدا کی طرف ہر لمحہ پلٹ رہا ہے۔

یہ تھی وہ بات جو ان کو شہر مکہ کے امینؐ نے بتائی تھی۔ خدا کے رسولؐ نے بتائی تھی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اس نے کبھی اپنی عمر میں جھوٹ بولا ہی نہیں۔ جو انسان کے ساتھ سچا ہو، وہ خدا کے معاملہ میں جھوٹا کیسے ہو سکتا ہے ؟۔ اس لیے ان لوگوں کو اس بات کا اتنا ہی یقین آچکا تھا جتنا کسی بھی سچے سے سچی بات پر کسی کو آسکتا ہے۔

وہ اسی یقین سے سرشار گھر سے نکلے تھے۔ یہی یقین تھا جس نے ان کو اپنے ان کی گھروں میں بے چین کر دیا تھا جن کے چاروں طرف کفر و شرک کی قہرمانی طاقتیںگھیرا ڈالے ان سے کہہ رہی تھیں:

’’تم محض اس یقین سے دست برداری دے دو تو ہم لوگ تمہیں کچھ نہ کہیں گے۔ یہاں رہنا ہے تو تمہیں اس دنیا کو اپنا پہلا اورآخری گھر تسلیم کرنا ہو گا جو انسانی قبروں سے پٹی ہوئی دنیا ہے۔ پتھر کے ان سینکڑوں ’’خدائوں‘‘ کے آگے جھکنا ہو گا جنھیں ہمارے تمہارے ہاتھوں نے تراشا ہے۔ ایسا کرو گے تو ہم تمہارے ہیں۔ تمہارے گھر تمہارے ہیں۔ جن میں اپنے بیوی بچوں کے درمیان تم نہیں خوشی رہتے ہو۔ تمہاری تجارتیں تمہاری ہیں۔ ایسا نہیں کرتے تو تمہاری کوئی چیز بھی تمہاری نہ رہے گی۔

یہ ’’دو یقین‘‘ تھے کہ جو پورے زور و شور سے ٹکرا رہے تھے۔ جن میں ایک فریبی تھا اور دوسرا خدا شناسی اور خود فریبی نے دیکھا کہ ’’خداخود شناسی‘‘ نے بے جھجک اپنی ساری دنیا اس ایمان و یقین کے دائو پر لگا دی ہے اور وہ تینوں ساری دنیا سے دامن جھاڑ کر اپنے خدا کی طرف چل کھڑے ہوئے ہیں۔ کتنے سچے اور کتنے گہرے تھے وہ اپنے ’’یقین‘‘ میں!

کفر و شرک آگ بگولہ ہو گئے۔ جھلا اٹھے ! بوکھلا گئے۔ کیسے ممکن تھا کہ اتنی بڑی قربانی لے کر وہ ان کو اپنے جان و ایمان سلامت لے کر یونہی چلا جانے دیں؟ کتنی شدید ہے وہ دشمنی جو طاغوت کو خدا سے ہے۔ کفر کو ایمان سے ہے! ابو سلمہؓ اور ام سلمہؓ دونوں کے اپنے اپنے قبائل نے دونوں طرف سے ان کا پیچھا کیا اور ایک وحشیانہ حملہ کر کے بنی مغیرہ کے لوگ اپنے قبیلے کی خاتون ام سلمہؓ کو زبر دستی گھسیٹ کر لے جانے لگے۔ دوسری طرف سے ابو سلمہؓ کے قبیلے بنی عبد اسد کے لوگوں نے ہلہ بولا اور معصوم بچے سلمہؓ کو ماں کی گود سے نوچتے ہوئے کہا:

’’ام سلمہؓکے قبیلے اپنے قبیلے کی عورت کو لے جاتے ہیں تو یہ بچہ ہمارے قبیلے کا بچہ ہے۔ یہ ہمارے ساتھ جائے گا!‘‘ اور بے کسی و بیچارگی نے ماں باپ پر کرب طاری کر دیا۔ دونوں قبیلوں کے لوگوں میں اس بچہ پر وحشیانہ چھینا جھپٹی ہونے لگی۔ دل فگار و اشکبار ماں باپ کی کسی نے نہ سنی اور اس کشمکش میں معصوم بچے کا ہاتھ اتر گیا۔ بچے کی درد ناک چیخ بلند ہوئی اور ماں باپ تڑپ جانے کے سوا کچھ نہ کرسکے! روتے اور تڑپتے ہوئے بچہ کو بنی عبد اسد والے لے کر چل ہی دیئے۔

تڑپتا ہوا بچہ ماں باپ کی طرف دیکھ دیکھ کر تڑپ رہا تھا اور ایک سمت میں لے جایا جا رہا تھا۔

روتی اور سسکتی ہوئی عورت جو ایک ماں بھی تھی اور بیوی بھی۔ وہ دوسری طرف گھسیٹی جا رہی تھی لیکن وہ مرد جو ایک باپ بھی تھا اور ایک شوہر بھی، مگرجسے اس وقت صرف اتنا ہی یاد رہ گیا تھا کہ ’’میں خدا کا غلام ہوں‘‘۔ وہ اب بھی مدینے ہی کی طرف چل رہا تھا۔ خدا کا بندہ خدا کی طرف دوڑ رہا تھا۔ اسے اب بھی یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کہی ہے وہی حق ہے۔ اسے اب بھی یقین تھا کہ یہ ابتلائے شدید بھی محض ایک ایمانی آزمائش ہے جس کا انجام ظالموں کی شکست اور مظلوموں کی کامیابی ہو گا۔ باطل کی ہلاکت اور حق کی جیت اٹل ہے۔ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ کتنا مضبوط ہے خدا کا سہارا!!! جہاں تمام سہارے ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں وہاں بھی یہ تنہا سہارا دل ڈوبنے نہیں دیتا۔ مایوس ہونے نہیں دیتا۔ شکست کھانے نہیں دیتا !!۔ مہیب سے مہیب حقائق اس سے ٹکراتے ہیں مگر خود ہی سر پٹخ پٹخ کر پاش پاش ہو جاتے ہیں اور یہ ’’سہارا ‘‘ جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ بلکہ سچ پوچھئے تو ہر بار کچھ اور مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے! کیسے بے نصیب ہیں وہ لوگ جو اس سہارے سے محروم ہیںاور اس سے محروم ہی رہنا چاہتے ہیں!! اور اس سے محروم مر جانا بھی گوارا ہے!

مگر ان تینوں کے لیے یہی سہارا کافی تھا اور کافی ثابت ہوا۔ واقعی وہ تینوں عظیم کامرانی سے ہم کنار ہوئے جن کے سفینوں کو تھوڑی دیر کے لیے ابتلا وآزمائش کے طوفانی تھپیڑوں نے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا تھا۔ اگرچہ یہ کامیابی ایک سال بعد ظاہر ہوئی۔ لیکن ہوئی اور اسے ظاہر ہونا تھا۔ بشرطیکہ انسان انتظار کر سکے۔ ایمان کفر کی طرح ناصبور اور جلد باز نہیں۔ وہ صبر بھی کر سکتا ہے اور انتظار بھی…! جاں گداز آزمائش کے عالم میں ابو سلمہؓ اور ام سلمہؓ خدا کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے۔ مگر نہ مرد نے ہار مانی اور نہ عورت نے۔ ایک سال تک ابو سلمہؓ مدینہ میں اپنی شریک زندگی اور اپنے جگر پارے سے جدا رہے۔ ایک سال تک ام سلمہؓ ریگستان کے زروں کو اپنے آنسوئوں سے تر کرتی رہیں۔ کفر و شرک کے سینوں کی ہر’’ راحت ‘‘ ان کی روح میں خار بن کر کھٹکتی۔ وہ بے کل ہو ہو کر گھر سے نکلتیں اور صحرا میں جا جا کر اپنے نادیدہ خدا کے حضور میں رویا کرتی تھیں۔ بس میں ایک شے تھی جس میں ان کو سکون ملتا تھا۔ ماں باپ اور بچہ!… تینوں اپنی اپنی جگہ بے قرار بھی تھے اور اشک بار بھی، مگر کیسے اطمینان کی یہ بات تھی ان کے لیے کہ یہ ظالم دنیا ہم سے ہمارا سب کچھ لوٹ لینے کے بعد بھی یہ محسوس کرنے پر مجبور ہے کہ وہ ہمیں لوٹ نہیں سکی۔ اس لیے کہ ہمارے ایمان پر ہاتھ ڈالنا اس کے بس کی بات نہیں ! ساری دنیا بھی خفا ہو جائے تو ہو جائے۔ وہ مطمئن تھے کہ ہمارا خدا ہم سے راضی ہے۔ اور پھر ایک سال کی طویل آزمائش ایک دن ختم ہوہی گئی اور اس کے ساتھ ہی ان تینوں کے لیے جیسے تمام خوف ، تمام غم ختم ہو گئے۔ یہاں کوئی مصیبت کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو مگر ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی۔ یہ دنیا ہے جو فانی ہے، اس کے دکھ درد بھی فانی ہیں۔ وہ دن آیا جس دن کفر و شرک نے تھک ہار کر اس ’’مومنہ‘‘ کو اپنے چنگل سے خود ہی چھوڑ دیا۔ اسے وہاں جانے دیا جہاں وہ جانا چاہتی تھی۔ یہ چیز سنتے ہی بنی عبد اسد والوں نے بھی اس کے بچہ کو گود میں لا کر ڈال دیا۔ فیصلہ کن طاقت ہی واحد طاقت ہے اور یہی طاقت صرف خدا کے پاس ہے خدا جس کی دو انگلیوں کے درمیان انسانوں کے دل ہیں اور ان دلوں کو وہ جب اور جدھر چاہتا ہے ، پھیر رہا ہے، پھیرتا رہے گا۔ وہ تینوں جو اس بری طرح جدا ہوئے تھے خدا نے انہیں پھر یک جا کر دیا۔ درندوں کے چنگل سے نکالا اور پتھر جیسے دلوں کو ان کے لیے موم کردیا۔ وہ تینوں ایک بار پھر یک جا ہوئے۔آج بھی تینوں اشک بار تھے، مگر یہآنسو خوشی اور شکر کے تھے۔ شکر نعمت اور جذبہ مسرت کے آنسوئوں میں بھیگے ہوئے دیدہ و دل پکار اٹھے ’’یا الٰہی ! تیرا شکریہ ! تو نے ہی یہ آزمائش اتاری اور تو نے ہی ہمیں اس کو جھیلنے کی طاقت دی۔ تو نے ہی ہمیں اس میں کامیاب کیا۔ مصیبت ختم ہو گئی مگر ہمیں یقین ہے مالک! اس کا انعام کبھی ختم نہ ہو گا‘‘۔

کیسے اچھے تھے وہ لوگ جو اتنی سخت، اتنی خوفناک آزمائش میں بھی کھرے اور پورے اترے تھے! اور ہماری صرف اتنی سی آزمائش ہے کہ کوئی آزمائش نہیں !، وہ صبر و ثبات کی زہرہ گداز گھائی کو بھی نہیں خوشی سر کر سکتے تھے لیکن ہم سے شکر عافیت کا بھی حق کسی درجہ میں ادا نہیں ہوتا!۔ وہ یقیناً مومن تھے مگر کیا ہم بھی مومن ہیں ؟ مسلمان ہیں ؟… یہ سوال آپ خود سے کیجئے۔ اپنے ہی دل و ذہن کو ٹٹولیے اور دیکھئے کہ ظلمت کی تہہ میں روشنی کا کوئی نقطہ کوئی لکیر باقی ہے یا میں؟

حصہ