ابتدائیہ: گزشتہ کچھ دہائیوں سے بہت سے ایسے تنازعات نے دنیا میں جنم لیا جیسے مسئلہ کشمیر یا مسئلہ فلسطین، یا پھر تازہ ترین تنازع روس اور یوکرین کا، جس کے بعد بار بار یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کیا اقوام متحدہ تنازعات کو حل کرانے میں ناکام ہوچکا ہے؟ اور کیا دنیا میں اب اقوام متحدہ کی ضرورت باقی رہی ہے؟ اب 7 اکتوبر2023ء کے بعد سے ایک بار پھر پوری دنیا میں یہ سوال دہرایا جارہا ہے کہ کیوں اقوام متحدہ اب تک فلسطینیوں کی نسل کُشی نہیں روک سکا؟ یہ بحث بھی پالیسی سازوں اور تھنک ٹینکس میں ہورہی ہے کہ اقوام متحدہ کے پاس اسرائیل پر پابندی لگانے یا اُس کی رکنیت معطل کرنے کے کیا آپشن ہیں۔ اس ضمن میں آسٹریلیا کے ایک انتہائی مستند ڈیجیٹل میڈیا ’’دی کنورسیشن‘‘ نے چند دن پہلے ایک مضمون چھاپا ہے۔ مضمون نگار ایڈن ہہیر نے جو کہ ایک ماہرِ بین الاقوامی تعلقات ہیں، اس مضمون میں یہ بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کن بین الاقوامی قوانین یا اصولوں کی مدد سے اسرائیل کی ر کنیت معطل کرسکتا ہے۔ ذیل میں اس مضمون کے متن کا مکمل ترجمہ پیش کیا جارہا ہے:
’’اقوام متحدہ کہاں ہے؟ یہ سوال اُس وقت سے اکثر کیا جارہا ہے جب سے اسرائیل نے غزہ پر فوج کشی کی ہے۔ جیسے جیسے اموات بڑھیں اور تنازع مزید پھیلا، اقوام متحدہ بے شرمی کی حد تک اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے اور انسانیت کو ’جنگ کی لعنت‘ سے بچانے میں بری طرح ناکام رہا جو اس کے وجود کا بنیادی مقصد تھا، جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے بار بار اسرائیل کی زبانی مذمت کی ہے، جس کے ردعمل میں اسرائیل نے اُن کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی لگادی ہے اور وہ سیکرٹری جنرل کی التجاؤں کو مکمل نظرانداز کرچکا ہے۔ اسرائیل پر پابندی لگانے کی اقوام متحدہ کی تمام کوششیں مکمل ناکام ہوئی ہیں۔ یو این سیکورٹی کونسل کی منظوری کے بغیر یہ پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ سیکورٹی کونسل کے مستقل رکن کی حثیت سے امریکا اپنی ویٹو پاور کو استعمال کرتا ہے اور قرارداد کے ڈرافٹ کو ہی مسترد کردیتا ہے۔ ایسی آوازیں ممبر ملکوں اور اہلکاروں کی جانب سے بار بار اٹھائی جاتی رہی ہیں کہ اسرائیل کی رکنیت معطل کردی جائے۔
30 اکتوبرکو اقوام متحدہ کے اسپیشل تفتیش کار مائیکل فخری نے یو این جنرل اسمبلی میں اسرائیل کی رکنیت یہ کہتے ہوئے معطل کرنے کی سفارش کی کہ ’’اسرائیل، اقوام متحدہ کے نظام پر حملہ آور ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق مقبوضہ فلسطین فرانسیسکا البانیز نے اسی دن ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’اقوام متحدہ کو اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے پر غور کرنا چاہیے جب تک کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور فلسطین میں غیر قانونی قبضوں سے باز نہ آجائے۔‘‘
اسرائیل اور اقوام متحدہ:
دہائیوں سے اسرائیل اور یو این کا رشتہ تلخ یے۔ بنیادی طور پر یو این کا یہ مؤقف ہے کہ ’مقبوضہ علاقوں‘ میں اسرائیل کی غیر قانونی موجودگی اس تلخی کی بنیادی وجہ ہے۔ موجودہ تنازعے کے ان بارہ مہینوں میں یہ تعلق مزید برباد ہوا ہے۔ بہت سے ممالک یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل بار بار اقوام متحدہ کی قراردادوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ ان خلاف ورزیوں میں وہ قراردادیں بھی شامل ہیں جو نسل کُشی کے کنونشن کی ہیں۔ اقوام متحدہ کے کچھ اہلکار اسرائیل اور فلسطینی گروہوں پر جنگی جرائم کے الزامات لگا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے 230 سے زیادہ اہلکار موجودہ تنازعے میں مارے جاچکے ہیں اور بہت سی حکومتیں اور اقوام متحدہ کے اہلکار مبینہ طور پر یہ کہتے رہے ہیں کہ اسرائیل جان بوجھ کر یو این کے امن دستوں کو نشانہ بنارہا ہے، لیکن اسرائیل کی اقوام متحدہ سے دشمنی کی انتہا 28 اکتوبر کو دیکھی گئی جب اسرائیلی پارلیمنٹ نے انرا پر اسرائیل میں کام کرنے پر پابندی لگادی۔ اس پابندی کی پوری دنیا نے مذمت کی۔
اقوام متحدہ کی طاقت:
اقوام متحدہ کے خلاف اسرائیل کی کھلی عداوت کو دیکھتے ہوئے یہ بہت حیران کن نہیں کہ بہت سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اسرائیل کی رکنیت معطل کی جانی چاہیے۔
لیکن کیا یو این قانونی طریقے سے اپنے ممبر کی رکنیت معطل کرسکتا ہے؟ جواب ہے، ہاں!
یو این چارٹر کے آرٹیکل 5 اور 6 یہ کہتے ہیں کہ ’’کسی ممبر کی رکنیت معطل کی جاسکتی ہے اور اس کو یو این سے نکالا بھی جاسکتا ہے اگر وہ ممبر مسلسل اُن اصولوں کی خلاف ورزی کرچکا ہو جو چارٹر میں درج ہیں۔ لیکن آرٹیکل 5 اور 6 دونوں میں یہ لکھا ہے کہ معطلی یا اخراج کے لیے جنرل اسمبلی کی تائید لازمی ہوگی، ساتھ ہی ساتھ سیکورٹی کونسل کی سفارشات کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس طرح اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کے لیے سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی تائید لازمی ہے۔ امریکا کا سابقہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے اور موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کی اسرائیل کے لیے ’’آہنی دیوار‘‘ جیسی حمایت کے ہوتے ہوئے یہ ناقابلِ فہم لگتا ہے۔ اس لیے امکان نہیں کہ آرٹیکل 5 اور 6 کا اسرائیل کے خلاف اطلاق ہوسکے گا، لیکن بہرحال یہ ایک قابلِ عمل آپشن تو ہے۔
جنوبی افریقہ کی نظیر:
سالانہ جنرل اسمبلی کے آغاز میں ’دی کریڈینشیل کمیٹی‘ درخواست دینے والی ہر ممبر ریاست کے ریکارڈ کا جائزہ لیتی ہے اس سے پہلے کہ ان ممبرز کو باقاعدہ داخلہ دیا جائے۔ عام طور پر یہ ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے، لیکن 27 ستمبر1974ء کو جنوبی افریقہ کی پیش کی گئی اسناد کو مسترد کردیا گیا تھا کیونکہ اُس وقت جنوبی افریقہ ایک نسل پرست ریاست کے طور پر کام کررہا تھا۔ تین دن کے بعد یو این جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر3207 پاس کی جس میں کہا گیا کہ ’’سیکورٹی کونسل ایک بار پھر سے یو این اور جنوبی افریقہ کے تعلق کا جائزہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے لے کہ جنوبی افریقہ یو این چارٹر کی مستقل خلاف ورزیاں کررہا ہے۔‘‘
ایک ڈرافٹ قرارداد یو این سیکورٹی کونسل کو پیش کی گئی تھی جس میں جنوبی افریقہ کے اخراج کی سفارش کی گئی تھی، لیکن اس قرارداد کو امریکا، برطانیہ اور فرانس نے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرکے مسترد کردیا۔ تاہم 12 نومبر کو جنرل اسمبلی کے صدر عبدالعزیز بوتلیکا نے فیصلہ سنایا کہ ’دی کریڈینشیل کمیٹی‘ کے فیصلے اور 3207 قرارداد کے ہوتے ہوئے جنرل اسمبلی جنوبی افریقہ کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ یو این کے کاموں میں حصہ لے۔ جنوبی افریقہ جون 1994ء تک جنرل اسمبلی میں معطل رہا اور یہ معطلی اُس وقت ختم ہوئی جب نسل پرستی کا خاتمہ ہوا۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ جنوبی افریقہ باضابطہ طور پر یو این سے معطل نہیں ہوا تھا، صرف جنرل اسمبلی کی کارروائیوں میں شامل ہونے سے معطلی ہوئی تھی۔ بہرحال یہ ایک معنی خیز اور اہم اقدام تھا۔
ایک قابل عمل حل:
کیا یہی اقدامات اسرائیل کے خلاف کیے جاسکتے ہیں؟ اور کیا یہ مؤثر ہوں گے؟ جنوبی افریقہ کا کیس یہ بتاتا ہے کہ یہ قانونی طور پر ممکن ہے اور بے شک یہ ایک طاقتور پیغام اسرائیل کو دے گا، اور اس کے نتیجے میں نہ صرف اسرائیل کی بین الاقوامی تنہائی بڑھے گی بلکہ یو این پر کچھ اعتماد بھی بحال ہوگا۔
جنرل اسمبلی کا 79 واں اجلاس ستمبر میں شروع ہوا تھا، لہٰذا اب ’دی کریڈینشیل کمیٹی‘ کے لیے بہت دیر ہوچکی کہ وہ اسرائیل کی اسناد مسترد کرسکے۔ لیکن یہ قابلِ فہم بھی ہے اور ممکن بھی کہ 80 ویں اجلاس سے پہلے یہ کیا جاسکے اگر (اور یہ ’اگر‘ بہت بڑا ہے) اس کے لیے درکار سیاسی حمایت حاصل ہو۔ حالانکہ جنرل اسمبلی میں زیادہ تر ریاستیں اسرائیل پر بے حد تنقید کرتی رہی ہییں لیکن ان میں سے بہت سی نہیں چاہتیں کہ دی کریڈینشیل کمیٹی ایک حد سے زیادہ سیاسی طور پر ترجیح پسند ہوجائے، کیونکہ ان کو خطرہ ہے کہ مستقبل میں کہیں یہ سب ان کے خلاف بھی استعمال نہ ہوجائے۔
اسی طرح کچھ ریاستیں امریکا کے خلاف اپنا غصہ اُس کے اتحادی کو معطل کراکے نکالنا چاہتی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح قانونی طور پر کیا یہ ممکن ہے، اور سیاسی طور پر کیا یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔