ڈاکٹر سرکار کے ایک مریض متراؔ بابو سرپری توش رائے کے موکّل تھے۔ اور اکثر مطب آتے رہتے تھے زیادہ تر اڈے کی خاطر۔ انہوں نے کئی بار سرپری توش رائے کی کار باہر دیکھی اور اُدما دیبی کو آتے جاتے دیکھا۔ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ دیپالی گھر پر موجود نہیں ہے۔ پھر انہوں نے ذرا کرید کر بنوئے بابو سے پوچھا کہ کیا آج کل اُدما دیبی ان سے اپنے درد سر کا علاج کروا رہی ہیں۔ بنوئے بابو صاف گو اور بھولے آدمی تھے۔ کہنے لگے۔ نہیں ایسے ہی ملنے کے لئے چلی آتی ہیں۔
مترا بابو نے فوراً گھر پہ جا کر اپنی بی بی کو یہ قصہ سنایا۔ مسز مترا دوسرے ہی روز ووڈ لینڈز پہنچیں۔ لیڈی رائے پچھلے برآمدے میں بیٹھی صبح کی کافی پی رہی تھیں اور اسٹیٹسمین پڑھتی جارہی تھیں۔ جب مسز مترا سہج سہج چلتی آکر نزدیک کی کرسی پر بیٹھ گئیں اور نمسکار کیا۔
’’اوہ ہلو ادرن دھتی‘‘۔ لیڈی رائے نے مسکرا کر اخبار رکھ دیا۔ اور ان کے لئے کافی بنانے لگیں۔ تھوڑی سی رسمی گفتگو کے بعد مسز مترا اس خوبصورتی اور فن کاری سے جو اس قسم کے معاملات میں صرف خواتین کا حصہ ہے، اصل مقصد کی طرف آئیں۔ ’’ادما کی طبیعت اب کیسی ہے؟‘‘ انہوں نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے دریافت کیا۔
’’اب تو بالکل ٹھیک ہے۔ آپ تو جانتی ہیں وہ ہمیشہ سے کتنی زودرنج اور چڑچڑی رہی ہے‘‘۔ لیڈی رائے نے جواب دیا۔
’’جبھی تو میں نے پوچھا‘‘۔
’’نہیں اب تو شکر ہے کچھ دنوں سے کافی شگفتہ نظر آرہی ہے‘‘۔
’’یہ بھی ہمیشہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر سرکار کا علاج بالکل جادو کا اثر رکھتا ہے‘‘۔
’’ڈاکٹر سرکار…؟‘‘
’’یہ بھی ڈاکٹر صاحب نے اپنے دمے کا علاج کروارہے ہیں۔ بہت تعریف کرتے ہیں۔ انہوں نے ہی کئی مرتبہ اُدما کو ڈاکٹر صاحب کے مطب میں دیکھا تو مجھ سے آکر بولے کہ یہ بڑا اچھا ہوا…‘‘
’’اچھا۔ اُدما نے مجھ سے ذکر نہیں کیا‘‘۔
مسز مترا اب باقاعدہ GLOAT کررہی تھیں۔ انہوں نے بات جاری رکھی۔ ’’آپ نے اُن کا نام تو سنا ہوگا۔ بنوئے چندر سرکار۔ وہی جن کی لڑکی دیپالی سرکار ریدیو پر گاتی ہے‘‘۔
’’اوہ…‘‘
’’بے چارے بڑے شریف آدمی ہیں۔ بی بی تو عرصہ ہوا پرلوک سدھاریں۔ چار بچے ہیں۔ لڑکی بس دیپالی ہی ہے۔ بڑا اچھا خاندان ہے۔ ان کے بابا میمن سنگھ کے زمیندار تھے‘‘۔
لیڈی رائے قطعاً بیوقوف نہیں تھیں۔ وہ مسز مترا کا لہجہ اور عندیہ دونوں بھانپ گئیں۔ اور فوراً ذرا رکھائی اور ناگواری سے دوسری طرف دیکھنے لگیں۔ لیکن مسز مترا کہے گئیں۔ ’’یہ تو بنوئے بابو کو بالکل دیوتا سمجھتے ہیں۔ ایسے کاندانی اور وضع دار لوگ آج کل کہاں ملتے ہیں۔ اور رہا روپیہ پیسہ تو وہ تو ہاتھ کامیل ہے‘‘۔ اس نکتے تک پہنچ کر مسز مترا نے کوئی بالکل غیر متعلق موضوع چھیڑ دیا۔ اس کے دس منٹ بعد گھما پھرا کر بات کو پھر وہیں لے آئیں۔ ’’لڑکیوں کی شادی آج کل ایسا کٹھن مرحلہ بنتی جارہی ہے۔ آخر کیا کیا جائے۔ میری ماشی ماں کے دیور کی لڑکی انجلی داس گپتا تو آپ کو یاد ہوگی اُدما کی سہیلی تھی۔ اس کی عمر نکل گئی بال سفید ہوگئے وہ تنگ آکر بھگوان جانے لنکا یا برما یا کہاں چلی گئی۔ اسکول پڑھانے۔ اب خیال آتا ہے بنوئے بابو جیسا کوئی مل جاتا تو بے چاری کی قسمت بن جاتی۔ بنوئے بابو بے چارے اب جا کر کوئی چوالیس پینتالیس سال کے ہوئے ہوں گے۔ زمیندار کے لاڈلے بیٹے تھے۔ باپ ماں نے نوعمری میں بیاہ کردیا تھا‘‘۔ یہاں تک پہنچ کر مسز مترا نے سوچا کہ اتنا آج بھر کے لئے کافی ہے۔ اور پھر دوسری باتوں میں لگ گئیں۔
لیڈی رائے مسز مترا کی گفتگو سے کافی پریشان ہوچکی تھیں۔ رات کو ڈنر کے بعد انہوں نے سر پر ہی توش سے اس کا تذکرہ کیا۔ ڈھاکہ بہت چھوٹا اور پرونشل قسم کا شہر تھا۔ ادما کی چندر کنج جانے کی خبر اُڑتی اُڑتی سرپری توش تک بھی پہنچ چکی تھی۔ وہ ڈاکٹر سرکار سے واقف تھے۔ اس وقت انہوں نے لیڈی رائے سے کہا۔ ’’شکر کرو کہ اُدما نے کسی میں دلچسپی لینی شروع تو کی‘‘۔
’’اس کا مجھے احساس کھائے جارہا ہے کہ وہ اکتیس سے اوپر ہوچکی ہے۔ مگر ایسا بھی کیا…‘‘ لیڈی رائے نے آزردگی سے کہا۔ وہ اب تک آس لگائے بیٹھی تھیں کہ شاید کوئی ہم رتبہ داماد مل جائے حالانکہ لڑکی روز بروز زیادہ چڑچڑی اور موٹی اور بھدی ہوتی جارہی تھی۔ ہماری قسمت میں نہ جانے یہ دُکھ کیوں لکھا تھا۔ معمولی معمولی لوگوں کی لڑکیاں ایک سے ایک حسین، نازک، دلچسپ، ہماری بیٹی شکل و صورت اور حیلے سے استانی لگتی ہے۔ باتیں شروع کرتی ہے تو سوائے اس کے ان بے تکے کامریڈز کے، سمجھ دار نوجوان ڈر کر دور بھاگ جاتے ہیں۔ کارل مارکس اور لینن اور اسٹالن اور یہ اور وہ۔ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا ہمارے مصلحین کی شاید ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی تھی۔
بالی گنج کلکتہ میں سرپری توش اور لیڈی رائے کے اکلوتے فرزند نرمیلندر کمار رائے کے پڑوس میں ایک بے حد دولت مند سانیال خاندان رہتا تھا۔ اس خاندان کے چھوٹے بیٹے بسنت کمار سے زمیلندو کی بڑی دوستی تھی۔ پچھلے دنوں جب اُدما کلکتہ اپنے بھائی کے پاس جا کر رہی۔ تو وہ نوجوان اس سے بھی ملنے آیا کرتا تھا اور لیڈی رائے کو اُمید بندھی تھی کہ شاید بسنت اُدما میں کچھ دلچسپی لے۔ مگر اس نے بھی ادبدا کر اُدما کو دیدی کہنا شروع کردیا اور پھر وہی کارل مارکس اور لینن اور اسٹالن اور اُدما نے بھی ذرا سی جو اس میں دلچسپی لی ہو۔ بس وہی کمبخت اینگلز اور مارکس۔ اور بسنت نے اس غریب کالے پادری کی حسین لڑکی روزی سے بیاہ کرلیا۔ غضب خدا کا۔
اور اب ساری دنیا دیکھنے کے بعد یہ بے چارہ بنوئے چندر سرکار اُدما کو بھایا ہے۔ چلو۔ واقعی شکر ہے۔ کوئی تو پسند آیا۔ سرکاری افسر سے شادی کرے گی نہیں۔ کمیونسٹ ہوگئی ہے۔ تو ظاہر ہے کسی ایسے ہی نادار آدمی کو چھانٹے گی۔
’’مگر بنوئے بابو بہرحال خاندانی آدمی ہیں۔ ان کے باپ زمیندار رومیش چندر کو لوگ آج بھی ڈھاکے میں بھولے نہیں ہیں‘‘۔ سرپری توش کہہ رہے تھے، لیڈی رائے نے گہرا سانس بھرا۔
’’ان کی ایک جوان لڑکی بھی ہے‘‘۔ لیڈی رائے نے سوچ کر کہا۔
’’دیپالی…؟ اس کے گانے تو تم بڑے شوق سے سنتی ہو۔ اور ہمارا نرمل اس کے ریکارڈ بڑی لگن سے بجایا کرتا ہے‘‘۔ سرپری توش نے ہنس کر کہا۔
لیڈی رائے خاموش ہوگئیں اور سوچنے لگیں۔ دیپالی کچھ عرصے بعد اپنے گھر چلی جائے گی۔ لڑکے اپنی اپنی راہ لیں گے۔ ٹھیک ہے۔ بہ حالت مجبوری اُدما کے لئے بنوئے بابو ہی بالکل ٹھیک ہیں۔ اگر وہ آج ہی اپنا عندیہ ظاہر کردے تو بات آگے بڑھائی جائے۔
صبح کو لیڈی رائے نے اُدما سے ڈاکٹر سرکار کے متعلق گول گول الفاظ میں استفسار کیا تو وہ مسکرا کر چپ ہوگئیں۔ لیڈی رائے نے فوراً چپکے چپکے بنوئے بابو کے متعلق مزید معلومات شروع کروادیں۔
ایک روز اُدما چندر کنج گئیں تو ڈاکٹر سرکار سے کہنے لگیں۔ ’’دیپالی کے لیے اب آپ کا کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’دیپالی…؟ ابھی تو وہ اپنے میوزک ڈپلومے کے لیے پڑھ رہی ہے‘‘۔
’’اس کے بعد؟‘‘
’’پتہ نہیں‘‘۔
’’آپ کے خیال میں ہے کوئی لڑکا؟
’’نہیں۔ آپ اتنے لوگوں کو جانتی ہیں آپ ہی کوئی تجویز کیجئے۔ مگر آپ کو معلوم ہے میں لمبا چوڑا جہیز نہیں دے سکتا‘‘۔
’’مجھے وہ اپنی چھوٹی بہن کی طرح عزیز ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ جلد از جلد اس کا اچھی جگہ بیاہ ہوجائے‘‘۔
’’جلد از جلد…؟ ابھی دو سال تو اس کے میوزک ڈپلوما میں باقی ہیں۔ پھر اس کی ضد ہے کہ ایم اے کرے گی۔ ابھی اس کی عمر زیادہ نہیں ہے‘‘۔
’’نہیں۔ جلد ہی وہ اپنے گھر چلی جائے تو بہتر ہے آج کل زمانہ…‘‘
’’…بڑا خراب ہے؟‘‘بنوئے بابو ہنس پڑے۔ ’’آپ جیسی ترقی پسند یہ کہہ رہی ہیں‘‘۔
’’میں آپ کو قدامت پرست سمجھتی تھی مگر آپ شاید مجھ سے بھی زیادہ ترقی پسند ہیں!‘‘
’’نہیں۔ میں پرانی وضع کا آدمی ہوں۔ مگر یہ دیپالی کی خلاف مرضی اس کا بیاہ ہرگز نہ کروں گا‘‘۔
’’اگر وہ آپ کی خلاف مرضی کر لے تو؟‘‘
’’وہ کبھی ایسا نہیں کرسکتی۔ بڑی معصوم، سیدھی بچی ہے‘‘۔
’’اُدما ذرا مسکرائیں۔ بنوئے بابو نے ان کو تعجب سے دیکھا۔
’’ہر باپ اپنی بیٹی کو معصوم سیدھی ننھی بچی ہی سمجھتا ہے!‘‘
’’آپ کے والد بھی آپ کو یہی سمجھتے ہوں گے…!‘‘ بنوئے بابو نے ہنس کر جواب دیا۔ اُدما رائے لاجواب ہوگئیں۔ چند سیکنڈ بعد انہوں نے کہا۔ ’’فرض کیجئے۔ دیپالی غیر فرقے میں شادی کرنا چاہے؟‘‘
’’غیر فرقے میں؟ آپ کو یہ خیال کس طرح آیا؟‘‘
’’بنوئے بابو۔ وہ ایک مسلمان لڑکا نہیں ہے۔ کامریڈ ریحان۔ وہ شاید آپ کے ہاں بھی کئی بار آچکا ہے۔ میں نے کچھ یونہی افواہ سنی تھی کہ…‘‘
’’افواہ…؟‘‘ بنوئے بابو نے گھبرا کر پوچھا۔
’’لیکن آپ نے کیا سنا؟‘‘
’’کچھ نہیں‘‘۔ اُدما نے اطمینان سے صوفے پر پہلو بدل کر عینک اُتاری۔ لگائی۔ اور ذرا بے پرواہ آواز میں کہنے لگیں۔ ’’دیپالی پچھلے سال جون میں جب بول پور سے گھر آنے کے بجائے سندربن چلی گئی تھی نا‘‘۔
’’سنتھال پر گنے …‘‘ بنوئے بابو نے تصحیح کرنا چاہی مگر اُدما دیبی کہے گئیں۔ ’’وہ سندربن گئی تھی نا‘‘۔ پچھلے سال جون میں۔ ریحان سے ملنے۔ آپ کو تو خیر معلوم ہی ہوگا۔ تب ڈیڈی کے کسی موکل نے ضلع کھلنا کے ایک ریلوے اسٹیشن پر، شاید باگھیرہاٹ پر ریحان کو اسے ٹرین پر سوار کراتے دیکھا تھا‘‘۔ اچانک وہ سراسیمگی کے ساتھ بات ادھوری چھوڑ کر کھڑی ہوگئیں۔ کیونکہ ان کو لگا جیسے بنوئے بابو پر دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔ وہ بھونچکے سے انہیں تکے جارہے تھے۔
’’اوہ… آئی ایم سو سوری۔ بنوئے بابو۔ میرا خیال تھا کہ آپ جانتے ہوں گے۔ آئی ایم سوری… پلیز… اوہ…‘‘
بنوئے بابو نے ہاتھ اٹھا کر ان کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ذرا کرب سے ان پر نظر ڈالی اور صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔ چند لمحوں بعد وہ سنبھل کر بیٹھ گئے۔ اور تیوری پر بل ڈال کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔
’’مجھے افسوس ہے بنوئے بابو‘‘۔ ادما نے پھر کہنا شروع کیا‘‘۔ میرا خیال تھا آپ خود جانتے ہوں گے۔ دیپالی بڑی راست بازبچی ہے۔ وہ آپ سے جھوٹ نہیں بولتی ہوگی‘‘۔
’’اسے جھوٹ بولنا آپ نے سکھایا ہے ادما دیبی‘‘۔ بنوئے بابو نے مدھم آواز میں کہا۔
’’میں نے…؟ میں نے بنوئے بابو…؟‘‘ ادما نے عینک اتار کر حیرت سے پوچھا۔
جس طرح آپ اسے ایک ہفتے کے لیے اپنے ساتھ گویا کومیلا لے گئی تھیں۔ مجھے آج تک معلوم نہیں کہ دراصل وہ کہاں گئی تھی۔ یہ سب آپ کی ٹریننگ کا نتیجہ ہے ادما دیبی‘‘۔
’’مجھے افسوس ہے بنوئے بابو… اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں‘‘۔ ادما اب ہڑبڑا کر کھڑی ہوگئیں۔ ’’میں آپ کو پانی لادوں؟‘‘ بنوئے بابو خاموش رہے۔ ادما جلدی سے کھانے کے کمرے میں گئیں۔ ڈولی پر رکھی صراحی میں سے گلاس میں پانی اُنڈیلنے سے قبل ایک نظر سے کمرے کا جائزہ لیا۔
شام کا وقت تھا اور رسوئی گھر سے کڑاھی کی چھن چھن کی آواز آرہی تھی۔ کھانے کمرے کی کھڑکی کے باہر عبدالقادر کا مریل گھوڑا گھاس چر رہا تھا۔ ادما گلاس لے کر بیٹھک خانے میں واپس پہنچیں۔ مگر بنوئے بابو اپنے کمرے میں جاچکے تھے۔ اور دروازہ اندر سے بند کرلیا تھا۔ ادما تذبذب کے عالم میں دروازے کے پاس کھڑی رہیں۔ اتنے میں بھوتارنی دیبی کھڑا ویں پہنے کھٹ کھٹ کرتی اندر آئیں۔
کیا ہوا…؟‘‘انہوں نے بھویں جوڑ کر دریافت کیا۔
’’کچھ نہیں۔ شاید بنوئے بابو کی طبیعت کچھ خراب ہوگئی ہے‘‘۔ یہ لیجئے۔ گلاس بڑی بی کو تھما کر وہ جلدی سے باہر کار میں جا بیٹھیں۔ اور گھر روانہ ہوگئیں۔
دوسری صبح ادما پھر چندر کنج پہنچیں۔ مطلب کے دروازے میں تالا پڑا تھا۔ بچے اسکول جا چکے تھے۔ بھوتارنی دیبی عبدالقادر کی گاڑی میں بیٹھ کر مہینے کی جنس لانے بازار گئی ہوئی تھیں۔ ادما نے اندر جا کر بنوئے بابو کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بنوئے بابو نے اخبار ہاتھ میں لیے لیے کواڑ کھولا۔
’’اوہ… تھینک گوڈ…‘‘ ادما نے کہا۔
’’کیوں…؟‘‘
(جاری ہے)