’’ آخر تُو نے سوچا، تو سوچا بھی کیسے کہ ماں باپ کی بوڑھی ہڈیوں کو تکلیف پہنچائے گا…وہ تجھے دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں اور تُو اپنی پھنے خانی جھاڑ رہا ہے! بے شرم، شرم کر۔‘‘
نہ جانے چھوٹے بچے کیسے اتنی آسانی سے مرغا بن جاتے ہیں۔ میں تو بال بچوں دار بڑے جثے والا مرد تھا، مجھے بہت تکلیف ہورہی تھی مرغا بننے میں۔ لیکن اس کے زوردار دھموکے پڑتے ہی میں نے دونوں ٹانگوں کے بیچ سے ہاتھ نکال کر کان پکڑ ہی لیے۔
اگلی ہی صبح میں اماں اور ابا جی کے سامنے کان پکڑ کر معافی مانگ رہا تھا۔ وہ میری کایا پلٹ پر متعجب تھے کہ رات تو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ صبح ہوتے ہی گھر چھوڑ جاؤں گا اور اب معافی مانگتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ آپ دونوں کو چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گا۔
کیا کروں میں بھی انسان ہوں۔ دل تنگ ہوجاتا ہے میرا جب میں اپنی ذمے داریاں وقت پر نبھاتا جاؤں اور میرے دوسرے بھائی پہلے اپنی ذات، اپنے بیوی بچوں کو ترجیح دیں بعد میں گھر کے اجتماعی کاموں کو۔ لیکن یہ بھی ٹھیک تھا کہ میں ان کی سزا اپنے بوڑھے ماں باپ کو علیحدگی کے دکھ کی صورت میں کیوں دوں۔ آخر کو وہی تو میرے مقبول حجوں کا وسیلہ تھے۔ چند روز بعد وہ پھر موٹا چمڑا ہاتھ میں لیے مجھے پیٹ رہا تھا۔
’’مرغا بن…بن مرغا…
کسی کمتر کا دل دکھا کر تُو سُکھی کیسے رہے گا۔ ڈر غریب کی آہ سے، جو تجھے جلا کر خاک کردے گی۔‘‘
بڑی ہی تکلیف سے گزر کر میں پھر مرغا بن گیا۔ میرا سانس پھولتا رہا لیکن اس کے باوجود اگلے دن میں نے اپنے ماتحت کام کرنے والے کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا کہ کل تک اس پر چیخنے چلاّنے والا افسر آج اس سے معذرت طلب کررہا ہے۔ تھوک کر چاٹنا آسان نہیں ہوتا مگر میں پھر بھی ایسا کر گیا تھا۔ کاش کوئی مجھے بھی سمجھتا۔ انسان جب اپنے اوپر والوں کا گند سمیٹتا ہے تو نیچے والوں پر الٹ دیتا ہے، حالانکہ میں تو سب کے ساتھ صحیح طرح چلنا چاہتا ہوں، اپنا کام پوری دیانت داری کے ساتھ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں، لیکن ہمارے ملک کا سسٹم ہی ایسا خراب ہوگیا ہے کہ انسان اچھا کرنے کا سوچے بھی تو اُسے اچھا کرنے نہیں دیا جاتا۔ لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ میں اپنے ساتھ جھگڑنے والے افسر کا غصہ اپنے سے نیچے کام کرنے والوں پر کیوں اتاروں! آخر کو روزِ محشر مجھے اللہ کو ان کی بابت بھی تو جواب دینا ہے۔
میں ایسا ہی تھا، پہلے زمانے کی بے اعتدالیوں پر خوب چلبلاتا اور پھر مرغا بن کر سیدھا ہوجاتا۔ زندگی ایسے ہی چل رہی تھی کہ اچانک ایک دن میں نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو میرا جواں سال بیٹا خون میں لت پت میرے سامنے پڑا تھا۔ چند اوباش لڑکے اس کا موبائل اور بٹوا چھین کر اسے گولیاں مار گئے تھے۔ بفضل خدا اس کی جان بچ گئی تھی مگر میں اور میری بیوی اندر ہی اندر مر رہے تھے۔ میرے شہر میں نہ جانے کتنے ہی ماں باپ روز اپنے جوان جہان بچوں کی لاشیں اٹھا رہے تھے۔ کیا سالہا سال محبت سے پال پوس کر، جمع پونجی لٹاکر اولاد کو اس لیے پروان چڑھایا جاتا ہے کہ چند نوٹوں اور ایک موبائل کے عوض کوئی جان لے کر چلا جائے! میں کانپ کانپ گیا۔ ابھی تو جان بچ گئی، کیا اگلی بار بچ پائے گی! چند ماہ بعد وہ پھر مجھے موٹے چمڑے سے پیٹ رہا تھا
’’مرغا بن… بن مرغا…
نمک حرامی کا تُو نے سوچا بھی کیسے؟ آج جس کی ضرورت ہے تُو اسی سے محروم ہونا چاہتا ہے۔ مٹی کا تجھ پر قرض ہے، تُو نے سب کچھ اسی سے حاصل کیا اور اب جب قرض لوٹانے کا وقت آیا تو تُو بے ایمانی کرنے چلا ہے، اپنے ہی گھر کو کمزور کررہا ہے، خود اپنا سہارا کھو رہا ہے۔ ارے بے وقوف! کون کرتا ہے ایسے کہ اپنی ہی متاعِ حیات کو دنیا کے سمندر میں پھینک دے!‘‘
وہ صحیح کہہ رہا تھا کہ وقت کی سب سے اشد ضرورت یہ ہے کہ میں اپنا اصل سرمایہ بچا لوں۔ لیکن میں کیا کرتا، دوبارہ لٹ جانے کے خوف نے میرے کانوں میں سیسہ الٹ دیا تھا۔
’’مرغا بن… بن مرغا…‘‘
اِس بار میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح میرے ہاتھ کانوں تک پہنچ جائیں لیکن شاید میں کمزور ہوگیا تھا، اسی لیے کان پکڑ نہیں پایا۔
دکھی دل سے بیٹے کو الوداع کہہ کر ائرپورٹ کی عمارت سے باہر آتے میں نے دیکھا دور کھڑا میرا ضمیر خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھور رہا تھا۔ آج اُس کے ہاتھ میں چمڑا نہیں تھا، شاید آج وہ بھی کمزور ہوگیا تھا۔