ساحرہ

56

ماں باپ نے نام سَحر رکھا تھا لیکن وہ جیسے ہی لڑکپن سے نکلی، سَحر نہ رہی۔ قد رب نے خوب دیا تھا، اس پر اُس کی ظاہری تراش خراش نے اسے بہت خوب کردیا۔ لہجے کی چاشنی اور مروجہ علوم سے آگاہی نے اسے ساحرہ بنا ڈالا۔

اس کے گھر والوں کو خوب احساس تھا کہ ان کی بیٹی بہت کچھ دنیا سے منوانے کی طاقت رکھتی ہے، سو جیسے ہی باپ نے کاروباری اُڑان بھرنے کا ارادہ کیا تو سب نے مل کر سَحر کے سِحر سے کام لینے کا پروگرام ترتیب دیا۔ ایسا پروگرام جس میں کامیابی کے امکانات اتنے روشن تھے جیسے آسمان پر چمکتا چاند۔

سَحر فقط انیس برس کی تھی لیکن زمانے کے داؤ پیچ سے آگاہی اسے خوب سکھا دی گئی تھی۔ زمین سے آسمان تک پہنچنے کے خواب دیکھنے اور جدوجہد کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن میزائل بن کر بے خطاؤں کو بھسم کرنا نرا فساد ہی ہے۔

اس فرق سے انسانوں کو اب کم ہی سروکار رہ گیا ہے، سو وہ اپنے طور پر بس اپنی خواہشات پوری کرنے کے چکر میں نور اور نار کی تمیز سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

سحَر ہے ساحرہ!

مقامی کلب میں موٹیویشنل اسپیکر سَحر کے نام سے پروگرامز بنانے لگے۔ متمول والدین اپنے طور پر اپنی بیٹیوں کو بھاری ادائیگی کے بعد کچھ مثبت سیکھنے کے لیے سَحر جیسی کم عمر، سمجھ دار، جدید حلیے اور معلومات سے لبریز فرد کے پاس بھیج کر سُکھ کا سانس لیتے تھے کہ ’’شکر ہے ہماری بچی نے کسی کی نصیحت تو پسند کی۔‘‘

سَحر کی مقبولیت بڑھ رہی تھی۔

گرویدہ لوگوں کے تحائف اور تحائف کے بعد شادی کے پیغامات آنے لگے۔ آخر ایک رشتہ منظور کرکے بہت سادہ تقریب میں شادی ہوگئی۔ سَحر کا بھاری مہر اور پھر اس کی فوری ادائیگی بھی ایک بہترین مثال بن گئی۔

’’آپ نے سَحر جیسی بیٹی دے دی، ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔‘‘

اپنے گھر کی نسبت محل نما آرام دہ جگہ پر وہ اپنے سسرال سے یہ جملے سنتے خوب خوش تھی۔

کتنے آرام سے اس کے گھر والوں نے شادی کی تھی۔ سب کچھ لڑکے نے اپنے بل پر مہیا کیا اور اسے تخت پر لا بٹھایا۔

ایک ہفتہ گزرا، ساس چونک چونک کر سوچتی ’’کیا وہ روایتی تنگ دل ساس ہیں یا ان سے رشتہ کرنے میں چوک ہوگئی؟‘‘

بیٹے سے سرسری انداز میں ذکر کیا تو وہ چپ رہا، ماں نے شرمندہ ہوکر سوچا ’’بیٹا بھی کیا سوچتا ہوگا ماں ایک جاہل عورت جیسی ہے۔‘‘

بات بدل کر ماحول خوش گوار رکھنا چاہا مگر بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔

سَحر کو نئے گھر اور گھر والوں سے کوئی مطلب نہ تھا، اس نظریے کے تحت اس کے پاس بہت سے جوابات، احکامات اور اخلاقی افکار کے درس تیار ملتے تھے۔

’’جو تمہارا وہ بھی میرا
میرا تو ہے ہی میرا‘‘

اس فلسفے کے تحت میاں کو اس نے باگیں ڈال دیں۔ گھر میں بوجھل پن بڑھتا گیا۔ ساس نے فراخی کے سبق اپنے آپ کو سناتے بیٹے کے لیے آئے دن ناشتہ بناتے سوتی ہوئی بہو پر تبصرے سے پرہیز کیا۔

وہ اور ان کے شوہر سویرے ناشتے کے ہمیشہ سے عادی تھے، بچے کو بھی یہی عادت ڈلوائی۔ موقع اور حالات کی تبدیلی پر اپنا کام خود کرنے کی عادت بھی اولاد میں تھی۔ لیکن جب بیٹے کی شریکِ حیات رفیقۂ حیات نہ لگ رہی ہو تو ماں کا اضطراب میں آنا فطری تھا۔

’’بیٹا! اگر تم سب کے ساتھ ناشتہ کرو تو ہمیں خوشی ہوگی۔‘‘ انہوں نے بڑے سہج کر بہو سے کہا تو وہ کارن فلیکس کا ڈبہ کھولتے لمحے بھر ٹھٹکی اور بے تاثر چہرے کے ساتھ مصروف رہی۔

’’دل چاہ رہا تھا طبیعت صاف کردوں ان سب کی لیکن بس چپ رہی‘‘۔ ماں سے فون پر بات کرتے ہوئے سَحر بولی تو ماں کا دل بھی پریشان ہوگیا۔

’’آئندہ بتادینا نرم لہجے میں کہ تم کو اپنے انداز سے رہنے کی عادت ہے‘‘۔ ماں نے کہا تو اس کو سکون مل گیا۔

’’میری بیٹی بہو بن کر آئی ہے، نوکرانی نہیں… اس کے اپنے سونے جاگنے کے اوقات ہیں۔‘‘

سَحر کے باپ نے داماد کو جتایا تو وہ جو ابھی تک ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے تحت سب کچھ برداشت کررہا تھا‘ بھڑک اٹھا۔

اس طرف داری کو سَحر نے خوب استعمال کیا، سسرال والے سَحر اور اس کے گھر والوں کے رویّے سے حق دق رہ گئے۔

’’کیا کوئی اتنا بھی بداخلاق ہوسکتا ہے امی! جیسے سَحر ہے؟‘‘ ماں کو سخت بخار میں گھریلو انتظامات میں مصروف دیکھ کر اچانک آئی بیٹی سخت کبیدہ خاطر تھی۔ غمگین سی مسکراہٹ سوکھے لبوں پر ابھری ’’دعا کرو اللہ اسے ہدایت دے اور بھائی کا گھر بسا رہے۔‘‘

’’ہے کہاں یہ؟‘‘
’’میکے گئی ہے۔‘‘

’’آپ کو کہنا تھا نا آج نہ جائے، گھر دیکھ لے، کل چلی جاتی۔‘‘

ماں چپ رہی، کیا کہتی کہ ’’وہ میاں کو جتا چکی ہے کہ اس کے گھر والوں کی سیوا اس کی بیوی کا فرض نہیں۔‘‘

بیرون ملک گھومنے کی فرمائش میاں سے پوری کروائی۔ اسے پتا تھا کون سا پتّا پھینک کر اپنا کام نکلوانا ہے۔ ’’اتنی اچھی بہو کہاں سے لائی ہو؟‘‘ لوگ اس کی ساس سے پوچھتے تو وہ چمک اٹھتی اور سوال کا مخاطب بہ مشکل مسکرا دیتا۔

چھ ماہ گزرے، برس بھی گزر گئے… گھر کی باتیں دیواروں کے کانوں سے ہوتی لوگوں کی چہ میگوئیوں تک پہنچ گئیں۔

’’مجھے چھوڑ دو!‘‘ مطالبہ سَحر نے کیا تو سسرال والوں کو جھٹکا لگا۔

’’کیا یہ واقعی سَحر ہے؟‘‘

میاں کی اَنا مزید سمجھوتوں سے انکاری تھی۔

’’اتنا کچھ کرنے کے بعد اب کیا چاہتی ہے یہ عورت؟‘‘ وہ چیخا تو ماں زرد پڑ گئی۔

سَحر نے اس ہنستے بستے گھر پر آسیب پھیلا دیا تھا۔

اور پھر وہ چلی گئی۔ بہت خوش باش، بہت پُرسکون۔

اس کے جانے کے بعد علم ہوا کہ گھر کی خوشیوں کے ساتھ مال کا بھی کمال پلاننگ سے صفایا کیا گیا تھا۔ بینک لاکر سے تمام زیورات اور جس حد تک نقدی پر رسائی ممکن بنی، وہ سمیٹ کر لے گئی۔

اور یوں سَحر سے ساحرہ بننے کی پہلی قسط مکمل ہوگئی۔

حصہ