ایک اسلامی تہذیب نے مجھے بہت متاثر کیا قبول اسلام کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں پہلے نابینا تھی ،محترمہ کملا ثریا(کملا داس)کا ایک یادگار انٹریو
ثریا کملاداس بھارت کے شہر کیرالا کے برہمن خاندان میں 1934ء میں پیدا ہوئیں، وہ انگریزی اور ملیالم زبان کی مشہور شاعرہ اور ادیبہ تھیں، انہوں نے دسمبر 1999ء میں کیرالا لائبریری کونسل کے اجلاس میں تقریر سے پہلے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ’’اب میں اُس کی پرستار ہوں جو اپنی ذات میں یکتا ہے یعنی اللہ‘‘۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنے لیے ’’کملا ثریا‘‘ کا نام پسند کیا۔ یہاں ان کا ایک انٹرویو جو فریدہ رحمت اللہ نے لیا، قارئین کے استفادے کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔
سوال: ثریا صاحبہ! آپ ہندو گھرانے میں پیدا ہوئیں، پلی بڑھیں۔ عمر کے اس دہانے پر وہ کون سی بات تھی جس سے متاثر ہوکر آپ نے اسلام قبول کیا؟
ڈاکٹر کملا ثریا: میں ہندو مذہب کے کسی بھی رسم و رواج سے کبھی بھی نہ ہی متاثر ہوئی اور نہ ہی پابند رہی۔ تیس سال سے زیادہ مجھے اسلام کو سیکھنے، دیکھنے اور پڑھنے کا موقع حاصل ہوا، مجھے ہمیشہ اسلام سے بے حد دل چسپی رہی۔ اسلامی تہذیب نے مجھے بے حد متاثر کیا۔
سوال: ہندو مذہب میں عورت کو Symbol of goddess کہا گیا ہے، مخالفِ اسلام کہتے ہیں ہندو مذہب میں عورت کی بے حد قدر ہوتی ہے۔ ایسے مقام کو چھوڑنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
ڈاکٹر کملا ثریا: مجھے خدا نہیں بننا تھا، مجھے صرف ایک اچھی انسان بننا تھا، میں نہیں چاہتی میں بت بنوں اور میری پوجا ہو۔ مجھے صرف ایک اللہ کی بندی بن کر زندگی گزارنا ہے۔
سوال: غلط پروپیگنڈہ ہے کہ اسلام میں عورت کا کوئی مقام نہیں، عورت آزاد نہیں، یہ مرد کا جہاں ہے۔ آپ ان غلط خیالات کو کیا کہنا چاہیں گی؟
ڈاکٹر کملا ثریا: پتا نہیں! لیکن اسلام میں رہ کر میں آزاد ہوں، میں اپنی مرضی کی مالک ہوں۔ اگر تیراکی کے لباس میں پبلک مقامات پر نہانا، گھومنا، پھرنا اور بیوٹی کانٹیسٹ کے نام پر عورت کو برہنہ کرنا، اس کے جسم کی نمائش کرنا، عورت کے بدن کی ناپ تول اور جانچنا، اگر آزادی ہے تو میں ایسی آزادی پر لعنت بھیجتی ہوں۔اسلام میں عورت کا مقام بہت بلند اور محفوظ ہے۔
سوال :آپ ہمیشہ پردے میں رہتی ہیں، آپ کو اس میں کیا خوبی نظر آئی ؟
ڈاکٹر کملا ثریا: میں پردے کو عورت کے لیے تحفظ مانتی ہوں۔ برقع میں عورت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی۔ میں تیس سال قبل ہی سے برقع استعمال کرتی تھی۔ جو عورت حجاب میں رہتی ہے اسے معاشرہ عزت اور قدر کی نظر سے دیکھتا ہے، لیکن برقع کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
سوال: کیا پردہ عورت کا مقام اونچا کرتا ہے؟
ڈاکٹر کملا ثریا: یقینا، میں جب بھی سفر کرتی ہوں مکمل طور سے پردہ کرتی ہوں، خود کو پردے میں مکمل محفوظ سمجھتی ہوں۔ پردے سے عورت کا وقار اور عظمت بڑھ جاتی ہے۔
سوال : Polygamy خاندانوں اور سماج کے لیے رحمت ہے یا زحمت؟ اکثر اس کی غلط تصویر پیش کی جاتی ہے۔ ان باتوں میں میڈیا پیش پیش رہتا ہے۔ اکثر اس کا غلط فائدہ بھی اٹھایا گیا ہے۔آپ کیا کہیں گی؟
ڈاکٹر کملا ثریا: شریعت میں اجازت ہے تو بالکل صحیح ہے۔ کس کی مجال ہے جو شریعت کی مخالفت کرے! میں کہوں گی ایک مرد اگر ایک سے زائد عورت کی دیکھ بھال کرسکتا ہے، اس کی حفاظت کرسکتا ہے، اس عورت کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے، اسے معاشرے میں عزت کا مقام دلا سکتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟ شادی کا مطلب صرف ایک دوسرے کو حاصل کرنا نہیں۔ کسی بے سہارا کو اگر سہارا مل رہا ہے تو میں اسے برا یا غلط نہیں مانتی۔کوئی وجہ نہیں Polygamy کو Condemn کیا جائے۔ دوسرے مذاہب میں بیوہ عورت کو منحوس سمجھا جاتا ہے، اسے غیر ضروری چیز سمجھ کر دھتکار دیا جاتا ہے۔ اگر بیوہ عورت کے ساتھ نکاح کرکے اسے اچھی زندگی دی جاتی ہے تو Condemn کرنے والی کوئی وجہ نہیں۔
سوال: پڑوسی ملک کے بارے میں کچھ کہیں گی؟
ڈاکٹر کملا ثریا: ہمارے وزیراعظم بہت ہی اچھے انسان ہیں۔ کچھ باہر کے لوگ اور میڈیا بھی اکثر غلط پروپگنڈا کرکے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمی پیدا کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے پاکستانی ہمارے دشمن ہیں، کسی نہ کسی طریقے سے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف جذباتی بنادیتے ہیں۔ یہ غلط بات ہے۔ دونوں طرف سے امن کی، پیار و محبت کی تعمیری بات ہونی چاہیے تاکہ دونوں ملکوں میں امن ہو، دوستی بڑھے، پیار بڑھے اور ملک ترقی کرسکیں۔
سوال:کیا ہندو مسلم ایک دوسرے کے مخالف ہیں؟
ڈاکٹر کملا ثریا: بالکل بھی نہیں۔ ان دونوں سے اچھا دوست کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا، یہ آگ بہت پہلے انگریز لگا کے گئے ہیں۔ یہ غلط فہمی ہے۔ انگریزوں ہی نے یہ افواہ اڑائی اور شور مچادیا۔
سوال: آپ کے قبولِ اسلام پر آپ کے والدین، بچوں اور رشتے داروں کا رویہ کیا رہا؟
ڈاکٹر کملا ثریا: میرے والد نہیں رہے۔ والدہ عمر کی اس دہلیز پر ہیں جہاں انہیں کسی بات کا احساس نہیں ہوتا۔ میرے بچے بہت سمجھ دار ہیں، ہاں میرے رشتے داروں کو ضرور شاک لگا تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ میں نے اسلام قبول کیا، بلکہ میں جو پردہ کرتی ہوں یہ بات انہیں تھوڑا الگ لگتی ہے۔ پردے والی بات کچھ کھٹکتی ہے، ورنہ میرے گھر میں کسی کو اعتراض نہیں۔
سوال :آپ ہمیشہ پردے میں رہتی ہیں؟
ڈاکٹر کملا ثریا: میں سمجھتی ہوں جب اسلام قبول کیا ہے تو مکمل طور سے پابند رہوں، فرماں بردار اور اطاعت گزار رہوں۔ I should be totally surrendered Not Halfly میں مانتی ہوں اللہ ایک ہے، ساری دنیا کا نظام اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔
سوال: قبولِ اسلام کے بعد آپ کیسا محسوس کرتی ہیں ؟
ڈاکٹر کملا ثریا: خود کو ایک دم ہلکا پھلکا محسوس کرتی ہوں۔ پہلے جیسے میں ایک ’’نابینا ‘‘تھی، روشنی سے محروم تھی، شاید میری باطن کی آنکھیں بند تھیں۔ اب لگتا ہے ایک اندھے کو روشنی مل گئی اور میرے ذہن کے دریچے جو بند تھے کھل گئے ہیں۔ میں اب بالکل مطمئن ہوں اور بے حد خوش ہوں۔ میری خوشیاں اب Positiveہیں۔ میں ایک دم سے مضبوط ہوگئی ہوں۔
سوال :اسلام میں طلاق اور خلع کی جو سہولتیں ہیں یا آسانیاں ہیں، اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟
ڈاکٹر کملا ثریا: یہ تمام آپس کے ذاتی مسائل ہیں، جب میاں بیوی میں آپس میں اَن بن، لڑائی جھگڑے مسلسل ہونے لگتے ہیں تو میاں بیوی ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ دونوں کو ایک ساتھ زندگی گزارنا دشوار لگتا ہے۔ ایسے میں طلاق یا خلع کے ذریعے بات کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ میں کہنا چاہوں گی کہ اکثر خواتین بھی مرد پر اُس کی طاقت سے زیادہ فرمائشوں کا بوجھ ڈال کر غیر ضروری چیزوں کی چاہ میں نفرت کے دروازے کھولنے لگتی ہیں۔
Sometime women take men for granted
یہ غلط بات ہے۔ بہت سے حضرات میرے پاس ایسی شکایات لے کر آتے ہیں۔ بیوی کو اپنے شوہر کی آمدنی دیکھ کر فرمائش کرنی چاہیے اور دونوں کو آپس میں مل جل کر پیار محبت سے خوش حال زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سوال: آپ نے مغربی ممالک کا سفر بھی کیا ہے، ان ممالک میں اسلام کا موازنہ دوسرے مذاہب سے آپ کو کیسا لگا؟
ڈاکٹر کملا ثریا: جرمنی میں موومنٹ بہت مضبوط ہے۔ ویسے بھی ساری دنیا میں اسلام کی تعلیمات اور تبلیغ کا کافی اثر پڑا ہے، لوگ اسلام کو جاننے کے خواہش مند اور بے چین رہتے ہیں۔ جب میں نے ابھی مذہب نہیں بدلا تھا، میرے بہت سے خدا تھے (استغفراللہ)، جب میرا بچہ بیمار ہوجاتا تو ڈاکٹر کی دوا کے بعد دعا کی بھی ضرورت پڑتی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کس خدا کے پاس مانگوں۔ کیوں کہ ہر ایک کے لیے الگ الگ بھگوان ہوتا ہے، میں پریشان ہوجاتی تھی۔ اسلام میں ساری دنیا کا مالک اللہ ہے، جو صرف ایک ہے، جو سب کی سنتا ہے، واحدہٗ لاشریک ہے۔ بس اسی سے مانگو۔
سوال: اسلام ہی واحد مذہب ہے۔ اس کا یقین آپ کو کیسے ہوا؟
ڈاکٹر کملا ثریا: میں برسوں تمام مذاہب کا مطالعہ کرتی رہی۔ مجھے لگا دوسرے مذاہب میں کئی جگہ کی بنیاد کھوکھلی ہے۔ اسلام کی بنیاد بے حد مضبوط اور مستحکم ہے۔ اس میں امن ہے، سچائی ہے، سکون ہے۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے، جامع نظام زندگی ہے، کمزوروں کا محافظ اور مظلوموں کا ہمدرد ہے۔
سوال: آپ کا پیغام ہندو اور مسلم بہنوں کے لیے؟
ڈاکٹر کملا ثریا: بس ایک دوسرے سے پیار کرو، پیار محبت میں سکون ہے، ترقی ہے، راحت ہے، امن ہے۔ میں کہوں گی جہاں پیار نہیں، وہ جگہ دوزخ ہے۔ جس جگہ دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار ہے وہ جگہ جنت ہے۔جہاں امن ہے سکون ہے۔
سوال: آخری بات۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے قبولِ اسلام کے پیچھے کسی مرد کا ہاتھ ہے، اگر ہے تو ہم جاننا چاہیں گے کہ وہ کون ہیں؟
ڈاکٹر کملا ثریا: بالکل صحیح سنا ہے آپ نے۔ یقینا اس کے پیچھے آدمی کا ہاتھ ہے اور وہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپؐ ہی کی وجہ سے میں ایمان لے آئی اور اسلام قبول کیا۔ اس ایک آدمی کی تعلیمات نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی۔
سوال: آپ نے کہا آپ تیس سال سے اسلام سے، اسلامی تہذیب سے متاثر تھیں۔ ظاہر کرنے میں اتنے برس کیوں لگے؟ کسی کا ڈر یا کوئی وجہ؟
ڈاکٹر کملا ثریا: میں سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتی۔ اللہ کی بندی ہوں، شاید صحیح وقت کا انتظارتھا۔
سوال :آپ صوم وصلوٰۃ کی پابند ہیں؟
ڈاکٹر کملا ثریا: بالکل صوم وصلوٰۃ کی پابند ہوں اور رات میں تین بجے اٹھتی ہوں، تہجد کے ساتھ پنج گانہ بھی پابندی سے ادا کرتی ہوں۔ ہمارے گھر میں صبح سویرے امام صاحب پڑھانے آتے ہیں، جن سے میں اسلام کی تعلیم حاصل کررہی ہوں (امام صاحب سے ہماری ملاقات صبح کو ثریا صاحبہ کے ہی گھر پر ہوتی تھی)، قرآن پاک پڑھتی ہوں، ابھی خاص آواز سے پڑھنا سیکھ رہی ہوں۔
سوال: ’کیرالا‘ میں مسلمان اور سیاست کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟
ڈاکٹر کملا ثریا :کیرالا کی ترقی میں 85 فی صد یہاں کے مسلمانوں کا ہاتھ اور ساتھ رہا ہے۔ یہاں کی ترقی کے لیے مسلمان پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ یہاں پر مسلم لیگ ہمیشہ جیت کر آتی ہے لیکن یہ لوگ کبھی بھی مسلم طبقے کے مسائل کو لے کر سنجیدہ نہیں ہوتے، نہ ہی کچھ کرتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ کیرالا میں مسلمان سنجیدگی سے مسلمان وزیراعلیٰ کی ڈیمانڈ کریں۔ اب وقت آگیا ہے، یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ یہاں کا وزیراعلیٰ مسلمان ہونا چاہیے۔ یہ ان کا حق ہے۔ یہاں کی معیشت مسلمانوں کی وجہ سے سدھری اور سنوری ہے۔ مسلمانوں کو آگے بڑھ کر اپنے حقوق کی مانگ کرنا اور منوانا ضروری ہے۔
سوال: مستقبل کے بارے میں کوئی خواہش؟
ڈاکٹر کملا ثریا: کیرالا کی سیاست میں تبدیلی آئے، میں چاہتی ہوں کہ بزرگ خواتین کے لیے ایک گھر بناؤں، اس گھر میں عبادت کا انتظام ہو۔ ایک مسجد بناؤں اور عربی مدرسہ بھی۔ ان بزرگوں کی خدمت کروں۔ انہیں وہ تمام پیار دوں جو ان کے اپنوں نے کبھی بھی نہ دیا۔ میں جب باہر نکلتی ہوں تو دیکھتی ہوں کتنی بے سہارا عورتیں سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ پر بے یار و مدد گار رہتی ہیں، ان کے کام آؤں، انہیں اپنے گھر میں جگہ دوں۔ میں سمجھتی ہوں مسلم خواتین سماجی کام بہترین طریقے سے کرسکتی ہیں۔ جو بھی زندگی رہ گئی ہے اسے قوم و ملک کی بھلائی میں صرف کروں، یہی آرزو ہے۔