حقیقت اور خواب

60

تاج محل کتنی قدیم دور کی یادگار سہی، مگر اس کے حسن کا فسوں اس میں بسی بھول بھلیاں آج بھی کتنی ہی آنکھوں کا خواب ہے۔ ہاں سب کے اپنے اپنے خوابوں کے تاج محل ہیں اور خواب دیکھنے، اسے سجانے اور اسے پیار کرنے میں بھلا لگتا ہی کیا ہے؟ نہ سرمایہ، نہ محنت کش افراد جو یہ شاہ کار تخلیق کریں نہ تو انجینئر جو اس کا ماڈل بنائیں پائی پیسہ ایک نہیں اور خوابوں کی لوٹ سیل۔

کچھ ایسے ہی خوابوں کا دیوانہ شہریار بھی تھا اور اس کے یار دوست بھی، اسے آپ آج کل کا ٹرینڈ سمجھئے یا انسانی آرزوؤں پہ جان دینے کاازلی سلسلہ ۔

’’ہم لوگ مڈل کلاس ہیں بھیا اور اس دور میں رہ کر کیوں بنتے ہو مغل بادشاہوں کا کردار جو چیز پہنچ میں نہیں اس کے خواب بھی مت دیکھو حقیقت پسند بنو۔‘‘ بڑے بھائی جب اس کی باہر جانے کی وڈیوز کی حدسے بڑی خواہش دیکھتے تو ٹوکتے کہ یہی اس کا تاج محل تھا جو تاج محل کی پکس اور وڈیوز اس کی تمنا میں اپنے ارمانوں اور خوابوں کے تاج محل بناتے تعمیر کیے تھے خیالی دنیا میں تخت سلیمان پہ سیر کرنا سدا سے مفت برابر ہے۔

اس کے علاوہ بھی دیگر چھوٹے چھوٹے منصوبے بنائے جاتے تذکرہ رہتا مگر انوکھا لاڈلا کھیلنے کو چاند مانگتا ہی رہتا کہ ’’بھیا سب چیزیں مہنگی ہیں مگر خواب تودیکھنے دیا کرو‘ ان سے پیار کرنے کی راہ ظالم سماج تو نہ بنو۔‘‘ یہ جواز گھڑ کے وہ پھر موبائل میں گم ہوجاتا کہ کوشش کرنے میں کیا ہے؟

’’بس بیٹا! ان تماشوں میں رکھاکچھ نہیں حقیقت پسند بنو‘ ساری توجہ تعلیم کی طرف کرو پھر جو مل جائے اسی کو تاج محل سمجھ کر قناعت کرو۔‘‘ امی بھی اس کے بستر کی سائڈ ٹیبل پہ تاج محل کا شوپیس دیکھ کر یہی کہتیں۔

ابروڈ جانے کے لیے خطیر رقم چاہیے تھی جو تقریباً ناممکن تھا۔ انٹر میں 60 پرسنٹیج بڑے دھکا اسٹارٹ پہ مل سکی تھی۔ ولاگ بنانے کے منصوبے بھی مشکل تھے‘ گھر کی بنانے کی اجازت نہیں تھی اور باہر بازاروں میں سیکیورٹی کا مسئلہ کہ حالات موافق نہیں تھے۔ اس کے دوستوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہاں رکھا ہی کیا ہے؟

اندھیر مچی ہے کتنا بھی پڑھ جائیں کون ساتیرمارلیں گے‘ بندر بانٹ چل رہی ہے‘ ساری ترقی نااہلوں اور بے ایمانوں کے لیے ہیں۔ اگرچہ یہ کہنا غلط بھی نہ تھا مگر اس بنیاد پہ نااہل اور نکما بن جانا ایک اور حماقت کی بھی حد تھی یا راہ فرار… بس اس چکر میں سوشل میڈیا کے فیک نظارے پُرکیف لگتے اک لاحاصل سرچنگ میں تاج محل کی سی جستجو ہوتی جس کا اثر لامحالہ پڑھائی پہ ہوتا۔

’’وہ کشتی میں ڈوبنے والے بھی تو ایسے ہی خواب لے کے گئے تھے۔ یاد ہے پچھلے برسوں کی تو خبر ہے ناں۔‘‘ ابا توجہ دلاتے۔

’’ارے چھوڑیں جی آج کل کے بچے یہی سوچتے ہیں مگر آپ کیوں بدفال نکالتے ہیں بچے کے لیے۔‘‘امی اسے ہی تھپکتیں۔

’’ارے عقل مند بچہ آج کل کا ہو یا کل پرسوں کا گلیوں میں نظارے بازی کرے یا اسکرین پہ‘ ساری حرکتیں نکما بنانے کی ہیں اس سے کہو اپنی کھال میں رہے محنت اور لگن کے بنا کچھ نہیں بنتا۔‘‘

’’چھوڑیں بھی آپ بے چارہ ابھی تو سودا لینے گیا ہے بائیک پہ کیسے کیسے کھڈے ہیں سڑکوں پہ آپ اس کے پیچھے اتنا مت پڑیں۔ گریجوایشن بھی ہو ہی جائے گا اب تو ہوتے ہوتے۔‘‘ امی اس کے اتنا پڑھنے پہ ہی بہت مطمئن تھیں۔

’’یہ تم بہت سرچڑھاتی ہو‘ تمہارے لاڈ کی وجہ سے سنی اَن سنی کرتا ہے۔ جب دیکھو بس موبائل میں گم جیسے دنیا قدموں میں آگئی ہے۔ ارے جب دنیا ٹھوکر مارے گی نا تب سمجھے گا یہ اور تم۔‘‘

آج ابا جی زیادہ ہی غصے میں تھے کیوں کہ وہ چھوٹی موٹی جاب آپلائی کرنے کو تیار نہیں تھا ابا سے بی کام کلیئر کرنے کے بعد باہر جانے کی بات ہی کی تھی کہ وہ چراغ پا ہوگئے۔ مزید پڑھائی کا بوجھ اٹھانے کی گنجائش اس کے ذہن میں تھی نہیں۔ بڑے بھائی ضرار علی بی کام کے بعد اکنامکس میں ایم اے کرکے ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم ہوگئے تھے۔ اُن سے چھوٹی تینوں بہنیں اپنے گھر بار کی ہوگئی تھیں۔ اب شہریار سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے نظاروں کی موج مستی میں اپنے سندر خواب ڈھونڈتا شیخ چلی کے کتنے منصوبے یار دوست مل بیٹھ کر بناتے رہتے اور تھوڑی بہت پڑھائی بھی کرلیتے کہ ابھی تو تین ماہ سے زیادہ وقت ہے فائنل پیپرز میں۔

’’یار! کاش پڑھائی میں بھی کوئی چوکے چھکے ہوتے‘ جمپ کا چانس ہوتا‘ پھر ہم کہاں سے کہاں نکل جاتے۔‘‘دوستوں میں سے کوئی آہ بھر کے کہتا ’’اب تو کرکٹ ٹیم بھی زمین پہ ہارنے کے ریکارڈ بنارہی ہے اسے اب چاند پہ چلے جانا چاہیے۔‘‘

ایک موج مستی میں کہتا ’’اب شیری! خوابوں کے تاج محل توکیا اس کا شوپیس بھی پہنچ سے باہر نہ ہو جائے۔‘‘ ایک اور دل جلے نے آہ بھری۔

کل سے گھر میں مرمت کا کام ہونا تھا اباجی اور امی دونوں نے شہریار کو مزدوروں کی نگرانی کی تاکید کی کہ وہ باپ کے ساتھ کھڑا ہو کے کچھ سیکھے کہ مزدور کے سر پہ کھڑے رہو تو ٹھیک کام کرتے ہیں ورنہ ڈنڈیاں مارجاتے ہیں۔

پھر امتحان کی مصروفیات شروع ہو جائیں گی اس لیے ہفتہ بھر وہ یہاں دیکھے پڑھائی میں کمی کرنے پہ شیری حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں تھا۔ ’’چلو تھوڑا بریک سہی دوتین گھنٹے رات پڑھ لوں گا۔‘‘ سوچتے ہوئے وہ آدھی چھٹی پہ مطمئن تھا۔ اس نے سوچا ابا جی شاید اس طرح رام ہو جائیں پھر کوئی صورت نکل ہی جائے۔

ادھر اباجی نے بھی اسے پڑھائی سے تھوڑی بریک دینے اور ذمہ داری کا احساس دلانے کی ترکیب سوچی تھی بس تنبیہ کا اندازکچھ بدل دیا تھا۔

بہرحال اکھڑے پلستر کی درستی‘ کچھ مرمت کے کام شروع ہوئے۔ شہریار موبائل لے کر ساتھ بیٹھا مگر اچٹتی سی نگاہ ڈال کر میسج چیک کرلیتا کبھی رپلائی کردیتا مگر مدہوش ہونے والی سرگرمی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگئی تھی۔ نگرانی کرنا یا کچھ سامان لینے جانا‘ دھیان سے کرنے کے کام تھے۔ لگن اور محنت مزدور کے ساتھ کروانے والوں کی بھی بہت ہوتی ہے اپنے گھر کا سوال ہوتا ہے ناں! اور اپنے پن کا کچھ متبادل ہوا ہے نہ ہوگا۔

مرمت کے بعد خشک ہونے اور پھر ترائی کرنے کا مرحلہ بھی ساتھ ساتھ ہوا۔ دو‘ تین گھنٹے پڑھائی بھی کرلی گئی۔ دوسرے دو کمروں میں رنگ ہونا تھا۔ ابا نے اس سے سامان منگوایا تھا‘ رنگ ریز اور اس کے ساتھی نے ریگ مال سے دیواریں رگڑنی شروع کر دیں۔ دومنٹ کا وقفہ لے وہ سریلی آواز میں کبھی حمد یانعت پڑھتا گنگناتے ہوئے کام میں پورے دھیان سے مگن رہتا نماز کے وقت وضو کرکے تھیلے سے صاف جوڑا نکال کر تبدیل کرتا صاف جگہ دیکھ کر وہیں نماز پڑھ لیتا پھر کام میں محو ہوجاتا شہریار دیکھتا کہ سینے سے گلے تک بڑا سوز تھا کہ سماں بندھ جاتا اور کام آسانی سے اچھا ہوجاتا

’’بھیا اکرام! بڑا ٹیلنٹ ہے تمہارے اندر‘ یہ کام چھوڑو آواز کا جادو جگائو پیسہ ہی پیسہ… شہرت‘ عزت سب کچھ۔‘‘ شہریار نے منصوبے کی آگاہی دی جیسے۔

’’ارے نہیں بیٹا! توبہ کرو‘ شوق ہے اور اللہ رسولؐ کی ثنا کے پیسے کیوں لوں۔ رب نے رزقِ حلال کا ہنر دیا ہے۔ بس بندے کو اپنی حدکا علم ہونا چاہیے۔ اگر کبھی موقع بھی مل جائے ثنا خوانی کا تو زہے نصیب۔ مگر اسے پیشہ بنا کر گناہ نہیں کماؤں گا۔‘‘ اکرام نے سکون سے جواب دیا۔

’’ہاں اکرام بھائی! کیا بات ہے… کتنا اچھا کام کرتے ہو‘ پورے دل کے ساتھ۔‘‘ شہریار تعریف کیے بنا رہ نہ سکا۔

’’دیکھو ریگ مال مارتے ہوئے دل بھی چمکا لیتا ہوں ذکر سے آواز کی تان اٹھاکر‘ اس سے کام کی لگن اور بڑھ جاتی ہے جان ماری آسان ہوجاتی ہے۔ تم کو تو پتا ہے کہ کام میں جان ماری کے بنا چارم آہی نہیں سکتا۔‘‘

اکرام جیسے اسے رستہ دکھارہا تھا۔ دونوں کمرے آہستہ آہستہ کتنے نکھر گئے تھے خواب کا گمان ہوتا تھا۔

’’مگر بھائی! تمہارا دل تو چاہتا ہوگا بہت آگے جانے کو، فن کو آزمانے کو تمہارے بھی تو خواب ہوں گے کسی تاج محل جیسے۔‘‘ اس کا سوال بڑافطری تھا۔

فن کو رزق کا ذریعہ بنالو تو بندہ دلدل کے کنارے پہنچ جاتا ہے۔ حرام کارستہ دلدل میں دھنسا کر چھوڑتا ہے… بس میرا چھوٹا سا چھپر میری سلطنت ہے جہاں دال روٹی چلتی ہے‘ کبھی اچھا کھانا بھی، باقی تاج محل ملنے کی تو اگلے جہان میں امید ہے۔ اور دعا بھی اس دنیا میں تو جیون بہت مشکل ہے اور مجھے میری حدکا پتا ہے محنت میں جب ہی لگن آتی ہے۔‘‘

شہریار کو اسکرین کی فیک دنیا کی قلعی اترتی ہوئی نظر آئی واقعی اس میں گم ہونے والے ہوائی قلعے بناتے رہتے ہیں یا ہوا میں تیر چلاتے ہیں۔ اُدہر اباجی بھی اکرام کی محنت اور دیانت پہ بہت خوش تھے اسے سراہا رہے تھے۔ شہریار کو اس تجربے نے حقیقت کا نیا رنگ دکھایا تھا۔

’’یار! تم تو سچے فن کار اور درویش آدمی ہو‘ جان کھپانے کا مزا تم سے سیکھے کوئی۔‘‘ انہوں نے اسے مزدوری دیتے ہوئے کہا۔

اچانک اکرام کی جیب میں رکھے موبائل کی بیپ بجی بٹوے میں رقم رکھ کر میسج پڑھتے ہوئے چہرہ خوشی سے گلنار ہوگیا۔

’’لیجیے انکل خوش خبری! الحمدللہ میرے بچے عزام نے انٹر میں 82 پرسنٹیج لی ہے۔‘‘ اس کی آواز خوشی سے لبریز تھی۔

’’82 پرسنٹیج؟‘‘ شہریار تعجب سے بولا ’’تمہارا بیٹا اتنی پڑھائی کیسے کرلیتا ہے؟‘‘

’’بس شوق اور لگن ہوتو جان ماری آسان ہوجاتی ہے مالک کاکرم ہے ورنہ ہم اس قابل تو نہیں۔‘‘ اس کی آنکھوں میں شکر سے نمی اترائی تھی۔

’’ارے اکرام بھیا! تم تو محنت اور لگن کی مثال ہو اور آخر کو بیٹا تمہارا ہے ناں‘ لو یہ ہماری طرف سے مٹھائی لے لینا۔ دل خوش کردیا تمہارے دل وجان سے کام کرنے نے۔ آدمی بڑے خاندانی ہو میاں!‘‘ اباجی نے خوش ہوتے ہوئے کچھ پیسے مزید بڑھادیے۔

وہ منع کرتا رہا مگر اصرار پہ لیتے ہی بنی۔

’’ابھی مجھے اپنی منت بھی پوری کرنی ہے جا کے کل ہی ہوسکے گا یہ۔‘‘ وہ بہت شکرگزاری کے لہجے میں بولا۔

’’ہاں ہاں ابھی تو مٹھائی لے کر گھرجائو منہ میٹھا کرو فیملی کے ساتھ پھر منت کی نفلیں بھی پڑھ لینا۔‘‘ اباجی نے اسے تھپتھپایا۔

’’ارے انکل نفلیں تو الگ ہیں‘ کونے میں پڑھنے کی چیز ہے میری منت تو عزام کا ایک بوتل خون عطیہ کرنے کی ہے‘ وہ اب صبح ہی پوری ہوگی ان شاء اللہ۔‘‘

’’خون عطیہ کرنے کی منت…؟‘‘ شیری کے منہ سے اچانک بڑے تعجب سے نکلا۔

’’جی انکل! آپریشن کے کسی تڑپتے مریض کے لیے خون دینا بھی تو شکرانہ ہے ناں… بس رب قبول کرلے۔‘‘ اکرام بائیک سٹارٹ کرتے ہوئے کہہ گیا۔

’’دیکھ لو میرے بچے! جان ماری کا حُسن اور محنت کی عظمت خواب کی تعبیر جب ہی مل سکتی ہے۔‘‘ اباجی نے شیری سے کہا۔

’’پتا نہیں یہ رنگ ریز جاں نثار بڑا ہے کہ فن کار بڑا ہے جو حد میں رہنے اور مقصد میں یک سوئی کے ساتھ کھپ جانے کا سبق الگ ہی سلیقے سے سکھا گیا‘ جان ماری کی لذت کیا ہے بتاگیا۔‘‘

’’نہیں اباجی! استاد بڑا ہے وہ۔‘‘ شیری نے دور دیکھتے ہوئے کہا۔

صبرکے ساتھ محنت میں پسینہ بہایا ہے تو شکرکے لیے لخت جگر کا خون دان کرنے والا تھا۔ آج اس نے تاج محل کا سچا رنگ ریز دیکھا تھا اسکرین پہ نہیں حقیقت میں بالکل سامنے۔

حصہ