شیر شاہ سوری جس کا اصل نام فرید خان تھا، اس کے آبا و اجداد افغانستان سے ہندوستان آئے تھے۔ ’سوری‘ اس کا خاندانی نام تھا۔ شیر شاہ سوری کے والد پرگنا سہسرام (بہار) کے جاگیردار تھے۔ شیر شاہ سوری ہندوستان میں پیدا ہوا، جونپور کے ایک مدرسے سے تعلیم حاصل کی، جنگی صلاحیتیں اس کے خون میں شامل تھیں، لہٰذا مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوگیا۔ کچھ دنوں بعد اُس نے اس ملازمت کو خیرباد کہا اور اپنے والد کے پاس سہسرام چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ایک فوج کی ترتیب شروع کردی۔
ادھر ہندوستان کا بادشاہ ظہیر الدین بابر انتقال کرگیا اور اس کا بڑا بیٹا نصیر الدین ہمایوں تخت و تاج کا مالک ہوا۔ شیر شاہ سوری کا عزم تھا کہ وہ ہندوستان کا بادشاہ بنے۔ یہ اس کا خواب تھا جسے وہ شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتا تھا۔ بظاہر یہ ناممکن تھا مگر اس نے کوششیں جاری رکھیں۔ وہ ظہیر الدین بابر کی فوج میں کام کرنے والا ایک معمولی سپاہی تھا مگر اس کے حوصلے بلند تھے۔ بقول اقبال ’نگہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز‘۔ شیر شاہ سوری نے ہمّت نہیں ہاری، مسلسل اسی تگ و دو میں لگا رہا کہ اسے ہندوستان جیسی عظیم مملکت کا بادشاہ بننا ہے ۔
’عزم ِکامل ہو تو منزل کا پتا ملتا ہے‘ اور وہ وقت بھی آگیا جب اس نے ایک مضبوط فوج تیار کرلی اور ہمایوں کی فوج پر حملہ کردیا۔ ہمایوں کی فوج میں مغل سپاہی تھے اور شیر شاہ سوری کی فوج میں افغانی۔ دونوں ہی قومیں بہادری میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ جنگ میں شیر شاہ سوری کا پلڑا بھاری رہا، شیر شاہ سوری کی فتح ہوئی اور ہمایوں شکست سے دوچار ہوا۔ ہمایوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور وہ فرار ہوکر ایران چلا گیا۔ مغل سلطنت جو 1526ء میں بذریعہ ظہیر الدین بابر ہندوستان میں قائم ہوئی تھی اس کا خاتمہ بالخیر ہوگیا اور اب تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوگیا۔ ظہیر الدین بابر کے ہندوستان آنے سے قبل یہاں پر افغانیوں (ابراہیم لودھی) کی حکومت تھی، اب ہندوستان میں افغانیوں کی حکومت دوبارہ قائم ہوگئی۔
1540ء میں شیرشاہ سوری ہندوستان جیسی عظیم مملکت کا بادشاہ بنا۔ اس کی شجاعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جس سلطنت کی فوج میں وہ بطور سپاہی کام کرتا تھا ایک دن اسی سلطنت کا شاہی تاج اس کے سر کی زینت بنا۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے۔ شیرشاہ نے ہندوستان میں پانچ سال(1540ء تا 1545ء) حکومت کی، مگر اس پانچ سالہ دور میں اُس نے جو کارنامے سرانجام دیے وہ تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ وہ مسلسل عوام کی فلاح و بہبود میں سرگرداں رہا، اس کا سب سے عظیم کارنامہ وہ سڑک ہے جس کی شروعات کلکتہ سے ہوتی ہے اور پشاور پر ختم ہوتی ہے۔ اس نے صرف سڑک ہی نہیں تعمیر کروائی بلکہ درخت بھی لگوائے، ہر تھوڑے فاصلے پر مسجدیں، سرائے بنوائیں اور کنویں بھی کھدوائے۔ سرائے کا انتظام سرکاری اہلکاروں کے ذمے تھا تاکہ مسافروں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
میری آج کی کہانی اسی بہادر بادشاہ شیر شاہ سوری کے دور کی ہے اور اس کا تعلق بھی اسی سڑک سے ہے جو اس عظیم بادشاہ نے تعمیر کروائی تھی۔
شیرشاہ سوری کی فوج کا ایک سپاہی گھوڑے پر سوار شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ سڑک پر سفر کررہا تھا۔ شام ہونے کو آئی، رات گزارنے کے لیے اس نے ایک سرائے میں قیام کیا۔ سرائے میں ایک بوڑھی اور بہت ہی غریب عورت رہا کرتی تھی جس کا آگے پیچھے کوئی نہیں تھا، وہ کسی مسافر کے انتظار میں ہوتی تھی، جب کوئی مسافر آتا تو اس سے کچھ رقم لے کر بازار سے آٹا، سبزی اور تیل وغیرہ لاکر کھانا پکاتی اور مسافر کو کھلاتی، اگر کچھ بچ جاتا تو اس غریب بوڑھی عورت کے پیٹ میں جاتا۔
حسب ِمعمول بوڑھی عورت نے سپاہی سے رقم مانگی تاکہ وہ کھانا پکا کر سپاہی کو کھلائے۔ سپاہی نے جواب دیا کہ امّاں میں کئی روز سے سفر میں ہوں اور اب میرے پاس پیسے ختم ہوچکے ہیں، لہٰذا میں بھوکا ہی رات گزار لوں گا۔ بوڑھی عورت غریب ضرور تھی مگر اس کا دل امیر تھا، اس کے پاس ایک اشرفی تھی، وہ بازار سے کھانے کا سامان لے آئی اور کھانا پکا کر سپاہی کو کھلا دیا۔ سپاہی نے اس بوڑھی عورت کو خوب دعائیں دیں اور کہا کہ ’’اماں میں جب کبھی اِدھر سے دوبارہ گزروں گا تمہاری اشرفی تمہیں ضرور واپس کردوں گا۔‘‘
بوڑھی عورت نے کہا ’’نہیں بیٹا! اس کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسافر کو کھانا کھلاؤ، لہٰذا یہ کھانا میری طرف سے ہے، تم خوش رہو، اللہ تمہارے سفر میں آسانی پیدا کرے۔‘‘
اگلے دن صبح سپاہی سرائے سے روانہ ہوگیا۔ ایک عرصہ بیت گیا، چند سال بعد سپاہی کا اُدھر سے گزر ہوا اور اس نے اسی سرائے میں قیام کیا۔ سپاہی نے وہاں کے لوگوں سے اس بوڑھی عورت کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ بہت عرصہ قبل بوڑھی عورت کا انتقال ہوچکا ہے۔ سپاہی کو سخت صدمہ ہوا، اس نے سرائے کے لوگوں سے اس کی قبر کے بارے میں دریافت کیا تاکہ قبر پر جاکر فاتحہ پڑھ سکے۔ ایک شخص نے جسے بوڑھی عورت کی قبر پتا تھی، سپاہی کو وہاں تک پہنچا دیا۔ سپاہی نے اپنا گھوڑا وہیں کھڑا کردیا اور قبر کے برابر میں بیٹھ کر آنکھیں بند کیے خلوصِ دل سے فاتحہ خوانی میں مصروف ہوگیا۔
جب اس کی آنکھیں کھلیں تو اس نے کچھ عجیب ہی نقشہ دیکھا، قبر کے اندر ایک بہت بڑا گڑھا ہوچکا تھا، ایسا گڑھا کہ ایک شخص آرام سے اندر جا سکتا تھا۔ سپاہی نے گڑھے میں جھانک کر دیکھا تو اس کے اندر ایک راستہ نظر آیا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اس سے کہہ رہا ہو کہ اس گڑھے کے اندر چلے آؤ۔ سپاہی مضبوط دل کا مالک تھا، قبر میں اتر گیا۔ اسے ایک راستہ نظر آیا، وہ اسی راستے پر غیر ارادی طور پرچل پڑا۔ چند لمحوں بعد وہ ایک بہت ہی خوب صورت اور شان دار باغ میں تھا۔ ایسا باغ اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کیا درخت، کیا پھول، کیا پتے، کیا نہریں وہاں کی ہر شے نرالی تھی۔ اب اس کی نظر سامنے ایک تخت پر پڑی جس پر ایک جوان اور بہت ہی حسین عورت بہترین لباس میں ملبوس گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے براجمان تھی، اس کے اردگرد لڑکیاں اس کی خدمت کے لیے موجود تھیں۔ ایک کشش تھی جوسپاہی کو کھینچے لیے جارہی تھی۔
سپاہی اس خوب صورت عورت کی جانب بڑھا، قریب پہنچا تو عورت نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’تم وہی سپاہی ہو نا جو ایک بار میری سرائے میں ٹھیرے تھے اور میں نے تمہیں کھانا پکا کر کھلایا تھا؟‘‘
سپاہی پہلے تو ہکا بکا رہ گیا، پھر اس نے اپنے حواس مجتمع کیے اور کہا ’’ہاں ہاں میں وہی سپاہی ہوں، مگر جس نے مجھے کھانا کھلایا تھا وہ تو ایک بوڑھی عورت تھی اور میں آج اسی بوڑھی عورت کی تلاش میں اسے کھانے کے پیسے واپس دینے کے لیے آیا ہوں۔‘‘
عورت نے جواب دیا ’’میں وہی بوڑھی عورت ہوں۔ تم میری سرائے میں آئے تھے، تم ایک مسافر تھے، میں نے تمہیں کھانا کھلایا تھا، بس اللہ کو میری یہ نیکی پسند آگئی اور اس رب ِکریم نے اسی نیکی کے بدلے مجھے یہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ میری قبر کو جنت کا ایک باغ بنادیا، اور جیسا کہ حدیث ِمبارکہ ہے کوئی بھی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی، اسے جوان کرکے جنت میں لے جایا جائے گا، اسی لیے تم مجھے جوان دیکھ رہے ہو۔ اب تم یہاں سے فوراً چلے جاؤ اس لیے کہ یہاں کا ایک لمحہ باہر دنیا کے بہت زیادہ وقت کے برابر ہے۔‘‘
سپاہی محو ِحیرت تھا، بہرحال اس کے قدم نہ چاہتے ہوئے بھی پیچھے کی جانب چل پڑے اور چند لمحوں کے بعد وہ قبر سے باہر تھا۔
قبر سے باہر آنے کے بعد باہر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا، سب سے پہلی بات، سپاہی کا گھوڑا غائب تھا۔ قبرستان جیسا وہ پہلے دیکھ کر گیا تھا، اب ویسا نہیں تھا۔ وہ کسی طرح آگے بڑھا اور آبادی میں پہنچ گیا۔ بھوک زوروں پر لگی تھی، سامنے کھانے کا ایک ہوٹل نظر آیا، سپاہی نے کھانا کھانے کے بعد جیب سے ایک اشرفی نکال کر ہوٹل والے کو دی۔ ہوٹل والے نے اشرفی گھما پھرا کر دیکھی اور کہنے لگا ’’بھائی! اتنا پرانا سکہ کیوں دے رہے ہو؟‘‘
سپاہی نے کہا ’’سکہ پرانا تو نہیں ہے۔‘‘
ہوٹل والے نے کہا ’’یہ تو بادشاہ شیر شاہ سوری کے دور کا سکہ ہے، اسے مرے ہوئے تو سو سال سے زائد ہوچکے ہیں۔‘‘
سپاہی کو اچانک خیال آیا کہ قبر کے اندر اس سے کہا گیا تھا کہ یہاں کے چند لمحے باہر دنیاوی بہت زیادہ وقت کے برابر ہیں، اور تھوڑی دیر کے بعد ہوٹل میں بیٹھے بیٹھے سپاہی کی روح پرواز کر گئی۔