بزمِ یارانِ سخن کراچی کے زیر اہتمام کل سندھ مشاعرہ

51

بزمِ یارانِ سخن کراچی کا شمار کراچی کے زیر اہتمام وی ٹرسٹ بلڈنگ گلشن اقبال میں کُل سندھ بہاریہ مشاعرہ آرگنائز کیا گیا جس کی مجلس صدارت میں رفیع الدین راز اور رونق حیات شامل تھے۔ اختر سعیدی‘ پروفیسر نوید سروش (میرپور خاص) اور افتخار ملک ایڈووکیٹ مہمانان خصوصی تھے۔ سید نعمان حسن ایڈووکیٹ اس پروگرام میں مہمان اعزازی تھے۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ صاحبزادہ عتیق الرحمن اور انیلا نعمان نے نعت رسولؐ پیش کی۔ بزمِ یارعان سخن کراچی کے صدر سلمان صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ یہ تنظیم خالصتاً ادبی تنظیم ہے‘ اس تنظیم کا قیام 1974ء میںآیا۔ اس کے کریڈٹ پر بے شمار شان دار پروگرام ہیں لیکن ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم مشاعرے کے لیے جو ٹائم فکس کرتے ہیں اسی وقت پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم نے کُل سندھ مشاعرہ ترتیب دیا ہے اس پروگرام کے لیے جن خواتین و حضرات نے ہمارے ساتھ مالی تعاون کیا ہے ہم ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ صاحبِ ثروت افراد کے تعاون کے بغیر ادبی پروگرام منعقد کرنا بہت دشوار کام ہے۔ مشاعروں سے ہماری مشرقی روایات جڑی ہوئی ہیں‘ یہ ادارہ ہر زمانے میں ذہنی اطمینان و سکون پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

عابد شیروانی ایڈووکیٹ اور کشور عروج نے نظامت کے فرائض انجام دیے ‘ ان دونوں نے نظامت میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور بڑے باکمال طریقے سے مشاعرہ چلایا۔ ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ چونکہ بزمِ یارانِ سخن کے سرپرستوں میں شامل ہیں لہٰذا انہوں نے کُل سندھ مشاعرے کے سلسلے میں کہا کہ سندھ میں حیدرآباد ایسا شہر ہے جہاں ادبی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں‘ وہاں بھی کُل سندھ مشاعرے ہو رہے ہیں۔ مشاعرے ہماری روایات میں شامل ہیں‘ کسی دور میں یہ ادارہ کمزور پڑ جاتا ہے اور کبھی کبھی ادبی فضا بہت گرم ہوتی ہے جیسا کہ ان دنوں صورت حال ہے کہ خوب ادبی پروگرام ہو رہے ہیں۔

رفیع الدین راز نے کہا کہ وہ امریکہ میں مقیم ہیں لیکن پاکستان ہمارا وطن ہے‘ یہاں آکر بہت سکون ملتا ہے‘ دبستان کراچی کو اردو ادب کے بہت سے اہم شعرا نے معتبر بنایا ہے‘ یہاں پر شاعری بھی اچھی ہو رہی ہے اور ادبی پروگرام بھی قابل قدر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری سے معاشرتی عروج و زوال وابستہ ہے اگر مثبت شاعری ہوگی تو معاشرہ بہتر ہوگا اگر منفی رجحانات کو شاعری کا حصہ بنایا جائے گا تو معاشرے پر خراب اثرات مرتب ہوں گے۔

رونق حیات نے کہا کہ انہوں نے قلم کاروں کے لیے نیاز مندانِ کراچی کے پلیٹ فارم کے تحت عالمی اردو کانفرنس منعقد کی تھی جس میں قلم کاروں کے تمام مسائل زیر بحث آئے تھے اور ہم نے قلم کاروں کے مسائل حل کرنے کے لیے حکومتی اداروں سے رابطے کیے تاکہ ہمارے قلم کار جدید سہولیات سے آراستہ ہو جائیں۔ قلم کاروں کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ غریب شعرا کی کتابیں حکومتی ادارے شائع کریں‘ قلم کاروںکو مالی وسائل مہیا کیے جائیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ آج کا مشاعرہ بہت کامیاب ہے جس کا سارا کریڈٹ بزم یاران سخن کی انتظامیہ کو جاتا ہے میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ نعمان حسن ایڈووکیٹ نے کہا کہ مشاعرے تو ہر زمانے کی ضرورت ہے‘ شاعری سے ذہنی سکون ملتا ہے‘ وہ شاعر بہت کامیاب ہرتا ہے جو اپنے اشعار میں زمینی حقائق بیان کرتا ہے۔

افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ کراچی زندہ دل لوگوں کا شہر ہے‘ یہاں کے لوگ بہت ملنسار ہیں‘ یہاں پر جو شاعری ہو رہی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اس شہر میںشعرائے کرام کی تعداد بھی بہت زیاد ہے اور ادبی تنظیمیں بھی بہت ہیں۔ بلاشبہ بزمِ یارانِ سخن ایک معتبر ادارہ ہے کہ اس نے آج بھی ایک اچھا پروگرام ترتیب دیا ہے۔

پروفیسر نوید سروش نے کہا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ میرپور خاص سندھ سے کراچی آئے ہیں اس سلسلے میں وہ بزمِ یارانِ سخن کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں اس مشاعرے میں شریک کیا۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو میرپور خاص میں بھی شاعری ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھی‘ اردو مشاعرے ہمارے اندرون سندھ ہوتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔ میرپور خاص میں ہماری ادبی تنظیم تواتر کے ساتھ ادبی پروگرام آرگنائز کر رہی ہے۔

بزمِ یارانِ سخن کراچی کے نائب صدر سرور چوہان نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اختر سعیدی کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ جن کے تعاون سے ہمیں وی ٹرسٹ بلڈنگ میسر آئی اور ہم مشاعرہ کر رہے ہیں۔

مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ رونق حیات‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ اختر سعیدی‘ پروفیسر نوید سروش‘ سلمان صدیقی‘ حجاب عباسی‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ حکیم علی نصیر‘ حامد علی سید‘ مقبول زیدی‘ شاعر علی شاعر‘ اختر ہاشمی‘ شوکت علی چیمہ ایڈووکیٹ‘ ڈاکٹر رانا خالد‘ بشیر نازش‘ احمد سعید خان‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ تنویر سخن‘ پروفیسر شائستہ سحر‘ یاسمین یاس‘ افسر علی افسر‘ لاریب رحمان‘ فخراللہ شاد‘ ذیشان عثمانی‘ یاسر سعید صدیقی‘ کامران صدیقی‘ اقبال ہمدانی‘ کشور عروج‘ سرور چوہان‘ حنا سجاول ایڈووکیٹ‘ ہما ساریہ‘ شاہ زین فراز‘ منشا خان‘ انیلہ نعمان‘ نورین فیاض‘ افتخار خان زادہ اور دیگر شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ