اردو اور ہم

62

ہر ملک کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے جس کے ذریعے اس ملک کے باشندے آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔ زبان ملک کی شناخت ہوتی ہے اور وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

جب پاکستان قائم ہوا تب ضرورت اس بات کی تھی کہ پورے ملک کی ایک قومی زبان ہو۔ یوں تو متحدہ ہندوستان میں اردو بھی بولی اور سمجھی جاتی تھی مگر اس کو ہندی ہی کہا جاتا تھا۔ ’’اردو‘‘ ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی’’لشکر‘‘ کے ہیں۔ اردو میں ہندی، ترکی، فارسی، عربی اور سنسکرت کے الفاظ شامل ہیں۔ جب کہ ہندی ایک الگ زبان ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

اردو اور ہندی میں فرق ہے تو اتنا
ہم خواب دیکھتے ہیں اور وہ سپنا

قیامِ پاکستان کے وقت سندھ میں سندھی، پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی، بلوچستان میں بلوچی، بنگال میں بنگالی اور سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) میں پشتو بولی جاتی تھی لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر علاقے میں اردو بھی بولی اور سمجھی جاتی تھی، اسی لیے قائداعظم محمد علی جناح نے اردو کو قومی زبان قرار دیا۔ لیکن افسوس کہ آج تک اردو کو عملی طور پر سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا، جبکہ انگریزوں نے ہمیں ایسا نظام تعلیم دیا جس سے ہمارے اندر رہنما بننے کی لگن ختم ہوگئی اور ہم ذہنی طور پر محکوم ہی رہ گئے۔

کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کی مادری زبان چھین لی جائے تو اس کی شناخت ختم ہوجاتی ہے، اور ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔

غفلت تو ذرا قوم کی دیکھو کاظم
وہ سوتی ہے، بجھتا ہے چراغِ اردو

1973ء کے آئین میں اردو کو دفتری زبان بنانے کا اعلان کیا گیا لیکن عمل نہیں ہوا۔ پھر 8 ستمبر 2015ء کو سپریم کورٹ نے سرکاری دفاتر میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے احکامات جاری کیے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں کوئی سی بھی زبان بولی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ خیال درست نہیں، کیوں کہ جب تک ہم ایک زبان کو اپنی شناخت نہیں بنائیں گے ترقی نہیں کرسکتے۔ انگریزی بولنے والے افراد کو پڑھا لکھا سمجھنا اور اردو بولنے والوں کو جاہل اور گنوار سمجھنا انتہائی احمقانہ فعل ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو سمجھ دار، پڑھے لکھے، باشعور لوگ ہیں وہ انگریزی کے بجائے اردو میں بات کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں چاہے وہ سیاست دان ہوں، کھلاڑی ہوں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ ’’اردو میں بات کرنے سے ہمارے ملک کا امیج خراب ہوتا ہے‘‘۔ حالانکہ یہ انتہائی درجے کی بے وقوفی ہے۔ جو لوگ اردو میں بات کرتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ اچھی انگریزی بول سکتے ہیں‘ دراصل اپنے ملک کا وقار بلند کرتے ہیں، اور اُن کو اس میں کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔

اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چلن ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی

اردو تو ایسی پیاری زبان ہے جس کے متعلق بابائے اردو مولوی عبدالحق نے فرمایا کہ ’’جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے، پتّے نکلتے ہیں، شاخیں پھیلتی ہیں، پھول کھلتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا تناور درخت بن جاتا ہے، اسی اصول کے مطابق اردو زبان پھیلتی اور بڑھتی ہے۔‘‘

اب سوال یہ ہے کہ اردو کا نفاذ کیسے کیا جائے؟ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسکولوں میں اتنی ہی سختی سے اردو زبان میں تعلیم دینے پر زور دیا جائے جتنا انگریزی پر دیا جاتا ہے ۔ انگریزی کو صرف ایک مضمون کی حیثیت دی جائے اور باقی تمام مضامین اردو میں پڑھائے جائیں، کیوں کہ جب آپ انگریزی کے الفاظ کے معنی بھی انگریزی میں ہی بتاتے ہیں تو کوئی فائدہ نہیں، اس سے صرف رٹا اور نقل کو فروغ مل رہا ہے۔ جب اردو میں آپ تاریخِ پاکستان، سائنس، اسلامیات وغیرہ پڑھائیں گے تو آسانی کے ساتھ سمجھ میں آنے کی وجہ سے ذہن کے دریچے کھلیں گے اور ایک سے دوسرا سوال دماغ میں آئے گا، تجسس بڑھے گا اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوگی۔ لیکن اس کے لیے اسکول کے پرنسپل اور اساتذہ ہی کو نہیں بلکہ اُن والدین کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے جو صرف انگریزی کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور اسے ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

شاعر معروف رائے بریلوی کہتے ہیں:
یقین مانو کہ جو اردو بول سکتا ہے
وہ پتھروں کا جگر بھی ٹٹول سکتا ہے

اس لیے اردو بولنے میں کوئی شرم، کوئی جھجھک اوراحساسِ کمتری محسوس نہیں کرنا چاہیے۔

حصہ