درد مشترک

98

’’سلمیٰ! مجھے کسی چیز پر گرد مٹی کا نام و نشان نہیں ملنا چاہیے۔‘‘ چاندنی بیگم نے اپنی پرانی ملازمہ کو حکم دیا۔

آج تو گھر میں چہل پہل ہی الگ تھی… صبح سے دونوں ماسیاں در و دیوار کی صفائی میں مصروف تھیں۔ گل دانوں میں تازہ پھول سجائے گئے تھے، مالی سے لان کی صفائی، گھاس اور پودوں کی قرینے سے کٹائی کے بعد خوب اچھی طرح پانی سے دھلائی کی گئی۔ باورچی خانے میں صبا اور اس کی دو دیورانیاں انجم اور اریبہ انواع و اقسام کے کھانے، میٹھے اور سلاد وغیرہ بنانے میں مصروف تھیں۔

’’اریبہ! ذرا دھیان سے، کڑھائی میں نمک کا خیال رکھنا، پچھلی دفعہ کی طرح زیادہ ہوا تو خوامخواہ باتیں سننی پڑیں گی۔‘‘ صبا نے اپنی چھوٹی دیورانی کو سمجھایا۔

آج اصل میں ان کی اکلوتی نند فرح کی بات پکی ہونے جارہی تھی۔ فرح تینوں بھائیوں سے بڑی تھی، پڑھی لکھی اور قبول صورت تھی مگر خوب سے خوب تر کی جستجو میں اتنے برس بیت گئے کہ تینوں چھوٹے بھائیوں کی شادی ہوگئی اور دو بھائی صاحب ِاولاد بھی ہوگئے۔

اکلوتی ہونے کی وجہ سے وہ ماں باپ کی انتہائی لاڈلی تھی، ہر جائز ناجائز بات ضد اور غصے سے نہایت اطمینان سے منوا لیتی تھی۔ بھابھیاں تو اکثر و بیشتر اس کے عتاب کا نشانہ بنتی تھیں۔

صبا کو یاد تھا کہ وہ جب بھی اپنے میاں کے ساتھ میکے یا کہیں گھومنے جاتی تو فرح کا موڈ خراب ہوجاتا… بازار سے وہ اپنے لیے جب بھی کچھ لاتی، فرح ضرور اس میں سے کچھ نہ کچھ ہتھیا لیتی۔ گھر کے کام میں ساس تو سوائے احکامات دینے کے اور کچھ نہ کرتی تھیں، فرح کو بھی ہاتھ بٹانے کی توفیق نہ ہوتی تھی۔ وہ کتنا ہی اچھا کام کیوں نہ کرلے، فرح ساس سے بڑھ کر نکتہ چینی کرنے بیٹھ جاتی۔

شروع کے کچھ سال تو صبا نے صبر و برداشت سے کام لیا، مگر آخر کب تک…! اس کی بھی بس ہوگئی اور اس نے بھی فرح کی باتوں کے جواب دینے شروع کردیے۔

فرح کے لیے یہ نوک جھونک اچھی وقت گزاری تھی، کیوں کہ صبا کی ہر تحریک پر فرح وہ واویلا کرتی کہ الامان الحفیظ۔ ساس بھی اپنی بیٹی کی طرف داری میں انتہا کردیتیں۔ صبا پریشان ہوکر میاں سے مدد مانگتی، مگر وہ بھی ماں باپ کے فرح کی پشت پر ہونے کی وجہ سے اسے خاموش ہی رہنے کا مشورہ دیتے۔

چند سال بعد اس کے دو دیوروں کی ایک ساتھ شادی ہوئی اور اسے گویا دو چھوٹی بہنیں مل گئیں۔ انجم اور اریبہ دونوں بہت اچھی عادت اور مزاج کی تھیں، اس لیے تینوں کی خوب بنتی تھی۔ اب جب بھی گھر میں کوئی اونچ نیچ ہوتی، وہ تینوں آپس میں ہنس بول کر دل ہلکا کرلیتی تھیں۔

مکافاتِ عمل دیکھیں کہ فرح کی بھی اسی جیسی اکلوتی نند سسرال میں اس کی منتظر تھی۔ شومیِ قسمت فرح کی شادی کے اگلے ہی ہفتے فرح کی امی کا اچانک انتقال ہوگیا۔ فرح پر تو غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، نئی سسرال میں ابھی پوری طرح سے قدم بھی نہ جمے تھے کہ نند کے تیور آشکارا ہونے شروع ہوگئے۔ اب اسے اپنی بھابھیوں، خاص طور پر صبا کے ساتھ اپنی زیادتیاں یاد آئیں۔

صبا بھی جب شادی ہوکر آئی تھی تو اس کی والدہ حیات نہ تھیں اور اکلوتی ہونے کے سبب نہ کوئی بہن بھائی تھا کہ جس کے پاس جا کر دل ہلکا کر لے۔
’’فرح! کیا بات ہے، تم اتنی اداس اور خاموش کیوں ہو؟‘‘ آخر ایک دن جب فرح میکہ آئی ہوئی تھی تو صبا نے اسے دکھی دیکھ کر سوال کیا۔
فرح کیا جواب دیتی، اسے دل سے احساس ہورہا تھا کہ میرے ساتھ جو معاملات پیش آرہے ہیں وہ یقینا میری ماضی کی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ اس نے صبا سے بڑی دل گرفتگی کے ساتھ معافی مانگی اور اپنی تکلیف اُس کے سامنے رکھ دی۔
صبا منتقم مزاج ہرگز نہ تھی، اسے اندازہ تھا کہ پریشانی میں انسان کو کسی ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب فرح کی امی تو حیات نہ تھیں، اس لیے اُس نے دل بڑا کرکے فرح کو گلے لگا لیا اور کچھ مثبت مشورے اس کے گوش گزار کیے، جو اس کی زندگی میں بہتری لانے کا موجب بن سکتے تھے۔

حصہ