’’کیا بات ہے عامر! کیوں اتنے غصے میں ہو، خیریت ہے؟‘‘
’’میرا دماغ گھوم رہا ہے، دل چاہ رہا ہے یا تو کسی کو مار دوں یا خود مر جاؤں۔‘‘عامر نے جھنجھلا کر جواب دیا۔
’’ارے … ارے کیا ہوگیا؟ ایسی باتیں کیوں کررہے ہو؟‘‘
’’پتا ہے آج کوئی دسواں انٹرویو دے کر آرہا ہوں اور کہیں سے ابھی تک کوئی کال نہیں آئی، جس کو دیکھو ایک ہی بات ’’ہمیں تجربہ کار بندہ چاہیے‘‘۔ ارے بھئی! کام دو گے تو تجربہ آئے گا نا۔‘‘
’’اچھا چلو چھوڑو، یہ لو، سگریٹ پیو اور بھول جاؤ۔‘‘
’’ہٹاؤ اسے! یہ کوئی حل نہیں ہے جو تم مجھے بچوں کی طرح بہلا رہے ہو، میرے مستقبل کا، میرے گھر والوں کا، ماں باپ، بہن بھائیوں کی امیدوں کا سوال ہے… اور تم مجھے مزید دلدل میں گھسیٹ رہے ہو!‘‘
وہاج کو جلی کٹی سناتا ہوا عامر وہاں سے اٹھ کر پیدل ہی گھر کی طرف چل پڑا، حالانکہ اچھا خاصا فاصلہ تھا اس کے گھر کا، لیکن اِس وقت اُس کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ چلتے چلتے اچانک زور کی ٹھوکر لگی اور وہ گرتے گرتے بچا کہ سامنے سے آتے ہوئے شخص نے اس کو سنبھال لیا۔
’’ارے… ارے میاں سنبھل کے۔ جوان جہان، ہٹے کٹے ہو، کیوں اتنی بے دھیانی میں چل رہے ہو ؟‘‘
’’سوری انکل!‘‘ وہ تکلیف سے کراہ کر رہ گیا اور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنا پاؤں دبانے لگا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے، پَر اتنے غصے میں کیوں جارہے ہو؟ دھیان کہیں اور ہے تمہارا… کچھ پریشان بھی ہو، خیریت ہے؟‘‘
مان نہ مان میں تیرا مہمان۔ ’’جی… جی انکل بالکل ٹھیک، الحمدللہ… آپ کا بہت بہت شکریہ۔‘‘ عامر نے کچھ الجھتے ہوئے جواب دیا۔
’’ارے بھائی! تمہارے پاؤں سے تو خون نکل رہا ہے، چلو تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں تاکہ مرہم پٹی ہوجائے۔‘‘ان صاحب نے فکرمندی سے کہا۔
’’چھوڑیں انکل! مرہم پٹی کی کوئی خاص ضرورت نہیں، ایسے ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ ویسے ہی اتنے زخم ہیں۔‘‘ عامر بڑبڑایا، جو یقینا انہوں نے سن لیا۔
’’اچھا…! تو کسی لڑکی کا چکر ہے جو زخم دے گئی۔‘‘
’’یہ لو … اور سنو، اب یہ بھی اپنی ہی کہیں گے، لڑکی لے کے آگئے، نوکری ہے نہیں اور لڑکی فوراً دماغ میں آگئی۔‘‘ عامر نے غصے سے سوچا اور معذرت کرتے ہوئے اٹھنے لگا، مگر درد سے پھر بیٹھ گیا۔
’’ارے میاں! کیوں تکلف کرتے ہو، چلو میرے ساتھ، پاس ہی میرا گھر ہے، وہاں سے ہی مرہم پٹی ہوجائے گی۔‘‘
’’چلو اچھا ہے، فری میں کام ہوجائے گا… عامر میاں اٹھ جائو۔‘‘ اس نے دل میں سوچتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی، بالآخر کامیاب ہو گیا اور معمولی سی پٹی کے بعد ان دونوں کی آپس میں بات چیت شروع ہوگئی۔
’’ہاں بیٹا! نوکریوں کا تو کال ہی پڑا ہوا ہے، جس کو دیکھو ملک سے باہر جانے کی بات کرتا ہے۔ ہم نے تو وہ وقت بھی دیکھا کہ اس ملک کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے اور ہر مشکل وقت میں اپنوں کا ساتھ دیا۔ اب سب اس سے دور بھاگ رہے ہیں… میری مانو تو تم بھی باہر نکلنے کی کوشش کرو۔‘‘
’’نہیں انکل! میرے پیچھے میرے گھر میں کوئی نہیں… ماں باپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا، میں ان کا واحد سہارا ہوں، میں چلا جاؤں گا تو پھر ان کے پاس کون ہوگا؟ اللہ مالک ہے، کوئی نہ کوئی بندوبست ہوجائے گا۔ بھوکے تو نہیں مر رہے۔ محنت کروں گا، کوئی بھی کام شروع کردوں گا، ہمت کرنی ہوگی، آہستہ آہستہ ہی سہی… انسان کی اگر نیک نیت ہو، ارادے مضبوط ہوں اور صحیح سمت مل جائے تو یہی کامیابی ہے۔ بہت زیادہ کمانے کی ہوس نہیں ہے۔
آپ نے ملک ہمارے لیے حاصل کیا تھا… خون پسینہ ایک کرکے، لاکھوں قربانیاں دے کر قائداعظم، علامہ اقبال، سرسید، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت اور نہ جانے کتنے مسلمانوں نے اپنے اپنے محاذ پر جان کی بازی لگا کر یہ ملک حاصل کیا تھا، اس لیے نہیں کہ اس کو لوٹ کھسوٹ کر کھا جائیں اور بچانے والا کوئی نہ ہو۔ اِن شاء اللہ ہم نوجوان کسی سے کم نہیں، آپ ہی کی اولادیں ہیں، کوئی ہم سے ہمارا حق نہیں چھین سکتا، ہم بھی جان کی بازی لگا دیں گے اور اپنے ہی ملک میں رہ کر، یہاں ہی بسیرا کرکے جدوجہد کریں گے، وقت کے فرعونوں سے ہم ہی اس ملک کو بچائیں گے اور وہ عزت و وقار اسے لے کر دیں گے جو اس کا حق ہے۔‘‘ عامر جذباتی ہوگیا۔
’’ہمارا ملک، یہاں کے لوگ، یہاں کی وادیاں، پہاڑ، دریا، سمندر، جنگلات، صحرا، کانیں، معدنیات، قیمتی پتھر، یہاں کا موسم، یہاں کے پھل، پھول، جانور، سبزیاں اور نہ جانے کتنے بیش بہا خزانے اللہ نے ہمیں یونہی نہیں عطا فرمائے۔ ہمارا فرض ہے کہ ان نعمتوں کی قدر کریں اور مٹھی بھر لوگ جو اس پرغاصب ہیں اُن کو سبق سکھائیں۔ کوئی راہِ فرار اختیار نہیں کریں گے، دن رات محنت کرکے اس کو آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں تک لے جائیں گے۔ اِن شاء اللہ۔‘‘
’’شاباش بیٹے! تم نے تو کمال کردیا، اِن شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ اقبال کی روح آج خوش ہوگئی ہوگی۔ تم جیسے نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں، میری دعا ہے کہ تمام نوجوانوں کی سوچ، ان کا عزم و حوصلہ تمہاری طرح ہو، اور یہ ارضِ وطن ہمیشہ شاد و آباد رہے۔
اقبال نے تم جیسے نوجوانوں کے لیے کہا ہے:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں‘‘