اقبالکا فلسفہ زماں و مکاں ،مذاکرہ

46

وی ٹرسٹ گلشن اقبال کراچی میں عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے بعنوان ’’اقبال کا فلسفۂ زماں و مکاں‘‘ مذاکرہ اور اقبال کے طرحی مصرع ’’قریب تر ہے نمو جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ‘‘ پر مشاعرہ آرگنائز کیا۔ اس پروگرام کے دو حصے تے نثری دور کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر صمدانی نے کی۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور طارق جمیل مہمانان خصوصی تھے جب کہ شعری نشست کی صدارت رفیع الدین راز نے کی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین عادل اور ڈاکٹر رانا خالد محمود مہمانان خصوصی تھے۔ مہوش فراز نے اس موقع پر نعت رسولؐ پیش کی۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت ڈاکٹر رانا خالد نے حاصل کی۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ علامہ اقبال کے پرستاروں میں شامل ہیں۔ آج ہماری یہ 7 ویں نشست ہے‘ ہم ہر مہینے علامہ اقبال پر مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغربی طاقت وروں نے زمین پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لیے کم و بیش دس کروڑ انسانوں کو قتل کیا جبکہ مغرب والے مشرق پر الزام لگاتے ہیں کہ دینِ اسلام شمشیر کے زور سے پھیلا ہے۔ آج بھی مغربی طاقتیں غزہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھا رہی ہیں اور عالم اسلام خاموش تماشائی ہے۔ ڈاکٹر رانا خالد نے کہا کہ زمان و مکان کی تشریح کے لیے مختلف مفکروں نے اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے لیکن علامہ اقبال نے دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ زمین مسلسل گردش میں ہے‘ وقت اور حالات بدلتے رہتے ہیں۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ مسلمانوں نے اس زمین پر اپنا اقتدار قائم کیا تھا لیکن آج مسلمانوں کی حالت بہت کمزور ہے‘ مغربی ممالک نے دنیا پر قبضہ کیا ہوا ہے اس سلسلے میں علامہ اقبال نے ہمیں زندہ رہنے کے گر بتائے ہیں‘ ان کی شاعری میں قوموں کے عروج و زوال ملتے ہیں‘ ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو ہمارا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین عادل نے کہا کہ علامہ اقبال شاعرِ مشرق تے‘ ان کی فکر نے مسلمانوں میں زندگی پیدا کی‘ انہوںنے مشرقی ادوار کا نوحہ بھی لکھا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں آزادی کی تحریک بیدار کی تھی‘ طارق جمیل نے کہا کہ انہوں نے بزم مکالمہ کا پروگرام شروع کیا ہے اس کی افادیت اپنی جگہ ہے لیکن عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے بھی بزمِ مکالمہ بنا لی ہے‘ ان کا ایک ہی موضوع ہے اور وہ ہے علامہ اقبال۔ ہم ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر رئیس صمدانی نے کہا کہ وہ حادثاتی طور پر اس پروگرام کے صدر منتخب ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے موضوعِ مذاکرہ پر کوئی تیاری نہیں کی ہے تاہم وہ علامہ اقبال کے نظریات اور فلسفے کے قائل ہیں۔ انہوں نے مشرقی اقدار کو زندہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ نثری دور کے بعد طرحی مشاعرہ ہوا جس میں رفیع الدین راز‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ ڈاکٹر رانا خالد‘ ڈاکٹر ذاکر حسین عادل‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ اختر شاہ ہاشمی‘ احمت اللہ جری‘ شاعر علی شاعر‘ الحاج نجمی‘ حمیدہ کشش‘ ہما اعظمی‘ کشور عروج‘ عروج واسطی‘ حنا‘ شہ زین فراز‘ سجاول ایڈووکیٹ‘ افتخار خانزادہ اور انیلہ لقمان نے طرحی کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ