موت کو کس سے رستگاری ہے

89

انسان کی موت کا نہ تو وقت معیّن ہے اور نہ ہی جگہ کا تقرّر ہے… حضرت عزرائیل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم صادر ہوا کہ فلاں بندے کی روح قبض کرنی ہے۔ بس حضرت عزرائیل حرکت میں آگئے اور سیکنڈوں میں محلِ وقوعہ پر پہنچ گئے۔ اب بندہ کسی بھی حال میں ہو، کسی بھی جگہ ہو حضرت عزرائیل کو اس سے کوئی غرض نہیں، انہیں تو حکم کی تعمیل کرنی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خاص طور پر امرا حضرات یا پھر سرکاری اعلیٰ عہدیداران کو اگر ہلکی سی کھانسی بھی آجاتی ہے تو فوراً بغرضِ علاج باہر کے کسی ملک خصوصاً انگلستان تشریف لے جاتے ہیں، اور اگر ان کے دن پورے ہوگئے ہیں بقول شاعر… ’موت کا ایک دن معیّن ہے‘ تو حضرت عزرائیل وہاں بھی پہنچ کر اپنا کام کر دکھاتے ہیں… موت برحق ہے۔ موت سے کس کو رستگاری ہے، ڈاکٹر ہو یا حکیم سبھوں کو موت کا مزہ چکھنا ہے… جس مضمون کے لیے میں نے بات کا آغاز کیا ہے اسی نسبت سے میرے ذہن میں اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر آیا ہے، تحریر کیے دیتا ہوں…

ہوئے اس قدر مہذّب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر

اکبر کے اس مشہور شعر کے مصرعۂ ثانی پرغور کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ آج کے اس مہذّب اور ترقّی یافتہ دور میں اسپتالوں کی موت کو ترجیح دی جاتی ہے، اور اب تو صورتِ حال ایسی نظر آرہی ہے کہ اس کا شمار کسی حد تک فیشن میں ہونے لگا ہے۔ احباب فخریہ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا ابّا آغاخان میں داخل ہیں اور آج کل VENTILATOR پر ہیں۔ اور دادا ابّا کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کا چالیسواں بڑی دھوم دھام سے کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں منانا بھی امرا کے یہاں فیشن بن چکا ہے۔ اکبر نے صحیح کہا تھا…

بتائیں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہو گا
پلائو کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا

اکبر کے دور میں پلاؤ اُس وقت کی بہترین ڈش ہوا کرتی تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدل جاتے ہیں، لوگوں کے مزاج بدل جاتے ہیں، لہٰذا دورِ حاضر میں پلاؤ کی جگہ بریانی نے لے لی ہے، اب احباب کی تواضع بریانی سے کی جاتی ہے ۔آئیے پچھلے دور پر ایک نظر ڈالتے ہیں جسے ہم غیر ترقّی یافتہ یا غیر مہذّب تو نہیں کہہ سکتے جہاں لوگ اپنے گھروں میں اپنے خاندان والوں کی موجودگی میں حضرتِ عزرائیل سے ملاقات کرنا پسند کرتے تھے اور بہت ساری جھنجھٹوں سے محفوظ رہتے تھے۔ دیہات کے سادہ لوح افراد آج بھی یہی طریقہ اپناتے ہیں اور مطمئن ہیں۔ اس طرح کی اموات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ روح پرواز ہونے سے قبل مرنے والے کچھ وصیّت اور کچھ نصیحت بھی فرما دیا کرتے تھے، سورۃ یٰسین بھی اطمینان سے سن لیا کرتے تھے، اپنے گناہ یاد آنے پر توبہ استغفار کا بھی موقع مل جایا کرتا تھا اور سکون سے موت کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ اس طرح کی DOMESTIC اموات میں اخراجات بھی کم اور جھمیلے بھی کم ہوا کرتے تھے۔ جو لوگ آج بھی اس طریقۂ منتقلی ِروح پر عمل پیرا ہیں وہ ہمارے ہم خیالی بھائی ہیں۔

اس کے برعکس اسپتالوں کی موت کے مسائل زیادہ پیچیدہ اور گمبھیر ہیں، سب سے پہلا اور بڑا مسئلہ وہاں کے’جائز‘ اخراجات ہیں جو مریض کے متعلقین کی کمر توڑ دیتے ہیں اورجس کا علم آپ سب کو بخوبی ہے۔ مریض کو لے جانے والے حضرات پہلے اپنی جیبیں چیک کرلیں یا پھر ATM کارڈ ساتھ لے جانا نہ بھولیں۔ اسپتال والے ماشاء اﷲ اتنے ذہین اور کاروباری واقع ہوئے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے کہ آنے والے مریض کی موت یقینی ہے مرنے والے شخص کے متعلقین سے ایک بڑی رقم کائونٹر پر بطور ایڈوانس جمع کروا لیتے ہیں تاکہ بعد از مرگ مرحوم کی میّت کے ہمراہ جاتے ہوئے ان کے سوگواران سے کسی رقم کا مطالبہ کرکے انہیں مزید تکلیف نہ پہنچائی جائے (کتنے نیک اور اچھے ہیں یہ اسپتال والے)۔ مرنے والے شخص کی آمد اسپتال والوں کے لیے باعثِ رحمت ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح کسی قصاب کی دکان پر گاہک کی آمد باعثِ رحمت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والا شخص جلد ہی راہیِ ملکِ عدم ہوجائے گا۔ مگر اس کے ساتھ آئے ہوئے احباب کی دلجوئی کی خاطر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ICU میں پہنچادیا جاتا ہے اور اس کے منہ پر آکسیجن کا ایک بڑا سا ماسک لگا کر اس کی رہی سہی بولتی بھی بند کردی جاتی ہے۔ اب نہ تو وہ صحیح سے کلمہ پڑھ سکتا ہے، نہ توبہ استغفارکرسکتا ہے اور نہ ہی کراہ سکتا ہے۔ ICU کا قانون شاید کسی ہٹلر کے چچا کا بنایا ہوا ہے، لہٰذا اس کے گیٹ پر ایک باوردی گارڈ جس کی آنکھوں میں مروّت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مریض کے چاہنے والے ICU کے باہر لائونج میں بیٹھ کر صرف وظائف پڑھ کر اور مریض کے حق میں دعائیں کرکے اپنے آپ کو تسلّی دے سکتے ہیں۔

ICU میں مصنوعی سانس لینے والی مشین VENTILATOR ایک اہم کردار ادا کرتی ہے یا یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کارِ مسیحائی سر انجام دیتی ہے۔ دراصل یہ مشین اسپتال والوں کے لیے نوٹ چھاپنے کا کام کرتی ہے، اس پر مریض کو رکھا جاتا ہے اور کافی کافی دیر بلکہ دنوں تک مریض کو صحیح سے مرنے نہیں دیا جاتا۔ اس طرح اسپتال والے مَلکُ الموت کے کاموں میں رخنہ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ان سب کارروائیوں سے مریض کو تو کیا خاک فائدہ ہوتا ہے، اسپتال کی انتظامیہ کے مزے آجاتے ہیں۔ یاد رہے شروع میں مریض کی آمد کے وقت کائونٹر پر رقم اسی لیے جمع کروائی جاتی ہے تاکہ اس کا ’معقول‘مصرف کیا جاسکے۔ اللہ بخشے اسپتال والوں کو۔

میرے ایک دوست کی والدہ کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں زیرِ علاج تھیں۔ اُن کے ہمراہ اُن کی بیٹی تھی۔ خاتون کی طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوئی تو بیٹی بڑے ڈاکٹر کے پاس گئی۔ کمرہ بند تھا، ڈاکٹر کسی نرس سے محوِ گفتگو تھے، مگر آواز باہر والے کو صاف سنائی دے رہی تھی کہ دونوں میں کیا گفتگو ہورہی تھی۔ ذرا آپ بھی ملاحظہ کیجیے:

نرس: سر! کمرہ نمبر 12 میں جو مریضہ داخل ہے اس کی نارمل ڈیلیوری ہوسکتی ہے مگر آپ نے سیزیرین آپریشن کے لیے کہا ہے۔ آخر کیوں؟

ڈاکٹر: نارمل ڈیلیوری اور سیزیرین آپریشن کے اخراجات میں زمین آسمان کا فرق ہے، اور دوسری بات ہمیں تم لوگوں کی تنخواہیں بھی تو نکالنی ہوتی ہیں۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو شخص بطور مریض اسپتال لایا جاتا ہے وہ اسٹریچر پر لیٹنے سے قبل ہی اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرچکا ہوتا ہے۔ مگر قربان جائیے اسپتال کے چابک دست عملے پر کہ منٹوں میں اسے ICU منتقل کرکے دوائوں اور انجکشن کی ایک طویل فہرست اس کے متعلقین کو پکڑا دی جاتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ جلدی کریں آپ کے مریض کی حالت نازک ہے اور ہاں کائونٹر پر اتنی رقم بطور ایڈوانس جمع کروا دیں کہ یہی ہمارے اسپتال کے خدمتِ خلق کرنے کا طریقۂ کار ہے۔ اور پھر وہ ساری خدمات سرانجام دی جاتی ہیں جن کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔ غرضیکہ اسپتال کی موت معاشی اعتبار سے بھی مہنگی پڑتی ہے اور اس میں جھمیلے بھی بہت ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ بندہ اپنے گھر میں اپنے چاہنے والوں کے درمیان دنیا کو اﷲ حافظ کہے اور موت جو برحق ہے اسے خوش آمدید۔
(یہ میری ناقص رائے ہے، عمل کرنا یا نہ کرنا بندے کی اپنی جیب اور شوق پر منحصر ہے

حصہ