صوابی میں بزکئی کے مقام پر ایک افغان مہاجر کیمپ ہے جہاں میں اکثر جاتا رہتا تھا۔ وہاں کے ایک بوڑھے افغان مہاجر موچی سے میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ میں جب کبھی اس سے ملنے کے لیے گیا اس نے میری خاطر تواضع کی۔ افغان مہاجر اسے مہاجر موچی کہتے تھے۔ ایک جمعہ کو اس کی چھٹی کے دن میں اس سے ملنے کے لیے گیا تو وہ اپنے خیمے میں بیٹھا ہوا کوئی دینی کتاب دیکھ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے کتاب بند کردی اور مجھ سے گفتگو کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں ہی اس نے چائے تیار کرکے میرے سامنے رکھ دی۔ میں نے چائے کا گھونٹ بھر کر اس سے پوچھا ’’بابا میرے خیال میں آپ روسی ترکستان کے ہیں‘‘۔ یہ سن کر اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’نہیں بیٹے! میں روسی ترکستانی نہیں بلکہ چینی ترکستان کا باشندہ ہوں۔‘‘
میں نے تعجب سے کہا ’’چینی ترکستان!‘‘ اس نے کہا ’’ہاں بیٹے! میں چینی ترکستان کا باشندہ ہوں۔ ایک وقت تھا کہ ہم چینی ترکستان میں خوشگوار زندگی بسر کرتے تھے مگر کمیونسٹوں کے ہاتھوں ہمیں وطن بدر ہونا پڑا۔ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہمیں اپنے آبائی وطن کو الوداع کہنا پڑا۔‘‘
اس نے کہا ’’میرا نام سبغور خان ہے۔ میرے والد بڑے دیندار تھے، انہوں نے ہماری دینی تعلیم پر کافی توجہ دی تھی۔ ہم ایک بہن اور دو بھائی تھے اور پندرہ سال کی عمر میں ہم تینوں نے قرآن حفظ کرلیا تھا۔ کاشغر کے مضافات میں ایک بستی میں ہم نہایت پُرسکون زندگی بسر کررہے تھے۔ ہمارے والد صاحب گائوں کی مسجد کے پیش امام تھے جبکہ ہم دونوں بھائی گائوں کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ چین میں مسلمان صدیوں سے آباد ہیں، سرخ انقلاب سے پہلے ترکستانی مسلمان منگ خاندان کے عہدِ حکومت تک چین میں نہایت امن و سکون کی زندگی گزارتے تھے۔
لیکن جب 1644ء میں منگ خاندان کا خاتمہ ہوا اور مانچو خاندان برسرِاقتدار آیا تو مسلمانوں کے لیے ابتلاء کا دور شروع ہوا جو 1644ء سے لے کر 1978ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں مسلمانوں پر جتنے ظلم و ستم ڈھائے گئے ناقابلِ بیان ہیں، خاص کر مانچو خاندان کے ظلم و ستم نے تو مسلمانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ مانچو خاندان کے دورِ حکومت میں کئی مرتبہ ملک گیر بغاوتیں برپا ہوئیں۔ آخرکار1910ء میں مانچو خاندان کو تختِ شاہی سے بے دخل کردیا گیا اور لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا۔
1755ء میں چینی بادشاہ چن لنگ نے زبردست لشکر کشی کے بعد مشرقی ترکستان پر قبضہ کرلیا لیکن مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری اور 1861ء میں چینیوں کو زبردستی مشرقی ترکستان سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ 1755ء سے1861ء تک معرکوں میں تقریباً 13 لاکھ ترکستانی مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا لیکن سرِتسلیم خم نہ کیا۔ اس کے علاوہ اسی دوران تقریباً 22 ہزار مسلم خاندانوں کو چینیوں نے یہاں سے نکال کر چین کے مختلف گوشوں میں بھیج دیا تھا تاکہ مسلمانوں کا زور ٹوٹے۔
اتنی عظیم جانی قربانیوں کے بعد1861ء میں مسلمانوں نے قوچار، گولجار، ختن، کاشغر اور یارکند کے علاقوں میں اپنی مستقل امارتیں قائم کرلیں۔
1863ء میں بزرگ خان تورم مشرقی ترکستان میں برسر اقتدار آیا۔ دو سال کے بعد1865ء میں اس کے قائد جنگ یعقوب بیگ کو زمامِ سلطنت سونپی گئی، چنانچہ یعقوب نے تمام امارتوں کو متحد کرکے صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی جسے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالعزیز خان کے علاوہ زارِ روس، انگلستان، افغانستان وغیرہ نے بھی تسلیم کرلیا۔ یہاں تک کہ خدیو مصر اسماعیل پاشا نے مندوبِ خاص کے ذریعے کاشغر کو جنگی اسلحہ کی امداد بھی بھیجی۔
1876ء میں چینیوں نے دوبارہ ترکستان کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے طبع آزمائی کی۔ اسی دوران بدقسمتی سے یعقوب بیگ کا ناگہانی انتقال ہوگیا۔ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی مختلف امراء تخت کے دعویدار بن گئے۔ مسلمانوں میں اختلافات حد سے زیادہ بڑھ گئے۔ چینیوں نے حالات سازگار دیکھتے ہی روس کے تعاون سے ترکستان پر ہلہ بول دیا۔ چینیوں نے مسلمانوں کے اختلافات سے خوب فائدہ اٹھایا اور بہت جلد سارے ترکستان پر قبضہ کرلیا۔ مسلمانوں کی املاک ضبط کرلیں، مسجدوں اور دینی مدرسوں کو سربمہر کردیا۔ ترکی ثقافت کو فتح کرنے کے لیے مختلف تدبیریں اختیار کی گئیں۔ عام شہروں کے نام تبدیل کردیے گئے۔
مشرقی ترکستان کا نام سنکیانگ رکھ دیا گیا۔ عربی رسم الخط پر پابندی عائد کردی گئی، اور اس کی جگہ چینی رسم الخط رائج کردیا گیا۔ مسلمانوں سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہوسکا۔ انہوں نے مجبور ہوکر متعدد مرتبہ بغاوت کی، مگر چینیوں نے روسی سنگینوں کے تعاون سے ان کو دبادیا۔
سبغور خاں نے بتایا کہ یہ میرے جوانی کے دن تھے، 1931ء میں ترکستان میں مسلمانوں نے ملک گیر بغاوت کردی۔ اس میں انہوں نے مچی کے علاوہ کئی شہر چینیوں سے آزاد کروا لیے اور12 نومبر 1933ء کو مشرقی ترکستان اسلامی جمہوریہ کا اعلان کردیا گیا۔ کاشغر اسلامی جمہوریہ کا دارالحکومت قرار پایا۔ خواجہ نیاز صدرِ جمہوریہ منتخب ہوئے اور علامہ ثابت والام عبدالباقی وزیراعظم چنے گئے۔
یہ نوزائیدہ مملکت ابھی سنبھلنے نہیں پائی تھی کہ اسے تینوں اطراف سے گھیرے میں لے لیا گیا۔ چینی افواج چیانگ کائی شیک کے ہمراہ اور روسی افواج کے تعاون سے ہر طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں، مسلمانوں نے بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سرخ افواج نے شہروں کے علاوہ دیہاتی آبادیوں پر بھی بے تحاشا گولہ باری کی، ان کے گھروں اور باغات کو اجاڑ دیا گیا، لوگوں کو سرِعام گولیاں ماری گئیں، اسی جنگ میں میرے بڑے بھائی اسماعیل کو روسیوں نے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے بڑی بے دردی سے شہید کردیا۔
جنرل چنگ چی چائی کی نگرانی میں روسی مشیروں نے ترکستان کے اندر ظلم و ستم کے محشر خیز ہنگامے برپا کیے کیونکہ پورا نظم و نسق روسی مشیروں کے ہاتھ میں تھا۔ قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار خوب گرم ہوا۔ بچوں اور بوڑھوں کو بے دریغ ذبح کیا گیا، مسلمان عورتوں کی عصمت پر ڈاکے ڈالے گئے، بہت سی مسلمان عورتوں نے روسی اور چینی فوجیوں کی گود کی زینت بننے کے بجائے موت کو ترجیح دی۔ اسی معرکے میں جب روسی فوجی میرے بہنوئی کے گھر میں داخل ہوئے تو میرا بہنوئی اپنی بیوی کی عصمت بچانے کے لیے آگے بڑھا مگر اسے سنگین مارکر ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا، جبکہ میری بہن نے اپنی آبرو بچانے کے لیے خنجر سے اپنے آپ کو ختم کرلیا۔
مشرقی ترکستان میں چین کی کمیونسٹ حکومت کے قبضے سے پہلے مسلمانوں نے اپنی تعلیم و تربیت کا جو نظام قائم کررکھا تھا اُس کا اندازہ اِس سے ہوسکتا ہے کہ مشرقی ترکستان میں تین ہزار ابتدائی مدرسے تھے جن میں 3لاکھ بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔62 ہائی اسکول تھے جو صرف عوامی عطیات پر چلتے تھے۔ ان میں ہزاروں طلبہ کی تعلیم کا انتظام تھا۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ترکستان کے نام سے ایک اعلیٰ درجے کا تعلیمی ادارہ قائم تھا جس میں بیک وقت 8 سو طلبہ تعلیم پاتے تھے، ذریعہ تعلیم ترکی زبان تھی جس کا رسم الخط عربی تھا۔
مسجدوں کا یہ حال تھا کہ کانسو شہر میں تقریباً 2 ہزار مسجدیں تھیں۔ یہ شہر مسجدوں کی کثرت اور خوبصورتی کے لحاظ سے دنیائے اسلام کے اہم مرکزی شہروں مثلاً استنبول، بغداد اور قاہرہ کا ہم پلہ تھا، لیکن اب ان اسکولوں، مدرسوں میں مائو اور لینن کے نظریات کی تدریس ہونے لگی جبکہ مسجدوں کو مے خانوں اور کلبوں میں تبدیل کردیا گیا۔ بعض مسجدوں میں بدکاری کے اڈے بنائے گئے، تو بعض گودام اور خنزیروں کے باڑے بنادیے گئے۔ دیہاتوں کی اُن مساجد کو جو ان کے کسی کام کی نہیں تھیں، چھوڑ دیا گیا۔ ان مساجد کے اماموں کو حکم تھا کہ وہ صرف حکومت کے فراہم کردہ خطبے دیا کریں۔ ان خطبوں میں مذہبی تعلیم نام کو بھی نہیں ہوتی تھی بلکہ بعض میں کھلم کھلا کمیونزم کی تبلیغ شروع کردی گئی جس کے سبب اکثر مساجد کے ائمہ نے انہیں پڑھنے سے انکار کردیا۔ ان اماموں میں میرے والد صاحب بھی تھے۔
خطبہ پڑھنے سے انکار پر ان ائمہ کو بے دریغ جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ اس وقت تقریباً 5لاکھ افراد جن میں ترکستان کے تمام مذہبی پیشوا اور اربابِ علم و دانش شامل تھے، جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ ان میں سے دو لاکھ افراد اذیتیں برداشت نہ کرکے لقمۂ اجل بن گئے۔ میرے والد صاحب ضعیف العمر تھے، وہ بھی ان اذیتوں کو برداشت نہ کرسکے اور اپنے حواس کھو بیٹھے۔ پھر اُن کا کیا ہوا، ہمیں اس بارے میں کچھ علم نہ ہوسکا۔
قرآن کے ساتھ بھی انہوں نے نہایت ہتک آمیز سلوک کیا، یہاں تک کہ قرآن پاک کو دیگر مذہبی کتابوں کے ساتھ برسرِ عام نذرِ آتش کیا گیا۔ چینی، مسلمانوں کو مجبور کرنے لگے کہ وہ اپنی لڑکیاں چینیوں کے حوالے کردیں۔ کمیونسٹوں نے مسلمانوں کو اپنے مُردے دفن کرنے سے بھی منع کردیا۔ مسلمانوں سے کہا جاتا کہ اپنے مُردے جلائو اور ان کی کھاد بنائو۔
کمیونسٹ حکام مردوں کو جبراً بیگار کیمپوں میں بھیج دیتے اور ان کی بیویوں اور جوان بیٹیوں کو چینی نوآبادکاروں کے حوالے کردیتے۔ نہ لڑکیوں کی آہ و فریاد اثر کرتی، نہ والدین کا واویلا۔
اپنے مذہب اور عزت و آبرو کو محفوظ نہ دیکھ کر آخرکار 1937ء میں ترکستان میں ایک ملک گیر بغاوت بپا ہوگئی۔ وہ قبائل جو کمیونزم کے دام فریب میں آچکے تھے اب اُن کی بھی آنکھیں کھل گئی تھیں۔ سب ترکستانی قبائل اپنے اپنے اختلافات بھلا کر آزادیِ وطن کی خاطر لڑنے پر کمربستہ ہوگئے۔ اس جنگِ آزادی کے دوران ہزارہا کشمیری، بنگالی اور علاقہ غیر کے مسلمان بھی ہماری مدد کے لیے لپکے۔ جنرل چنگ چی چائی میں اب مسلمانوں کے مقابلے کی سکت نہ تھی، اس نے روسیوں سے امداد طلب کی۔ روسی جنرل چنگ چی چائی کی مدد کے لیے پہنچے۔ اگرچہ وہ آزادی کی اس ناکام بغاوت کو مکمل طور پر دبا نہ سکے تاہم اپنی ظالمانہ روش انہوں نے تیز تر کردی۔ اُس وقت دوسری جنگِ عظیم زوروں پر تھی، بغاوت دبانے کے بعد روسی افواج مشرقی ترکستان سے نکل گئیں۔ اس عرصے میں مسلمان شمع آزادی کو روشن کرنے کی برابر کوششیں کرتے رہے، حتیٰ کہ چینی افواج نے 1949ء میں اس مسلم خطے کو پھر سے گھیرے میں لے لیا۔ ان نازک اور ناسازگار حالات میں بغاوت کا خطرہ پھر سے پیدا ہونے لگا۔
چین کے لیڈر مائوزے تنگ نے بغاوت کے خطرے کی بو سونگھ لی تو فوراً ہی اس نے ترکستان کے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو جس میں علماء، قبائلی لیڈر اور سیاسی لیڈر شامل تھے، دعوت دی کہ وہ مسئلہ ترکستان کے حل کے لیے آئیں تاکہ گفتگو کی جائے۔ مائوزے تنگ کے اس اعلان پر مسلمانوں نے اعتبار کرلیا۔ مقررہ تاریخ پر چین سے خصوصی طیارہ ان مسلمان لیڈروں کو گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لے جانے آیا، اور تمام ترکستانی مسلمان لیڈر اس طیارے میں سوار ہوکر پیکنگ روانہ ہوگئے، مگر یہ طیارہ پیکنگ نہ پہنچ سکا بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی، پائلٹوں نے جہاز سے کود کر خود کو بچالیا اور جہاز کو گرا کر تباہ کردیا، اور یوں اس طیارے میں سوار ترکستان کے چوٹی کے علماء، قبائلی اور سیاسی لیڈر شہید ہوگئے۔ یوں چینیوں نے مسلمانوں کی قوت پر ایک ضربِ کاری لگائی اور مسلمان اپنے رہنمائوں کے بغیر بے قیادت فوج بن کر رہ گئے۔
اس کے بعد درودیوار پر پوسٹر چسپاں کیے گئے جن میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ ’’اب تم کو اپنے چہروں پر دین کا نقاب ڈالنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی، ورنہ تم جلاوطن کردیے جائو گے یا نیست و نابود کردیے جائو گے۔ آج کے بعد تمہیں اس چیز کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ تم گائے کا گوشت کھائو، کیونکہ گائے اس ملک میں اشتراکیت کے لیے مفید ہے۔ اب تمہیں خنزیر کا گوشت کھانا پڑے گا۔ آج کے بعد تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ تم اپنا وقت نمازوں میں ضائع کرو اورعربی زبان میں گفتگو کرو، وہ زبان جو ہماری زبان سے مختلف ہے۔ تمہیں اس بات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ قرآن کی تلاوت کرو جسے تم مقدس کتاب کہتے ہو۔ اے مسلمانو! غور سے سن لو، تمہیں اپنے مدرسوں اور مساجد کو ڈھانا ہوگا، اپنی اسلامی تنظیمات کو توڑنا ہوگا، قرآن مجید کو جلانا ہوگا، غیر مخلوط شادی کے جو اصول تم نے وضع کررکھے ہیں انہیں ختم کرنا ہوگا، تمہیں اب ہمارے قائد کے افکار و نظریات کو اپنانا ہوگا، اور اگر تم ان چیزوں سے باز نہ آئے تو پھر تمہیں مٹادیا جائے گا، ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم دینی چوہوں کے سارے بلوں کو ملیامیٹ کردیں، اور اگر تم باز نہ آئے تو تم سب کو تباہ و برباد کردیا جائے گا۔‘‘
اب چین میں مسلمانوں کی زندگی دوبھر ہوچکی تھی، ترکستان کی سرزمین ان پر تنگ ہوچکی تھی، وہ سرزمین جس میں وہ صدیوں سے بستے آرہے تھے۔ وہ سرزمین جس میں ان کے باپ دادا کی ہڈیاں دفن تھیں، اب اُس سرزمین پر مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اکثر نوجوانوں کو چینی سپاہیوں نے پکڑ کر لیبر کیمپوں میں بھیج دیا اور باقی چپکے چپکے ترکی، افغانستان اور پاکستان کو ہجرت کرنے لگے۔
سبغور خاں نے مزید بتایا کہ یہ دوپہر کا وقت تھا کہ چینی سپاہیوں نے مجھے پکڑلیا اور بیگار کیمپوں میں بھیجے جانے والے نوجوانوں کے گروپ میں شامل کردیا، مگر میں نے وہاں جانے سے انکار کردیا۔ اس پر چینی فوجیوں نے مجھے وطن دشمن کہہ کر زدوکوب کرنا شروع کردیا۔ بدقسمتی سے ایک چینی سپاہی نے مجھے ایسی لات ماری کہ میں گر کر بے ہوش ہوگیا، چنانچہ چینی سپاہی مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔
جب مجھے ہوش آیا تو رات ہوچکی تھی، ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا، میں نے بمشکل چند قدم اٹھائے تھے کہ سر چکرایا اور میں پھر گرپڑا، مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور گرتا پڑتا اپنے گھر پہنچ گیا۔ دو تین دن بعد میں بمشکل چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔
چھٹے روز ہمارے گائوں سے رات کے وقت ایک چھوٹا سا قافلہ افغانستان کو ہجرت کررہا تھا، اس قافلے میں پانچ مرد اور آٹھ عورتیں شامل تھیں، میں بھی ان کے ساتھ ہولیا اور افغانستان کی طرف روانہ ہوگیا۔ ہم ساری رات سفر کرتے اور دن کے وقت جنگلوں اور غاروں میں چھپ جاتے، کیونکہ دن کے وقت چینی سپاہیوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کا خدشہ تھا۔ آخرکار کئی راتیں مسلسل سفر کرنے کے بعد ہم افغانستان کی سرحد میں داخل ہوئے۔ افغانستان میں داخل ہوکر ہم نے سُکھ کا سانس لیا۔ میرے بیشتر ساتھی ایران چلے گئے لیکن میں نے کابل کی ایک نواحی بستی میں سکونت اختیار کرلی۔
اس بستی میں رہتے ہوئے میری پونجی دو ماہ میں ختم ہوگئی، اس پر مجھ فکرِ معاش لاحق ہوئی، آخرکار بڑی مشکل سے ایک موچی کی دکان پر کام مل گیا۔ میں جوتے سینا نہیں جانتا تھا۔ موچی نے مجھے یہ ہنر بھی سکھادیا۔ اس دوران اچانک میرے مالک کا انتقال ہوگیا۔ اس کی موت سے مجھے سخت صدمہ پہنچا، میں اس کے سہارے سے محروم ہوگیا، کیونکہ وہ میرے لیے باپ سے ہرگز کم نہ تھا۔ وہ مجھے نوکر نہیں اپنا بیٹا سمجھتا تھا۔ اس کی موت کے بعد میں نے اُس کی گدی سنبھال لی۔ میرے مہاجر ہونے کی وجہ سے گائوں کے لوگ مجھے ’’مہاجر موچی‘‘ کہتے تھے اور بعد میں یہی میرا نام پڑگیا۔
افغانستان میں بہت اچھا وقت گزر رہا تھا، کبھی کبھی وطن کی یاد ستاتی تھی لیکن واپس جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، کیونکہ میرے وطن پرکمیونزم اب پوری طرح سے مسلط ہوگیا تھا۔
ان ہی دنوں میرے ایک عزیز کا خط جسے چینی سپاہی پکڑ کر لے گئے تھے، موصول ہوا۔ اس نے بڑے سوز کے ساتھ لکھا تھا: میرے پیارے بھائی سبغور خاں! میں شدید تنہائی محسوس کررہا ہوں، بدقسمتی نے گھیر رکھا ہے، شب و روز تکلیف میں رہتا ہوں، میں مٹی ڈھونے کا کام کرتا ہوں، کوئلے صاف کرنے کی ڈیوٹی بھی مل جاتی ہے۔ ہمارے گھر وغیرہ سب ریاست کی ملکیت ہیں۔ لوگوں کو دور دراز مقامات پر کام کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ تمام اثاثے حکومت کی تحویل میں ہیں، کمیون کے نام سے اجتماعی کمرے بنادیے گئے ہیں، ایک ایک کمرے میں سو‘ سو افراد بھردیے جاتے ہیں۔ گھنٹی بجنے پر کھانا ملتا ہے۔ بہت خوفناک حالات ہیں۔ مقررہ وقت کے سوا جب بھی بھوک لگتی ہے تو کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔ ہر بستی کمیون میں تبدیل ہوچکی ہے۔ سب لوگ زندگی سے بیزار ہیں، مردوں کو عورتوں سے جدا رکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ خاوند کے لیے بیوی کو دیکھنا بھی محال ہے۔
اس خط کو پڑھتے ہی دل پر چوٹ سی لگی۔ اپنے عزیزوں اور ہم وطنوں کی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار آنسو چھلک پڑے، وطن واپس جانے کی جو خواہش میں مدت سے دل میں رکھے ہوئے تھا، اس خط کو پڑھنے کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔
لیکن بدقسمتی نے ابھی میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ 1979ء میں لینن کے حواریوں نے ڈرامائی طور پر افغانستان کو اپنے چنگل میں لے لیا۔ افغانستان کے غیور افغان سربکف ہوکر دیوارِ آہن بن گئے، خاص کر ہمارا گائوں مجاہدین کا سب سے بڑا مورچہ تھا۔ ہمارے گائوں سے مجاہدین نکل کر کابل کی حفاظتی چھائونیوں میں مقیم سرخ افواج پر قہرِ خداوندی بن کر ٹوٹنے لگے۔ تنگ آکر ایک دن اچانک روسیوں نے ہمارے گائوں کا محاصرہ کرلیا، اُن کا خیال تھا کہ وہ مجاہدین کو پکڑ کر لے جائیں گے۔ مگر انہیں اس گائوں میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ انہوں نے ہم بوڑھوں کو پکڑ کر جیل میں ٹھونس دیا لیکن چند دن بعد انہوں نے ہمیں بے ضرر دشمن سمجھ کر چھوڑ دیا۔ ہم گائوں واپس آگئے تو یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ ہمارا گائوں کھنڈر بن چکا تھا۔
روسی فوجیوں نے مجاہدین کے اس مورچے کو جڑ سے اکھاڑنے کی خاطر اس گائوں پر شدید گولہ باری کرکے اسے پیوندِ خاک کردیا تھا۔ گائوں کی سب عورتیں بچوں کو لیے باہر بیٹھی ہوئی تھیں اور سب رو رہے تھے۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ ایک رات اچانک مجاہدین آگئے، انہوں نے ہمارے بچے کھچے سامان کو باندھا اور گنتی کے چند گدھے، خچر دے کر ہمیں پاکستان روانہ کردیا۔ اپنے نااہل اور ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی وجہ سے اب ہمیں پھر در بدر کی خاک چھاننی پڑرہی تھی۔ آخرکار کئی دن کی صبر آزما مسافت طے کرنے کے بعد ہم پاکستان پہنچ گئے اور اب یہاں خیموں میں پڑے افغانستان واپس جانے کی راہ تک رہے ہیں۔
وہ روتے ہوئے کہنے لگا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ چینی ترکستان میں حالات بدل چکے ہیں، ظلم کی گھٹائیں چھٹ گئی ہیں، مسلمانوں کو پھر سے مذہبی آزادی دے دی گئی ہے، ان کی مسجدوں اور مدرسوں کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ لیکن بیٹے! اب میں اپنے وطن واپس جاکر کیا کروں گا جہاں نہ میرا باپ ہے، نہ بہن، نہ بھائی اور نہ کوئی عزیز۔ ان سب نے یا تو وطن کی خاطر جام شہادت نوش کرلیا ہے یا جلاوطن ہوچکے ہیں۔ وہاں مجھے اب پہچاننے والا شاید کوئی نہ ہوگا۔ بتائو بیٹے میں وہاں جاکر کیا کروں گا؟ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا، اس کی بوڑھی پلکوں پر آنسو چھلک رہے تھے جنہیں وہ پونچھنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔