افغانستان پھر نشانے پر:
امارت اسلامیہ نے امریکی استعمار سے نجات کے محض 3 سال میں جو حکومتی پیش رفت کی ہے ، جدید دُنیاسے مرعوب لوگوں سے وہ ہضم ہی نہیں ہو رہی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغان معیشت کی بدحالی کے بارے میں سامراجی پروپیگنڈا بھی اب کمزور پڑ رہا ہے۔ سامراج کو توقع تھی کہ انقلاب کے بعد افغان معیشت تباہ ہو جائے گی، فاقہ کشی عام ہو گی، بے روزگاری کا سیلاب آ جائے گا، افراط زر اتنا بڑھ جائے گا کہ عوام اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جائیں گے۔ لیکن سامراج کی یہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ طالبان قیادت نے تین سال کے قلیل عرصہ میں معاشی استحکام قائم کر کے ملکی معیشت کو استحکام دیا ہے۔اس بات کا اقرار خود ورلڈ بینک جو کہ ایک سامراج نواز ادارہ ہے اپنی ماہنامہ تجزیاتی رپورٹ Afghanistan Economic Monitor میں کرنے پر مجبور ہے ۔ آپ یو ٹیوب پر جا کر صرف Afghan travelogue سرچ میں لکھیں ۔ ڈریو بینسکی ، جو حطاب،ہیری جگارڈ سمیت کئی مشہور وی لاگرز ملیں گے جو افغانستان جا کروہاں کے دلچسپ احوال آزادی سے رپورٹ کر رہے ہیں۔کابل ہی نہیں کئی شہروں میں وہ سفر کرکے وہاں کی صورتحال دکھاتے ہیں۔ اگر آپ کوئی ایک بھی دیکھ لیںتو آپ کا افغانستان کے بارے میں جاری ہونے والی خبروں پر سارا یقین ختم ہوجائےگا۔ ایک سفرنامہ دیکھنے کے بعد آپ کے لیے سارے بی بی سی ، وائس آف امریکہ وغیرہ سب جھوٹے ہو جائیں گے۔یہ ہے اصل بات۔ سوشل میڈیا نے بہرحال یہ بھی ایک موقع دیا ہےکہ آپ تلاش کرنا چاہیں تو کسی حد تک ڈیجیٹل سطح پر سچ تک پہنچ سکتے ہیں۔اس سب کے باوجود جب ٹوئٹر پر و دیگر سوشل میڈیا پر منفی مہم ،بلکہ مغرب زدہ مہم دیکھتے ہیں تو دُکھ ہوتا ہے۔ابھی ستمبر میں افغانستان حکومت کے اقدامات کے خلا ف ایک مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی تھی میں نے تب بھی اس کا جواب لکھا ۔یہی نہیں بلکہ ان کے جوابی کمنٹس میں ایسے کئی سفر ناموں کے لنک شیئر کیے جو سارے مغرب ہی کے سیاحوں نے بنائے تھے تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ ایسے حالات ہوتے تو یہ سارے عالمی سیاح یہاں کیسے موجود ہیں اور ایسی وڈیوز بنا کر ہمیں جو دکھا رہے ہیں وہ ہی اصل تصویر ہے۔
افغان معیشت ایک نظر:
میں جانتا ہوں کہ معاشی اعداد و شمار عام آدمی کے لیے مشکل ہوتے ہیں ۔ اس لیے بہت ہی اہم ترین بات لکھوں گا کہ آپ کو آسانی سے سمجھ آسکے۔ دوبارہ بتا دوں کہ یہ اعداد و شمار میرے نہیں عالمی سامراجی ادارے ’’ورلڈبینک‘‘ کی رپورٹ سے لیے ہیں۔آپ بھی ان کی ویب سائٹ سے تصدیق کر سکتے ہیں۔
ورلڈ بینک اقرار کرتا ہے کہ مالی سال 24-2023ء میں افغان معیشت کی مجموعی پیداواری شرح نمو (GDP rate of growth) مثبت رہی۔پوری رپورٹ میں افلاس یا بے روزگاری کے پھیلنے کے ضمن میں کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے گئے۔ نہ اس دعویٰ کا کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر لگائی گئی پابندیوں کا کوئی منفی اثر معاشی استحکام پر پڑا ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق اشیائے صرف کی قیمتیں 2023ء کے مقابلے میں تقریباً 7 فیصد کم ہوئی ہیں ۔( جی اس کا مطلب مہنگائی کم ہوئی ہے )
دسمبر 2021ء میں ایک ڈالر 104 افغانی کا تھا مگر ستمبر 2024ء میں ایک ڈالر 69 افغانی تک پہنچ چکا ہے۔ ( پاکستان میں 280 روپے ہے)
یہی نہیں افغانی کرنسی کا شرح تبدل تمام اہم کرنسیوں کے مقابلہ میں تیز رفتاری سے بڑھا ہے۔ ورلڈ بینک اقرار کرتا ہے کہ شرح تبدل میں اضافہ کا بنیادی سبب اسلامی حکومت کی کامیاب زرعی پالیسی اور ترسیل زر پر عائد سخت پابندیاں ہیں۔ بس اتنی نظر کافی ہے۔ ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا پر آپ کو افغانستان کےخلاف جو بھی منفی پروپیگنڈہ مل رہا ہے وہ کیوں نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔
ٹرمپ آگیا:
2 قاتلانہ حملے تو اُس پر الیکشن مہم کے درمیان ہی ہو چکے تھے۔اب اگر وہ الیکشن ہارتا تو اُس پر اتنے مقدمات تھے کہ وہ سیدھا جیل جاتا اور شاید بقیہ زندگی وہ جیل میں ہی گزارتا ۔78 سالہ ڈانلڈ ٹرمپ کے لیے یہ فیصلہ کن معرکہ تھا۔اس لیے ٹرمپ نے الیکشن جیتنے کے لیے ’’ امریکہ فرسٹ‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنے سارے گھوڑے کھول دیئے۔اس نے 81 سالہ بائیڈن کو صدارتی الیکشن مہم کی تقاریر میں ہی واضح شکست دے ڈالی۔ڈیموکریٹس نے یہ شرمندگی کی صورتحال دیکھی تو جو بائیڈن کو مقابلے سے ہی پیچھے ہٹا دیاگیا۔بہت سوچ بچار اور اندرونی سیاست کے نتیجے میں 60 سالہ کمالہ ہیرس کو میدان میں اتارا گیا۔الیکشن کا معرکہ گرم ہوا۔ پوری دنیا کا میڈیا اس الیکشن پرنظریں جمائے ہوئے تھا۔خوب مکالمے چلے۔سوشل میڈیا پر میمز کی لائن لگ چکی تھی۔ لڑکا ہوگا یا لڑکی جیسے سوالات سے سب مزے لے رہےتھے؟سارے سروے و تجزیے یا تو ٹرمپ کی کامیابی یا پھر کانٹے کا مقابلہ بتا رہے تھے ، یعنی سب کا اشارہ ٹرمپ کی جانب ہی تھا۔اس سب کے باوجود ماہرین نے تجزیہ کیا کہ اُس نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو شکست دے ڈالی ۔
روشن ستارہ:
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈانلڈ ٹرمپ نے اپنی کامیابی کے ذمہ داران میں ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک ’ایلون مسک ‘ کو ’’ستارہ‘‘ قرار دیا۔اس اعلان کے اگلے ہی دن یہ خبر تھی کہ اس اعلان پر ہی راتوں رات ایلون مسک کو اربوں ڈالرز کا فائدہ ہوا ہے۔اُس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے 11 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز عطیہ کیے تھے بلکہ سیاسی ریلیوں میں بھی شرکت کی۔2016 میں بھی ٹرمپ نے سوشل میڈیا کو اپنی جیت میں کلیدی کردار کہا تھا۔یوں سوشل میڈیا کامیاب پروپیگنڈہ ٹول کے طور پر سامنےآیا۔اس مہم میں ڈیموکریٹس کی نمائندہ کمالہ ہیرس ’فار لیفٹ ‘ ( عالمی لبرل ازم )نمائندہ کے طور پر اُبھری جبکہ ٹرمپ نے اپنے آپ کو فار رائٹ ( نیشنل لبرل ازم) کی طرف لے گیا۔ٹرمپ نے بڑی سمجھداری کے ساتھ سوشل میڈیا پر امریکی قوم پرستی کی آڑ میں وائٹ سپریمیسی کو بھی خوب شدت سے اُبھارااور سب نے دیکھا کہ یہ نیا سکہ چل گیا۔کئی سنگین مقدمات کے باوجود ڈانلڈ ٹرمپ امریکہ کی صدارتی کرسی پر دوسری مرتبہ بطور 47 ویں صدر بیٹھنے میں کامیاب ہوگیا۔ٹرمپ نے 2016 کی طرح اس بار بھی تمام پروپیگنڈہ ٹولز، نوجوان ووٹرز اور لبرل ازم کے تضادات کو فوکس کرکے الیکشن حکمت عملی بنائی تھی۔2016 میں وہ ایک اور خاتون ہیلری کلنٹن کو ہی شکست دے کر 304 الیکٹورل ووٹ لیکر امریکی صدر بنا تھا، 2024 میں اب دوبارہ ایک خاتون امیدوار کو ہی شکست دی ہے۔ٹرمپ نے مضبوط ترین یہودی لابی کو بھی ساتھ ملایا اور مقامی مسلمانوں کی بھی حمایت پکڑی ، سفید فام نسل پرستی کو وہ پہلے ہی عظیم امریکہ کے نام پر گھیر چکا تھا۔آپ کو یاد ہوگا کہ ٹرمپ نے ’’سفید نسل پرستوں‘ کے ٹولے کو باقاعدہ وائٹ ہاؤس میں بلا کر دعوت کی۔ان کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھا ، یہی لوگ تھے جنہوں نے ٹرمپ کی محبت میں کیپیٹل ہل پر حملہ بھی کیا۔یہ بات ٹھیک ہے کہ ٹرمپ اپنے مزاج کے اعتبار سے انتہائی غیر متوقع ہے۔اتفاق سے عمران خان میں بھی بالکل ایسی ہی خصوصیات تھیں۔اس لیے کہ دونوں روایتی سیاست دان نہیں تھے ، دونوں حکومت میں آنے سے قبل عوامی مقبول شخصیات تھے ۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی سے تحریک انصاف بہت امیدیں لگائے ہوئے تھی۔
لبرل ازم کی شکست :
لبرل عالمگیریت کہتی ہے کہ بارڈر وسیع ہوں ، فری موومنٹ آف گڈز ، آزاد تجارت ہونی چاہیے ،انسانوں پر مارکیٹ کا راج ہونا چاہیے ۔ اس سب میں امریکہ کا عالمی کردار ہونا چاہیے ۔ممالک کے دفاع میں ، عالمی امن میں امریکہ باقاعدہ ذمہ دار ہونا چاہیے ۔مثلا ًسعودی عرب پہ کوئی حملہ کرے تو امریکہ کا کام ہے کہ وہ دفاع کرے،اسرائیل کا دفاع، جاپان پہ کوئی حملہ کرے تو ہم دفاع کریں ۔ اس کے لیے ا سنے وہاں فوج بٹھائی ہے۔ اب ان سارے اڈوں کو بھی تو چلانا ہے؟ ٹرمپ نے اسی مدعے کو اپنی مہم میں اُٹھایا کہ اس سے امریکہ کو نقصا ن ہو رہا ہے۔اس نے امریکہ کو عظیم بنانے کے نام پر ان سارے اڈوں کو غیر ضروری قرار دے کر ’’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘‘ کو عوام کے حق پر ڈاکا کہہ کرسوال بنادیا۔اُس نے یوکرین جنگ میں پیسہ انڈیلنے کو غیر ضروری کہا۔اُس نے مہم میں عوام سے لیا گیا پیسہ عوام پر لگانے کا نعرہ لگایاتاکہ ’’عوام برگر خرید سکیں ‘‘یہ الفاظ میرے نہیں ٹرمپ کے ہیں۔میڈیا لکھ رہا ہے کہ انڈے اور دودھ کی قیمتیں کمالہ کو شکست دے گئیں۔امریکہ کو عظیم بنانے کا جو منجن اس نے لانچ کیا وہ آسانی سے بک گیا۔لبرل ازم کو شکست دے کر ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کی آڑ میں نسلی قوم پرستی کا نیا نظریہ ، نئی طبقاتی تقسیم کے ساتھ امریکہ میں ظاہر ہوا ہے۔یہ پوری دنیا میں گہرے سیاسی اثرات ڈالے گا۔ یورپی یونین اور برطانیہ میں ہم ’’ فار رائٹ ‘‘ کی واضح سیاسی برتری دیکھ رہے ہیں۔ذرا نوٹ کریں کہ آپ جس امریکہ کو بڑا زبردست آئیڈیل قرار دیتے ہیں وہاں ایسے کیا ہے کہ نیا امریکی صدر یہ جملے اپنے پہلے خطاب میں کہہ رہا ہےکہ مجھے سب ٹھیک کرنا ہے، امریکی شہری کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ہم اپنے ملک کے بارے میں سب کچھ ٹھیک کرنے جا رہے ہیں۔ مطلب سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔واضح کرلیں کہ یہ کوئی تیسری دنیا کا پسماندہ ملک نہیں ہے ۔
وائٹ ریس:
ٹرمپ نے کہاکہ امریکہ کے شہری کا معیار زندگی بڑھنا چاہیے ، میں پیسہ لاؤں گا اور خزانے سے غیر ضروری دفاعی خرچ بچاؤں گا۔ امریکہ کو طاقتور بناؤں گا لیکن میں ’’وائٹ ریس کی لبرل ویلیوز ‘‘کو متاثر نہیں ہونے دونگا۔ اس نے کہاکہ دنیا میں لبرل ازم کا اصل نمائندہ ’’گورا‘‘ ہے اس لیے ’’گورے ‘‘ کی شناخت کا تحفظ ہی اصل میں لبرل ازم کا دفاع ہے۔ اس نے ڈیموکریٹس کو ذمہ دار بنایا کہ اُن کے دور حکومت میں ’امریکہ کا مقام‘‘کم ہوا ہے۔اس نے لبرل عالمگیریت کی نفی قوم پرستی کی بنیاد پر کرکے دکھائی۔یوں امریکی الیکشن میں لبرل ازم کے بنیادی نظریات کو بھی شکست ہوئی ۔۔مگر ،یہ جان لیں کہ اصل حقیقت ہی یہی ہے ۔جب تک آپ اس نظریاتی حقیقت سے منہ موڑ کرامریکہ کی بلند بالا عمارتوں، ٹیکنالوجی، آزاد معاشرت اور جعلی ترقی کے دھوکے میں کھوئے رہیں گے ، کبھی حقیقت تک نہیں پہنچ سکیں گے۔
اس صورتحال میں ٹرمپ اسرائیل کو قابو کرے گایا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔جیسا استقبال ٹرمپ نے نیتن یاہو کا کیا تھا اور جو وعدے اُس سے کیے تھے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ امریکہ میں موجود یہودی اسٹیبلشمنٹ نے اس کی کامیابی میں جو ساتھ دیا ہے وہ مفت میں نہیں دیا۔لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یوکرین جنگ ختم کرنے پر اس کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔رہی بات مسلمانوں و دیگر غیر مقامی امریکیوں کی تو وہ اب ’’سفید سپریمیسی ‘‘کے سائے تلے جیئیں گے۔ ایک ’’ہندوتوا ‘‘ بھارت میں ہم دیکھ رہے ہیں اب ممکن ہے کہ ایک ’’ وائٹوا‘‘ دنیا بھر میں سب دیکھیں گے کیونکہ ’گورے ‘ کی سفاک ترین سپریمیسی تاریخی طور پر تو لاکھوں مقامی انسانوں کے قتل عام پر کھڑی ہے۔
پاکستان کیا کرے:
پاکستان کا کیا ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔پاکستانی حکومت نے مدت ملازمت اور عدلیہ کی حفاظتی دیوار کھڑی کر لی ہے۔اِس کے باوجود ہم امریکہ کی کالونی جانے جاتے ہیں۔ہمارے لیے سبق یہی ہے کہ اگر ٹرمپ ، امریکیوں میں ’’آئیڈینٹٹی پالیٹیکس ‘‘ کرکے اُن کو ’’نسل پرست سفید فام امریکی ‘‘ ہونے کا احساس کامیابی سے دلا سکتا ہے تو ہم پاکستان میں رہنے والے 24 کروڑ مسلمانوں کو اُن کی اصل شناخت اسلام سے بھی قریب لاکر ’’اسلام پرست پاکستانی ‘‘ کیوں نہیں بنا سکتے؟