اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ’’لوگوں سے خوش خلقی سے یعنی نرم لہجے میں بات کیا کرو۔‘‘ (البقرہ 83)
حضرت لقمان علیہ السلام نے سورہ لقمان میں اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ ’’بیٹا لوگوں سے نرمی سے بات کرو۔ سب سے بری آواز گدھے کی ہوتی ہے۔‘‘ آپؐ کی شیریں گفتاری کا کرشمہ تھا کہ لوگ آپؐ کے حُسنِ کلام اور پیغام قرآن سن کر ایمان لاتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے خلقِ عظیم بناکر مبعوث کیا ہے۔‘‘
مثل مشہور ہے ’’زباں شیریں، ملک گیری‘‘۔ زبان اور لہجے کی سختی سے مخاطب کو نہ صرف تکلیف ہوتی ہے بلکہ وہ متکلم سے ناراض ہوکر دور بھاگتا ہے۔
اگر لوگوں کا دل جیتنا ہو تو اُن سے نرم لہجے میں بات کرو۔ بہت زیادہ بات کرنا بھی آدمی کی حیثیت کو کم کردیتا ہے۔ ایک قول ہے: ’’خاموش رہنا سیکھو تاکہ تم فرشتوں کی سرگوشیوں کو سن سکو۔‘‘
بنو گے خسروئے اقلیم دل شیریں زباں ہو کر
جہاں گیری کرے گی یہ ادا نور جہاں ہو کر
خوش خلق انسان کا حلقۂ احباب وسیع ہوتا ہے۔ والدین کے ساتھ ہمیشہ نرمی سے بات کرنا اولاد پر لازم ہے۔ بڑے بوڑھوں کا احترام یہ ہے کہ اُن سے نرم لہجے میں بات کی جائے، جس میں اوّل درجہ استاد کا ہے۔ ایک چپ سو دکھ سے بچاتا ہے۔ منہ در منہ جواب دینے سے بہتر ہے کہ پہلے سنا جائے، پھر تولا جائے اور اُس کے بعد بولا جائے۔ خوش خلقی اُس وقت کارآمد اور پُراثر ہوگی جب دلیل سے بات کی جائے۔ بولتے وقت الفاظ غیر معیاری اور ثقیل نہ ہوں کہ سننے والے کو سمجھ نہ آئیں اور وہ بے زاری محسوس کرے۔
آج بھیڑ کیوں ہے اس قدر مے خانے میں
بات اتنی سی ہے کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق
ساقی کا نرم اور مسکراتا لہجہ مے خانے کی بھیڑ میں اضافہ کردیتا ہے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگوں کو دھوکا دینے والے اکثر چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں جو کہ حُسنِ خلق نہیں ہے۔ قاری، نعت خواں اور مغنیہ کی مترنم آواز دل کو موہ لیتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم اپنی زبان اور شرم گاہ کی ضمانت دو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ جنت کے حصول کے لیے زبان کو قابو میں رکھنا لازم ہے۔ یہ ہماری زبان جو بتیس دانتوں کے درمیان گھری ہوئی ہے، یہ اپنے نرم اور گداز ہونے کی وجہ سے زخمی ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔ ہم اگر اپنے جسم کی بناوٹ پر غور کریں تو دیکھتے ہیں کہ اللہ نے زبان ایک دی ہے اور کان دو، اس لیے کہ زیادہ سنیں اور کم بولیں۔
بدگوئی اور بدکلامی انسان کی شخصیت کو دو کوڑی کا کردیتی ہیں۔ یہ دوستی کو دشمنی میں بدل دیتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’منافق کی پہچان یہ ہے کہ وہ امانت میں خیانت کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، بدعہدی کرتا ہے، بات بات پر جھوٹی قسمیں کھاتا ہے، غصے میں گالی دیتا ہے۔‘‘ چند دہائیوں قبل اگر کوئی کسی کو سالا بول دیتا تھا تو جھگڑے کی نوبت آجاتی تھی، مگر آج نوبت یہ ہے کہ دوست یار ازراہِ تفنن ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دیتے ہیں۔ آپ کسی بھری بس میں سوار ہوں اور غلطی سے آپ کا پیر کسی کو لگ جائے تو وہ چھوٹتے ہی گالی سے نوازے گا۔ مالک اپنے نوکر کو ذرا ذرا سی بات پر گالی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ذرا سی رنجش پر گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اور بات مار کٹائی کے بعد اکثر علیحدگی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ زبان دراز بہو کا گزارہ نہیں ہوتا۔ میں چوں کہ پیشے کے اعتبار سے استاد ہوں اور گزشتہ پچاس سال سے اس دشت کا مسافر ہوں، لہٰذا نسلِ نو کی نس نس سے واقف ہوں۔ اس سلسلے کا ایک تجربہ بیان کرتا چلوں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ کے جی جماعت کی بچی اپنے کلاس کے بچوں کو گالیاں دیتی تھی۔ ایک دن میں نے اس کو بلایا اور پوچھا ’’بیٹا تم گالیاں کیوں دیتی ہو؟‘‘
اس نے کہا ’’سر! میرے ابو امی کو اسی طرح گالی دیتے ہیں۔‘‘
بہرحال یہ بدکلامی اور بد گوئی ہمارے معاشرے کے بگڑے اخلاق کی نشان دہی کرتی ہیں۔
اب تو حال یہ ہے کہ بد کلامی منبر و محراب سے نکل کر ایوانِ اقتدار تک پہنچ چکی ہے۔ علما اور واعظین مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو نازیبا الفاظ سے پکارتے ہیں۔ اسمبلیوں میں قومی نمائندے ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اور اکثر مار پیٹ کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ وطالبات بھی آئے دن ایک دوسرے سے نہ صرف لڑتے جھگڑتے ہیں بلکہ عام حالات میں گالم گلوچ بھی کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذومعنی الفاظ بھی بولنے سے منع فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کہ ایسے الفاظ نہ بولے جائیں جن کے اچھے اور برے دونوں معنی نکلتے ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ البقرہ آیت 104 میں مومنین کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہونے کے لیے انظرنا کہنے کا حکم دیا، جب کہ یہودی آپؐ کو راعنا کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی آپؐ کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت سست کہہ رہے تھے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش تھے تو آپؐ مسکرا رہے تھے، مگر جیسے ہی ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا، آپؐ ناراض ہوگئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: یارسول اللہ آپؐ تو اس سے ناراض نہیں ہوئے۔ تو آپؐ نے فرمایا ’’جب تک تم خاموش تھے ایک فرشتہ تمہاری طرف سے اس کو جواب دے رہا تھا، مگر جیسے ہی تم نے جواب دیا فرشتہ چلا گیا۔‘‘ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ لوگوں کی بدکلامی کا جواب نہیں دینا چاہیے۔
سورۃ الحجرات میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! نہ مرد مردوں کا مذاق اڑائیں اور نہ عورتیں عورتوں کا۔ ہوسکتا ہے وہ تم سے بہتر ہوں۔ کسی پر عیب نہ لگائو اور نہ برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا نہ کرو۔ جو ایسا کرے گا ظالموں میں شمار ہوگا۔‘‘
’’ایمان والو! بدگمانیاں نہ کرو، زیادہ بد گمانیاں گناہ ہے۔ کسی کی غیبت نہ کرو، یہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔ تجسس نہ کرو۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
آج جہاں کہیں کچھ لوگ بیٹھتے ہیں اس طرح کی گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم کسی ایسی محفل سے اٹھے ہو جو اللہ اور رسولؐ کے ذکر سے خالی تھی تو تم گویا مُردار گدھے کی صحبت سے اٹھے ہو۔‘‘ پاکستان مسلم ملک ہے لیکن آج حالت یہ ہے کہ بڑی جماعت کے قائدین بھی اس بدکلامی سے مبرا نہیں ہیں۔ گزشتہ چند سال سے سوشل میڈیا کے توسط سے ایک دوسرے پر تبرا کرنا معمول ہے، بلکہ ایک جماعت نے تو مخالفین کو لعن طعن کرنے کے لیے باضابطہ نیٹ ورک قائم کردیا ہے جن کا وتیرہ مخالفین کو رات دن گالیاں دینا اور اُن کی ہتک کرنا ہے۔ حتیٰ کہ عام آدمی ہو یا کوئی بڑے رتبے والا، کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ گزشتہ سال تو مسجد نبویؐ میں بھی مخالفین کو بدکلامی سے نوازا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر زبان سے لگایا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ سب سے بڑی آفت آفات اللسان ہے۔ اگر ہو گفتگو بنائے فتنہ، تو بہتر ہے منہ سے کچھ نہ بولو۔
تیری تلخ نوائی سے برپا ہوا ہنگامہ
ورنہ تو یہ شہر گلشنِ محبت تھا
بدکلامی اور بد زبانی میں سب سے بڑا کردار فلموں، ڈراموں اور سوشل میڈیا کے مختلف ورژن میں بولے جانے والے مکالموں اور کلمات کا ہے جس نے نہ صرف ادب و احترام کے پرخچے اڑا دیے بلکہ حیا سوزی کے تمام ریکارڈ بھی توڑ دیے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور بزرگ سب کے سب اس بدکلامی اور بدزبانی کی جارحیت کا شکار ہیں۔ جلسے اور جلوسوں میں مخالفین کے لیے نازیبا الفاظ کے استعمال کو رواجِ عام حاصل ہوگیا ہے۔ طرح طرح کے القابات سے مخالفین کو نوازنا فن بنا لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مشہورِ زمانہ مزاحیہ اداکاروں نے تو حد کردی ہے۔ ہندوستان میں کپل شرما شو میں نیم عریاں اداکاراؤں کو بٹھاکر غیر مہذب اور حیا سوز گفتگو کو خاص پذیرائی حاصل ہوتی جارہی ہے اور اس شو کے ذریعے کروڑوں کی کمائی کی جارہی ہے۔ محرم اور میاں بیوی کے پاکیزہ رشتوں کو غلیظ الفاظ سے نوازنا اور داد وصول کرنا پیشہ بن چکا ہے۔ ٹک ٹاک کے ذریعے اس زبان کی عریانی بڑھ چڑھ کر اس لیے کی جا رہی ہے کہ شہرت اور زیادہ سے زیادہ لائکس ملنے کے بعد ادارہ ڈالروں میں ادائی کرتا ہے۔
قصہ مختصر کہ اس زبان کی اباحیت نے انسانی تکریم کو مکمل طور پر پامال کردیا ہے۔ اس کا سدباب صرف اور صرف خدا خوفی اور فکرِ آخرت ہے۔ یہ معاشرے کا ایسا انتشار اور فتنہ ہے کہ اگر اس کے سامنے بند نہ باندھا گیا تو رشتوں کے تقدس کے ساتھ ساتھ خاندان اور معاشرہ بکھر جائے گا۔ اللہ ہمیں بدکلامی اور بدگوئی سے محفوظ رکھے اور ’’قولو للناس حسنا‘‘ کے مصداق بنا دے جو آدمیت کی پہچان اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔