اقبالؒ،امت مسلمہ کا عظیم محسن

164

علامہ کی زندگی، ان کے فلسفے، ان کی شاعری پر اور ان کے ملت اسلامیہ کے ایک عظیم محسن ہونے کے ناطے بے شمار تصانیف موجود ہیں۔ اگر صرف برصغیر ہندستان (اب پاک و ہند) کے مسلمانوں پر ان کے احسانات کی تفصیل لکھی جائے تو اس کے لیے کئی دفتر درکار ہوں گے۔ تاہم، اس مختصر مضمون میں ان کے ارشاداتِ عالیہ کے بعض اہم ترین گوشوں پر تاثرات بیان کروںگا۔

علامہ ایک نابغہ روزگار اور عبقری دانش ور، فلسفی اور شاعر تھے۔سب سے بڑھ کر وہ قافلۂ ملّی کے حدی خوان تھے۔ انھیں عملی سیاست سے بھی دلچسپی رہی۔ وہ ۱۹۲۰ء سے ۱۹۳۰ء تک پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی (ان دنوں یہی نام تھا صوبائی اسمبلی کا) کے رکن رہے۔ ۱۹۳۰ء میں کُل ہند مسلم لیگ کے صدر رہے۔ اسی سال دسمبر کے مہینے میں شہر ’الٰہ آباد‘ کے مقام پر، ہندستان کے سیاسی مسئلے کے حل کے طور پر انھوں نے پہلی بار مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خودمختار ملک کی تجویز پیش کی اور اس کے حق میں ناقابلِ تردید دلائل دیئے۔ واضح رہے کہ بابائے قوم قائداعظم کی طرح ، علامہ اقبال بھی کئی برس تک ’نیشنلسٹ مسلمان‘ رہے اور انگریزوں سے ہندستان کو آزاد کرانے کے لیے انھوں نے اپنی تمام توانائیاں صرف کیں۔ ہندستان کے شمال مشرقی اور شمال مغربی منطقے (مسلم آبادی والے صوبوں) میں قائم ہونے والی ریاست (مملکت/سٹیٹ) کو چودھری رحمت علی [م:۳ فروری ۱۹۵۱ء] نے ’پاکستان‘ کا نام دیا تھا۔

علامہ اقبال Reconstruction of Islamic Thought (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ) کے علاوہ بہت سے ’نثری‘ مجموعوں کے مصنف تھے۔ اُردو میں آپ نے شعری زبان کی تین شہرئہ آفاق کتابیں تصنیف کیں: بانگِ درا، بال جبریل اور ضربِ کلیم۔ارمغانِ حجاز ان کا شہکار ہے اور جو ان کی وفات کے بعد نومبر ۱۹۳۸ء میں طبع ہوئی۔ اس کتاب کا نصف اوّل فارسی رباعیات پر مشتمل اور نصف ثانی (یا اس سے کم) اُردو میں ہے۔ فارسی زبان میں پیام مشرق، زبورِ عجم ، جاوید نامہ ، اسرارِ رموز، اسرارخودی اور رموزِ بے خودی تصنیف کیں۔ فارسی زبان میں ان کی اوّلین تصنیف پیامِ مشرق ۱۹۲۳ء میں اور اوّلین اُردو تصنیف بانگِ درا ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئیں۔

علامہ اقبال۱۹۲۲ء میں ’آل پارٹیز مسلم کانفرنس‘ کے بھی صدر رہے تھے۔ لندن میں جو ’گول میز کانفرنس‘ (۱۹۳۰-۱۹۳۲ء) ہوئی تھی اور جس میں ہندستان کے چوٹی کے زعما (ہندو، مسلم، سکھ وغیرہ) شریک ہوئے تھے، اس میں علامہ نے بھی شرکت کی۔ قائداعظم نے صرف ایک بار، شروع میں شرکت کی اور وہاں وہ معرکہ آرائی کی کہ حکومت برطانیہ نے بعد کی دو کانفرنسوں میں جناح صاحب کو مدعو نہیں کیا۔ اس سفر سے واپسی پر علامہ اقبال اسپین گئے اور انھوں نے مسجد قرطبہ میں نماز ادا کی۔ وہیں، مسجد قرطبہ میں ’مسجد قرطبہ‘ کے عنوان کے تحت وہ نظم لکھی جو ان کے کلام میں’چوٹی کی نظموں‘ میں شمار ہوتی ہے (دیکھیے بالِ جبریل ، ص ۱۲۶ تا ۱۳۷)۔ علامہ نے جو اُردو میں معرکہ آرا نظمیں لکھی ہیں، ان میں ’مسجد قرطبہ‘ کے علاوہ ’طلوعِ اسلام‘، ’شمع اور شاعر‘، ’شکوہ اور جوابِ شکوہ‘ اور ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ وغیرہ شامل ہیں۔ وہ ان کی شاعری کے شہکار ہیں۔

علامہ اقبال نے ہی مسٹرمحمدعلی جناح (بعدازاں قائداعظم) کو انگلینڈ سے واپس آکر مسلمانانِ ہند کی سیاسی قیادت کرنے کی دعوت دی تھی اور انھیں لکھا تھا کہ سارے ہندستان میں مجھے آپ جیسا ایک شخص بھی نظر نہیں آتا جو مسلمانوں کی ڈگمگاتی کشتی کو ساحلِ مراد تک پہنچانے کے لیے ان کا ’مقدمہ‘ لڑسکے۔ قائداعظم ’آزردہ خاطر‘ اور ایک لحاظ سے ’نااُمید‘ ہوکر سیاست ترک کرکے انگلستان میں جابسے تھے۔ ’از دل خیزد بر دل ریزد‘ کے مصداق علامہ کے خط کا خاطرخواہ اثر ہوا اور مسٹر جناح آمادہ ہوگئے کہ وہ ہندستان واپس آکر مسلمانوں کی قیادت کریں۔

قائداعظم ، علامہ اقبال کی کس قدر تعظیم و تکریم کرتے تھے، اس کا اندازہ قائداعظم کے صرف اس قول سے کیا جاسکتا ہے کہ ’’اگر ایک طرف مجھے دُنیا بھر کی حکومت کی پیش کش ہو اور دوسری طرف علامہ اقبال کے ’کلام‘ کی تو میں علامہ کے’کلام‘ کو ترجیح دوں گا‘‘۔

علامہ اقبال اور قائداعظم عبقری دانش ور تھے۔ دونوں ’دیدہ وَر‘ تھے، دونوں ملت اسلامیہ کے بہی خواہ، دونوں مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ کی واپسی کے متمنی اور دونوں بے غرض رہنما تھے۔ علامہ کا ’خطبہ الٰہ آباد‘ اور قائداعظم کے ’چودہ نکات‘ پڑھیں تو آپ لازماً اس بیان کی تصدیق کریں گے۔

علامہ نے سب سے زیادہ زور’خود شناسی‘ اور ’خودی‘ پر دیا ہے۔ وہ رومی ثانی تھے۔ انھوں نے اپنے بلیغ کلام کے ذریعے بالخصوص ضربِ کلیم لکھ کر مسلمانانِ ہند کو ان کی عظمت ِ رفتہ یاد دلائی، انھیں خوابِ غفلت بلکہ خوابِ خرگوش سے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت پر اُکسایا۔

علامہ کوجوانوں سے بڑی محبت تھی کیونکہ کسی بھی قوم کے جوان ہی اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ وہ ’آہ سحرگاہی‘ کے لیے اُٹھتے تو اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے:

جوانوں کو مری آہِ سَحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پَر دے

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

جیسے اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جوانوں سے اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔

علامہ اقبال، علماء حق کا بڑا ادب و احترام کرتے تھے، ان کی آنکھ اسلام اور مسلمانوں کے غم میں نمناک رہتی تھی۔ جناب رسالت مآبؐ کا نام نامی اوراسمِ گرامی سن کر ان پر گریہ طاری ہوجاتا تھا۔رسولؐ اللہ سے اُن کی محبت کی گہرائی کا اندازہ کرنے کے لیے ارمغان حجاز (بحضور رسالت مآبؐ) دیکھیے یا اسرار و رموز کی آخری نظم ’عرض حال مصنف بحضور رحمۃ للعالمینؐ ، کا مطالعہ کیجیے۔

علامہ نے ’عزّت نفس‘ (خودی=خودداری وغیرہ وغیرہ) کی حفاظت کے لیےمسلمانوں کو جھنجوڑا ہے۔ انھیں اپنی تصنیف زبورِ عجم (بزبان فارسی) بہت پسند تھی۔ اس میں موتیوں میں تلنے والی غزلیں ہیں۔ خود فرماتے ہیں کہ وقت ملے تو فراغت میں زبورِ عجم کا مطالعہ کر! یہ غزلیں نغمگی سے پُر ہیں۔

علامہ’ حکومتِ الٰہیہ‘ کے قیام کے داعی اور نقیب تھے (دیکھیے ان کی نظم ’حکومت الٰہیہ‘)۔ یہ نظم سیکولرازم کے قائلین کو آئینہ دکھاتی ہے۔

علامہ ہر طرح کے استحصال کے دشمن تھے، ان کا تمام کلام اس پر شاہد ہے۔ انھیں سب سے زیادہ دُکھ اس بات کا تھا کہ ’’ہمارے امیر ’مال مست‘ اور ہمارے غریب ’حال مست‘ ہیں۔ وہ ’انقلاب‘ کے عظیم داعی تھے:

خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب

انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!

سرمایہ دار مزدور کے خون سے سرخ موتی بناتا ہے، اُدھر زمین داروں کے ظلم سے دہقانوں کی کھیتیاں اُجڑ چکی ہیں۔ انقلاب! انقلاب!اے انقلاب!
وہ جاگیرداری نظام اور فیوڈل ازم کے سخت مخالف تھے۔ ذرا ان کی درج ذیل رُباعی پر غور فرمائیں:

خدا آں ملتے را سروری داد
کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت

بہ آں ملّت سروکارے ندارد
کہ دہقانش براے دیگراں کشت

اللہ تعالیٰ صرف اسی قوم کو سرداری عطا فرماتے ہیں، جو خود اپنے ہاتھ سے اپنی تقدیر لکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی قوم سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، جس کا دہقان دوسروں کے لیے کھیتی بُوتا ہے۔

مسلمانوں کے قرآن حکیم سے دُور ہونے کا انھیں بڑا غم اور دُکھ تھا۔ سود کو ختم کرنے پر بڑا زور دیا ہے۔ ذرا درج ذیل اشعار میں تدبر کیجیے:

گر تومی خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن

اگر تو مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتا ہے تو ایسی زندگی قرآنِ پاک کے بغیر ممکن نہیں۔

برہمن از بتاں طاق خود آراست
تو قرآں را سر طاقے نہادی

برہمن نے تو اپنے طاق کو بتوں سے آراستہ کرلیا، (مگر) تُو نے قرآن کو طاق (نسیاں) پر رکھ دیا۔

بآیاش ترا کار جز ایں نیست
کہ از یاسین آو آساں پیمبری

اس کی آیات سے تجھے صرف اتنا سروکار ہے کہ مرتے وقت یٰسین پڑھ لے تاکہ جان آسانی سے نکل جائے۔

صاحب قرآن و بے ذوق طلب
العجب ثم العجب ثم العجب!

قرآن پاس ہے اور ذوقِ طلب سے خالی ہیں۔ العجب ثم العجب ثم العجب!

خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی

تو قرآن (پر عمل) چھوڑنے کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوچکا ہے اور شکوہ گردشِ دوراں کا کرتا ہے۔

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

جز بقرآں صیغمی روباہی است
فقرِ قرآں اصلِ شاہنشاہی است

قرآن پاک کے بغیرشیری روباہی ہے۔ قرآن پاک کا فقر ہی اصل شہنشاہی ہے۔

چیست قرآں؟ خواجہ را پیغام مرگ
دستگیر بندہ بے ساز و برگ

قرآن پاک آقا کے لیے موت کا پیغام ہے اور بے سروسامان بندے کا دستگیر۔

ہیچ خیر از مروک زرکش مجو!
لن تنالو البر حتٰی تنفقوا!

دولت کے پجاری سے کسی بھلائی کی اُمید نہ رکھ۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ ’’تم نیکی نہیں پاسکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو‘‘۔

از ربا آخرچہ می زاید؟ فتن
کس نداند لذت قرض حسن!

سود سے سوائےفتنے کے اور کیا بڑھتا ہے۔ قرضِ حسنہ کی لذت کوئی نہیں جانتا۔

از ربا جاں تیرہ ، دل چوں خشت و سنگ
آدمی درندہ بے دندان و چنگ

سود سے جان سیاہ ہوجاتی ہے اور دل پتھر کی طرح ۔ سود خور ایسا درندہ ہے جس کے دانت اور پنجے نہ ہوں۔

رزق خود را از زمں ردن رواست
ایں متاع بندہ و ملک خداست

رزق کو زمین سے حاصل کرنا جائز ہے۔ زمین بندے کے لیے فائدہ اُٹھانے کی چیز ہے لیکن ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔

بندہ مومن امیں ، حق مالک است
غیر حق ہر شے کہ بینی ہالک است!

بندئہ مومن امانت دار ہے۔ مالک حق تعالیٰ ہے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ کے سوا ہرشے ہلاک ہوجانے والی ہے۔

آب و نان ماست ازیک مائدہ
دودہ آدم کَنَفْسٍ وَّاحِدَہ

ہماری روٹی اور پانی ایک دسترخوان ہے۔ آدم کا خاندان نفسِ واحد کی مانند ہے۔
علامہ نے کمیونزم کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے۔ یہاں صرف ایک شعر نقل کرتا ہوں:

دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے ، دل یا شکم

سبب کچھ اور ہے ، تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں

علامہ نے اسلامی ، فلاحی ، جمہوری مملکت کے قیام پر بڑا زور دیا ہے۔ ’مغربی جمہوریت‘ سے متعلق فرماتے ہیں:

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن ، اندروں چنگیز سے تاریک تر

دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

گریز از طرز جمہوری ، غلامِ پختہ کارے شو
کہ از مغزِ دو صدخر فکرِ انسانے نمی آید

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:

ہست شانِ رحمتت گیتی نواز
آرزو دارم کہ میرم در حجاز

آپؐ کی شانِ رحمت ایک زمانے کو نوازتی ہے، میری یہ آرزو ہے کہ میرا آخری وقت حجاز میں آئے۔

کوکبم را دیدئہ بیدار بخش
مرقدے در سایۂ دیوار بخش

میری قسمت کے ستارے کو بھی دیدئہ بیدار عطا فرمایئے (میری قسمت بھی چمک اُٹھے) اپنی دیوار کے سایے میں مجھے مرقد نصیب فرمایئے۔

ملت اسلامیہ کے جملہ افراد سے کہتے ہیں:

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا! لوح و قلم تیرے ہیں!

حصہ