آخرشب کے ہم سفر

45

شام کو ہم تینوں برآمدے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ بسنت نے مجھ سے کہا۔ کل روانگی ہے۔ سامان باندھ لو (میرے پاس سامان ہی کیا تھا، جو ساری پہن کر میں مہم پر گئی تھی وہ خون میں تربتر ہوچکی تھی، ہسپتال میں انہوں نے ایک بھدا سا روب پہننے کو دے دیا تھا۔ مجھے وہ روب بہت چبھتا تھا بے چاری خدیجہ نے مجھے اپنی ساری اور بلائوز اور پیٹی کوٹ پہننے کو دے دیا تھا۔ روزانہ وہ اپنی ایک ساری دھوکر سکھا کر مجھے پہننے کو دیتی۔ وہ خود بہت غریب لڑکی تھی۔ ایک مسلمان چپراسی کی بیٹی۔ دوسری عورتوں نے بھی مجھے اپنی ساریاں پہننے کو دیں۔ یہ سب مفلس عورتیں تھیں۔ دیپالی)۔

’’سامان میرے پاس کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے۔ ’’بالکل عادتاً منہ سے نکل گیا‘‘۔
’’میں روزی کو کل بازار لے جائوں گی‘‘۔ رنجنا بولیں۔
’’یہاں کے بازار میں کیا رکھا ہے۔ جب وہ کلکتہ پہنچے گی تو…‘‘بسنت بابو نے کہنا شروع کیا۔
’’کلکتہ کیوں…؟‘‘میں نے ان کی بات کاٹی۔

’’کلکتے اس لئے کہ میں تم سے شادی کررہا ہوں‘‘۔ بسنت بابو نے جواب دیا۔

اسے ویمنز میگزین رومانس، طوفانی محبت، سنڈریلا اسٹوری وغیرہ وغیرہ کیا کہتے ہیں۔ اپنا تجربہ تو بہرحال یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کے واقعات زندگی میں یقینا ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

میں نے پاپا کا غیض و غضب، یہ انوکھی، پُرخطر صورت، ہر چیز نظر انداز کردی۔

سول میرج کے لئے عدالت جانا پڑا۔ اور نئے قصے اُٹھ کھڑے ہوتے۔ چنانچہ دوسرے روز رات کو چپکے سے پنڈت کو بلایا گیا۔ ٹپکل موٹا تازہ برہمن۔ ڈرائینگ روم میں پھیرے پڑے۔ باقاعدہ۔ میرا نام رادھیکا رکھا گیا۔ بسنت نے مجھے بتایا کہ بنگالی ویشنومت میں ہر مرد کرشن اور ہر عورت رادھا کا تصور ہے۔ لَولی آئیڈیا۔

مذہب وزہب سب میرے لئے بے معنی بات ہے۔ چرچ کا پادری چند الفاظ دہرا دیتا۔ پنڈت نے بھی اسی طرح کچھ جمبو جمبو کہہ دیا۔ اصلی چیز محبت ہے۔

تین روز بعد ہم لوگ کلکتے آگئے۔ بسنت کی کوٹھی بالی گنج میں ہے۔ بے حد اعلیٰ خاندان۔ ان کے بابا کلکتہ کے مشہور سرجن ہیں۔ بڑے بھائی بیرسٹر۔ بسنت کی بھابی بھی ڈاکٹر ہیں۔ میری نند بروبورن کالج میں کیمسٹری کی لیکچر رہی۔ بڑا روشن خیال اور کلچرڈ خاندان ہے۔ میرے سُسر اور جیٹھ نے جو بڑے جوشیلے قوم پرست ہیں فخر سے میرا سواگت کیا۔ لیکن ساس اور کنبے کی دوسری بڑی بوڑھیاں اس شادی سے خوش نہیں ہیں، کیونکہ بہرحال میں عیسائی ہوں۔ اور ایک گم نام غریب پادری کی لڑکی۔ مگر یہ لوگ اتنے شائستہ ہیں کہ اپنے کسی رویے سے اپنی ناخوشی کا اظہار نہیں کرتیں۔ اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ بسنت کمار مجھے کتنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بے حد SOPHISTICATED خاندان ہے۔ ادما رائے کے خاندان جیسا۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد میری ساس اور دوسری بوڑھی خواتین میرے برتائو سے خوش ہوجائیں گی۔

ہماری کوٹھی سر پری توش رائے کے بیٹے کی کوٹھی کے پڑوس ہی میں ہے۔ میرے جیٹھ اور بسنت کی مسٹر رائے سے بہت دوستی ہے۔ چناچہ دیپالی اب میں جہاں آراء اور ادما رائے والے اس اونچ طبقہ میں شامل ہوچکی ہوں جس پر مجھے اپنے احساس کمتری کی وجہ سے اتنا رشک آیا کرتا تھا۔ یہ سب باتیں میں اس سچائی سے تم کو لکھ رہی ہوں۔ کسی اور کو نہیں لکھ سکتی۔

سانیال بہت دولت مند خاندان ہے اور دیپالی میری ساری عمر عسرت میں کٹی۔ اب خوش ہوں کہ آسائش اور آرام کی زندگی گزاروں گی۔ روپئے کی قدر اسی کو ہوتی ہے جس نے ہمیشہ تنگی و ترشی سے بسر کی ہو۔ ہماری لِلی کاٹج کی زندگی تمہیں یاد ہے؟

پاپا اکثر اسرار ربانی کی بات کیا کرتے تھے۔ اور ذرا سوچو تو مجھے بسنت کس ذریعے سے ملے۔ اپنے پرانے دشمن چارلس بالو کے ذریعے! اگر چارلس بالو اپنی بہن کو ٹرنک کال نہ کرتا، وہ مجھ سے ملنے نہ آتیں۔ وہ اپنے ساتھ ربی بابو کو لے کر آئیں اور ربی بابو کے ساتھ بسنت کمار آئے!!

پاپا ظاہر ہے کہ ہندو سے شادی کرنے کی وجہ سے مجھے قطعی معاف نہ کریں گے۔ میں نے بھی ایک کے بعد ایک ان کو کتنے عظیم صدمے پہنچائے ہیں۔ کلکتے پہنچتے ہی میں نے اور بسنت نے اکٹھے پاپا کو خط لکھا اور ان سے ان کی BLESSINGS کی درخواست کی۔ آج صبح ان کا چند سطروں میں جواب آیا۔ لکھا ہے کہ وہ خداوند خدا کے شکر گزار ہیں کہ میں زندہ بچ گئی۔ اور خیریت سے ہوں۔ مگر میں نے یسوع کا دامن چھوڑ کر ایک بت پرست کافر سے شادی کرلی۔ اس وجہ سے وہ عمر بھر میری شکل نہ دیکھیں گے۔ لِلی کاٹج کے دروازے میرے اوپر ہمیشہ کے لئے بند ہیں۔ اور یہ کہ وہ میری روحانی نجات اور رنجش کے لئے برابر دُعا کرتے رہیں گے۔

اب ختم کرتی ہوں۔ دیپالی، بہت لمبا خط ہوگیا۔ ڈائیننگ روم میں لنچ کا گھنٹہ بج رہا ہے۔ اب بھاگوں۔ سسرال کا معاملہ ہے بھائی! پی۔ ایس۔ بسنت نے تم کو بہت بہت سلام کہا ہے۔ اور تم سے ملنے کے مشتاق ہیں۔ اب تم جلدی سے ہمارے پاس کلکتہ آئو۔

تمہاری رادھیکا روزی سانیال
بالی گنج، کلکتہ۔ ۸ اکتوبر ۴۲ء

(30)
ڈاکٹر بنوئے چندر سرکار

بھوتارنی دیبی نے کھانے کے کمرے کی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا کالے رنگ کی لمبی موٹی پھاٹک پر کھڑی تھی۔ یہ مس صاحب کل بھی آئیں تھیں۔ بنوے گھر پہ نہیں تھا۔ باہر سے باہر چلی گئیں۔ اب آج پھر آئی بیٹھی ہیں۔ بھوتارنی دیبی نے بیٹھک خانے کے دروازے میں جا کر پردے کے پیچھے سے نظر ڈالی۔ مہمان خاتون کو تیوری پر بل ڈال کر غور سے دیکھا۔ اور کھڑادیں پہنے کھٹ کھٹ کرتی رسوئی کی طرف چلی گئیں۔

ٹونو نے جا کر ڈاکٹر سرکار کو ان کی آمد کی اطلاع دی تھی۔ اچھا۔ بٹھائو۔ میں آتا ہوں‘‘۔

مریض اُٹھ کھڑا ہوا۔ ڈاکٹر سرکار نے چلمچی میں ہاتھ دھوئے اور تولیہ سے کلائیاں پونچھتے بیٹھک خانے میں آئے۔ اس وقت مہمان بی بی مسز سرکار مرحومہ کی تصویر کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔

’’نومشکار۔ ادما دیبی‘‘۔
’’نومشکار۔ بنوئے بابو‘‘۔ انہوں نے چونک کر کہا۔
’’دیپالی تو بول پور جاچکی ہے‘‘۔
’’مجھے معلوم ہے‘‘۔ وہ مسکرائیں۔

شیریں مسکراہٹ۔ ڈاکٹر سرکار صوفے پر چپکے بیٹھے رہے۔ بڑی عجیب بات ہے۔ شبانی کے مرنے کے بعد سے آج تک، اس گھر میں، اس کمرے میں۔ دیپالی اور بھوتارنی کے علاوہ اور کسی عورت کے قدم ہی نہیں آئے تھے۔

اُدما نے باتیں شروع کیں۔ سوشل ’’اسمال ٹاک‘‘۔ ٹونو اندر سے سلیٹی بید کی کشتی میں چار لے کر آیا۔ بھوتارنی دیبی نے باقاعدہ چاندی کا سیٹ مقفل الماری سے نکال کر نئی پیالیوں کے ساتھ چار بھیجی تھی۔ عمدہ ٹرے کلاتھ۔ جلدی میں ٹی کوزی کا غلاف تبدیل کرنا البتہ بھول گئیں۔

’’دیپالی تو اسی اتوار کو بول پور گئی ہے۔ اگر آپ جب آگئی ہوتیں تو اس سے ملاقات ہوجاتی‘‘۔

’’کیوں بنوئے بابو۔ کیا میں آپ سے ملاقات کرنے نہیں آسکتی؟‘‘

بنوئے بابو جھینپ گئے۔ ’’کیوں نہیں۔ کیوں نہیں‘‘… وہ ذرا سیلف کونشس ہو کر میز پر انگلیاں بجانے لگے۔ شبانی کے مرنے کے بعد سے انہیں خواتین سے غیر ضروری ’’اسمال ٹاک‘‘ کرنے کی عادت ہی نہیں رہی تھی۔

اُدما نے اُن پر ایک محفوظ نظر ڈال کر دینیش چندر آنجہانی کے پورٹریٹ کو دیکھا۔ واقعی دونوں بھائیوں میں بڑی گہری مشابہت تھی۔ بنوئے بابو بھی خاصے دلکش تھے۔ یہ آج غور سے دیکھنے پر پتا چلا۔ دیپالی نے اس روز پہلے روز ووڈ لینڈز کے مورننگ روم میں ان کے متعلق غلط نہیں کہا تھا۔ بنوئے بابو واقعی بہت جاذب نظر تھے۔

تھوڑی دیر بعد وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ بنوئے بابو ان کو پہچانے کے لیے پھاٹک تک گئے۔ واپس آکر پھر مطب میں جا بیٹھے۔

چند روز بعد اُدما پھر چندر کنج آئیں۔ یہ اتوار کا روز تھا۔ کوئی پندرہ منٹ مطب میں بیٹھیں اور کہا کل شام آئوں گی۔

دوسری شام وہ دیر تک دنیش چندر آنجہانی کی باتیں کرتی رہیں، جن کی وہ عقیدت مند اور پرستار تھیں۔ پھر شبانی کا تذکرہ چھڑا۔ ڈاکٹر سرکار مرحومہ شبانی کے متعلق کسی سے باتیں نہ کرتے تھے وہ ان کے نہاں خانہ دل کا ایک ایسا انمول خزانہ تھا کسی دوسرے سے اس کا ذکر کرنا ہی اس کی توہین تھی۔ مگر اُدما نے ایسے خلوص اور محبت سے شبانی کے متعلق پوچھا کہ وہ بے اختیار اس کا تذکرہ کرنے لگے۔ اس عورت کو وہ اپنا ہمراز بنا سکتے تھے۔ یہ عورت شاید جانتی تھی کہ مرد دراصل کتنا HELPLESS ہوتا ہے۔ اور ہر عورت میں شاید اپنی ماں کو ڈھونڈتا ہے۔

اب وہ شام کے وقت اُدما کا انتظار سا کرنے لگے تھے۔ تینوں لڑکے اس وقت کھیلنے کے لیے باہر چلے جاتے تھے ورنہ اپنے بابا کو برآمدے میں ذرا اُلجھن کے ساتھ ٹہلتا دیکھ کر نہ جانے کیا سمجھتے۔ مگر بھوتارنی دیبی ان کو بخشنے والی نہ تھیں۔ وہ تو ایسے کسی موقعے کے لئے برسوں سے اُدھار کھائے بیٹھی تھیں۔ ایک روز انہوں نے بنوئے بابو سے کہا۔ سرپری توش رائے کی ولایت پلٹ لڑکی میرے چاند سے بھیّا پر لٹُو ہوگئی ہے۔ اب اسے زیادہ دبدھے میں نہ رکھو۔ بڑھیا ہوئی جارہی ہے لاکھوں کا جہیز لائے گی… کیوں کھوکا…؟‘‘

’’دیدی…‘‘بنوئے بابو نے یک لخت بیحد جھنجھلا کر کہا۔ ’’آئندہ ایسی لچر۔ حماقت کی بات نہ کہنا‘‘۔

وہ ہونٹ پچکا کر مسکراتی اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔

مگر کہاں ماننے والی تھیں۔ دوسری شام جب ادما دیبی آئیں بھوتارنی دیبی نے جھپاک سے اندر پہنچ کر پان پیش کیا۔ ادما دیبی کھڑکی کے پاس بیٹھی ڈاکٹر سرکار کا وہ ذاتی البم دیکھ رہی تھیں جس میں ان کی لڑکپن، کالج کے زمانے، سیاسی دور، شادی اور ہنی مون کی تصویریں تھیں۔ اُن کی فرمائش اور اصرار پر بنوئے بابو نے فوراً یہ البم لا کر ان کو دے دیا تھا۔ اور خود کسی کام سے اپنے مطب کی طرف چلے گئے تھے۔ اُدما کی بھوتارنی دیبی سے اب تک ملاقات نہ ہوئی تھی۔ وہ ان سے بھی بہت گھل مل کر باتیں کرنے لگیں۔ کچھ دیر بعد بڑی بی نے پھٹ سے کہا۔ ’’اے تم بیاہ کب کرو گی بِٹیا؟‘‘

اسی لمحے ڈاکٹر سرکار کمرے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے انتہائی کوفت اور ندامت سے بڑی بہن کو دیکھا۔ ’’دیدی…!‘‘

اُدما بھی صاف جھینپ گئی تھیں۔ لیکن بھوتارنی دیبی نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’اے کیوں؟ تمہیں تو اپنی بیٹی تک کی شادی کی فکر نہیں۔ تم کو ان معاملات سے کیا غرض۔ جائو۔ تم باہر جا کر اپن فقٹے مریضوں کا ٹمپریچر لیتے رہو‘‘۔

اُدما دیبی سر جھکا کر مسکرانے لگیں۔ اس ہینڈسم، شرمیلے، تارک الدنیا ڈاکٹر سے ہلکا ہلکا فلرٹ کرنے میں لطف آرہا تھا۔ بڑی بی نے لے کے بیچارے کو بالکل ہی شرم سے لال بھبوکا کردیا۔

بھوتارنی دیبی اُٹھیں اور فاتحانہ انداز سے قدم اُٹھاتی کمرے سے باہر چلی گئیں۔

’’آپ۔ دیدی کی حماقت کا بُرا نہ مانئے گا۔ اُدما دیبی‘‘۔

’’قطعاً نہیں۔ میں پرانی نسل کی خواتین کو کیا جانتی نہیں ہوں!‘‘ انہوں نے شگفتگی سے جواب دیا۔

لیکن اسی رات جب سب لوگ سو گئے۔ تو بھاتارنی دیبی نے سرہانے کی کارنس سے قلم دوات اُتارا۔ بچوں کے کمرے میں دبے پائوں گئیں اور کھوکھو کی کاپی بک میں سے چند سادے کاغذ پھاڑے اپنے کمرے میں آکر پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی اور بھتیجی کو خط لکھنا شروع کیا۔ احتیاط سے آہستہ آہستہ حروف بنا کر انہوں نے لکھا۔ بیٹی۔ بھگوتی ماتا نے میری برسوں کی پرارتھنائیں سن لیں۔ شاید تمہارے باپ کا گھر بس جائے۔ اُدما دیبی کے آنے کی تفصیل۔ اُدما دیبی کی محبت اور خلوص۔ (اتنے بڑے باپ کی بیٹی۔ مگر غرور نام کو نہیں) کھوکا کو پسند کرنے لگی ہے۔ کھوکھا کا بھی عورت کے معاملے میں مَیں سمجھتی ہوں اب جا کر شاید دل نرم پڑا۔ یہ رشتہ مجھے لگتا ہے بہت مبارک ثابت ہوگا۔ کھوکھا کے اور تم سب کے دن بدل جائیں گے۔ اب تم ہی سوچو۔ تمہاری شادی ہوجائے گی (ماں سے پرارتھنا ہے تم کو کوئی ڈپٹی مجسٹریٹ ملے۔ رانی بن کر رہو۔ تم نے میری بچی بہت مصیبتیں بھوگ لیں) لڑکے کالج چلے جائیں گے۔ رہ گئی میں۔ کسی روز بھی میری آنکھ بند ہوگئی تو میرے کھوکھا کا پُرسان حال کون ہوگا۔ تو بیٹی خوش ہوجائو کہ اُدما جیسی امیر اور سمجھدار ماں ملے گی۔ باقی اس خط کا کھوکھا سے ذکر نہ کرنا۔ میں تمہیں بڑے راز سے خط لکھ رہی ہوں۔

تمہاری پھوپھی
بھوتارنی دیبی
(جاری ہے)

حصہ