حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس امت کے چند قیمتی دل و دماغ بیٹھے تھے۔ حضرت عمرؓ کا جی چاہا کہ ہم ایک دوسرے کے دل میں جھانک کر ایک دوسرے کے باطن سے بھی ملاقات کیوں نہ کر دیکھیں!
اس کے لیے ان کی مومنانہ فراست کو بڑی اچھی راہ سوجھی… حق یہ ہے کہ مومن کی فراست کا جواب نہیں۔ وہ تو خدا کی روشنی میں دیکھتا ہے۔
’’ تم لوگ کوئی آرزو کرو‘‘۔ انہوں نے ارباب محفل سے کہا اور گویا اس طرح دلوں کے دریچوں پر دستک دے دی… ’’سوچو! اس وقت وہ کیا شے ہے جس کو تمہارا جی چاہتا ہے ؟‘‘
شرکائے محفل نے یہ بات سنی اور اس شغل حسین کی تجویز سے بہت محظوظ ہوئے۔ اچھے لوگوں کی تفریح بھی کیسی اچھی ہوتی ہے۔
’’میں اس بات کی تمنا کرتا ہوں‘‘۔ ان میں سے ایک نے کہنا شروع کیا کہ ’’کاش! یہ گھر سونے چاندی سے بھر پور خزانہ ہوتا اور… میں اس خزانے کو اپنے اللہ کی گلی میں دونوں ہاتھوں سے لٹا دیتا… لٹا دیتا اور دامن جھاڑ کر کھڑا ہوجاتا‘‘۔
یہ تمنا!…
کیسی پیاری تمنا تھی یہ !
سب کچھ پانے اور کھو دینے کی تمنا ! سب کچھ کھو کر سب کچھ پالینے کی آرزو!!
اس اظہار تمنا نے حاضرین کے جذبات کی ایک بہت عمدہ طرح ڈال دی تھی چنانچہ سب کے جذبات اسی سمت میں بہہ نکلے۔ دوسری آواز جو اس کے بعد سنی گئی وہ بھی گویا پہلی آواز کی بازگشت ہی تھی۔
’’اے کاش!‘‘ کسی نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا ’’اے کاش! یہ مکان پکھراج اور جواہرات سے بھر پور ہوتا! اور میں یہ ساری دولت دنیا اللہ کے قدموں میں ڈال کر پکار اٹھتا کہ میرے مالک! مجھے صرف تو اور تیری رضا چاہئے؟‘‘
’’ اچھا، کوئی اور تمنا کرو! مومنانہ سینوں کی اس پر شوق موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے حضرت عمرؓ بولے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کے اپنے دل میں جو آرزو کروٹیں لے رہی ہے آپ کا جی چاہتا ہے کہ وہی آرزو ان لوگوں کے اندر جاگ اٹھے اور پھر ان کی ہونٹوں پر اس کا جاں نواز ’’رقص شرر‘‘ ہو۔
کچھ دیر کے لیے ایک گہری خاموشی چھا گئی… ایک ایسی خاموشی جس میں دل کے دھڑکنے کی آواز اپنے کانوں کو سنائی دینے لگتی ہے۔ تجسس، کھوج اور دلچسپی کا سہ آتشہ سوال ہر ذہن کے افق پر پر اسرار ستارے کی طرح ابھر رہا تھا۔ ’’بھلا اب اور کیا چاہا جائے؟!… جو کچھ چاہا جا سکتا تھا وہ یہی تھا کہ ہم اس جہان کی سب سے قیمتی پونجی پائیں اور پھر اس کو ’’زمین و آسمان کے نور‘‘ اللہ رب العالمین کے لیے ہنسی خوشی لٹا دیں… اور… ظاہر ہے سونا چاندی ،زر و جواہر ہی اس دولت کی آخری حسین ترین شکلیں ہیں‘‘۔
’’ ہم نہیں جانتے۔ اے مومن کے سردار ! ’’آخر سب لوگوں نے ہار مان لی کہ’’ آخراب اور کس چیز کی آرزو کریں ؟‘‘۔
ہائے میرے مالک! کیسے تھے وہ لوگ جو یہ نہیں جانتے تھے کہ تیری آرزو کے بعد اب اور کیا آرزو کی جائے!… ہائے وہ سینے جنہوں نے اپنے اندر تیری آرزو کو بسا کر تمام جہان آرزو کے لیے اپنے دل کی کھڑکیاں بند کر لی تھیں!… جو دنیااور اس کی پونجی کی آرزو تو کرتے ہیں مگر صرف اس لیے کہ اس کے لیے خود بک جانے کے بجائے اس کو بیچ کر جنت خریدی جائے…خدا کو حاصل کر لیا جائے!
محفل کا جذباتی اشتیاق اپنی آخری انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔ لوگوں کے کانوں نے اب تک ایمان و ایثار کے جو نغمات آرزو سنے تھے، شاید اس سے بھی بڑا کوئی سرمدی نغمہ ابھی اس ساز کے پردوں میں روپوش تھا جس کی مضراب قلب عمرؓ کی چند بے قرار دھڑکنوں کے ہاتھ میں تھی… لوگ منتظر ہیں، سراپا انتظار ہیں…کہ دیکھیں امیر المومنین کے منہ سے کیا بات سنتے ہیں!
’’ میں آرزو کرتا ہوں ‘‘ گہری خاموشی کو تھر تھراتی اور دلوں کو تیز دھڑکاتی ہوئی آخر صدائے فاروقی بلند ہو ہی گئی۔ ہاں لوگو! میں آرزو کرتا ہوں کہ یہ غریب خانہ ابو عبیدہؓ بن الجراح، معاذؓ بن جبل، سالم مولیٰ ابی حذیفہ اور حذیفہ بن الیمان جیسی گرانمایہ ہستیوں سے معمور ہوتا!…اے کاش …‘‘
اس حرف آرزو پر دھک دھک کرتے ہوئے دل تڑپ کر آنکھوں اور لبوں تک کھینچ آئے! کچھ لبوں پر اشک ایمانی میں ڈوبی ہوئی ایک’’ آہ‘‘ تھی۔ پرسوز، حسرت آمیز ، روح کی گہرائیوں سے ابھری ہوئی کہ حیف! ایسے قیمتی انسانوں کی فہرست میں ہم اپنا نام نہ لکھا سکے! اور کچھ آنکھوں میں اس قلبی تحسین کی ’’واہ‘‘ تھی کہ امیر المومنین نے راہ مولا میں جس شے کی آرزو کی ہے، حقیقتاًاس کے قدموں کی تو دھول بھی ہفت اقلیم کے خزانوں پر بھاری ہے!…
……٭٭٭……
کوئی شخص ہمہ تن جذب و شوق بنا ہوا اللہ کی آخری کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہاں یہ خود اللہ کے الفاظ تھے جس کو دیکھنے کے لیے ہر مومن کی آنکھیں عمر بھر ترستی ہیں۔
ہاں، یہ انسان کی آواز تھی… ایک ایسے انسان کی آواز جس کو اس کائنات کی فضاؤں نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے سنا تھا۔ مگر آج تک جس کے تصور سے پوری کائنات پر وجد طاری ہے۔ ایک آواز جس کے لیے غوغائے زندگی سے کچلی ہوئی دنیا نہ جانے کب سے گوش بر آواز ہے…ایک آواز جو ہونٹوں کی جنبش کے بجائے دل کی لرزشوں سے پیدا ہوتی تھی۔
آدمی کی آواز دل ملنے سے نہ جانے ’’کیا شے ‘‘ پیدا ہوئی خدا کے الفاظ اور تھے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ اس کو سن کر اس و وقت چلتے چلتے رک گئیں… کھڑی کی کھڑی رہ گئیں!… جب ان کے بے تاب و پر شوق قدم محبوبؐ خدا کی طرف اٹھ رہے تھے۔ ہاں! اتنے پر شوق قدم بھی اس آواز نے روک لیے تھے!۔ آپ اس وقت سراپا گوش ہو کر رہ گئیں، اور اس تلاوت میں ڈوب سکی گئیں کہ جس میں خدا کے الفاظ اور آدمی کی بے قرار ہوک نے مل کر جذبات کی دنیا میں زبردست ہلچل برپا کر دی تھی۔
اس جاں نواز تلاوت قرآنی کے سوز و ساز میں ڈوبی ہوئی حضرت عائشہؓ آنحضرتؐ کی خدمت میں پہنچیں اور سرور کائناتؐ نے ان کے رک جانے کی وجہ معلوم کی۔
’’خدا کا کوئی بندہ قرآن پڑھ رہا تھا!‘‘ حضرت عائشہؓ کی آواز میں درد تھا ’’ اور ایسا پڑھ رہا تھا کہ بس کیا بتاؤں! میں اس کو سنتی رہ گئی‘‘۔
یکا یک حضورؐ اپنی جگہ سے بے تابانہ اٹھے!… چادر سنبھالتے ہوئے کشاں کشاں وہاں پہنچے جہاں وہ آدمی قرآن پڑھ رہا تھا کہ جس کی تلاوت کے ذکر جمیل نے حامل قرآن اور ضبط وحی کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ یا اللہ ! وہ کیسا آدمی تھا!
اور… وہ آدمی وہی شخص نکلا جس کی آرزو حضرت عمرؓ نے کی تھی۔
ہاں یہ سالمؓ مولی ابن حذیفہ ہی تھے۔ آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ ایک عجیب والہانہ کیفیت سے وہ ہستیؐ ان کو تک رہی ہے کہ جس کے سینے پر قرآن نازل ہوا تھا، آنکھیں چار ہوئیں اور چند لے، ہائے وہ چند لمحے جو دنیا میں بیٹھے بیٹھے جنت میں گزر گئے! خدا جانے قرآنی سوز میں ڈوبا ہوا سالمؓ کا چہرہ، آنسوؤں اور نورمیں ڈوبا ہوا چہرہ حضورؐ کو کیسا نظر آیا کہ آپ بے اختیار پکار اٹھے:
’’کیا ہی خوب ہے وہ خدا جس نے میری امت میں تم جیسے لوگ پیدا کیے :
یہ تعریف !… جس میں لفظ گنتی کے اور معنی اتھاہ تھے۔
یہ کتنی بڑی تعریف تھی!، اتنی بڑی کہ سننے والا اس کو سن کر فرط خوشی اور فرط عجز سے رو دیا !۔
حالانکہ دیکھئے تو بظاہر حضرت سالمؓ محض قرآن پڑھ رہے تھے۔ وہی قرآن جس کو ہم بھی بار بار پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن کیا سچ سچ یہ محض قرآن کا پڑھنا ہی تھا؟، خدا کے لفظوں کو محض نوک زبان سے دہرانا ہی تھا؟۔ یا قرآن پر، اللہ تعالی کی گفتگو پر سر دھنتے دھنتے ایک مومن کی زندگی قرآن ہی میں ڈھل کر رہ گئی تھی ؟
اب کون ہے جو اس کا فیصلہ کرے؟ اب جب کہ ہم جیسے لوگوں کو قرآن محض ہونٹوں اور زبان ہی سے پڑھنا آتا ہے…دل کی دھڑکنیں اور روح کی بے تابیاں جو کبھی اس طرح قرآن پڑھتی تھیں۔ اب وہ کہاں! وہ تو نفس اور شیطان کبھی کے لوٹ کر لے گئے۔ ہاں قرآن رہ گیا اور… قاری خدا کے پاس چلے گئے۔
……٭٭٭……
جنگ یمامہ میں…
میں سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہ عملی طور پر یہ راز سمجھا رہے تھے کہ جس سینے میں قرآن اتر آئے اس کی زندگی کا عالم کیا ہوتا ہے! یہی تھا وہ میدان کارزار جہاں مسلمانوں کو ان مرتدوں سے نبرد آزما ہونا تھا جنہوں نے اللہ کو ایک بار پا کر کھو دیا تھا۔جو شیطان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اللہ والوں کی غیرت کو للکار رہے تھے۔ ہاں یہ جنگ انسان کی غیرت ، بندگی اور شیطانی بے حمیتی کے درمیان ایک نازک اور فیصلہ کن ٹکراؤ تھی اور اس معرکہ جسم و جاں میں اسلامی پرچم حضرت سالمؓ کے ہاتھ میں تھا۔ جو قرآن کا ممبردار تھا وہی آج اسلام کا بھی علمبردار تھا۔
گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ اسلام کا پرچم سرنگوں کرنے کے لیے خدا کے دشمنوں نے اسلامی علمبردار پر زبردست یورش کر ڈالی تھی۔
’’ اب یہ جھنڈا کسی اور کو دے دیجئے!‘‘ کچھ مسلمانوں کی پکار بلند ہوئی۔ ’’دیکھئے آپ کی جان خطرے میں ہے۔ جلدی کیجئے…‘‘
جان ؟… کیسی جان !!‘‘ غیرت قرآنی اور حمیت ایمانی نے سالم ؓکا چہرہ تمتما کر رکھ دیا…‘‘ پھر تو میں بڑا ہی برا حامل قرآن ہوں گا!‘‘۔
ایک بجلی سی چمکی اور اب حضرت سالمؓ وہاں تھے جہاں خوں آشام تلواریں بجلیوں کا لشکر بن گئی تھیں اور تیز خونی آندھیاں اٹھا رہے تھے۔ شاید انہوں نے اب یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اس پرچم حق کو دشمن کی صفوں میں باطل کے ٹھیک سر پر لہرائے بغیر دم نہ لیں گے۔ شاید انہوں نے اس پر چم پر مر جانے ہی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اب وہ شیطان کی صفوں کو چیرتے پھاڑتے جا رہے تھے کہ یکایک ایک غضب ناک تلوار کھڑکتی چمکتی ہوئی ان کے داہنے ہاتھ پر گری اور ہاتھ کٹ گیا۔ مگر پر چم؟ وہ کہاں سرنگوں ہوا!… وہ تو اب دوسرے ہاتھ میں جوں کا توں اٹھا ہوا تھا!…دوسری تلوار گری اور بایاں ہاتھ بھی تراشتی چلی گئی۔
لیکن ہر دو دست بریدہ سالمؓ کے اطمینان کے لیے یہ بات کافی تھی کہ اس جھنڈے کو سنبھالنے کے لیے میری گردن تو باقی ہے۔ دونوں شانوں سے خون کی جگہ غیرت ایمانی کا ’’لہو ترنگ‘‘ پھوٹ نکلا اور سینے کے اندر ہی اندر حمیت بندگی کے لاکھوں جوالا مکھی بیک دم پھٹ پڑے۔ اب ان کے پاس دو پرچم ہو گئے تھے، ایک پرچم اسلامی جن کو دونوں ہاتھ کٹا ہوا سپاہی اپنی گردن میں ڈالے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا، دوسرے قرآن کا پرچم جس کی چند زلزلہ انگیز آیتیںاس وقت اچانک ان کے لبوں پر تڑپ رہی تھیں۔
’’محمدؐ صرف ایک رسول ہیں… اور کتنے ہی نبی (ایسے ہو چکے ہیں کہ جن کے ساتھ بہتیرے اللہ والے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ‘‘۔
یہ جھنڈا!!
خدا کی یکتائی و کبریائی کا جھنڈا…
محمدؐ کی عظیم صداقت اور آخری رسالت کا جھنڈا…
ہاں یہ اس وقت سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہ نے چھوڑا جب دم توڑا اور گردن بھی قلم ہوگئی۔
خدا کی قسم !… خدا کی قسم !!…خدا کی قسم !!!… کتنا خوبصورت رہا ہو گا وہ خونچکاں دھڑکا جس میں نہ اب دست و بازو باقی تھے نہ سر اور گردن !… سب خدا کے لیے کٹ چکے تھے… سب خدا کے لیے کٹ چکے تھے… سب اسی کے پائے ناز پر شمار ہو چکے تھے جس کے دست خاص نے ان کو وجود کے سانچے میں ڈھالا تھا۔ ایک دھڑ، جو اشک بار آنکھوں سے سو بار چومنے کے قابل تھا۔ ایک دھڑ جس کو شیطانوں نے کاٹا اور فرشتے اٹھا کر خدا کے پاس لے گئے۔
……٭٭٭……
اور ہم!
دونوں ہاتھوں والے اور دو دو بازوؤں والے ہم !!… کہ جن کا سر بھی سلامت ہے اور گردن بھی۔ ہائے پھر بھی ہم نے وہ توحید و رسالت کا پرچم جیتے جی سرنگوں کر دیا۔ جیتے جی زمین پر گرا دیا ہے۔ محمدؐ کی عظیم صداقت پر گواہ بننے کے بجائے ہماری بگڑی ہوئی مسلمانی نے دنیا کو خود محمد مصطفیؐ اور دین ابراہیمی کے بارے میں کتنا بڑا، کتنا ہولناک تاثر دینے کی جسارت کی ہے!!۔ کاش ہم اس سے پہلے مر گئے ہوتے !… کاش ہم کبھی پیدا پیدا . نہ ہوئے ہوتے !! … خدا را سوچئے تو سہی یہ صورت حال کیوں ہوئی ؟
شاید اس لیے کہ وہی قرآن جس کو حضرت سالمؓ ٹھیک اسی طرح پڑھتے تھے جس طرح ایک انتہائی حقیر و فقیر غلام انتہائی عظیم شہنشاہ کا فرمان پڑھتا ہے یا جس طرح ایک والہیت کیش عاشق و پرستار اپنے محبوب و معبود کا خط پڑھتا ہے۔ ہم اس قرآن کو اس طرح پڑھتے ہیں جیسے خدانخواستہ گھاس کاٹ رہے ہوں۔
اور …
پھر بھی خود کو’’مسلمان‘‘ کہتے ہوئے ہمیں شرم نہیں آتی!…
دل نہیں دکھتا…
آنکھ نہیں روتی !…
کچھ نہیں ہوتا !!
ہائے میرے مالک !… ہمیں کچھ بھی نہیں ہوتا!… کچھ بھی نہیں ہوتا۔