منشی چھوہارا …اور شعر کا جھگڑا

38

ناقابل یقین کے دفتر میں ہمیشہ ہی کچھ نہ کچھ عجیب ہوتا رہتا تھا، اس دن کچھ زیادہ ہی ہوگیا جب ایک اسکول کی ٹیچر، مسز علی، اپنے نئے آئیڈیئے کے ساتھ آئیں … انہوں نے ماہنامہ ناقابل یقین میں ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا … جس کا عنوان تھا ’’ایک شعر، ایک کہانی‘‘۔

جب انہوں نے اپنا آئیڈیا بتایا تو منشی چھوہارا ، جو ہمیشہ کی طرح تروتازہ اور ہرگھڑی تیار کامران تھے… عش عش کر اٹھے … لیکن جب مسودہ ان کے سامنے رکھا گیا تو وہ جیسے آگ بگولا ہوگئے … کہانی میر تقی میر کے ایک مشہور شعر سے شروع ہوتی تھی

؎ نازکی ان کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے

منشی چھوہارا نے شعر پڑھتے ہی مسودہ اٹھا کر اسکول ٹیچر پر اچھال دیا… ’’بچوں کے رسالے میں اس شعر کا کیا کام… آپ تو خود ٹیچر ہیں … آپ کیا تعلیم دیتی ہیں بچوں کو‘‘

خاتون نے گھبرا کر کہا، … ’’لیکن منشی چھوہارا ، یہ شعر تو میر تقی میر کا ہے‘‘

’’ میر صاحب کا ہے تو کیا ہوا… کیا ضروری ہے کہ میر صاحب کا ہر شعر بچوں کے لیے ہو‘‘ … منشی چھوہارا نے تنک کر جواب دیا ۔

’’ لیکن…‘‘ خاتون نے کچھ کہنا چاہا۔

’’ لیکن ویکن کچھ نہیں” منشی چھوہارا نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں خاموش کر دیا…‘‘ دیکھیں خاتون… آپ کا آئیڈیا مجھے پسند آیا … ایک شعر، ایک کہانی…’’ اس کے لیے آپ علامہ اقبال کے اشعار لے سکتی ہیں‘‘

’’ علامہ اقبال کے اشعار‘‘… خاتون نے حیرت سے پوچھا۔

’’ جی، مثال کے طور پر

سارے جہاں سے اچھا پاکستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

’’خاتون نے چڑ کر کہا …‘‘ پاکستان نہیں، منشی چھوہارا… ہندوستان ہمارا

منشی صاحب کی آنکھیں باہر نکل آئیں … ’’ہندوستان تھا… جب پاکستان آزاد نہیں ہوا تھا … پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد انڈیا کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ علامہ اقبال کے کلام کو خود سے منسوب کرے … اور کیوں کرے ‘‘

’’لیکن منشی چھوہارا … یہ تو تاریخی حقیقت ہے‘‘ خاتون نے احتجاج کیا۔

’’تاریخی حقیقت … جب علامہ نے یہ شعر کہا تھا تو یقینا وہ ہندوستان کے لیے لکھا تھا… لیکن علامہ اقبال کو انڈیا کیا مانتا ہے…‘‘ منشی چھوہارا نے اپنے دلائل دینا شروع کیے … ’’وہ مکمل پاکستانی تھے … ان کی ہر چیز پاکستانی تھی… چنانچہ ان کی شاعری بھی پاکستانی ہے۔

اب منشی چھوہارا کا لہجہ سخت ہوگیا … ’’ادبی حلقوں کو چاہیے کہ وہ اس شعر میں سے ہندوستان نکال کر پاکستان شامل کردیں… اگر علامہ حیات ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے۔

لیکن منشی چھوہارا … یہ تو شعری روایات کے خلاف ہے… خاتون نے بے بسی سے کہا۔

’’ شعری روایات … اگر یہ شعر علامہ کے زمانے میں ہندوستان کے لیے تھا… تو اب ہمیں اسے پاکستان کے حوالے کرنا چاہیے…‘‘ منشی چھوہارا نے مزید زور دے کر کہا۔

دفتری ساتھی جو یہ ساری بحث سن رہے تھے … آپس میں چپکے چپکے ہنسنے لگے۔ ایک نے کہا،… ’’ منشی چھوہارا… کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ علامہ اقبال کی شاعری عوامی ملکیت بن چکی ہے‘‘

’’ عوامی ملکیت … تو کیا ہم سب ان کے شعر لے کر اپنی مرضی سے تبدیل کر لیں…‘‘ منشی صاحب نے حیرت سے پوچھا۔

ہاں منشی چھوہارا… جیسے آپ نے شعر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا…‘‘ ایک ساتھی نے چھیڑا
یہ سن کر منشی چھوہارا چڑ گئے، ’’تو کیا اب میں بھی اس میں اپنی شاعری شامل کر سکتا ہوں…‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا…
مثلاً، ؎
نازکی میرے خیال کی کیا کہیے
پرچم میں بندھی ہے یہ ہنر کی جڑ سی ہے!
سب نے ہنس کر تالیاں بجائیں اور منشی چھوہارا کی خوش مزاجی کی داد دی اس دن کے بعد …’’ناقابل یقین‘‘ کے دفتر میں نہ صرف منشی چھوہارا کے خیالات موضوع بنتے رہے ۔ بلکہ شاعری کے مسائل بھی طنز و مزاح کے ساتھ حل ہونے لگے۔

حصہ