امریکی انتخابات: ہسپانیوں کے خلاف جلسہ عام میں توہین آمیز تبصرہ

135

امریکا میں انتخابات نومبر میں منعقد ہورہے ہیں جن پر دنیا کی نظر ہے۔ ہم امریکا کے انتخابات، اہم شخصیات ،ایشوز ، وہاں کے نظام اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک خصوصی سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر ہفتے امریکا میں مقیم معروف تجزیہ نگار مسعود ابدالی کے مضامین ”سنڈے میگزین“ میں شایع کیے جارہے ہیں۔ ان مضامین کے ذریعے قارئین کو عالمی تناظر میں امریکی سیاست کو سمجھنے اور اہم معاملات کی تفہیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔آپ کے تبصروں اور آراء کا انتظار رہے گا۔

اب صرف دو دن بعد امریکی انتخابات منعقد ہونے ہیں۔ انتخابات کے لیے قبل ازوقت یا earlyووٹنگ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے یعنی 29 اکتوبر تک 4 کروڑ 80 لاکھ امریکی رائے دہندگان اپنے ووٹ ڈال چکے ہیں جو چار سال پہلے ڈالے جانے والے کُل ووٹ کا 30 فیصد ہے۔ خیال ہے کہ روزِ انتخاب یعنی 5 نومبر سے پہلے ایک تہائی ووٹ بھگتائے جاچکے ہوں گے۔ اِس بار قبل از وقت ووٹ ڈالنے کا تناسب 2020ء کے مقابلے میں ذرا کم ہے، جب کووڈ 19 وبا کی بنا پر رائے دہندگان کی بڑی تعداد نے ڈاک اور قبل از ووٹنگ کے دوران اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔

قبل از ووٹنگ کے دوران جو جائزے شایع ہورہے ہیں ان کے مطابق ڈونلڈٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان مقابلہ بہت سخت ہے اور گھمسان کی جنگ والی ساتوں ریاستوں میں کسی بھی امیدوار کو ڈیڑھ فیصد سے زیادہ کی برتری حاصل نہیں۔ شمالی کیرولائنا، جارجیا اور ایریزونا میں ڈونلڈ ٹرمپ آگے ہیں، مشی گن میں کملا ہیرس کی کاردگی بہتر ہے، جبکہ وسکونسن، پنسلوانیا اور نواڈا میں دونوں بالکل برابر ہیں۔

عرب اور مسلمان ووٹروں میں اِس بار گرین پارٹی کی ڈاکٹر جل اسٹائن زیادہ مقبول ہیں اور ٹرمپ صاحب کی کارکردگی کملا جی سے بہتر ہے۔ 26 اکتوبر کو مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں جلسے کے دوران جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ برسراقتدار آکر غزہ اور لبنان میں جنگ بند کرائیں گے۔ ان کی دعوت پر چند عرب رہنمائوں اور ائمہ مساجد نے اسٹیج پر آکر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا۔ جناب ٹرمپ نے حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تحفظِ جنین یعنی اسقاطِ حمل کی مخالفت اور ہم جنس پرستی کی یلغار کے خلاف مسلمان ان کے مؤقف کے حامی ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ اگلے چند دنوں میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ مزید مسلمان ووٹروں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تو مشی گن اور وسکونسن میں ان کی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے۔ تاہم عرب امریکن سیاسی مجلس عمل (AAPAC) نے ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس دونوں کو عربوں کے لیے ناموزوں قراردیا ہے۔

پیر 28 اکتوبر کو نیویارک کے میڈیسن اسکوائر گارڈن میں بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اتحادیوں کے لیے دفاعی امداد کے معاملے میں بہت ’’کنجوس‘‘ ہیں اور ان کی انتظامیہ کا اصول ’’امریکا فرسٹ‘‘ ہوگا۔ ’’ہمارے دوست سن لیں، وقت آگیا ہے کہ ہم سب اپنا اپنا خیال رکھیں، یعنی کھلا کھاتہ نہیں چلے گا۔ ہم مشرق وسطیٰ میں خونریزی، کشیدگی اور افراتفری کو ختم کریں گے تاکہ تیسری عالمی جنگ نہ ہو‘‘۔ جناب ٹرمپ ادھر کچھ دنوں سے عوامی خطاب کے دوران اسرائیل کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کررہے ہیں۔ اس جلسے میں مزاحیہ اداکار ٹونی ہنچکلف (Tony Hinchliffe) نے ہسپانویوں کے بارے میں انتہائی حقارت آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے امریکی غرب الہند میں بحیرہ کریبین (Caribbean) کے جزیرے پر قائم خودمختار امریکی کالونی پورتوریکو (Puerto Rico)کو ’سمندر کے وسط میں کچرے کا تیرتا ہوا جزیرہ‘ قرار دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ترجمان نے اداکار کے تبصرے سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن اس کی مذمت نہیں کی۔

دوسری طرف عرب اور مسلمانوں کے شدید دبائو کے باوجود کملا ہیرس اسرائیل کی غیر مشروط حمایت سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ گزشتہ ہفتے پنسلوانیا میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کے شوہر ڈگ ایمہاف نے کہا کہ اگر کملا ہیرس امریکا کی صدر منتخب ہوگئیں تو قصرِ مرمریں کے مرکزی دروازے پر عبرانی نشانِ در (Doorpost)نصب کیا جائے گا جسے Mezuzahکہتے ہیں۔ مردِ شریف دوم (2nd Gentleman)نے فخر سے کہا کہ کملا کے نائب صدر منتخب ہوتے ہی ہم نے نائب صدر کی رہائش گاہ پر میزوزا نصب کیا تھا۔ میزوزا دراصل جانور (بکرا، گائے کا بچھڑا یا بھیڑ) کی کھال پر اللہ کے عبرانی اسمائے مبارکہ سے ایک نام اور عہد نامہ قدیم یعنی توریت کی چھٹی سورت (Deuteronomy) کی چوتھی آیت لکھ کر اسے تختی کے دونوں طرف ثبت کردیا جاتا ہے۔ تختی کا اللہ کے نام والا حصہ سامنے رہتا ہے۔ چوتھی آیت کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے ’’بنی اسرائیل سنو! ہمارا مالک، ہمارا رب ہمارا الٰہ ایک ہے‘‘۔ میزوزا دراصل دروازے پر لٹکائی جانے والا حفاظتی تعویذ ہے۔

انتخابات کے دن قریب آنے کے ساتھ نظریاتی کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ ٹرمپ اور ان کے انتہا پسند حامیوں نے اب تک 2020ء کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا، اور ان کا خیال ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی کاسہ لیس مقتدرہ اِس بار بھی جناب ٹرمپ کے حقِ نمائندگی یا مینڈیٹ پر شب خون مارے گی۔

قبل از ووٹنگ کے آغاز سے اب تک بیلٹ بکسوں کو آگ لگانے کے تین واقعات ہوچکے ہیں۔ یہاں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے والوں کی سہولت کے لیے بڑے شہروں میں مخصوص مقامات پر بیلٹ بکس نصب کیے جاتے ہیں۔

اس ماہ کی 8 تاریخ کو ریاست واشنگٹن کے شہر وینکوور میں بیلٹ بکس کو آگ لگادی گئی۔ بیس دن بعد اکتوبر کی صبح ساڑھے تین بجے ریاست اوریگن (Oregon)کے سب سے بڑے شہر پورٹ لینڈ میں سڑک کے کنارے رکھا گیا بیلٹ بکس بھڑک اٹھا، اور اس کے آدھے گھنٹے بعد ریاست واشنگٹن کے شہر ونکوور میں ایک بار پھر بیلٹ بکس کو آتش گیر مادہ چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ تینوں وارداتوں میں ضبط بعید (ریموٹ کنٹرول) تکنیک استعمال نہیں ہوئی بلکہ کسی شخص یا افراد نے جائے واردات پر پہنچ کر پرچہ انتخاب کے صندوقوں کو آگ لگائی۔

آخر میں صدارتی مہم کے اخراجات پر ایک نظر:

کملا ہیرس صاحبہ کے مداحوں نے اب تک انھیں ایک ارب 27 کروڑ ڈالر چندہ دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو 94 کروڑ ڈالر عطیات موصول ہوئے، جبکہ ٹویٹر اور ٹیسلا کے مالک ایلون مسک ٹرمپ مہم کے لیے اپنی جیب سے 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ (حوالہ جرمن خبررساں ایجنسی DW)

سی این این (CNN)کے مطابق صدارتی اور پارلیمانی (کانگریس) انتخابی مہم کا مجموعی خرچ 15 ارب 90 کروڑ ڈالر ہے۔

………٭٭٭………

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

حصہ