امبرین : ’’السلام علیکم آنٹی، میں آپ کے محلے میں ہی رہتی ہوں، آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
آنٹی: ’’وعلیکم السلام، جی بولیں بیٹا!‘‘
امبرین : ’’آنٹی آپ مجھے جانتی ہیں نا،کیا میں آپ کو نفسیاتی مریض یا پاگل لگتی ہوں؟ میرے گھر والے اور سب یہی سمجھتے ہیں کہ میں نفسیاتی مریض ہوگئی ہوں، مجھے وہ نفسیاتی اسپتال لے کر جانا چاہتے ہیں، میں نے ماسٹر کیا ہے اور ایک بڑے اسکول میں اچھی ٹیچر رہ چکی ہوں، اگر میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ سب مجھے ہی قصوروارسمجھتے ہیں۔‘‘
یہ امبرین نامی خاتون آس پڑوس کے گھروں میں سب سے جاکر یہی کہتی رہتی ہے۔ اس خاتون کی ساس نے زبردستی اپنے بیٹے کی مرضی کے خلاف اس کی شادی امبرین سے کروائی تھی، یہ سوچ کر کہ امبرین اپنی ماں کی اکلوتی بیٹی ہے، باپ بھی نہیں ہے، وہ ہمارے ساتھ ہر حالت میں مل جل کر رہے گی۔
امبرین درمیانی شکل صورت کی پڑھی لکھی اور اچھے عادات و اطوار کی لڑکی تھی جو کسی اسکول میں ملازمت کرتی تھی۔ ساس نے شادی کے بعد بھی اسے ملازمت جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔
امبرین نے شروع دن سے ہی اپنے شوہر کے رویّے سے اتنا تو اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ اس کی پسند کی بیوی نہیں ہے کیوں کہ وہ اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا اپنا فرض سمجھتا، کبھی اس کے لباس اور کبھی شکل و صورت کو نشانہ بناتا۔ اُس نے کبھی اس کے ہاتھ پر ایک روپیہ بھی نہ رکھا تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ وہ اپنی تنخواہ سے اپنی ضروریات پوری کرلیتی تھی اور باقی ساس کے ہاتھ پر رکھ دیتی۔ اس نے شوہر کی توجہ حاصل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہ ہوسکی۔
اس کا شوہر آفس ٹائم کے بعد بھی اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر اُسی لڑکی کے ساتھ گزارتا تھا جس سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا، سونے پہ سہاگہ دوسری بیٹی کی ولادت کے بعد تو ساس نے بھی اس سے نظریں چرا لیں۔ ان تمام باتوں نے اسے نفسیاتی مریض بنادیا۔ وہ بن ٹھن کر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتی اور خود سے سرگوشیوں میں بات کرتی کہ میں ذہین ہوں، سلیقہ مند ہوں پھر امی نے کیوں مجھے اس شخص کے پلے باندھ دیا جسے میری قدر نہیں؟
بچیوں کی پیدائش کے بعد شوہر نے اپنے آفس کی اُس پرانی دوست سے شادی کرلی… اب تو وہ کھلم کھلا بیوی کو ہر بات پر بے وقوف، پاگل کہتا جس پر وہ بھی اس سے منہ ماری کرنے لگی۔ کوئی دن ایسا نہ گزرتا جب اُن کے درمیان لڑائی جھگڑے نہ ہوتے ہوں۔ آخر شوہر نے یہ کہہ کر کہ یہ نفسیاتی مریضہ ہے میرا اس کے ساتھ گزارا ناممکن ہے، اسے طلاق دے کر بچیوں کے ساتھ اس کی ماں کے گھر بھیج دیا۔ اس کی ذہنی حالت ایسی ہوچکی تھی کہ وہ اب اپنی ملازمت بھی جاری نہ رکھ سکتی تھی۔ بوڑھی ماں، جو خود بھائیوں کے آسرے پر زندگی کے دن گزار رہی تھی، بیٹی کی بے بسی پر کیا کہتی! امبرین کے رشتے دار بھی اسے ہی قصوروار سمجھنے لگے کہ ضرور اِس طلاق میں اُس کا ہی قصور ہوگا۔ لوگوں کے ان منفی رویوں کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہوتی گئی۔ ہر ایک کے سامنے اپنی صفائی پیش کرتی کہ وہ نفسیاتی مریض نہیں ہے۔ سب سے اپنی قابلیت، تعلیم اور ملازمت کے تذکرے کرتی۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے آج (ماں کی حالت کی وجہ سے) اس کی دونوں بیٹیاں بھی پریشانی سے دوچار ہیں۔
جی ہاں اپنوں کی بے توجہی، تلخ رویّے اور نفرتیں حقیقت میں انسان کو ذہنی مریض بنادیتے ہیں۔ اس کہانی کے کردار کی اندرونی کیفیت، اس کی وجہ اور اس کا علاج سب پر عیاں ہے کہ وہ کیوں اور کس کی وجہ سے اس حالت تک پہنچی ہے اور اس کا علاج یا حل کیا ہوسکتا ہے؟
عورت کو صنفِ نازک اور حساس کہا جاتا ہے لیکن یہی عورت خصوصاً اپنوں کے مثبت رویوں اور پیار و محبت سے پہاڑوں سے ٹکرانے کی جرأت بھی کرلیتی ہے، اور اگر ٹوٹ جائے تو مذکورہ بالا خاتون کی طرح ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے بھی عورتوں کے حقوق کی پاس داری کا حکم دیا ہے ہر روپ میں چاہے بیٹی ہو، بیوی ہو، بہن ہو یا ماں۔ دین اسلام نے اسے مکمل تحفظ اور توقیر عطا کی ہے۔ آپؐ کی مقدس ہستی اس بات کی گواہ ہے کہ آپؐ نے ہر رشتے اور ہر صورت میں عورت کو خصوصی اہمیت دی ہے، اگر آپؐ کی سنت کے مطابق عورت کو حقوق دیے جائیں تو یہی عورت گھر کی ملکہ بن سکتی ہے۔ لیکن خدانخواستہ اگر عورت کو مذکورہ بالا حالات کا سامنا کرنا پڑے تو اسے دوسری مثبت سرگرمیوں کی طرف مائل کرکے اس کے درد کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کی رائے بھی یہی ہے کہ کسی بھی ڈپریشن یا اسی قسم کے امراض کے شکار فرد کے ساتھ کونسلنگ کے ذریعے یا اسے مثبت سرگرمیوں کی طرف مائل کرکے اس کی تکلیف کو کم یا ختم کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ اس قسم کے واقعات انسان کو حقیقت میں ذہنی مریض بنادیتے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان ہمارے لیے اس قسم کے امراض کے لیے قرآن پاک موجود ہے جو ’’شفا‘‘ ہے، دینی تعلیم اور قرآن سے جڑ جانے سے انسان مذکورہ بالا صورتِ حال سے بچ سکتا ہے۔ مجھے ایک خاتون نے اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں بتایا کہ ’’میں اپنے حالات سے بالکل مایوس ہوچکی تھی، یوں لگ رہا تھا کہ کہیں میں ذہنی مریض نہ بن جائوں۔ مجھے ایک خاتون نے دینی تعلیم کے لیے مدرسے میں داخل ہونے کا مشورہ دیا، اس طرح میں اس مدرسے میں قرآن سے جڑ گئی تو مجھے بے حد سکون محسوس ہوا اور آہستہ آہستہ اپنی تکلیف بھی کم محسوس ہونے لگی۔‘‘
اسی طرح ایک خاتون کو بہت سی گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے کسی عالمِ دین نے سورہ البقرہ کے آخری رکوع کی پابندی سے تلاوت کرنے کا مشورہ دیا جس کی وجہ سے وہ نہ صرف مشکلات اور ڈپریشن سے نجات پاسکی، اسے صبر اور سکون محسوس ہونے لگا بلکہ اس کے معاشی حالات بھی درست ہونے لگے۔
آپؐ نے بھی کچھ مواقع پر پریشانیوں، ڈپریشن، مشکلات، غموں اور اینگزائٹی سے بچنے اور سکون کے لیے کچھ دعائیں صحابہ کرامؓ کو بتائیں مثلاً آیت کریمہ ، یا حی یا قیوم برحمتک استغیث… سبحان اﷲ و بحمدہ سبحان العظیم یاحی یا قیوم… اﷲ اﷲ ربی لا اشرک بہ شیئا… سبحان اﷲ۔
خدانخواستہ اگر کسی کو اس قسم کے امراض سے واسطہ پڑے تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے، یا اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مثبت اقدامات پر عمل پیرا ہونا انتہائی ضروری امر ہے، اور اس سلسلے میں اپنوں کی محبت، توجہ اس کے لیے یقینا بڑا سہارا ہوگا، اس اہم بات کو ہمیشہ یاد رکھیے گا۔